ستمبر 2019

پاکستان میں بھنڈی توری کی کاشت

خورا کی وادویاتی اہمیت:

سبزی طبی لحاظ سے سر دتر درجہ دوم کی تاثیر رکھتی ہے۔یہ منی پیدا کرتی ہے اور اس کو گاڑھا بھی کرتی ہے۔آئیوڈین کا سستا مآخذ ہے۔اس میں وٹامن اے،بی اور سی وافر مقدار مین پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں کیلشئیم، لوہا اور فاسفورس بکثرت موجود ہیں۔ طبی نکتہ نظر سے پھل کی بجائے اس کے بیج زیادہ مفید ہیں۔ جوکہ سرعت انزال جریان واحتلام جیسی بیماریوں کا علاج کرنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ٹھنڈی تاثیر کی وجہ سے پیشاب کی جلن دور کرتی ہے ۔ پیچش کا علاج کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔اس لئے کمزور معدے والے افراد سے بکثرت ا استعماک نہ کریں۔
پاکستان میں بھنڈی توری کی کاشت

فصلی ترتیب:

یہ فصل مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے:
بھنڈی فروری مارچ ۔میتھرے (اگست) سبزی نومبر
بھنڈی فروری چاول (جولائی)۔گوبھی نومبر
بھنڈی توری فروری چاول (جولائی) گندم نومبر
بھنڈی (فروری مارچ) چاول (جولائی اگست)۔گندم نومبر
بھنڈی (مئی جون) گندم (نومبر دسمبر)۔ چاول جولائی
تیر تیب نمبر ایک وسطی وجنو بی پنجاب کی ٹھنڈی اور صحت مند زمینوں میں زیادہ نفع بخش ثابت ہو سکتی ہیں۔ ترتیب نمبر ایک اور دو زیادہ نفع بخش ثابت ہوسکتی ہیں۔ ترتیب نمبر تین ، چار اور پانچ میں زیادہ مداخلات (Inputs) استعمال کرکے ہی نفع کمایا جاسکتاہے۔

زمین اور اس کی تیاری:

میراچکنی میرازمین میں بہتر ہوتی ہے۔کلراٹھی زمینوں میں اس کا اگاؤ نا مکمل ہوتاہے۔ بڑ ھوتری بھی صحیح نہیں ہوتی۔ فصل انچی نیچی رہیتی ہے۔ ریتی زمین میں بھی اس کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اچھے نکاس اور بہتر ہواداری والی صحتnمند زمین میں کاشت کی جائے تو ریکارڈ پیداوار حاصل ہو سکتی ہے ۔مسلسل کئی سالوں تک ایک ہی زمین میں بھنڈی توری کاشت کی جائے بیماریوں کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ہر سال ایک ہی کھیت میں بار بار بھنڈی کاشت کی جائے۔ یہ زیادہ گہری جڑوں والی فصل ہے۔ اس لئے زمین کافی گہرائی تک تیار کی جائے۔ بھنڈی توری کے بیجوں میں اگنے کی طاقت زیادہ نہیں ہوتی اس لئے باریک شدہ اور لیزر سے ہموار کردہ زمین میں کاشت کی جائے تو یکساں اگاؤ کی وجہ سے بھر پور پیداوار حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ فصل اگر نامکمل زمینی تیاری کے بعد (زمین کو اچھی طرح خشک کیے بغیر) کاشت کردی جائے تو نہ صرف بھنڈی کا اگاؤ کم ہوتاہے بلکہ جڑی بوٹیاں اور سابقہ فصل کے بچے ہوئے کیڑے مکوڑے اس پر حملہ آور ہو کر شدید نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ اگر چہ سارے پنجاب کے آبپاشی علاقوں میں اگائی جاسکتی ہے لاہور، قصور، کمالیہ، ساہیوال، گوجرانوالہ اور شیخو پورہ میں زیادہ اگائی جاتی ہے۔

آب وہوا اور اگاؤ:

بھنڈی کم ازکم 15تا16 اسطاً25تا41 درجے سینٹی گریڈ پر اگ سکتی ہے۔سبزپری کا عمومی اگاؤ 60 تا80 فیصد دوغلی اقسام کا 95 فیصد سے بھی زیادہ ہوتاہے۔ 20 سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت پر بھنڈی کا اگاؤ کم ہو جاتا ہے ۔ بہتر حالات میں ذخیرہ کر دہ بیج کی روئیدگی دو سال تک بر قرار رہتی ہے۔لیکن احتیاطاً ایک سال سے زیادہ پرانا بیج نہ لگایاجائے۔ منل میں بھنڈی کاشت کرنے والوں کو مطلع کیاجا تاہے کہ یہ فصل سردی اور کورے سے بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ اس لئے منل میں بھنڈی کاشت کرنے سے گریز کیاجائے تاہم مخلوط کاشت کی صورت میں منل میں بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ گرم و قدرے خشک ماحول میں زیادہ پیداوار دیتی ہے۔ شدیدگرم وخشک موسم مین اس پر جوؤں کا حملہ ہوتا ہے۔ لیکن گرم مرطوب آب وہوامیں اس پر کیڑے اور بیماری (وائرس)کاشدید حملہ ہوسکتا ہے۔

اقسام:

سبزپری بھنڈی کی بہترین مقامی قسم ہے۔ اس کے علاوہ دوغلی اقسام میں مخملی، بہاریہ ایف۔1 قسم نمبر 008 اور ادایچ152 بھی زیر کاشت ہیں۔

الف سبزپری:

اس کا رنگ ہلکا سبز ہوتا ہے اس لئے دوغلی اقسام کے مقابلے میں کم پسند کی جاتی ہے۔پیداوار بہتر،فروری کاشت کی صورت میں اس پر وائرس کا حملہ کم ہو تا ہے لیکن مئی جون میں کاشت کی صورت میں اس پر وائرس کا شدید حملہ ہوسکتا ہے۔بہاریہ کاشت کی صورت میں کئی دوغلی اقسام سے بہتر پیداوار دیتی ہے۔اس کے پھل پر دوغلی اقسام کے مقابلے میں بال زیادہ ہوتے ہیں۔یہ قسم چونکہ مقامی حالات میں تیار کی گئی ہے اس لئے انڈیا سے درآمدہ بیج کے مقابلے میں مقامی آب وہوا کے ساتھ بہتر مقابلہ کر سکتی ہے۔

ب - دوغلی اقسام:

اوایچ 152 ، بہاریہ الف۔ 1 اور قسم نمبر 008 کی بھنڈی کارنگ گہر ا سبز اور مارکیٹ میں سبز پری کے مقابلے میں زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ان کے پودے جھاڑی نما (Bushy) ہوتے ہیں۔ گندم کا ٹنے کے بعد مئی جون میں کاشت کی صورت میں اس کی پیداواری صلا حیت سبز پری کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ہائبرڈ اقسام کی رنگ گہرا سبز اور پر کشش ہوتا ہے۔جون میں کاشتہ دوغلی اقسام پر وائرس کا شدید حملہ نہیں ہوتا۔

کھادیں:

بھنڈی توری زمین سے خوراکی اجزا چٹ کر جانے والی (Exhaustive) فصل ہے۔نیز یہ زیادہ گہری جڑوں والی فصل ہے اس لئے فاسفورس اور پوٹاش والی بیشتر کھادیں بجائی کے وقت زمین میں ملادی جائیں۔دوبوری زر خیز اور دو بوریا استعمال کرکے بھنڈی توری کی کامیاب فصل اگائی جا سکتی ہے۔مختلف کھادیں استعمال کرنے کی تفصیل مندر جہ ذیل ہے۔

الف - بوائی کے وقت استعمال:

زمین کے زرخیزی ٹسیٹ، آب وہوا، زمینی صحت وساخت اور علاقے کی مناسبت سے بھنڈی کو 25-30-35 تا 25-50-50 کلو گرام فی ایکڑ نائٹروجن ، فاسفورس اورپوٹاش ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔اس میں سے ایک تہائی نائٹروجن،تمام فاسفورس اور نصف پوٹاش بوقت کاشت ڈالی جائے۔ بقیہ نا ئٹر وجن اور پوٹاش کاشت کی 35 تا 150 دن کے اندر اندر Split کرکے ڈالیں۔ جب بھنڈی بڑی ہو جا ئے تو جائٹروجن ڈلنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہر پندرہ دن بعد 15 تا20 کلوگرام یوریا کھاد فرٹیگیشن کے طریقے سے ڈالی جائے۔ بیج والی فصل کو فاسفورس اور پوٹاش والی کھادیں زیادہ ڈالی جائیں۔

ب - کھادوں کی سپریں:

بھرپور اور مثالی فصل حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جب بھنڈی ارنی شروع ہوجائے تو ہر دو ہفتہ بعد اعلی کولٹی کی NPK سپرے کی جائے۔ زمین میں پوٹاش ڈالنے کے بجائے پوٹاش کی سپرے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے اس مقصد کے لئے 45:15:5 یا 44:3:14 گریڈ کی فو لئر فر ٹیلا ئزر فصل کاشت کرنے کے بعد 50 تا 100 دن کے اندر اندر قسط وار کرکے سپرے کی جائے تو بھر پور پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

ج - اضافی مرکبات:

جب فصل 50 دن کی ہوجائے تو امائنو ایسڈز 3 کلوگرام فی ایگڑ کے حساب سے فر ٹیگیشن کے طریقے سے ڈالے جاسکتے ہیں۔ اگر ازمین سخت یا کلر اٹھی ہو تو آبپاشی کے ساتھ سر فو گارڈ یا یوایس۔ 20 دس تا20 کلو جی ایکڑ حساب سے فر ٹیگیشن کے طریقے سے ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

آبپاشی

بھنڈی کو زمینی ساخت ، وقت کاشت ، مقصد کا شت، بھنڈی کے دورا نئے اور آب وہوا کی مناسبت سے مارچ میں کاشتہ بھنڈی کو دس تا بیس مرتبہ آبپاشی کی جاسکتی ہے۔ زمین اور موسم کی مناسبت سے تعداد میں کمی پیشی کی جاسکتی ہے۔

یکساں اگاؤ کی خاطر پہلا پانی خاص احتیاط سے لگایا جائے۔ اسے اگاؤ کے لئے چونکہ زیادہ نمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے پہلا پانی کھیلیوں کی نصف تک اوربہتر اگاؤ کی خاطر دوسراپانی دو تہائی اونچائی تک لگایا جائے۔ جب فصل 30تا35 دن کی ہو جائے تو اسے سو کا لگایا جائے تاکہ پھول آوری کا عمل جلدی شروع ہوسکے۔ اس مقصد کے لئے اپریل کے شروع میں آبپاشی کنڑول کرکے بھنڈی کی پھل آوری کی صلاحیت میں اضافعہ کیا جا سکتا ہے۔ پھل آوری شروع ہونے کے بعد آبپاشی کر دی جائے۔ اس کے بعد موسم کی مناسبت سے حسبِ معمول آبپاشی کا عمل جاری رکھا جائے۔

فصل کے پورے عرصہ کے دوران پرپٹڑیوں کے اوپر پانی نہ چڑ ھنے دیاجائے۔ اگر پانی پٹڑیوں کے اوپر چڑ ھتا رہے تو زمین دب کر سخت ہوجاتی ہے، آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بھنڈی توری کی جڑیں زیادہ دور تک نہیں جا سکتیں۔ جس کے نتیجے میں پودے پوری آزادی سے نشوونما نہیں کر سکتے اور مثالی پیداوار حاصل نہیں ہو سکتی۔ جولائی کاشتہ بھنڈی توری کو مون سون کی بارشوں اورموسمی پیش گوئی کی مناسبت سے پانی لگانا چا ہئے۔ زیادہ پھل لینے کی غر ض؂ سے کسی بھی مر حلے پر بھر پور آبپاشی سے گریز کیا جائے۔

شرح بیج:

سبزپری کا ستر فیصد اگاؤ والا20تا25 کلو فی ایکڑ استعمال کیا جائے ۔ بیج کے لئے8-6 کلو گرام فی ایکڑ استعمال کیا جائے۔ زیادہ اگیتی کاشت کی صورت میں سبزپری کا 25 کلو یا زیادہ بیج ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔بیشتر دوغلی اقسام کا 4 تا5 کلو گرام فی ایگڑ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔اس کا ایک سال پرانا بیج بہتر اگاؤ دیتاہے۔ اگر بیج دو سال پرانا ہو تو 50% زیادہ دالا جا ئے۔

طریقہ کاشت:

بھنڈی توری کھیلیوں کے کناروں پر چوکے لگاکر کاشت کی جاتی ہے۔ ہموار زمین میں دس دس مرلے کے کیاروں میں دو تا اڑھائی کے فاصلہ پر 6 انچ گہری کھیلیوں کے دونوں طرف چوکے لگا جائیں۔ مثالی پیداوار حاصل کر نے کے لئے چوکے لگانے کے ہفتہ دس دن بعد ناغے پر کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ فروری کاشتہ بھنڈی کی کھالیاں 6 انچ سے کم گہری جبکہ مئی جون میں کاشت کی جانے والی فصل کی کھالیاں 6 انچ سے زیادہ بنانے کی تاکید کی جاتی ہے۔

الف - سبزپری:

سبز بھنڈی کے لئے مارچ میں کاشت کی صورت میں پودوں کا باہمی جاصلہ ایک ایک انچ رکھا جائے تو مناسب اور باریک بھنڈیاں لگتی ہیں۔ بیج کی غرض سے کاشتہ فصل کے لئے 12-9 انچ برقرار رکھا جائے۔ اس طرح پودوں کی تعداد سبز بھنڈی کی صورت میں اڑھائی تا تین لاکھ اور بیج کی صورت میں 40-30 ہزار ہونی ضروری ہے۔ ب۔ دوغلی اقسام میں اوایچ 152 اور قسم نمبر008 خواہ مارچ میں کاشت کی جائیں یا مئی جون میں ، ان کے پودوں کا باہمی فاصلہ زیادہ ہونے کے باوجود ان کو باریک باریک بھنڈیا ں لگی ہیں۔

مخلوط کاشت:

اڑھائی فٹ کے فاصلے پر فروری کاشتہ کھاد میں کھیلیوں کے کناروں پر یاتربوز میں بھی بھنڈی توری کاشت کی جاسکتی ہے۔

وقت کاشت:

آبپاشی پنجاب کے لئے جموعی طور پر وسط فروری تاوسط مارچ زیادہ موزوں ہے۔ پنجاب میں بھنڈی توری کی زیادہ تر کاشت فروری اور مارچ کے دوران ہوتی ہے۔ وقتِ کاشت کی تغیرات کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: الف۔ بہاریہ کاشت: بھنڈی توری کی اگیتی کاشت مقامی موسمی رجحان دیکھ کر کرنی چا ہئے۔ موسمی حالات سابقہ عشروں کے مقابلے میں بہت بدل چکے ہیں اسلئے وسطی و جنوبی پنجاب کے موجود موسمی حالات میں بھنڈی توری کی اگیتی کاشت فروری کے پہلے ہفتے میں کی جاسکتی ہے۔ پنجاب کے بیشتر آبپاش علاقو ں میں مجموعی طور پر وسط فروری تا وسط مارچ زیادہ موزوں ہے۔ زیادہ اگیتی بہار یہ فصل کا اگاؤ کم ہوتا ہے۔ لہذا درمیانی کاشت کو تر جیح دی جائے۔ 25 فروری سے10 مارچ کے دوران کا شتہ فصل زیادہ نفع بخش ثابت ہو تی ہے۔ بہاریہ کاشت کے لئے سبز پر ی کو تر جیح دی جائے۔

ب - گرمی میں کاشت:

موسم گرما کی فصل عام طور پر گندم کے بعد کاشت کی جاتی ہے۔سبزپر ی کا بیج پکانے کے لئے آخرجون تاوسط جوالائی زیادہ موزوں ہیں۔ گندم کے بعد مئی جون میں کا شت کی صورت میں سبزپری کی بجائے دوغلی اقسام کو تر جیح دی جائے۔اس موسم میں سبزپری پر وائرس کا شدید حملہ ہوسکتاہے لیکن دوغلی اقسام کافی حد تک وائرس سے محفوظ رہتی ہیں۔

ج - موسمی پیش گوئی کی مناسبت سے کاشت

بھنڈی توری موسمی پیش گوئی کی مناسبت سے کاشت کی جائے توکرنڈسے بچ کر پودوں کی مناسب تعداد اگائی جاسکتی ہے۔ہر ضلع کی موسمی پیش گوئی سے باخبر رہنے کے لئے انٹر نیٹ بہتر ذریعہ ہے ۔ اس سلسلے میں کئی ویب سائٹس سے م معلومات لی جاسکتی ہیں۔ پنجاب کے کسی بھی ضلے کا نام لکھنے کے بعد weather forecast لکھ کرپنجاب کے ہر ضلعے کا بھر کا ٹھیک ٹھیک موسم دیکھا جا سکتا ہے۔

بھنڈی توری کا بیج بنانا:

اگر چہ بہاریہ بھنڈی توری سے بھی بیج بنایا جا سکتاہے لیکن جون کے شدید گرم اور خشک موسم میں پکنے والے بیج کا اگاؤ متاثر ہوتا ہے۔اس لئے بیج کے لئے جون یا جولائی کاشتہ فصل زیادہ مو زوں سمجھی جاتی ہے۔ جولائی کاشتہ بھنڈی توری (سبزپری) پر وائرس کا شدید حملہ ہوسکتاہے۔ بیج والی فصل سے پھول گرنے پر بد شکل ، غیرضروری اور وائرس سے متاثرہ پودے نکال دیئے جائیں۔ اگر زیادہ اقسام کا بیج بنانا ہو تو مختلف اقسام کے درمیان فاصلہ 500 میڑ رکھیں۔ اگر پہلی چند ایک چنائیاں کر لی جائیں تو بھی بیج کی پیداوار میں نمایاں کمی واقع نہیں ہوتی۔

بیج والی فصل پر بارش:

بھنڈی توری کے بیج میں چونکہ خوابیدگی نہیں ہوتی اس لئے پکنے کے فوراً بعد اگ سکتا ہے۔ پکائی کے دوران اس کے بیج کو بارش اور نمی سے بچاناازحد ضروری ہے۔ اگر پکی ہوئی یا کٹی ہوئی فصل پر بارش ہو جائے تو اندرونی طور پر بیج کے اگاؤ کا عمل شروع ہوجاتاہے۔اس کے بیج کا اگاؤ بری طرح متاثر ہو جاتاہے۔ اس لئے بارش سے متاثر بیج کھبی بھی استعمال نہ کیا جائے۔

مارکیٹنگ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ

سندھ خاص طورپر ٹھٹہ اور بدین سے سبز بھنڈی کی سپلائی فروری میں ہی شروع ہوجاتی ہے۔اور اپریل تک جاری رہتی ہے۔ یہ کافی اونچے ریٹ سے فروخت ہوتی ہے۔ اس کے بعد وسطی پنجاب کی اگیتی فصل وسط اپریل کو مارکیٹ میں آتی ہے جس کا ریٹ پہلے دو ہفتے بہتر رہتا ہے اس کے بعد تد ریجاً کم ہو جاتاہے۔ باافراد پیداوار کی وجہ سے جون اور جولائی کے دوران اکثر اس کا ریٹ گرجاتاہے۔ جولائی میں بہت سی بھنڈی توری ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے مون سون کی بارشوں کے دوران اس کا ریٹ دوبارہ بہتر ہوجاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ستمبر اکتو بر تک جاری رہتاہے۔

برداشت یا چنائی:

وقتِ کاشت ، شرح بیج اور اقسام کی مناسبت سے فروری کاشتہ بھنڈی کی پہلی چنائی عموماً 55 تا60 دنو ں میں تیارہو جاتی ہے۔گرمیوں میں کاشتہ بھنڈی کی پہلی چنائی 45 تا50 دنو ں میں کی جاسکتی ہے۔چنائی عمل بہت مشکل ہو تاہے ہاتھوں پر ہوادار دستانے چٹرھاکر یا انگلیوں پر پٹیاں لپیٹ کر چنائی کر نی چاہئے بڑی سخت بھنڈیوں کی کیمت بہت کم ملتی ہے اس لئے سخت ہونے سے پہلے پہلے بھنڈی کی چنائی کرنی ضروری ہوتی ہے۔چنائی کے دوران بچ جانے والی بھنڈیاں اگلی چنائی تک بڑی ہو جاتی ہے اس لئے چنائی کرنے کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا جائے۔ درمیانی قسم کی بہاریہ فصل بیس تا پچیس چنائیاں دیتی ہے۔ لیکن چنائی کے ساتھ ساتھ اگر مسلسل کھاد، پانی اور کیڑوں کے انسداد کا بندو بست کیا جائے تو چا لیس چنائیاں بھی لی جاسکتی ہیں۔مئی جون میں کاشت کی گئی دوغلی اقسام کی چنائیاں اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہیں۔

پیداوار:

بہاریہ کاشت کی صورت میں تازہ پھل کی پیداوار 100 تا 125 من فی ایکٹر حاصل ہوتی ہے۔ بیج کی 12تا15 من فی ایکٹر حاصل ہوتی ہے۔ لیکن بہتر پیداواری حالات میں تازہ بھنڈی کی پیداوار 200  تا 225 من اوریج کی 18 تا 25 من فی ایکڑ تک حاصل کی جا سکتی ہے۔دوغلی اقسام کی پیداواری صلا حیت 300 من فی ایکڑ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔

بیماریاں اور ان کا انسداد:

بھنڈی توری پر وائرس ، مر جھاؤ،سفو فی پھپھوندی اور نیما ٹو ڈز کی بیماریاں حملہ آور ہوسکتی ہیں۔

مرجھاؤ:

جمر جھاؤ کی بیماری کا امکان ہو تو کاشتی امور کی بہتری کے ساتھ ساتھ بیج کو ٹاپسن ایم لگا کر کاشت کریں۔ ڈائی ناسٹی یا سن کے متبا دل زہریں دو ملی لٹر فی کلو بیج کو لگا کر کاشت کریں تو یہ فصل انتدائی بیماریوں خصو صاً مر جھاؤ سے محفوظ رہتی ہے۔ ہر سال ایک ہی کھیت میں بار بار بھنڈی کا شت کی جائے تو جڑوں کی بیماری (Root rot) کا شدید مسئلہ پیدا ہو سکتاہے اس لئے ہر سال جگہ بدل کر کاشت کی جائے۔ مسلسل کئی سالوں تک ایک ہی زمین میں بھنڈی توری کا شت کی جائے تو اس بیماری کے امکانات بہت برھ جاتے ہیں۔

سفوفی پھپھوندی:

مئی جون کے گرم اور خشک موسم کے دوران بھنڈی توری پر سفوفی پھپھوندی کا شدید حملہ ہو سکتاہے۔ مارچ کاشتہ بھنڈی توری کے بیشتر پتے اسی بیماری کی وجہ سے گر جاتے ہیں اور جون کے دوران فصل کا تقریناً خاتمہ ہو جا تاہے اس سے بچاؤ کے لئے ابتدائی علامات ظاہر ہونے پر 50 ملی لڑ سستھین یا ٹو پاس یا ان کے متبادل زہر یں سو لڑ پانی میں ملاکر سپرے کرنے کر نے کی سفارش کی جاتی ہے۔

واترس:

گندم کے بعد کاشت کی جانے والی فصل سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ قوت مدافعت رکھنے والی اقسام کاشت کی جائیں۔متوازن کھادیں ڈالنے کے علاوہ کیڑوں اور جڑی بوٹیوں سے پوری طرح بچایا جائے تو بھی فصل وائرس سے محفوظ رہتی ہے۔ وائر س انتدائی علامات ظاہر ہونے پر 12 فیصد زنک آکسائیڈ 800 ملی لٹر اور بوران 200 گرام 100 لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جائے تو نہ صرف وائرس مزید نہیں پھیلتا بلکہ فصل گہرے سبز رنگ کی ہوجاتی ہے۔ جون یا جولائی میں کا شت کی گئی بھنڈی توری کو کیڑوں اور وائرس سے بچانا کا دشوار عمل ہے۔ ان سے بچاؤ کے لئے خصوصی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔

نیما ٹو ڈز:

بیج لگانے سے پہلے کاربو فیو ران زہر نو کلوگرام فی ایکڑ کے حساب زمین میں ملائی جائے تو یہ فصل نیماٹو ڈز سے محفوظ رہتی ہے۔دانے دار زہر امین میں ڈالے بغیر بھر پیداوار کا حصو ل مشکل ہوتا ہے۔دانے دار زہر بوئی کے وقت اور مٹی چٹر ھاتے وقت یعنی دو مر تبہ ڈالی جائے تو بھنڈی توری کی فصل حیرت انگیز طور پر لمبے عرصے کے لئے سر سبز رہ کر ریکارڈ پیداوار دے سکتی ہے۔اگر بوائی کے وقت نو کلو گرام فی ایکڑ کے حساب سے کاربو فیو ران یا فیوراڈان استعمال کی جائے تو بیما ٹو ڈز اور بہت سے انتدائی کیڑوں کے مضر اثرات سے بچی رہتی ہے اور فصل کی رنگ گہرا سبز رہتا ہے۔

کیڑے اور ان کا انسداد:

بھنڈی توری کے کیڑوں میں چور کیڑا،چست تیلہ، سفید مکھی، چتکبری سنڈی، تھرپس، جوئیں، ملی بگ اور امریکن سنڈی وغیرہ شامل ہیں۔چور کیڑے کا حملہ اگاؤ کے دوران ہوسکتاہے۔ اگاؤ کے بعد سفید مکھی، چست تیلہ اور تھرپس کا حملہ ہوتاہے۔بیج کے لئے جولائی کاشتہ فصل پر سبز تیلے کا شدید حملہ ہوتا ہے۔پھل آروی کے دوران عموماً چتکبری سنڈی زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔لیکن بعض حا لات میں امریکن سنڈی کا حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ بھنڈی توری کے نظر انداز شدہ کھیتوں میں میلی بگ بھی آسکتا ہے۔ گرم اور خشک موسم کے دوران جوؤں کا شدید حملہ ہو سکتا ہے۔ اگر کیٹروں کا حملہ ابھی انتدائی مر حلے پر ہی ہو تو حسب ضرورت ہلکی اور کم قیمت زہریں استعمال کی جائیں۔ اگر کسی وجہ سے کیڑوں کا شدید حملہ ہو جا ئے تو زیادہ طاقتور اور مہنگی زہریں استعمال کی جائیں۔مثلاً مارچ اپریل کے دوران امیڈا کلو پر ڈ اور ایمامیکٹن سے گذارہ کیا جا سکتاہے۔ لیکن اگست ستمبر کے دوران جب تیلے اور سنڈیوں کیا حملہ شدید تر ہوتا ہے اس وقت کونفیڈاریا ایسیفیٹ یا ڈائی میتھویٹ کے ساتھ پروایکسز ، پروکلیم یا ہیلٹ یا میچ جیسی زیادہ موثر زہریں استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

الف - سفید مکھی اور چست تیلہ:

بھندی توری چست تیلہ کی انتہائی پسندیدہ خوراک ہے۔ اس پر حملہ زیادہ نقصان پہنچاتا ہے اور سفید مکھی کم حملہ کر تی ہے۔ ابتدائی حملہ کی صورت میں ان سے بچاؤ کے لئے کو نفیڈار 250 ملی لٹر یا موسپیلان 125 گرام سو لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جا سکتی ہیں۔اگر سفید مکھی کا شدید حملہ ہو جائے تو پائری پروکسی فن 300 ملی لٹر یا مورینٹو 250 ملی لٹر یا پولو 200 ملی لٹر جیسی طاقت ور زہریں 100 لٹر پانی میں ملاکر تسلی بخش طریقے سے سپرے کی جاسکتی ہیں۔

چست تیلہ:

اگر مسلسل کو نفیڈار سپرے کرنے کے نتیجے میں چست تیلہ سخت جان ہو جائے تو پانرامڈ (Nitenpyram) 200 ملی لٹر یا ایسیفیٹ 250 گرام یا ڈائی میتھویٹ 500 ملی لٹر فی ایکٹر کے حساب سے ہفتے کے وقفے سے دو مرتبہ سپرے کی جائے۔ اور ا س کے بعد پھر کو نفیڈار یا ایکٹارا پاور سپرئر کی مدد سے استعمال کی جائیں تو تیلے کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔

ب - چتکبری سنڈی:

بھنڈی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔اس سے بچاؤ کے لئے ٹریسر 60 ملی لٹر یا دیلٹا میتھرین 300 ملی لٹر یا پروایکسز 75 ملی لٹر یا ان کے متبادل زہریں سو لٹر پانی میں ملاکر استعمال کی جاسکتی ہیں۔

ج - چور کیڑا:

یہ کیڑا آبپاشی علاقوں میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔چور کیڑا بھنڈی کو اگاؤ کے دوران اور پہلے ایک ماہ کے اندراندر نقصان پہنچا سکتاہے۔ اس کے بچاؤ کے لئے ٹالسٹاریا ہائی فینتھرین 200 ملی لیڑ یا سیون 85 بحساب 400 گرام یا لارسبن یا ینڈ وسلفان 800 ملی لٹر سولٹر پانی ملاکر صرف شام کے وقت سپرے کریں۔

د - امریکن سنڈی:

امریکن سندی کے انتدائی حملہ کی صورت میں ایمامیکٹن 200 ملی لٹر استعمال کی جاسکتی ہے۔ لیکن شدید حملہ ہونے پر پروکلیم یا ٹریسریاان کے متبادل زہر سپرے کی جائیں۔ ہر قسم کے سنڈیوں کے شدید حملہ سے بچاؤ کے لئے ریڈی اینٹ100 ملی لٹر یا ٹریسر80 ملی لٹر فی ایکڑ سپرے کی جاسکتی ہے۔

ر - گدھیڑی یا میل بگ:

میلی بگ کے حملے کے انتدائی مر حلے میں کونفیڈار الٹرایا امیڈاکلو پرڈ بھی اس کو مو ثر طور پر کنڑول کر سکتی ہے۔ لیکن شدید حملہ کی صورت میں پرو فینو فاس یا کیورا کران یا لارسبن 1000 ملی لٹر مناسب تر بیت کے بعد استعمال کی جاسکتی ہیں۔

س - ۔جوئیں:

مئی جون کے گرم اور خشک موسم کے دوران نباتاتی جوئیں بھی بھنڈی توری کو شدید نقصان پہنچاسکتی ہیں۔اس سے بچاؤ کے لئے نسواران یا یو نیک یا پولو 200 ملی لٹر فی ایکڑ ڈائی کو فال 300 ملی لٹر یا اوبیران 60 ملی لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

جڑی بوٹیاں:

فروری کاشتہ بھنڈی توری میں ہاتھو، جنگلی پالک، جنگلی ہالون اور چولائی وغیرہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ مارچ سے جولاتی کے دوران کاشتہ فصل اٹ سٹ، ڈیلا، مدھانہ، لمب گھاس ، قلفہ اور چولائی سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔پہلے دو ماہ کے دوران جڑی بوٹیوں کو کنڑول کرلیا جائے تو بھنڈی توری کی فصل کامیابی سے اگائی جاسکتی ہے۔ ان کی تلفی کے لئے زمینی ساخت ، وقتِ کاشت، طریقہِ کاشت اور اگنے والی جڑی بوٹیوں کی مناسبت سے کاشت کے ایک دن بعد پینڈی میتھالین یا ڈوال گولڈ یا کاشت کے ایک ماہ بعد پو ما سپریاگرامکسون سپرے کی جاسکتی ہیں۔ جڑی بوٹی مار

زہریں استعمال کر نے کی تفصیل مندر جہ ذیل ہے:

الف - اگاؤ سے پہلے سپرے:

اگاؤ سے پہلے پہلے زہریں استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ فروری میں بھنڈی کاشت کر کے پانی لگائیں اور ایک یا دو دن بعد پینڈی میتھالین بحساب 1200 ملی لٹر فی ایکڑ سپرے کی جاسکتی ہے۔ جنکہ مئی جون میں کاشتہ بھنڈی توری پر یہی زہر 1000 ملی لٹر فی ایکڑ سپرے کر یں۔سپرے کرنے کے تقریباً ایک ماہ بعد جڑوں کی مناسب ہواداری کے لئے ایک گوڈی بھی کر دی جائے ۔

وضاحت:

بھنڈی توری پر پینڈی میتھالین زہر ڈوال گولڈ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ثابت ہوئی ہے۔اگر کھیت میں دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ ساتھ ڈیلا اگنے کا قو ئی امکان ہو تو ڈوآل گولڈ بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔اگر سپرے کے ایک ہفتہ بعد تک بارش کا امکان نہ ہو تو نہار یہ کاشت کی صورت میں ڈوآل گولڈ کا فی حد تک محفوظ ہے۔لیکن پوری مقدار میں استعمالکی جائے تو مئی جون میں کاشتہ بھنڈی توری کا اگاؤ بھی متاثر کرتی ہے۔ اس زہر کے محفوظ استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ فروری کاشت کی صورت میں بھاری میراز مینوں میں 800 ملی لٹر جبکہ مئی جون مین کاشت کی صورت میں ہلکی یا کلراٹھی زمینوں میں 650 ملی لٹر فی ایکڑ 100 لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہے۔

ب - اگاؤ کے بعد سپرے:

اگر بجائی کے وقت کوئی بھی زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو اور صرف گھاس خاندان کی جڑی بو ٹیوں کا مسئلہ ہو کاشت کے بعد پہلے ایک ماہ کے اندر اندر پرسیپٹ 350 ملی لٹر یا فیٹوکساپراپ یا پوماسپر 400 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جا سکتی ہیں۔ یہ زہریں بھنڈی توری کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ گھاس خاندان کی جڑی بوٹیوں کی بہتر تلفی کے لئے ضروری ہے کہ وتر حالت میں صبح یا شام کے ٹھنڈے وقت میں سپرے کی جائیں۔

متفرق:

زیادہ کھاد یا پانی کی وجہ سے یا مون سون کے دوران بکثرت بارشو ں کی وجہ سے اس کا قد تیزی سے بڑ ھنے لگے تو سٹانس 30 ملی لٹر فی ایکڑ سو لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہے۔ اس سپرے سے اس کا قد تیزی سے نہیں بڑھتا ہے۔اور پھل آوری کا عمل حسبِ معمول جاری رہتاہے۔ اگر اس کے بیج کو جبر یلک ایسڈ 400ppm یا انڈول ایسٹک ایسڈ 20ppm کے حساب سے لگا کر کاشت کیا جائے تو اگاؤ زیادہ ہوتاہے۔

پیداواری مسائل:

جڑی بو ٹیاں ، کیڑے (چتکبری سنڈی تیلہ)، وائرس کا حملہ اور بیج پکنے کے دوران بارش اس کی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔کرنڈ وغیرہ کی وجہ سے بیج کی نا مکمل اگاؤ اور چنائی میں تا خیر بھی نفع بخشی میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

پیداواری عوامل کا حصہ:

اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں کھادوں کا حصہ تقریباً 30 فیصد زمینی کیڑوں، بیماریوں اور جڑی بو ٹیوں سے بچاؤ کا 15 فیصد فصل کی برداشت ومارکیٹنگ کا 35 فیصد بنتاہے۔ ان اخراجات میں زمین کا ٹھیکہ شامل نہیں ہے۔

پیداواری اخراجات اور آمدن:

حالیہ سالوں کے دوران ذاتی زمین پر فروری میں کاشت کی صورت مین بھنڈی توری پیدا کرنے کافی ایکڑ خرچ61 ہزار روپے سے بھی زیادہ آتا ہے۔ (وسطی پنجاب کے 1 تا 10 ایٹر والے کاشتکار، نصف مقدار نہری پانی دستیاب صرف نا گزیر اطاقی اخراجات شامل کرتے ہوئے زمینی تیاری 5000، کاشت 2000، بیج دوغلی اقسام 8000، کھادیں 10000، پانی 3000، جڑی بوٹی2000، کیڑے 5000، برداشت (30 چنائیاں) 20000، ٹرانسپورٹ 5000 متفرق 1000، کل 61000) بہتر پیداواری ٹیکنالوجی پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اگر مارکیٹ اور موسمی حالات بھی ساز گار رہیں تو 250 من بھنڈی توری پیدا ہو سکتی ہے۔ جس سے تین لاکھ روپے سے زیادہ کمائے جا سکتے ہیں۔ مناسب حکمت عملی کی بدولت مذ کورہ اخراجات میں کمی کر کے اس سے بھی زیادہ بچت کی جاسکتی ہے۔

نفع بخش کاشت کے اہم راز:

اس فصل کی نفع بخش کاشتکاری کے اہم رازوں میں قسم سبزی کو مناسب وقت پر اچھے طریقے سے قدرے زیادہ بیج ڈال کر کاشت کرکے پودوں کی مناسب (تین لاکھ) تعداد حاصل کرنا، فصل کو کیڑوں و جڑی بوٹیوں سے بچانا، ؤکھاد ڈال کر فصل کو مٹی چڑ ھا نا، نشونما اور پھل آوری کو تحریک دینے والے مرکبات کی سپرے کرنا ، پانی کا سوکا لگا کر اگیتا پھل حاصل کرنا ، کھاد، پانی اور ہارمون استعمال کر کے قد کنٹرول کرنا اور مناسب سائز کی چنائی کرکے مارکیٹنگ کرنا شامل ہیں۔

پاکستان میں زمیں اور پانی کی ٹیسٹنگ کی لیبارٹریز کہاں کہاں پر موجود ہیں؟

ذیل میں پاکستان میں زمین اور پانی کو ٹیسٹ کرنے والی لیبارٹریز کے بارے میں معلومات دی گئی ہے ۔ جس سے آپ اپنی زمین اور پانی میں موجود نمکیات اور دیگر فائدہ مند اور نقصان دہ اجزاء کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔




MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget