گلاب کی کاشت


گلاب دنیا میں سب سے زیادہ اُگایا جانے والا کٹ فلاور ہے۔ تمام کٹ فلاور کی برآمدات میں تقریباً 50 فیصد حصہ کٹ گلاب کا ہے۔
گلاب کا تعلق روزیسی فیملی سے ہے۔ اس کی 200 سے زاٸد پرجاتیاں ہیں۔ جن پر الگ الگ اور گوچھے کی صورت میں پھول لگتے ہیں۔ گلاب کو اس کی خصوصیات کی وجہ سے مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن کا ذکر الگ ایک تحریر کی صورت میں کیا جاٸے گا۔
پاکستان کے گلاب اُگانے والے علاقے:
پتوکی (قصور)، اسلام آباد، راولپینڈی، لاہور، فیصل آباد اور ملتان (میلسی) میں زیادہ تر کٹ گلاب کاشت کیا جاتا ہے۔
جبکہ پتیوں (تولواں گلاب) کے لیے قصور، ساہیوال، لاہور، راولپینڈی، پاکپتن اور حیدرآباد میں کاشت کیا جاتا ہے۔
زمین:
گلاب کو بہت سی اقسام کی مٹی میں اُگایا جا سکتا ہے۔ لیکن اچھی نکاسی والی، زرخیز، ہلکی میرا زمین جس کی پی ایچ (Ph) 6 سے 7 ہو۔ اس کی کاشت کے لیے بہت موزؤں ہے۔ گرین ہاؤس میں سوٸل لیس میڈیا کا استعمال، اس کی پانی کو زیادہ دیر تک جزب رکھنے کی صلاحیت، ہوا کی دستیابی اور جلد اجزا (nutrients) کی فراہمی جیسی خصوصیات کو وجہ سے کیا جاتا ہے۔

آب و ہوا:
گلاب ایسے علاقوں میں اچھی کوالٹی کے پھول پیدا کرتا ہے جہاں پر دن کا درجہ حرارت 25 سے 27 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ رات کا درجہ حرارت 15 سے 18 ڈگری سینٹی گریڈ ہو۔ 30 ڈگر سینٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت پر پھول جلد کھل جاتے ہیں اور پتیوں میں موجود جشبو بھی کم ہو جاتی ہے اور اچھی کوالٹی کے پھول پیدا نہیں ہوتے۔ جیسے نمی کی مقدار بڑھا کر بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
60 سے 70 فیصد نمی گلاب کی اچھی پیداوار کے لیے موزؤں ہے۔ اس سے زیادہ نمی بیماریوں کا موجب بنتی ہے اور کم نمی کی وجہ سے پھول چھوٹے اور خراب کوالٹی کے پیدا ہوتے ہیں۔ رستوں پر پانی گِرا کر اور پودوں پر پانی کا سپرے کر کے نمی کی مقدار کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
گلاب کی افزاٸش:
گلاب کی افزاٸش دو طریقوں کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔
1) قلموں کے ذریعے
2) پیوندکاری کے زریعے
قلموں سے گلاب کی افزاٸش اکتوبر تا فروری کی جاتی ہے جبکہ پیوند کاری کا بہترین وقت جولاٸی تا اگست ہے۔
پودے لگانا:
گلاب لگانے کا سب سے اچھا وقت دسمبر اور جنوری ہے کیونکہ اس وقت گلاب سکوت (Dormancy) کی حالت میں ہوتا ہے۔ گلاب کے پودے لگانے سے پہلے زمین میں جنتر یا کوٸی پھلی دار فصل لگاٸی جاتی ہے تاکہ زمین کی زرخیزی کو بڑھایا جا سکے۔ اس کے بعد محت مند اور مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق وراٸٹی کا چناؤ کیا جاتا ہے۔ زمین کو 40 سے 50 سینٹی میٹر گہرا تیار کیا جاتا ہے اور کھیلیاں بناٸی جانی ہیں۔ جن کی چوڑاٸی 1.5 فٹ، اُنچاٸی 1.5 فٹ اور کھیلیوں کا درمیانی فاصلہ 1.5 فٹ رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد پودے لگاٸے جاتے ہیں۔ کٹ فلاور کے لیے پودے سے پودے کا فاصلہ 1 فٹ رکھا جاتا ہے۔( کچھ لوگ 1.5 فٹ بھی رکھتے ہیں۔) جبکہ جھاڑی نما گلاب کے لیے پودے سے جودے کا فاصلہ 3 فٹ رکھا جاتا ہے۔ اور ہر 4 کھیلیوں کے بعد 1 کھیلی چھوڑ در جاتی ہے تاکہ پھولوں کی برداشت آسانی رہے۔ اس طرح ایک ایکڑ میں جھاڑی نما گلاب 4840 جبکہ کٹ گلاب 10000 سے 12000 پودے لگاٸے جاتے ہیں۔
کھادوں کا استعمال:
کھادوں کا استعمال پودے لگاتے وقت اور کانٹ چھانٹ کے بعد کیا جاتا ہے۔ کھادوں کو پودوں کی ساخت کے ساتھ استعمال کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ کیونکہ گلاب کی نمکیات اور کھادوں کو جزب کرنے والی جڑیں اس کی ساخت سے دور ہوتی ہیں۔
کٹ فلاور کے لیے
ناٸٹروجن: 400 کلوگرام فی ایکڑ سالانہ
فاسفورس: 120 کلوگرام فی ایکڑ سالانہ
پوٹاشیم: 640 کلوگرام فی ایکڑ سالانہ
جبکہ جھاڑی دار گلاب کے لیے
ناٸٹروجن: 200 کلوگرام فی ایکڑ سالانہ
فاسفورس: 120 کلوگرام فی ایکڑ سالانہ
پوٹاشیم: 400 کلوگرام فی ایکڑ سالانہ
آبپاشی:
آبپاشی موسم کی صورتِ حال، پودوں کے ساٸز اور نشوونما کے مراحل پر منحصر ہوتی ہے۔ موسم گرما میں 5 سے 7 دن کے وقفہ سے پانی لگایا جاتا ہے جبکہ موسم سرما میں 14 سے 15 دن کے بعد آبپاشی کی جاتی ہے۔ دسمبر اور جنوری میں پودوں کی کانٹ چھانٹ کرنے کے بعد پانی لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پاکستان میں زیادہ تر فلّڈ (بہاؤ) آبپاشی کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں ڈریپ کی مدد سے پودوں کو پانی مہیا کیا جاتا ہے۔
پودوں کی کانٹ چھانٹ:
گلاب کے پودوں کی کانٹ چھانٹ بہت ضروری ہوتی ہے کیونکہ پھول نٸی شاخوں پر پیدا ہوتے ہیں لہزا پچھلے سال کی شاخوں کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ کانٹ چھانٹ کے زریعے پودوں کو مخصوص شکل بھی دی جاتی ہے۔ جس سے اس کی پیداوار اور کوالٹی بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خاص موقعوں پر پھول حاصل کرنے کے لیے بھی اس عمل کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خشک اور بیماریوں سے آلودہ شاخوں کو بھی کاٹا جاتا ہے۔ اس عمل کے زریعے ہوا کی آمدورفت میں آسانی ہوتی ہے اور فنگس کی بیماریوں کا خدشہ بھی لاحق ہوتا۔ دسمبر اور جنوری میں گلاب کی کانٹ چھانٹ زیادہ کی جاتی ہے۔ جبکہ مٸی اور جون میں ہلکی کانٹ چھانٹ کی جاتی ہے۔ کانٹ چھانٹ کے بعد Fungicide کا استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ زخمی حصوں پر بیماریوں کا زیادہ خدشہ ہوتا ہے۔
پھولوں کی برداشت:
گلاب کو دن یا شام کے وقت برداشت کیا جاتا ہے کیونکہ دوپہر کے وقت درجہ حرارت زیادہ ہوتا ہے جس سے پھولوں کی نمی کم ہو جانی ہے اور پھول جلد مرجا جاتے ہیں۔ گلاب کو بین اقوامی منڈیوں کے لیے ٹاٸٹ بڈ کے مرحلہ پر جبکہ لوکل منڈیوں کے لیے لوز بڈ کے مرحلہ پر برداشت کیا جاتا ہے۔ جھاڑی نما پودوں سے پتیوں کے لیے پھول کو مکمل کھلنے کے بعد برداشت کیا جاتا ہے۔ پتیوں کے لیے پھولوں کو ہاتھ کی مدد سے جبکہ کٹ گلاب کے لیے پھولوں کو سکیچر کی مدد سے مخصوص لمباٸی سے کاٹا جاتا ہے۔ پھولوں کو برداشت کرنے کے بعد انہیں جلدازجلد ٹھنڈی سایہ دار جگہ پر لے جایا جاتا ہے۔
پھولوں کی بعداز برداشت:
پھولوں کو سایہ دار جگہ پر لانے کے بعد ان میں سے بیمار اور ٹوٹیے ہوٸے پھولوں کو الگ کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد بڈ کے ڈایا میٹر اور تنے کی لمباٸی کی بنیاد پر پھولوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔اس کے بعد پھولوں کی زندگی کو بڑھانے کے لیے انہیں حفاظتی سلوشن میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد 5 سے 7 پھولوں کے بنڈل بناٸے جاتے ہیں۔ اور انہیں ایک مخصوص پولی تھین میں بند کیا جاتا ہے۔ پھر ان پھولوں کو کاربورڈ فلورل باکس میں پیک کیا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میں پھولوں کی برداشت کے بعد ان کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اور کسی بھی حفاظتی سلوشن کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ ان کو پانی سے نم کر کے لک کے کریٹ میں پیک کیا جاتا ہے۔ پانی کی موجودگی کی وجہ سے اس میں بیماریوں کا خدشہ بڑھ جاتا ہے اور پھولوں کی زندگی کم ہو جاتی ہے۔ پاکستتن میں پھولوں کو کم درجہ حرارت پر سٹور نہیں کیا جاتا۔ اور ٹرانسپورٹ کے دوران درجہ حرارت کا خیال نہیں رکھا جاتا جس کی وجہ سے پھولوں کی زندگی کم ہو جاتی ہے۔ جبکہ دوسرے ممالک میں گلاب کی ٹرانسپورٹ کے لیے ٹھنڈی آٸس کریم ریفر ٹرک استعمال کیے جاتے ہیں۔ اور ان میں کم درجہ حرارت کو بھی برقرار رکھا جاتا ہے۔
گلاب کو 2 سے 4 ڈگری سیٹی گریڈ پر 2 ہفتوں کے لیے سٹور کیا جا سکتا ہے۔ پھولوں کو پھلوں اور سبزیوںکے ساتھ سٹور نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ پھل اور سبزیاں ایتھلین پیدا کرتے ہیں جو کہ پھولوں کر لیے خطرناک ہے جو کہ ان کی زندگی کم کر دیتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget