اکتوبر 2019


ٹینڈے کی ابتداء بھارت میں ہوئی۔ اس کا پودا ککر بٹیسی (Cucurbitaceae) خاندان سے تعلق رکھتا ہے جبکہ اس کا نباتاتی نام سٹرولس ولگیرس (Citrullus Vulgaris) ہے۔ ٹینڈا موسم گرما کی بڑی اہم اور مقبول سبزی ہے۔ اس کا باقاعدہ استعمال گردے، مثانے اور پتے کی پتھری کے اخراج میں مفید ہے۔ علاوہ ازیں ٹینڈے کا پھل وٹامن اے ، بی اور سی کا اہم ذریعہ ہے۔

ٹینڈے کی کاشت کیلئے گرم اور خشک موسم موزوں ہے، اس کے بیج کے اگاؤ کیلئے موزوں درجہ حرارت 25 ڈگری سینٹی گریڈ جبکہ بڑھوتری اور پھل بننے کیلئے موزوں درجہ حرارت 30 تا 35 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ پنجاب کے تقریباً تمام میدانی و بارانی علاقوں میں اس کی کاشت کی جا سکتی ہے۔ ٹینڈا دلپسند محکمہ کی سفارش کردہ قسم ہے جس کا پھل گول اور ہلکے سبز رنگ کا ہوتا ہے اور ذائقے میں بے مثال ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت 10 ٹن فی ایکڑ ہے۔
ٹینڈا کی اگیتی کاشت اپریل تک جبکہ پچھیتی فصل وسط جون تا وسط جولائی تک کاشت کی جا سکتی ہے۔کاشت کیلئے زرخیز میرا زمین کا انتخاب کریں۔ زمین میں پانی کا نکاس اچھا اور نامیاتی مادہ کافی مقدار میں موجود ہونا چاہیے۔ کاشت سے پہلے زمین کو اچھی طرح ہموار کر کے 10 سے 15 ٹن فی ایکڑ گوبر کی گلی سڑی کھاد ڈالیں اور ہل چلا کر زمین میں ملا دیں۔ علاوہ ازیں اگر روٹاویٹر چلا کر گوبر کو باریک کر دیا جائے تو یہ جلد ہی مٹی کا حصہ بن جائے گا اور بعد میں آبپاشی کر دیں۔ وتر آنے پر کھیت میں دو سے تین مرتبہ ہل اور سہاگہ چلائیں اور جڑی بوٹیوں کے اگنے کیلئے چھوڑ دیں۔ کاشت کے وقت بھی زمین میں دو سے تین بار ہل چلا کر زمین تیار کر لیں۔

ٹینڈا کی کاشت کیلئے 2.5 میٹر فاصلہ پر نشان لگائیں اور دو پٹڑیوں کے درمیان 50 سینٹی میٹر چوڑی کھالی چھوڑ کر 2 میٹر چوڑی پٹڑیاں بنائیں۔ ان پٹڑیوں کے دونوں کناروں پر آبپاشی کے فوراً بعد جہاں تک پانی کی نمی پہنچ سکے 40 سینٹی میٹر کے فاصلے پر 2 تا 3 بیج 3 سے4سینٹی میٹر گہرائی میں دبا دیں۔ اس طریقے سے ایک ایکڑ میں 8000 پودے لگائے جا سکتے ہیں جس کیلئے تقریباً 2 کلوگرام صحتمند بیج کافی ہوتا ہے۔ بیج کو کاشت سے پہلے پھپھوند کش زہر مینکوزیب+ میٹالکسل بحساب 2.5 گرام فی کلوگرام بیج لگا لیں تاکہ فصل ابتدائی بیماریوں سے محفوظ رہے۔ علاوہ ازیں اگر بیج کو امیڈاکلوپرڈ 70 WS بحساب 3 گرام فی کلوگرام بیج لگا لیا جائے تو فصل ابتداء میں رس چوسنے والے کیڑوں کے حملہ سے بھی محفوظ رہتی ہے۔ بوائی سے ایک ہفتہ بعد دوبارہ پانی ضرور لگائیں تاکہ بیج وتر حالت میں اگ آئے۔

ٹینڈے کی فصل کو N:P:K بالترتیب 60:35:25 کلوگرام فی ایکڑ درکار ہیں۔ جن کے حصول کیلئے زمین کی تیاری کے وقت 2 بوری امونیم نائٹریٹ، 4 بوری ایس ایس پی، ایک بوری سلفیٹ آف پوٹاش یا 1/2 بوری یوریا، 1/2 بوری ڈی اے پی، 1 بوری سلفیٹ آف پوٹاش ملا کر بکھیر دیں اور سہاگہ چلائیں۔ اگر کھاد کو پورے کھیت میں بکھیرنے کی بجائے لائنوں پر ڈالا جائے تو اس سے زیادہ بہتر نتائج نکلیں گے اور کھاد کی تھوڑی مقدار بھی کافی ہو گی۔ جب پھل لگنا شروع ہو تو 1 بوری امونیم نائٹریٹ یا 1/2 بوری یوریا ڈالیں۔ بعد ازاں تین ہفتہ کے وقفہ سے 1 بوری امونیم نائٹریٹ یا 1/2 بوری یوریا ڈالتے رہیں۔ کھاد ڈالنے سے پہلے گوڈی ضرور کریں۔

پٹڑیوں پر لگائی گئی فصل کو حسب ضرورت پانی لگاتے رہیں۔ جن علاقوں میں ٹینڈے کی کاشت وتر حالت میں کی جاتی ہے وہاں آبپاشی فصل اگنے کے بعد دیر سے کی جاتی ہے اور فصل کی خشک گوڈیاں کی جاتی ہیں۔ پانی لگاتے وقت ہمیشہ یہ خیال رکھیں کہ پانی پٹڑیوں پر نہ چڑھے۔ جب پودے تین سے چار پتے نکال لیں تو ایک صحتمند پودا فی چوکا چھوڑ کر باقی پودے نکال دیں۔ فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھنے اور اچھی بڑھوتری کیلئے دو سے تین بار گوڈی کریں اور پودوں کے ساتھ مٹی چڑھا دیں۔ بیلوں کا رخ پٹڑی کی طرف کر دیں تاکہ پودے نالیوں میں نہ گریں۔ ہر آبپاشی سے پہلے بیلیں نالیوں سے ضرور نکال دیں۔

سفید پھپھوندی، روئیں دار پھپھوندی اور اکھیڑا ٹینڈا کی اہم بیماریاں ہیں جبکہ ضرر رساں کیڑوں میں کدو کی لال بھونڈی، پھل کی مکھی، سفید مکھی، سست تیلہ، چست تیلہ، لیف مائنر اور جوئیں فصل پر حملہ آور ہو کر پیداوار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ضرر رساں کیڑوں و بیماریوں کے تدارک کیلئے محکمہ زراعت (توسیع و پیسٹ وارننگ) کے فیلڈ عملہ کی سفارشات پر عمل کریں۔

شروع میں ٹینڈا کی فصل پر جو ایک دو اگیتے پھل لگتے ہیں ان کو فوراً توڑ دیں، اس طرح پودے کی نشوونما و پیداوار اچھی ہو گی۔ پھل جب مناسب سائز کے ہو جائیں تو مناسب وقفہ سے برداشت کرتے رہیں۔ پھل شام کے وقت توڑیں تاکہ صبح تازہ حالت میں فروخت ہو سکے۔ چونکہ ٹینڈے میں نر اور مادہ پھول ایک ہی پودے پر الگ الگ لگتے ہیں اور مادہ پھول شہد کی مکھیوں کی مدد سے بارآور ہوتے ہیں اس لئے شہد کی مکھیوں کی آمد متاثر نہیں ہونی چاہیے۔

تحریر: محمد قوی ارشاد( اسسٹنٹ ڈائریکٹر زرعی اطلاعات، راولپنڈی)

شہد کی مکھیاں پالنا اور ان کی اہمیت


قرآن پاک کی سورت نمبر 16 النحل کی 68 اور 69 آیات میں باری تعالی نے شہد کی مکھی کے وجود، پھیلاو اور اہمیت کو نہایت تفصیل سے بےان کر دیا ہے۔ النحل کا لفطی معنی شہد کی مکھی ہے۔پاکستان میں شہد کی مکھی پالنے کے لیے ماحول اور آب وہوا نہایت مناسب ہے۔

شہد کی مکھیوں کی جسمانی ساخت

اس کا جسم تین واضح حصوں میں بٹا ہوتاہے۔

سر

یہ حصہ آنکھوں، مونچھوں اور منہ کے اعضاءپر مشتمل ہوتاہے۔ سر سینے سے الگ ہے اور حرکت کر سکتا ہے۔ سر پر دو مرکب آنکھیں ہیں۔ ہر مرکب آنکھ چھوٹی چھوٹی آنکھوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ملکہ کی ایک مرکب آنکھ میں 5000، نکھٹو کی 6000 اور کارکن مکھی کی ایک مرکب آنکھ میں 13000 چھوٹی چھوٹی آنکھیں ہوتی ہیں۔ مکھی سفید، کالی،نیلی اور پےلے رنگ کو پہچان سکتی ہے۔ اس کے علاوہ تین سادہ آ نکھیں سر کے درمیان اور اوپر ہوتی ہیں جن سے یہ ساکن اور نزدیکی چیزوں کو دیکھ سکتی ہے۔ آ نکھوں کے نیچی دو مونچھیں ہوتی ہیں۔ جو ٹٹولنے، سونگھنے اور محسوس کرنے کاکرتی ہیں۔ سر کے نیچی منہ اور زبان ملکر سونڈ نما شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ مکھی اسی سونڈ (Proboscis) سے پھولوں کا رس جوستی ہے۔ نر مکھیوں (نکھٹو) میں زبان نہیں ہو تی لہذا یہ رس نہیں چوس سکتیں۔ لعاب اوررائل جیلی (دودھ) پیدا کرنے والے غدود سر میں ہوتے ہیں۔

سینہ

۔ شہد کی مکھی میں پروں کے دو جوڑے ہوتے ہیں۔ سینے کے اوپر دونوں طرف ایک بڑا اور ایک چھوٹا پر ہوتا ہے جو آپس میں ہک (Humuli) کی وجہ سے جڑے ہوتے ہیں۔ سینے کے پچھلے حصے پر ٹانگوں کے تین جوڑے ہوتے ہیں۔ جن میں سب سے پچھلی ٹانگیں پہلی دو سے لمبی اور بڑی ہوتی ہیں۔ اس میں پولن باسکٹ ہوتی ہے۔ کارکن مکھیاں اگلی ٹانگوں کی مدد سے اپنے سر اور مونچھوں کی مدد سے پولن اتار کر پولن باسکٹ میں جمع کرتی ہیں۔ یہ پولن شہد کی مکھیوں کی افزائش نسل کے دوران پروٹین مہیا کرتی ہیں۔

پیٹ
شہد کی مکھی کا یہ سب سے نرم حصہ ہوتا ہے جو 7حصوں سے ملکر بنا ہوتا ہے۔ پیٹ کے نیچے آٹھ باریک سوراخ ہوتے ہیں۔ جن میں سے موم نکلتا ہے۔ جو تیل کی طرح پتلا ہوتاہے مگر ہوا لگنے سے جم جاتا ہے۔ پیٹ کے آخری حصے میں زہر کی تھیلی ہوتی ہے۔ جو سوئی نما ڈنگ سے جڑا ہوتا ہے۔ جب شہد کی مکھی انسان کو کاٹتی ہے۔ تو سوئی جسم میں داخل ہو جاتی ہے اور تھیلی پیٹ سے الگ ہو جاتی ہے۔ یوں جسم کا ایک حصہ الگ ہونے کی وجہ سے مکھی چند گھنٹے میں مر جاتی ہے۔

شہد کی مکھیوں کی اقسام

پاکستان میں چار قسم کی شہد کی مکھیاں پائی جاتی ہیں۔

پہاڑی مکھی (Apis cerana)

یہ مکھی پاکستان کے پہاڑی اور دامن کوہ کے علاقوں میں جنگلی اور پالتو حالت میں پائی جاتی ہی یہ اپنے چھتے کھوکھلے تنے، کچی مٹی کے گھروندے یا دیواروں کی بڑی دارڑوں میں بناتی ہیں۔ یہ مکھیاں نحلی سریش کم تیار کرتیں ہیں۔ جسکی وجہ سے مومی کیڑے انہیں کافی نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کو جدید ڈبوں میں پالاجا سکتا ہے۔ اس میں بےماریوں اور مائیٹ کے خلاف قدرتی قوت مدافعت ہوتی ہے۔

یورپی مکھی (Apis mellifera)

یہ تمام براعظموں کی مختلف ممالک میں پائی جاتی ہے۔ یہ نرم مزاج، اپنی عادات کو ڈھالنے والی اور ذیادہ انڈے دینے کی وجہ سے جدید مگس بانی کی ڈبوں میں پالی جاتی ہیں۔ پاکستان میں آسٹریلیا اور روس سے 1977میں یہ مکھیاں درآمد کیں اور اب تقریبا 400,000 لاکھ کالونیاں مختلف جگہوں پر پالی جا رہی ہیں۔ مائیٹ اور دیگر بیماریوں کے لیے اس میں قوت مدافعیت کم ہوتی ہے۔

بڑی مکھی (Apis dorsata)

بڑی جسامت کی وجہ سے اسے بڑی مکھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر پاکستان میں اسکو ڈومنا کہا جاتا ہے۔ یہ سطح سمندر سے 1100 میٹر بلندی پر پائی جاتی ہے۔ یہ زمین سے تقریبا 3 میٹر اونچے درختوں پر چھتے بناتی ہے۔ بعض اوقات ایک ہی درخت پر3-4 یا زائد چھتے لگے ہوتے ہیں۔ ایک چھتے کا سائز 2 میٹر طول اور عموما لمبائی 1 میٹر تک ہو سکتی ہے۔ اس مکھی کے لیے چھتے میں کارکن اور نکھٹو کے لاروا یا بروڈ خانوں کی جسامت ایک جیسی ہوتی ہے۔ ان کو ڈبوں میں نہیں پالا جاسکتا کیونکہ یہ کھلی فضا میں رہنا پسند کرتی ہیں۔

چھوٹی مکھی (Apis florea)

بناوٹ کے لحاظ سے یہ سب سے چھوٹی مکھی ہے جو سطح سمندر سے 600 میٹر بلند مقامات پر ہوتی ہے۔ اس مکھی کی پہچان یہ ہے کہ کارکن مکھی کے پیٹ پر سیاہ اور پیلی دھاریاں نمایاں ہوتی ہیں اور مکھی کے جسم پر بالوں کا رنگ بھوراہوتاہے۔ یہ ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح کا چھتہ جھاڑیوں کی شاخوں، سوکھی لکڑیوں کے گٹھوں وغیرہ میں بناتی ہیں۔ یہ بھی آزاد رہتی ہیں۔لہذا ان کو مگس بانی کے ڈبو ں میں نہیں پالا جاسکتا۔

خاندانی تنظیم

شہد کی مکھیاں ایک ہی خاندان میں رہتی ہیں۔ ہرخاندان میں تین قسم کی مکھیاں پائی جاتی ہیں

ملکہ مکھی

ہرکالونی میں صرف ایک ملکہ مکھی (مکمل مادہ) ہوتی ہے۔ جس کے کرو موسم کی تعداد 32 ہوتی ہے اسکی ز ندگی کامقصد انڈے دینااورخاندان کوقائم رکھناہوتاہے۔ لمبوترے پیٹ اورچھوٹے پروں کی وجہ سے اس کو باآسانی پہچان سکتے ہیں۔ چھتے میں مخصوص لمبوترے سیل میں رائل جیلی پرپلنے والا لاروا ملکہ مکھی میں تبدیل ہوتا ہے۔ایک ملکہ10-20نرمکھیوں سے ملاپ کرتی ہے ملکہ ایک دن میں تقریبا1500اور تمام زندگی میں200,000انڈے دے سکتی ہے۔ملکہ مکھی3-4سال تک زندہ رہ سکتی ہے۔ یہ اپنے جسم سے فیرومون خارج کرتی ہے۔ جسکی وجہ سے کارکن مکھیوں کو ملکہ کی موجودگی کااحساس رہتا ہے۔

کارکن مکھیاں

یہ ملکہ اورنکھٹوں سے جسامت میںچھوٹی ہوتی ہیں۔ جنسی طور پرمادہ 32کرو موسم والی مگرانڈے دینے کی صلاحیت سے محروم ہوتی ہیں۔ کیونکہ لاروے کے مرحلے پران کو معمولی خوراک دی جاتی ہے۔ چھتہ بنانا،اسکی صفائی،حفاظت،پھولوں سے رس چوسنا، لاروے اور ملکہ کو خوراک دینا وغیرہ سب کاموں کی ذمہ داری اس پرہوتی ہے۔ عام طورپر ایک کارکن مکھی ایک دن میں تقریبا 10بار پھولوں کا رس چوسنے جاتی ہے۔ ایک پونڈموم بنانے کے لیے ایک کارکن مکھی تقریبا 8کلو شہد کھاتی ہے گرمیوں میں ان کی عمرتقریبا ڈیڑھ ماہ اورسردیوں میں چھ ماہ تک ہوتی ہے۔

نکھٹو

(نرشہد کی مکھی)۔ نر مکھیوں کو نکھٹو کہا جاتا ہے۔ ان کی آنکھیں اور پر بڑے ہوتے ہیں۔ پیٹ گول اور سیاہ رنگ کا ہوتا ہے عموما نکھٹوچارماہ سے ذیادہ زندہ نہیں رہتے۔ یہ بےکاررہتے ہیں یعنی چھتے کی تعمیر،دیکھ بھال یا خوراک کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔ اور یوں کارکن مکھیوں کا ہاتھ نہیں بٹا سکتے۔ زبان نہ ہونے کی وجہ سے یہ کارکن مکھیوں کی فراہم کردہ خوراک پرپلتے ہیں۔ اس طرح نکھٹووں کامقصد حیات ملکہ مکھی کے ساتھ جنسی ملاپ ہے۔ جونکھٹو اپنا مادہ افزائش ملکہ مکھی کے جسم میں داخل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ وہ بعد ازاں مرجاتے ہیں۔ چھتے میں خوراک کا وافر ذخیرہ موجود ہوتاہے توتب کارکن مکھیاں انکی پرورش کرتی رہتی ہیں۔ اورجب غذا کی قلت کم ہوجائے تو کارکن مکھیاں انہیں چھتے سے باہرنکال دیتی ہیں جس سے یہ مرجاتے ہیں۔ نکھٹو مکھیوں میں کرو موسم کی تعداد باقی دونوںاقسام سے آدھی یعنی16ہوتی ہے۔

شہد کی مکھیوں کی افزائش کاچارٹ

نام                    انڈے کی حالت             لاروے یا سنڈی کی حالت          پیوپا کی حالت              کل معیاد
ملکہ                 3دن                         5-6دن                          7-8دن                   12-15دن
کارکن         3دن                         6دن                                  12دن                   21دن
نکھٹو                 3دن                         7دن                                  13-14دن                    24دن

سبزیاں انسانی غذا کا اہم جزو ہیں۔ ان میں وہ تمام غذائی اجزاء موجود ہوتے ہیں جو بہت سی دوسری خوردنی اجناس میں موجود نہیں ہوتے۔ لہٰذا یہ انسانی جسم کو ضروری اجزاء مثلاً حیاتین، نمکیات اور طاقت کے ضروری حرارے مہیا کرتی ہیں۔ پیاز کا شمار قدیم ترین سبزیوں میں ہوتا ہے۔ پیاز خون کی شریانوں میں جمع ہونے والی چربی کو تحلیل کرتا ہے اور انسانوں کو دل کے مہلک امراض سے محفوظ رکھتا ہے۔ پیاز میں معدنی نمکیات وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ گرمیوں کے موسم میں اس کا استعمال انسان کو گرمی کے نقصان دہ اثرات سے بچائے رکھتا ہے۔ پاکستان میں یہ سارا سال ملتا رہتا ہے۔ معتدل اور خشک موسم پیاز کی زیادہ پیداوار کیلئے موزوں ہے۔ پیاز کی نرسری پر کورے کا بہت کم اثر ہوتا ہے لہٰذا پودوں کی کھیت میں منتقلی دسمبر جنوری میں کردی جاتی ہے۔ پھُلکارہ قسم پنجاب اور سندھ میں اُ گائی جاتی ہے۔ اس کی پیداوار 200 تا 250 من فی ایکڑ ہے۔ اس کا رنگ قدرے گلابی، چھلکا موٹا اور پانی کی مقدار 90 فیصد سے زیادہ ہے اس لئے لمبے عرصہ تک سٹوریج کے لئے بہتر ہے۔ پنجاب میں اس کی کاشت کا دورانیہ کافی طویل ہے۔
پیاز کی کامیاب کاشت Payaz ki kamyab kasht

یہ موسم بہار اور خزاں کی فصل کے لئے نہایت موزوں قسم ہے۔ ڈارک ریڈ (Dark Red) قسم پنجاب میں کافی رقبہ پر اُگائی جاتی ہے۔ اس کی پیداواری صلاحیت درمیانی، رنگ گلابی، چھلکا درمیانہ اور سٹوریج کوالٹی بہتر ہے۔ یہ موسم بہار اور خزاں کی فصل کے لئے نہایت موزوں قسم ہے۔ پیاز کی کاشت سے پہلے مٹی پلٹنے والا ہل چلائیں اور بعد میں دو مرتبہ کلٹیویٹر چلا کر زمین کو کھلا چھوڑ دیں۔ وتر آنے پر زمین کو ہل چلاکر سہاگہ سے نرم اور ہموار کرکے چھوڑ دیا جائے تاکہ جڑی بوٹیاں اُگ آئیں۔ جڑی بوٹیاں اگنے کے بعد دوبارہ ہل چلا کر زمین کو کھلا چھوڑ دیا جائے۔ اس سے ایک تو جڑی بوٹیوں کی تلفی ہوجائے گی اور دوسرا دھوپ لگنے سے زمین سے کئی بیماریوں کے جراثیم بھی ختم ہوجائیں گے۔ کیمیائی کھادوں کی مقدار کا تعین کرنے سے پہلے زمین کا تجزیہ کروانا چاہیے۔ اگر زمین کا تجزیہ نہ کروایا جا سکے تو اوسط زرخیز زمین کیلئے کھادوں میں نائٹروجن 35، فاسفورس 35، پوٹاش 25کلوگرام بوقت بوائی یا ڈیڑھ بوری ڈی اے پی + ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ یا چار بوری ایس ایس پی + آدھی بوری یوریا + ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ یا دو بوری نائٹروجن + ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ، پنیری کی منتقلی کے ایک ماہ بعد آدھی بوری یوریا یا ایک بوری امونیم سلفیٹ، آدھی بوری یوریا یا ایک بوری امونیم سلفیٹ، پونی بوری نائٹروفاس اور پیاز بنتے وقت ایک بوری امونیم سلفیٹ یا آدھی بوری یوریا، ایک بوری امونیم سلفیٹ یا آدھی بوری یوریا، پونی بوری نائٹروفاس مقدار فی ایکڑ ڈالیں۔ پنیری کو کھیت سے وتر حالت میں اس طرح اکھاڑا جائے کہ اس کی جڑیں بالکل نہ ٹوٹیں۔ پودے کھیلیوں کے دونوں طرف 10 سینٹی میٹر کے فاصلے پر لگائیں۔ بعد میں کھیت کو پانی لگا دیا جائے

پیاز کی خزاں اور بہار کی فصلوں میں انواع و اقسام کی جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں۔ پیاز کی اچھی فصل حاصل کرنے کے لئے جڑی بوٹیوں کی تلفی بہت ضروری ہے۔ پودوں کی منتقلی کے بعد 45 دن کے اندر 2 تا 3 بار گوڈی اور نلائی کرنے سے جڑی بوٹیوں کا تدارک کیا جاسکتا ہے۔ پہلے تین پانی 7 یا 8 دن کے وقفے سے لگائیں۔ اس کے بعد آبپاشی کا وقفہ بڑھایا جا سکتا ہے۔ ارغوانی جھلساؤ بیماری سے پتوں پر ہلکے جامنی رنگ کے لمبوترے کناروں والے دھبے پڑجاتے ہیں۔ بیج پیدا کرنے والی ڈنڈی گل سڑ جاتی ہے اور پیاز پر سیاہ دھبے بن جاتے ہیں۔ ارغوانی جھلساؤ کی بیماری کے انسداد کیلئے فصلات کا ادل بدل کریں، محکمہ کی سفارش کردہ پھپھوندکش زہر کا 7 سے 10 دن کے وقفہ سے سپرے کریں۔ جڑی بوٹیاں تلف کریں۔ روئیں دار پھپھوندی پتوں اور بیج والے تنوں پر سیاہی مائل روئیں دار دھبوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ اگر موسم سرد، ابر آلود اور ساتھ ساتھ ہلکی بارش ہوتو یہ بیماری شدت اختیار کرجاتی ہے۔ پورے کا پورا کھیت آلو کے پچھیتے جھلساؤ کی طرح جھلساؤ مرجاؤ کا منظر پیش کرتا ہے اور پیداوار میں 60 سے 75 فیصد تک کمی ہوجاتی ہے۔ روئیں دار پھپھوندی کے انسداد کیلئے فصلات کا ہیر پھیر کریں اور محکمہ کی سفارش کردہ پھپھوند کش زہر کا سپرے کریں۔ منہ سڑی کے حملہ کی وجہ سے ابتدائی طور پر پتوں کے نوکدار کناروں پر بھورے رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہیں

جو بعد میں سیاہی مائل ہوجاتے ہیں اور آہستہ آہستہ بیماری کناروں سے نچلی طرف بڑھتی ہے۔ منہ سڑی کے انسداد کیلئے جڑی بوٹیوں کو تلف کریں اور محکمہ کی سفارش کردہ پھپھوندکش زہر کا سپرے کریں۔ پیاز کی کنگی بیماری پتوں پر ابھرے ہوئے دھبوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ یہ دھبے پہلے سفید بعد میں زرد رنگ کے ہوجاتے ہیں۔ یہ دھبے بے ترتیب اور منتشر اور پتے کی دونوں طرف ہوتے ہیں۔ شدید حملے کی صورت میں پتے مُرجھا جاتے ہیں جس سے پیداوار پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ پیاز کی کنگی بیماری کے انسداد کیلئے فصلات کا ادل بدل کریں اور محکمہ کی سفارش کردہ پھپھوند کش زہر کا سپرے کریں۔ پیاز کا تھرپس کیڑا جسامت چھوٹی، شکل زیرہ نما اور رنگ میں بھورا ہوتا ہے۔ بالغ لمبوترے پیلے یا بھورے رنگ کے ہوتے ہیں۔ بالغ نر بے پر ہوتے ہیں لیکن مادہ کے پر لمبے نوکیلے ہوتے ہیں جس کے پچھلے کناروں پر جھالر نمبر بال ہوتے ہوتے ہیں

۔ تھرپس پودے کے پتوں کی درمیانی کونپلوں میں موجود ہوتا ہے اس کے بالغ اور بچے دونوں وہاں سے رس چوس کر نقصان کرتے ہیں اور حملہ شدہ پودوں کے پتے چڑ مڑ ہوجاتے ہیں اور آہستہ آہستہ کالے ہوجاتے ہیں۔ پیاز کے تھرپس کے انسداد کیلئے پودوں کو سوکا نہ آنے دیں کیونکہ خشک موسمی حالات میں اس کا حملہ شدت اختیار کرجاتا ہے۔ فصل کو گوڈی کریں۔ پیاز کی سنڈی یا امریکن سنڈی کی شناخت،پروانہ زردی مائل بھورا جبکہ سنڈی سبزی مائل اور جسم پر لمبے رخ دھاریاں ہوتی ہیں۔ یہ کیڑا پیاز کے علاوہ ٹماٹر، مٹر، مرچوں اور کئی دوسری سبزیوں اور فصلوں پر بھی حملہ کرتا ہے۔ اس کی سنڈی پیاز کی بیج والی فصل میں پھولوں کے گچھوں کو کھا کر نقصان پہنچاتی ہے جس کی وجہ سے بیج کی فصل کو سخت نقصان پہنچتا ہے۔ اس کے انسداد کیلئے روشنی کے پھندے لگا کر پروانوں کو تلف کریں۔

(تحریر: نوید عصمت کاہلوں، اسسٹنٹ ڈائریکٹر زرعی اطلاعات) 

پیاز کی خوراکی و ادویاتی اہمیت :

پیاز کی تاثیر گرم درجہ اول اور خشک درجہ دوم میں ہے۔ یہ خون کی شریانوں میں فالتو کولیسٹرول کو تحلیل کرکے دل ے امراض سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوتاہے۔ یہ نظامِ ہضم کی رطوبتوں میں اضافہ کر کے بھوگ بڑھاتاہے۔  یض و پیشاب آور ہونے کے ساتھ ساتھ جراثیم کش خصوصیات بھی رکھتا ہے۔ ہاضم طعام ہونے کے ساتھ ساتھ دافع، بلغم بھی کھتاہے۔ نیز قوت باہ میں تحریک پید اکرتاہے ۔ نزلہ زکام ، ہیضہ کے امراض میں مفید ثابت ہوتاہے۔ خون کی کمی کا علاج ہے۔ کثیر استعمال سے ریاح غیلظ پیدا کرتاہے۔ہوا سو گرام پیاز میں 60 حرارے توانائی 10 گرام نشاستہ ، کیلشیم و فاسفورس تیس تیس ملی گرام، اس میں وٹامن بی اور سی کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ فصل کس حد تک منافع بخش ہے؟ اس کا شمار درمیانی اور کم منافع بخش فصلوں پرہوتاہے۔ اگر جدید دوغلی اقسام کاشت کرکے بھر پور پیداوار حاصل کی جائے تو پیاز ایک منا فع بخش فصل ہے۔ جیسا کہ حالیہ سالوں کے دوران بھارت کو ترجیحی ملک قرار دیاجا چکاہے اور ہماری مارکیٹ میں بھارتی پیاز کی مسلسل یلغان ہوتی رہتی ہے۔ ان حالات میں پیاز کی فصل زیادہ منا فع بخش نہیں رہی۔
payaz ki kasht in pakistan پاکستان میں پیاز کی کاشت

فصلی ترتیب:

وسطی پنجاب میں یہ فصل مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے۔

پیاز ( دسمبر جنوری)۔ چاول (جون)۔ گندم ( نومبر)
پیاز ( فروری)۔ کدو کریلا (جون)۔ مٹر ( اکتوبر)
پیاز ( فروری) ۔ بھنڈی (جون) ۔ گوبھی ( اگتوبر)
پیاز + مرچ ( فروری)۔ چاول (جولائی) ۔ گندم ( نومبر)
پیاز + کپاس( فروری)۔ پیاز + مرچ(اگلے سال فروری)
پیاز گڈی( اگست)۔ گندم(نومبر دسمبر) ۔ چاول ( جون)
پیاز اگیتا( اکتوبر) ۔ ٹماٹر (جنوری فروری)۔ مولی جولائی)
کیسی زمین میں کاشت کی جائے؟
پیاز میرا و ہلکی میرا زمین میں بہتر پیداوار دیتاہے۔ کلراٹھی اور ریتلی زمین میں اس کی پیداوار کم ہوتی ہے۔ یہ کم گہری جڑوں والی فصل ہے۔ اس لئے زمین زیادہ گہرائی تک تیار نہ کی جائے۔ لیزر لیولر کی مدد سے ہموار شدہ زمین میں روٹا ویٹر چلانے کے بعد رجر کی مدد سے کھیلیاں بنائی جائیں۔ یکساں سائز کی کھیلیوں میں نہ صرف آبی استعمال کی کفا۔ یت ہوتی ہے۔ بلکہ ساری فصل (Uniform) پیداہوتی ہے

کاشت کے علاقے:

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو پیاز چین میں سب سے زیادہ اگایا جاتاہے۔ پیاز کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان اگرچہ دنیا میں پانچویں نمبر پرہے۔ لیکن فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے جنوبی کوریا پہلے اور پاکستان 75 ویں نمبر پر ہے جس سے ظاہر ہے کہ فی ایکڑ پیدا وار کے لحاط سے بہت پیچھے ہے۔ حالیہ سالوں کے دوان پاکستان میں پیاز تین لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کاشت کیا جارہاہے۔ جس سے کم و پیش تین لاکھ ٹن پیداوار حاصل ہوئی۔ کم و پیش پورے پنجاب میں اگایا جاتاہے۔ لیکن ملتان، بہاولپور اور لیہ میں زیادہ کاشت ہوتا ہے۔

آب و ہوا اور اگاؤ:

معتدل اور خشک آب و ہوا میں بہتر پیداوار دیتاہے۔ یہ سردی اور کورابرداشت کرسکتاہے لیکن گرم موسم میں متاثر ہوتا ہے۔ پیا زکوا گاؤ کے لئے کم از کم 3 تا 5 اوسطاً 10 تا 15 اور زیادہ 32 تا 35 درجہ سینٹی گریڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا عمومی اگاؤ 70 تا 90 فیصد ہوتاہے۔ معتدل خشک آب و ہوا میں اسے بیماری نہیں لگتی ۔ اگر مارچ میں فضائی نمی زیاد ہ ہوجائے تو بیماری (روئیں دار پھپوندی) کا شدید حملہ ہوسکتاہے۔

اقسام اور بیج کی دستیابی:

پنجاب میں عام طوپر چھوٹے (10 تا 12 گھنٹوں والے) دنوں میں پیاز بنا نے والی کھلے عام اختلاط کرنے والی (Open polinated) اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔ چھوٹے دنوں والی دوغلی اقسام بھی کاشت کی جاسکتی ہیں۔ پنجاب میں لمبے (14 تا 15 گھنٹوں والے) دنوں میں پیاز بنانے والی اقسام کاشت نہیں کی جاسکتیں ۔ کھلے عام اختلاط کرنے والی مقامی اقسام میں پھلکارہ ، ڈارک ریڈ، سوات۔1 دیسی سُر خ وغیرہ شامل ہیں۔ مقامی طور پر تیار شدہ بیج نا کافی ہوتاہے۔ اس لئے پنجاب میں دیسی اقسام کا بیشتر بیج انڈیا سے اور دوغلی اقسام کا امریکہ اور دیگر مما لک سے درآمد کیا جاتاہے۔

ان میں سے اہم اقسام کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

پھلکارہ:

یہ قسم پنجاب اور سندھ میں اگائی جاتی ہے۔اس کی پیداوار ی صلاحیت کافی زیادہ (200 تا 250 من) فی ایکڑ تک ہوتی ہے ۔رنگ قدرے گلابی، چھلکا موٹا، سٹوریج کولٹی بہترہے۔ یہ قسم اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہو چھوٹے اور بڑ۔ ے دنوں میں پیاز بنا سکتی ہے۔ اسی وجہ سے پنجاب میں اسکی کا شت کا دورانیہ کافی طویل ہے۔

دیسی سرخ اور دیسی سفید:

دیسی سرخ قسم پنجاب میں بکثرت اگائی جاتی ہے۔اس کی پیداواری صلاحیت درمیانی، رنگ گلابی، چھلکا د درمیانہ۔ سٹوریج کوالٹی بہترین ، Short day ، لیکن دیسی سفیدسفید کی سٹوریج کوالٹی کم ، پنجاب میں اس کی پیداوار دیسی سرخ کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ دیسی سفید کی مانگ بھی کم ہے۔ فیصل آباد اگیتی یہ قسم پنجاب میں اگائی جاتی ہے۔ اس کی پیداوار زیادہ ( 200 تا 250 من، رنگ گلابی ، چھلکا درمیانہ ، سٹوریج کوالٹی بہترین ،Short day پودا ہے۔

سوات:

یہ قسم زیادہ تر سرحد (پختونخواہ) میں اگائی جاتی ہے۔ لیکن پنجاب میں کامیاب ہے ۔ اس کی پیداوار زیادہ، رنگ ہلکا۔ گلابی، چھلکا موٹا، اس کی سٹوریج کوالٹی بھی کافی بہتر ہے۔

دوغلی اقسام:

جدید کاشتکاری میں دوغلی اقسام زیادہ اہمیت حاصل کر چکی ہیں۔ پیاز کی مقامی اقسام میں سٹور کیے جانے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے لیکن ان کی پیداوار ی صلاحیت کم ہوتی ہے۔کم پیداوار کی وجہ سے دیسی اقسام ملکی ضرورت پوری نہیں کر سکتیں ۔ پیاز کے پیشہ ور کا شتکار صرف دوغلی اقسام ہی کاشت کرتے ہیں۔ پیاز کی کاشت کا تجربہ نہ رکھنے والے کاشتکاروں کو چاہئے کہ دوغلی اقسام کا شت کرنے سے پہلے قسم کی پوری پوری چھان بین کرلیں ۔ صرف اپنے علاقے اور ماحول سے مناسبت رکھنے والی اقسام ہی کاشت کریں۔ حالیہ دوغلی اقسام میں ایس پی ریڈ، ریڈ بیوٹی، سیلون، ریڈ کمانڈر، ریڈ پرنس، ریڈڈائمنڈ، روزیٹا، ریڈبون، رائل ریڈ اور تکی وغیرہ شامل ہیں۔ ان اقسام کا بیج کافی مہنگا ہوتاہے۔ حالیہ سالوں کے دوران ایک کلوگرام ہائی برڈ بیج 10 تا 25 ہزار روپے میں فرورخت ہو رہاہے۔ پنجاب کی مارکیٹ میں ہلکے سرخ رنگ والے پیاز کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے ریڈ بیوٹی اور روز یٹا جیسے جامنی سرخ رنگت والے پیاز کی ڈیمانڈ کم ہوتی ہے۔ سفید رنگت والے پیاز کی ڈیمانڈ کراچی کی مارکیٹ میں زیادہ ہوتی ہے۔ایسی دوغلی اقسام جن کے پیاز نصف کلو گرام یا اس سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں وہ بلوچستان کی وادیوں میں کاشت کیے جاتے ہیں۔ یہ لمبے دنوں والی اقسام ہیں۔ یہ اقسام پنجاب کے بیشتر علاقوں میں پیاز نہیں بناتیں۔ اس اقسام کو زیادہ عرصہ کے لئے سٹور نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے درمیانے سائز کے پیاز پیدا کرنے والی اقسام کو ترجیح دی جاتی ہے۔ چند اہم حالیہ دوغلی اقسام کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

ریڈ کمانڈ:

ریڈ کمانڈ کی پیداواری صلاحیت 500 تا 600 من فی ایکڑ تک ریکارڈ کی جا چکی ہے۔ اس کا سائز درمیانہ و بڑا و رنگت پر کشش گلابی ، پھولداری (Peduncle) نکالے بغیر پیاز بناتاہے۔ اسی وجہ سے ان اقسام کو پیداواری صلاحیت دیسی اقسام کے مقابلے میں زیادہ وہوتی ہے۔

روزیٹا:

اس کی پیداواری صلاحیت بھی 500 من فی ایکڑ تک ہے۔ لیکن اس کا سائزدرمیانہ رنگت ہلکی گلابی ، پھولداری نکا۔ لے بغیرپیاز بناتاہے۔

ریڈبیوٹی:

اس قسم کی پیداواری صلاحیت ریڈ کمانڈر اور روزیٹا سے کم نہیں ہے لیکن گہرے سرخ اور جامنی رنگت کی وجہ سے مار۔ کیٹ میں یہ پیاز درمیانی قیمت پر فروخت ہوتاہے۔ پیاز بننے کے دوران ہلکی سی پھولداری بھی نکال لینا ہے۔ مثالی کاشتکاری کے لئے صرف دوغلی اقسام کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

شرح بیج:

اقسام کی نوعیت اور اوقاتِ کاشت کی مناسبت سے اس کی شرح بیج میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ بیج کی روئیدگی عموماً ایک سال تک ہی بہتر رہتی ہے۔ ایک سال بعد اس کی روئیدگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس لئے صرف تازہ بیج کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ ایک گرام میں پیاز کے تقریباً تین سو بیج آتے ہیں۔ پیاز کے ایک ہزار بیجوں کا وزن عموماً 4 تا 5 گرام ہوسکتا ہے۔ بہتر ٹیکنالوجی کی بدولت اگر سارے بیج اگ کر منتقلی کے لئے تیار ہوجائیں تو اڑھائی لاکھ پیازوں کے لئے صرف ایک تا سوا کلو گرام بیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف حالات میں مندرجہ ذیل شرح بیج استعمال کی جاسکتی ہے۔

موسمی کاشت:

اکتو بر کاشتہ موسمی فصل کے لئے 99 فیصد اگاؤ والا ایک کلو گرام ہائبر دیج دو تا تین مرلے جگہ پرکاشت کیا جاسکتا ہے۔ دیسی اقسام پھلکارہ یا نصرپوری کا (60 تا 70 فیصد اگاؤ) 2کلو گرام تین تا چار مرلے رقبہ پر کیاریاں بنا کر کاشت کیا جائے۔

نرسری کی اگیتی کاشت:

پھلکارہ یا دیسی اقسام کی جولائی کا شتہ فصل کیلئے تین کلوگرام بیج استعمال کیاجائے۔ دیسی اقسام کا بیج تین مرلے رقبہ پر کیاریاں بنا کر کاشت کیا جائے تو ایک ایکڑ کی صحت مند نرسری حاصل ہوتی ہے۔

چھوٹے پیاز کی اگیتی کاشت:

پیاز کی سائز کی مناسبت سے ایک ایکڑ میں سات تا دس من چھوٹے پیاز (Sets) استعما ل ہوتے ہیں۔

بیج والی فصل:

بیج والی فصل کاشت کرنے کے لئے درمانہ سائز (40 تا 50 گرام) کے 18 تا 20 من پیاز کی ضرورت ہوتی ہے

نرسری کی تیاری:

باریک تیاری کردہ پوری طرح خشک اور ہموار شدہ چار مرلے زمین میں چھوٹی چھوٹی (ایک میٹر چوڑی اور دو میٹر لمبی) کیاریوں میں چھٹہ کرکے کاشت کیا جاتا ہے چھٹے کی صورت میں اگر زیادہ گھنی نرسری اگ آئے تو نہ صرف اس پر بیماری کا حملہ زیادہ ہوت اہے بلکہ کمزور نرسری سے چلنے والی فصل میں بہت سے پودے مر جاتے ہیں اور پیاز کی بھر پور پیداوار نہیں ملتی۔ اس لئے پیاز کی نرسری زیادہ گھنی کاشت نہ کی جائے۔ چھٹے سے کاشتہ فصل کا کافی زیادہ بیج کیڑے چراکر لے جاسکتے ہیں۔ اس لئے چھٹہ کی بجائے 3تا4 انچ کے فاصلے پر قطاروں میں نرسری کاشت کی جاسکتی ہے۔ خصوصاً چھوٹے پیمانے پر کاشت یا زیادہ اگیتی کاشت کی صورت میں قطاروں میں نر سری کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

پیاز کو اگاؤ کے لئے زیادہ نمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے اگاؤ مکمل ہونے تک روزانہ فوارے کی مدد سے آبپاشی کریں۔ اگاؤ کے بعد نرسری کو ہلکی آبپاشی کی جائے۔ اگیتی کاشت کی صورت میں نمی برقرار رکھنے کے لئے اس پر پرالی یا سر کنڈ ا وغیرہ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اگر زمین ہلکی میرا ہوتو فورے سے پانی ڈالنے کے بجائے ہلکی آبپاشی بھی کی جاسکتی ہے۔ بیج اٹھانے والے کیڑے کے خاتمہ کیلئے نرسر ی کے گرد اگرد کو نفیڈار کے 2 فیصد آبی محلول کی سپرے کو پیکس پاوڈر کا دھوڑا کیا جاسکتاہے۔ نرسری کا اگاؤ مکمل ہونے کے بعد اس پر بیماری کے خلاف دو تا تین مرتبہ خطرہ کش زہریں مثلاً ایمی سٹار، کیبریو ٹاپ ، ریڈومل گولڈ یا سکسس سپرے کی جائیں۔ اکتوبر میں کاشتہ 35تا 45 دن میں منتقلی کے قابل ہوجاتی ہے۔ لیٹ (نومبر) کاشتہ نرسری دو ماہ میں تیار ہوجاتی ہے۔ زیادہ اگیتی نرسری کو منتقل کرنے سے ایک ہفتہ قبل پانی بند کردیا جائے تاکہ سخت جان ہو جائے۔ اکھاڑنے کے دوران زمین میں وتر موجود ہونا چاہئے تاکہ اکھاڑنے میں سہولت رہے۔ اگر نرسری پھپھوندکش زہر ٹاپسن ایم کے دو فیصد آبی محلول میں ڈبو کر منتقل کی جائے تو ابتدائی بیماری سے محفوظ رہتی ہے۔ بہتر یہی ہے نرسری اکھاڑنے کے بعد اسی دن منتقل کردیا جائے۔ اگرچہ بلوچستان اور جنوبی مغربی پنجاب کے کچھ علاقوں میں براہ راست بیج سے بھی پیاز اگایا جاتا ہے۔ لیکن پنجاب میں زیادہ تر پیاز نرسر ی منتقل کرکے کاشت کیا جاتاہے۔ لیہ اور تھل ایریا کی آبپاش زمینوں میں کھیلیوں کے کناروں پر چوکے کی مدد سے وسیع پیمانے پر پیاز کی کامیاب کاشت کے امکانا ت موجود ہیں ۔ پیاز کی نرسری منتقل کرنے کا طریقہ ہائے کاشت کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

کیاریوں میں کاشت:

میرا اور ہلکی میرا زمینوں میں اور جہاں پانی کے نکاس کا اچھا انتظام ہو وہاں پیاز کیاریوں میں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔ کیاریوں میں نرسری منتقل کرتے وقت اقسام کی مناسبت سے قطاروں کا باہمی فاصلہ 6 تا 9 انچ اور پودوں تین تا چار انچ ہونا چاہئے۔ گویا ہموار زمین میں 6x4 یا 8x3 انچ کے حساب سے ایک ایکڑ میں کم از کم دو لاکھ پیاز لگائے جا۔ ئیں توبھر پور پید ا وار حاصل ہوسکتی ہے۔

کھیلیوں پر کاشت:

بھاری میرا اور سخت زمینوں میں پیاز کی کاشت کیاریوں پر نہ کی جائے۔ بلکہ کھیلیاں بنا کر ان کے کناروں پر منتقل کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ نرسری کو زیادہ گہرانہیں دبایا جائے تو پیاز کا سائز چھوٹا رہ جاتاہے۔چھے سے آٹھ ہفتے کی نرسری کھیلیوں کے کناروں پر منتقل کی جاتی ہے۔ سوا دو دو فٹ کی کھیلیوں کے دونوں کناروں پر منتقل کرتے وقت پودوں کا فاصلہ دو تین انچ رکھاجائے ۔

چھوٹے پیازوں (Sets) کی کاشت:

نئی ٹیکنالوجی کی بدولت پیاز سے نفع کمانے کے لئے دوسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں پھلکارہ یا نصر پوری کا 3 کلو بیج چھ تا آٹھ مرلے پر نرسری کاشت کریں۔ اتنی سردی میں پیاز کا اگاؤ متاثر ہوتاہے۔ چنانچہ بہتر اگاؤ کے لئے اس پر پلاسٹک شیٹ استعمال کریں۔ پانچ ملی میٹر موٹائی کے قدرے گول کئے گئے سریے کیاریو ں پر گاڑنے کے بعد اس پر سفید ( شفاف) پلاسٹک شیٹ ڈالی جائے۔ اگاؤ مکمل ہونے پر شیٹ اتار دی جائے۔ اگر نرسری مارچ میں کا۔ شت کی جائے تو شیٹ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مئی کے آخر تک اس جگہ کھڑی نرسری سے چھوٹے چھوٹے پیاز تیار ہوجاتے ہیں۔ مئی میں اس سے بننے والے چھوٹے چھوٹے (مٹر کے دانے جتنے موٹے یا صرف اتنے موٹے کہ ایک کلو میں 600 عدد آجائیں) پیاز کھاڑ لئے جائیں۔ ایک ایکڑ میں سات آٹھ من چھوٹے پیاز (Sets) استعمال ہوتے ہیں۔ ہوادار بوریوں یا ٹوکریوں میں ڈال کر ان کو تین ماہ تک ٹھنڈی جگہ پر سٹور کر لیں۔ مون سون کے دوران یعنی جولائی کے آخر یا اگست کے شروع ان کو 75 سینٹی میٹر کی کھالیوں کے دونوں طرف دو تین انچ کے فاصلہ پر کاشت کردیں اور ایک ایکڑ میں ڈیڑھ تا دو لاکھ پیاز کاشت کیے جاسکتے ہیں۔ واضح رہے کے کھالیوں میں منتقلی کی بجائے کھالیوں کو پانی لگانے کے فوراً بعد پیاز کی گنڈیاں منتقل کی جائیں۔ لہذا منتقلی کے ایک دن بعد اس پر ڈو آل گولڈ کا اعتشاریہ آٹھ فیصد آبی محلول سپرے کیا جائے۔ یہ فصل پیاز کی قلت کے دوران یعنی نومبر میں بطور سبز پیاز او ر دسمبر میں بطور خشک تیار ہوجاتی ہے۔ اس فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھنا اور پوٹاش ڈالنا بے حد ضروری امور میں سے ہے۔

بہت اگیتی کاشت کرنے کا طریقہ:

دوسراطریقہ یہ ہے کہ پھلکارہ جو لائی کے آخر میں چھ انچ اونچی ، تین مربع فٹ کی پٹٹریوں پر تین تین انچ کے فاصلے پر لکیریں لگا کر کاشت کیاجائے۔ کاشت کے فوراً بعد اسے پرالی یا سر کنڈا وغیرہ سے ڈھانپ دیا جائے۔ فوارے سے روزانہ ہلکی آبپاشی کرتے ہوئے اس کا اگاؤ مکمل کیا جائے۔ جب اگنا شروع ہوجائے تو دن کے وقت شدید دھوپ سے بچانے کے لئے کیاریوں پر پرالی یا سر کنڈا کی سر کی ڈال دی جائے اور روزانہ شام کو اتار دیاجائے۔ نرسری کے بہتر اگاؤ کے لئے کم و بیش دس دن تک یہ عمل بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دس دن بعد سایہ ہٹا دیاجائے۔ اگر مسلسل زیادہ دنوں تک پرالی یا سرکنڈا اگے ہوئے پیاز پر پڑارہے تو اسے مرجھاؤ کی بیماری (Damping off) لگ جاتی ہے۔ اگاؤ کے بعد پہلے ایک ماہ کے دوران اس پر بیماری کے خلاف کم از کم دو مرتبہ ریڈومل گولڈ یا متبادل زہر کا سپر ے ضروری ہے۔ یہ نرسری ستمبر کے دوران کیاریوں میں یا کھالیوں کے کنارے منتقل کردی جائے۔ یہ پیاز قلت کے دنوں میں دسمبر میں مارکیٹ میں آتاہے اور او نچے ریٹ پر بکتا ہے۔

مخلوط کاشت کا طریقہ:

ستمبر اکتوبر یا فروری میں وسیع پیمانے پر مخلوط کاشت کی صورت میں کماد پٹس پیاز بہت نفع بخش ثابت ہوسکتی ہے۔ اڑ۔ ھائی فٹ کے فاصلہ پر کھینیاں بناکر سمبر کے آخر میں کھالیوں میں کماد اور کھالیوں کے کناروں پر پیاز کاشت کردیا جائے۔ فروری مارچ کاشتہ کماد میں پیاز کاشت کرنے کا طریقہ یہ ہے۔ کہ دسمبر میں اڑھائی تا تین فٹ کے فاصلے پر کھلیاں بناکر پیاز کاشت کردیا جائے ۔ اسے فروری تک جڑی بوٹیوں سے اچھی طرح صاف رکھا جائے۔ فروری کے دوران اس کی کھالیوں میں کماد کاشت کردیا جائے ۔ جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کے لئے 800 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے ڈوآل گولڈ سپر ے کی جاسکتی ہے۔ کماد کے علاوہ مرچ ، تمباکو ، ٹماٹر، بھنڈی توری، کپاس اور دیگر کئی فصلو۔ ں کے ساتھ اس کی مخلوط کاشت کی جاسکتی ہے۔

آبپاشی:

نرسری منتقل کرنے کے بعد دسمبر سے اپریل تک پیاز کو زمین اور آب و ہو کی مناسبت سے چھ سے آٹھ مرتبہ پانی لگانے کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ منتقلی کے بعد پہلی دو آبپاشیاں ایک ہفتے کے وقفے سے کی جائیں۔ فصل اگر کھالیوں پر کاشت کی گئی ہوتو پانی کسی بھی سٹیج پر ان کے اوپر نہیں چڑھنا چاہئے۔ فصل کو کسی بھی مرحلے پر بھر پور آبپاشی سے نقصان ہوسکتاہے۔ دسمبر جنوری کے دوران منتقل شدہ پیاز کو اگر فروری کے دوران سوکا (Water Stress) لگ جائے تو کنارے نکال سکتاہے۔ اس لئے کسی بھی مرحلے پر پانی کا سوکا نہیں لگنا چاہئے۔ منتقلی سے چند یو م پہلے پانی روک کر نرسری کو سخت جان بنا لیا جائے۔ تو منتقلی کے بعد اچھی نشوونما کرتی ہے۔

وقتِ کاشت اور منتقلی:

وسطی پنجاب میں بیشتر فصل اکتوبر میں کاشت کی جاتی ہے۔ وسط اکتوبر سے وسط نومبر کے دوران کاشتہ نرسری کو دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں منتقل کیاجاتاہے۔ اکتوبر میں بوئی گئی نرسری منتقل کرنے کا بہترین وقت وسط دسمبر تا آخر دسمبر ہی ہے۔ لیکن ہمارے کاشتکاری اپنے اپنے کاشتی حالات کی مناسبت سے جنوری سے مارچ تک اس کی منتقلی کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ جو کہ دوست نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ پیاز کو ماہ دسمبر کے دوران ہی منتقل کیاجائے۔ اگر اکاد کا پودوں پر گنارے توڑدیے جائیں تو پیداوار میں زیادہ کمی واقع نہیں ہوتی ۔ تاہم دسمبر میں منتقل کردہ پیاز کی پیدا وار فروری میں منتقل کردہ پیاز کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔

وقتِ کاشت کے نئے افق:

حالیہ سالوں کے دوران پنجاب میں پیاز کو مختلف طریقوں سے کاشت کیاجانے لگاہے۔ اس لئے اس کے اوقاتِ کاشت بھی مختلف ہوچکے ہیں۔

زیادہ اگیتی کاشت:

جدید ٹیکنالوجی کے مطابق پنجاب میں پھلکا رہ پیاز کی کاشت جولائی اگست میں کی جاسکتی ہے۔ اسے ستمبر کے شروع میں منتقل کیاجاتاہے۔ اس موسم کی نرسری بیماری (Damping off) سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ نرسری منتقل کرنے کے بعد اس فصل پر جڑی بوٹیوں کا حملہ بھی زیادہ شدت کے ساتھ ہوتاہے۔

چھوٹے پیازوں کی کاشت:

چھوٹے پیاز (Sets) حاصل کرنے کے لئے پلاسٹک شیٹ ڈال کر دسمبر جنوری میں بھی نرسری کاشت کی جاسکتی ہے۔ مئی جون میں چھوٹے پیاز اکھاڑ لئے جاتے ہیں۔ دو ماہ تک ان کو ٹھنڈی اور ہو ادار جگہ پر سٹور کیاجاتاہے۔ یہ فصل وسط اگست کے دوران منتقل کی جاتی ہے۔ اور دسمبر جنوری میں تیار ہوجاتی ہے۔

پیاز کے گٹارے (Peduncle) نکلنا:

اگر نرسری دسمبر کے دوران اگائی جائے اور اس کی منتقلی فروری کے دوران کی جائے تو گٹارے نہیں نکلتے ۔ لیکن اتنی لیٹ نرسری منتقلی کرنے کی وجہ سے پیاز کی پیداوار کم ہوجاتی ہے۔ گٹارے نکلنے کا انحصار اقسام کی بجائے آب و ہو ا پر ہوتا ہے۔ اگر اگیتی منتقلی کی جائے تو گٹارے زیادہ نکلتے ہیں۔ اکتوبر کاشتہ نرسری کو دسمبر جنوری میں ( آٹھ ہفتے کی نرسری کو) منتقل کیا جائے تو پیاز نسارو نہیں ہوتا۔ منتقلی کے بعد بڑھوتری کے دوران کم و بیش ایک ماہ تک درجہ حرار۔ ت مسلسل 4 سینٹی گریڈ یا اس سے کم رہے تو آٹھ دس فیصد پودوں پر بھولداری یا گٹارے نکل سکتے ہیں۔ اگردسمبر جنوری میں بھی درجہ حرارت 6 سینٹی گریڈ سے زیادہ ہی بر قرار رہے تو گٹارے نہیں نکلیں گے۔ عام طور پر وسط جنوری کے بعد درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوجاتاہے۔ چنانچہ وسط جنوری کے بعد کی جائے تو بھی گٹارے کم نکلتے ہیں۔

کھادیں اور خوراکی اجزا:

زمین کی قدرتی زرخیزی ، وقتِ کاشت ، اقسام کی نوعیت ، طریقہ کاشت ، ذریقہ آبپاشی کی نوعیت، گوڈیوں کی تعداد، نامیاتی مادے کی مقدار ااور زمینی ساخت جیسے امور کے تغیرات کی مناسبت سے کھادوں کی مقدار میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ نارمل موسم میں ایک ایکڑ سے دو سومن پیاز پیدا کرنے کے لئے فاسفورس کے مقابلے میں نائٹروجن اور اور پوٹاش کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بیج والی فصل کو نائٹروجن کو مقابلے میں فاسفورس اور پوٹاش والی کھادیں زیادہ ڈالی جائیں۔

کتنی کھاد ڈالی جائے؟

بیشتر حالات میں کم از کم 25-23-32 کلوگرام فی ایکڑ نائٹروجن ، فاسفورس اور پوٹاش ڈالنے کی سفارس کی جاتی ہے ۔ کھاد کی یہ مقدار ڈی اے پی ، ایک یوریا اور ایک ایس او پی سے پوری کی جاسکتی ہے۔ دوغلی اقسام کی خوارکی ضررویات بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ درمیانی اور کمزور زمینوں میں دوغلی اقسام کو 50-50-54 کلوگرام فی ایکڑ نائٹرو۔ جن، فاسفورس اور پوٹاش ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ کھاد کی یہ مقدار دو بوری ڈی اے پی ،دوبوریا اور 5 بوریا ایس اوپی یا ان کے متبادل کھادوں سے پوری کی جاسکتی ہے۔

کھاد کب ڈالی جائے؟

ایک تہائی نائٹرجن، تمام فاسفورس اور نصف پوٹاش بوقتِ کاشت ڈالی جائے ۔ بقیہ نائٹروجن میں سے ایک تہائی منتقلی کے 25 تا 40 دن کے اند ر اندر آبپاشی کے ساتھ ڈالیں۔ بقیہ نائٹروجن اور پوٹاش منتقلی کے 45تا60 دن کے اندر اندر آبپاشی کے ساتھ ڈالیں۔ منتقلی کے بعد ہر قسم کی کھاد ہمیشہ اوص خشک ہونے پر ڈالی جائے۔ اسکو کیلشئم کی بہت زیادہ مقدار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یوریا استعمال کرنے کے بجائے کیلشیم امونیم نائٹریٹ کھاد اس کیلئے زیادہ مفیدثابت ہوئی ہے۔ پیاز کاشت کرنے والے کاشتکاروں کی رائے یہ ہے کہ اسے بیشتر کھاد منتقل کر تے وقت ہی ڈالی جائے اور منتقلی کے بعد کم سے کم کھاد ڈالی جائے تو بیماری سے پاک رہتی ہے۔

اضافی مرکبات:

جب پیاز کی فصل پچاس ساٹھ دن کی ہوجائے تو کیلشیم امونیم نائٹریٹ کھاد اور ہیو مک ایسڈ ملا کر فرٹیگیشن کے طریقے سے دیے جائیں۔ کلر اٹھی زمین میں نومبر دسمبر میں منتقل شدہ فصل سے بہتر پیدا وار لینے کرنے کے لئے فروری یا مار۔ چ کے دوران 5 کلوگرام ہیومک ایسڈ یا 15 کلو گرام فی ایکڑ US-20 ایک بوری کیلشیم امونیم نائٹریٹ کے ساتھ ملا کر آبپاشی کے ساتھ دیاجائے۔ اگر پھپھوند کش زہروں کے ساتھ ملا کر امائنو ایسڈ بھی استعمال کئے جائیں تو اس کی مثالی فصل پید ا کی جاسکتی ہے۔ جس علاقے میں بار بار پیاز کے بعد پیاز ہی کاشت کیا جاتاہو وہاں نرسری منتقل کرنے کے ڈیڑھ تا دوماہ بعد چھوٹے خوراکی اجزا کا مرکب (مائکرو پاور یا اس کے متبادل) سپرے کرنے سے نہ صرف چھو۔ ٹے خوراکی اجزا کی کمی دور ہوجاتی ہے۔ بلکہ پیاز زیادہ عرصہ تک سبز حالت میں رہتاہے۔ اور اس کا سائز بڑا ہوجاتا ہے۔

پیاز کی بیماریاں اور ان کا انسداد :

نرسری کو پثر مردگی (Damping off) ،منتقل شدہ پیاز کو روئیں دار پھپھوندی اور بیج والی فصل کو گردن کی سڑاندیا پرپل بلاچ (Purpliblotch) اور جھلساؤ کی بیماریاں زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ پیاز کو مختلف مراحل پر بیماریوں سے بچانے کے لئے مندر جہ ذیل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔

رسری:

گرم موسم میں کاشتہ نرسری کو نوخیز پودوں کی پثر مردگی (Damping off) کی بیماری نقصان پہنچاتی ہے۔ اس بیماری میں پیاز کے پودے اگنے کے بعد جلدی (دو ہفتے کے اندر اندر) ہی مر جاتے ہیں۔اس سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ اگیتی نرسری کاشت کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ نرسری پر سبز شیٹ کی مدد سے سائے کا انتظام کیا جائے ۔ پھپھوند کش زہر ( ٹاپسن ایم ڈائناسٹی) بیج کو لگا کر کاشت کیا جائے تواس بیماری کی وجہ سے کم سے کم نقصان ہوتاہے۔ نرسری مکمل ہونے کے بعد روئیں دار پھپوندی کا حملہ بھی ہوسکتاہے اس سے بچاؤ کے لئے ایگرو۔ بیٹ یا ریڈومل گولڈ ، ڈائی تین بار بدل بدل کر سپرے کریں۔

نرسری سے منتقل شدہ فصل نرسری سے منتقل شدہ فصل پر روئیں دار پھپوندی کا حملہ زیادہ ہوتاہے۔ اس بیماری میں پیاز کے پرانے پتوں کی نوکیں پیلی ہونے کے بعد خشک ہونے لگتی ہیں۔ اس بیماری سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ منتقل کرنے کے ایک ماہ بعد انٹرا کال یا ریڈومل گولڈ دو مرتبہ سپرے کی جائے۔ بیماری کی کم شدد کی صورت میں کرزیٹ 300 گرم اور ٹاپسن ایم 100 گرام یا ان کے متبادل زہریں سو لٹر پانی میں ملا کر دو تاتین مرتبہ سپرے کی جاسکتی ہیں۔ جب یہ بیماری زیادہ شدد اختیارکرتی ہے تو سڑاند یا پرپل بلاچ کا حملہ بھی ہوجاتاہے۔ اس بیماری میں پیاز کے پتوں پر بڑے بڑے داغ پڑ جاتے ہیں اور پیاز کے پتے ٹوٹ کر گرجاتے ہیں۔ پیاز کو ڈائپنی اور سڑاند سے منتقل کرنے کے 50تا90 دنوں کے دوران ایزوکسی سڑوبن پلس ڈائی فینا کو نازول ( ایی سٹارٹاپ) یا ان کے متبادل زہر سپرے کی جاسکتی ہے۔

بیج والی فصل:

بیج والی فصل کو گردن والی سڑاندیا پرپل بلاچ زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔

تھرپس:

تھرپس کا بالغ کیڑا بہت چھوٹا سا ، سیاہ یا بھورے رنگ کا سلنڈر نمایا زیرے کی طرح کا ہوتاہے۔ ستمبر سے لے کر نومبر تک منتقل کیے گئے اگیتے پیاز کو یہ کیڑا نقصان نہیں پہنچاتا۔ لیکن جنوری فروری میں منتقل کی جانے والی فصل کو فروری مارچ سے لے کر فصل کے پکنے (اپریل مئی) تک نقصان پہنچاتا ہے۔ وسط مارچ سے لے کر وسط اپریل کے درمیان اس کا شدید حملہ ہوتاہے۔ اتنا چھوٹا سا ہوتاہے کہ کھلی دھوپ یا زیادہ ورشنی میں بغور مشاہد ہ کرنے سے ہی نظر آتاہے۔ بچے پیلے رنگ کے ہوتے ہیں،۔ بچے اور بالغ سب نئی کونپلوں میں چھپ کرپیاز کا رس چوستے ہیں۔ ان کے شدید حملہ کی صورت میں نئے پتوں کے کچھے سے بن جاتے ہیں۔ پتوں کی شکل خراب ہوجاتی ہے۔اور نیچے کی طرف جھک جاتے ہیں۔ حملے کی وجہ سے پیاز میں گٹھیاں اور بیج نہیں بنتا ۔ تھرپس کی حملہ شدہ فصل پر بیماری کا حملہ بھی زیادہ ہوسکتاہے ۔

تھرپس کا انسداد:

اس کے ابتد ائی حملے کی صورت میں امیڈا یا کونفیڈار اور فپرونل الگ الگ یا دونوں زہریں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہیں شدید حملہ کی صورت میں بہتر نتائج کے لئے ایک ہفتے میں دو مرتبہ سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ شدید حملہ کی صورت میں کلورفن پائر (ایسیفیٹ) 250 گرام یا ٹریسر 40 ملی لٹر یا لیسینٹا 25 گرام یا ان کے متبادل زہریں 100 لٹر پانی میں ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

موثر زہر پاشی کی سفارش:

دسمبر جنوری میں کاشتہ پیاز کو فروری اور مارچ کے دوران جبکہ فروری مارچ کے دوران کاشتہ پیاز کو اپریل کے دوران تین سے چار مرتبہ زہر پاشی کی ضرورت درپیش ہو سکتی ہے۔ کیڑے مار زہر کے ساتھ پھپھوندکش زہریں بھی ملا ئی جا۔ سکتی ہیں۔ کونپلوں کے اندر تک زہر پہنچا نا کافی دشوار ااور محنت طلب عمل ہو سکتاہے۔ ہالوکون ٹوزل لگاکر تسلی بخش طر۔یقے سے پیاز کی کونپلوں میں سپرے کیے بغیر تھرپس کا پورا انسداد ممکن نہیں ہوتا۔

جڑی بوٹیاں او ر ان کا انسداد:

وقتِ کاشت اور علاقے کی مناسبت سے گرمی اور سردی والی جڑی بوٹیاں نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ دسمبر جنوری میں منتقل کیے گئے پیاز کو جنگلی ہالوں، جنگلی پالک، جنگلی چولائی، قلفہ، ہاتھو، دمبی سٹی اور کرنڈ وغیرہ زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ ستمبر اکتوبر میں منتقل شدہ پیاز کو اٹ سٹ، ڈیلا لمب گھاس، سوانکی، مدھانہ، بھوئیں اور کرنڈ وغیرہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ ان کی تلفی کے لئے اگاؤ سے پہلے یا اور اگاؤ کے بعد مناسب جڑی بوٹی مار زہر سپرے کرنے کے ایک ماہ بعد کمازکم ایک مرتبہ گوڈی کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ جڑی بوٹیوں کے گوناں گوں مسائل کی مناسبت سے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔

اگاؤ سے قبل سپرے:

اگاؤ سے قبل پینڈی میتھالین یا ایس میٹو لا کوریا ڈوآل گولڈ استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس دونوں میں سے کونسی زہر سپرے کی جائے؟ وقتِ کاشت اور جڑی بوٹیوں کی نوعیت کی مناسبت سے اس امرکی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

اگیتی فصل کو جڑی بوٹیوں سے کیسے بچایا جائے؟

جولائی سے لے کر اکتوبر کے درمیان منتقل کیے جانے والے اگیتے پیاز کو ڈیلا، سوانکی، تاندلہ اور اٹ سٹ جیسی جڑی بوٹیاں زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ ان سب کی تلفی کے لئے ڈوآل گولڈ 700 ملی لٹر فی ایکڑکے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر نرسری منتقل کرنے کے ایک دن بعد (مناسب انتدائی تربیت لینے کے بعد) پیاز سمیت تمام کھیت میں سپرے کردی جائے۔ اگر ڈیلے اور تاندلے کا مسئلہ نہ ہو اور صرف اٹ سٹ اور سوانکی کا مسئلہ ہو تو اگیتی فصل میں بھی ڈوآل گولڈ کی بجائے پینڈی میتھالین (1000 ملی لٹر) استعمال کی جاسکتی ہے۔اگیتی فصل پر ڈوآل گولڈ کا منفی اثر زیادہ ہوتاہے۔ زہروں کی اثر سے بچ جانے والی اکاد کا جڑی بوٹیوں کی تلفی اور جڑوں کی ہواداری کیلئے سپرے کرنے کے ایک ماہ بعد گوڈی بھی کردی جائے۔ اگر زہر کا اثر ختم ہونے کے بعد کچھ جڑی بوٹیاں دوبارہ نکل آئیں تو حسب ضرو۔ رت دوسری گوڈی کا بھی بندبست کیا جائے۔

موسمی فصل کو جڑی بوٹیوں سے کیسے بچایا جائے؟

سردیوں کی فصل پر ڈوآل گولڈ کا منفی اثر کم ہوتاہے۔ اس لئے دسمبر یاجنوری میں منتقل کی جانے والی فصل کے لئے ڈو آل گولڈ یا پینڈی میتھالین میں سے کوئی ایک استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس موسم میں گرمیوں کے مقابلے میں دونوں زہروں کی زیادہ مقدار ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ چنانچہ ڈوآل گولڈ 800 ملی لٹر یا پینڈی میتھالین 1200 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر نرسری منتقل کرنے کے ایک دن بعد سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے ۔جڑوں کی ہواداری اور بچ جانے والی جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے ضروری ہے کہ سپرے کرنے کے ڈیڑھ ماہ بعد ایک مرتبہ گوڈی بھی کر دی جائے ۔

Sets والی فصل کو جڑی بوٹیوں سے کیسے بچایا جائے؟

اگست میں چھوٹے پیازوں (Sets) والی فصل منتقل کرنے سے پہلے آبپاشی کردی جائے اوت چھوٹے پیاش لگا۔ دیے جائیں۔ آبپاشی کے ایک دن بعد گیلے وتر میں زمینی ساخت کی مناسبت سے ڈوآل گولڈ 700 تا 800 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر سپرے کر دی جائے۔ اگر کھیلیوں کی چونیوں پر چوڑے پتوں والی جری بوٹیا۔ ں بچ گئی ہو تو اس سرے کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر 300 ملی لٹر آکسی فلورفن ( آکسیجن یا ٹT کسی فن) سولٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہے۔ سپرے کرنے کے ایک تا ڈیڑھ ماہ بعد ایک مرتبہ گوڈی بھی کردی جائے تو یہ فصل ہر قسم کی جڑی بوٹیوں سے بچ جاتی ہے۔

اگاؤکے بعد سپرے:

اگاؤ کے بعدآکسیجن فلورفن (کسی فن)، فینوکساپراپ یا پیوکساڈین (ایگزیل) وغیرہ استعمال کی جاسکتی ہیں۔ ان زہروں کے استعمال کرنے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ اگر منتقلی کے وقت کوئی بھی زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو اور پیاز میں چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیاں اگ چکی ہوں تو آکسی فلورفن (آکسی فن) گرمیوں میں 300 ملی لٹر اور سردیوں میں 400 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے منتقل کرنے کے بعد تین تا چار ہفتے کے اند ر اندر سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگر صرف گھاس خاندان کی جڑی بوٹیوں کا مسئلہ ہوتو پیوکساڈین (ایگزیل) 300 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگر پیاز میں ہر قسم کی جڑی بوٹیاں اگ چکی ہوں تو مزکورہ دونوں اقسام کی زہریں ملاکر سپرے کرنے کے بجائے ہفتے بھر کا وقفہ کرکے الگ الگ سپرے کی جاسکتی ہیں۔

ڈیلا کیسے ختم کیا جائے؟

گرمیوں میں کاشتہ پیاز کوڈیلا شدید نقصان پہنچاتاہے۔ اگنے کے بعد زہروں کی مدد سے پیاز میں سے ڈیلے کو پوری طرح کنٹرول کرنا کافی مشکل ہے۔ڈیلا کنڑول کرنے کے لئے ہیلو سلفیوران یا گلائی فوسیٹ مندرجہ ذیل حالات میں استعما ل کی جاسکتی ہیں۔

ہیلو سلفیوران:

اگر پیاز کاشت کرنے سے پہلے سابقہ فصل مکئی کاشت کی گئی ہو اور اس مکئی میں ہیلو سلفیوران 15 تا 20 گرام فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی گئی ہو تو بیشتر ڈیلا گٹھیوں سمیت تلف ہوجاتاہے۔ مئی بعد اگست سے دسمبر تک کسی وقت پیاز کاشت کیا جائے تو ڈیلے سے بچا رہتاہے۔

گلائی فوسیٹ:

کھیت کو ڈیلے سے پاک کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کاشت سے 40 دن پہلے خالی کھیت میں ڈیلا اگاکر اس پر راونڈاپ یا گلائی گوسیٹ ڈیڑھ تا دولٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جائے ۔ سپرے کاعمل تین ہفتے تک ڈیلا اگانے کے بعد وتر حالت میں کیا جائے ۔ سپرے شدہ کھیت دو سے تین ہفتے تک وتر قائم رکھا جائے ۔ ڈیلے کی زیرِ زمین گٹھیون تک بہتر سرایت پزیری کے لئے وتر قائم رکھنا ضروری ہے۔ سپرے کرنے کے ایک تا ڈیڑھ مہینہ بعد زمین تیار کرکے ڈیلے سے مبرا (Deela Free) کھیت میں پیاز کاشت کیے جاسکتے ہیں۔

پیاز پر زہریں کس حد تک محفوظ ہیں؟

گرمی کاشتہ پیاز پر زہریں کم محفوظ ہیں لیکن سردیوں کی فصل ان کے منفی اثرات سے کافی حد تک محفوظ رہتی ہے۔

پینڈی میتھالین:

مجموعی طور پر پینڈی میتھالین زہر ڈوآ ل گولڈ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے۔ اٹ سٹ اور سوانکی ، مدھانہ جیسی موسمی جڑی بوٹیاں اگنے کا امکان ہوتو پینڈی میتھالین کو ترجیح دی جائے۔ یہ زہر گرمیوں اور سردیوں میں کاشتہ پیاز پر یکسا۔ ں محفوظ ہے۔ تاہم چھوٹی عمر کی یا دو دو پتوں والی نرسری سے کاشتہ فصل متاثر ہوتی ہے۔ یہ زہر پیاز کی نرسری کی بجائی کے وقت استعمال نہیں کی جاسکتی ۔

آکسی فلورفن:

پیاز میں اٹ سٹ اور سوانکی، مدھانہ جیسی موسمی جڑی بوٹیاں اگنے کا امکان ہو تو اکسی فلورفن (آکسی فن،T آکسیجن یا ہدف) گرمیوں میں 300 اور سردیوں میں 400 ملی لٹر پینڈی میتھالین کے متبادل کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے نرسری منتقل کرنے کے ایک دن بعد سپرے کی جائے تو محفوظ ثابت ہوتی ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ زہر نہ صر ف پینڈی میتھالین کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے بلکہ جڑی بوٹیوں کے گاؤ کے بعد بھی سپرے کی جاسکتی ہے۔ بیز بیج والی فصل اور چھوٹے پیازوں (Sets) والی فصل پر یہ زہر کافی حد تک محفوظ ثابت ہو تی ہے۔ لیکن گرم موسم میں منتقل شدہ پیاز پر نئی کونپلیں نکلنے کے بعد سپرے کی جائے۔ تو پتوں کو معمولی نقصا۔ ن پہنچاتی ہے۔ پیاز کی نرسری میں اس زہر کا محتاط استعمال ابتدائی تربیت کے بعد ہی کیا جاسکتاہے۔

ایس میٹولا کلور:

اگر پیاز میں ڈیلا یا تاندلہ اگنے کا قوی امکان ہو تو اضطرارا ڈوآل گولڈ یا ایس میٹو لا کلور سپرے کی جاسکتی ہے۔ یہ زہر پیاز کی ابتدائی نشوونما کوروکتی ہے۔ دسمبر جنوری میں منتقل شدہ فصل کے مقابلے میں گرمیوں والی فصل اس زہر سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔اسی طر ح چھوٹی عمرکی یا دودو پتوں والی نرسری کے مقابلے میں چار چار پتوں پر مشتمل زیادہ عمر کی نرسری کم متاثر ہوتی ہے۔

برداشت اور سنبھال :

وسطی پنجاب کی جنوری میں منتقل کی گئی فصل مئی میں برداشت کی جاتی ہے۔ جبکہ جولائی کاشتہ خزاں کی فصل نومبر دسمبر میں تیارہوجاتی ہے۔ جب پیاز کے تنے خشک ہو کر گرجائیں تو اسے اکھاڑ لیا جائے ۔ اگر تنے گرنے سے پہلے ہی اکھاڑ لیا جائے تو کٹائی کے بعد نئی پھوٹ نکل آتی ہے جو پیاز کا معیار خراب کرتی ہے۔ فصل کو اچھی طرح پکا کر اکھاڑ ا جائے تو پھوٹتانہیں اور پیاز کو زیادہ عرصہ کے لئے سٹور کیاجاسکتاہے۔ پیاز اکھاڑنے کے بعد ایک دو دن کے لئے سایہ دار جگہ میں خشک کیا جائے پھر اس کے پتوں کی کٹائی کی جائے ۔ اکھاڑ نے کے بعد اسی روز کٹائی نہ کی جائے۔سخت اور بھاری میرا زمین میں پیاز اکھاڑنے کا عمل درمیانے یا کم وتر میں کھرپے کی مدد سے کیا جائے۔ اسی طرح گیلے وتر میں اکھاڑ ا گیا پیاز جلدی خراب ہوسکتاہے۔ کٹائی کے بعد چار انچ یا اس سے چھوٹی تہہ کی صورت میں سایہ دار جگہ پر سٹور کیا جائے ۔

پیداوار:

مجموعی طور پر پاکستان کی اوسط پید اوار بہت کم ہے ۔ دیسی پیاز کی عمومی پیداوار ڈیڑھ تا دو من او ر بیج کی 3تا4 من فی ایکڑ تک ہوجاتی ہے۔ لیکن بہتر کاشت اور ساز گارموسمی حالات کی بدولت 300 من پیاز یا 5تا7 من بیج فی ایکڑ حاصل کیا جاتا سکتا ہے۔ پیشہ ورانہ طریقے سے کاشت کیا جائے تو دوغلی اقسام کا پیاز 500 تا 600 من فی ایکڑ پیداوار دے سکتاہے۔ حالیہ سالوں کے دوران دیسی اقسام کی کاشت بہت محدود ہوتی جارہی ہے ۔وسیع پیمانے پر کاشت کرنے کے لئے بیشتر کاشتکار صرف دوغلی اقسام ہی کاشت کرتے ہیں۔

مارکیٹنگ ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ:

پاکستان کی پیداوار میں پنجاب کی فصل کا حصہ تقریباً25 فیصد ہے ۔ مارکیٹ میں وسیع پنجاب کے پیاز کی آمد اپریل مئی سے جون تک جاری رہتی ہے اور اکثر اس فصل کا ریٹ کم ہوتاہے اور کافی اچھے ریٹ پر بکتاہے ۔ بلو چستان کی فصل کی حصہ 25 فیصد سے زیادہ ہے۔ بلو چستان میں فروری مارچ میں براہ راست پیاز ہوتے ہیں جو ستمبر سے لیکر نومبر تک مارکیٹ کو کنڑول کرتاہے۔سند ھ کی پیداوار کا حصہ تقریباً 40 فیصدہے۔ سندھ میں اگست میں منتقل کرتے ہیں جودسمبر میں تیار ہوجاتاہے۔ یہ فصل دسمبر سے لیکر مارچ تک مارکیٹ کو کنڑول کرتی ہے۔ وسط نومبر اور دسمبر کے درمیان پیاز کی قلت ہوجایا کر تی تھی لیکن بھارت سے درآمد کی وجہ سے حالیہ سالوں کے دوران اس عرصہ میں بھی پیاز کی قلت نہیں رہی۔ گویا پنجاب کے کاشتکار بہت اگیتی کاشت یا چھوٹے پیازوں والی کاشت سے بھی منافع نہیں کماسکیں گے۔

پیداواری مسائل:

اس کے اہم پیداواری مسائل میں جڑی بوٹیاں، بیماری (پرپل بلاچ) موسم وآب و ہو اکی ناسازگاری، غیر مستحکم مارکیٹ یا قیمتوں کا اتار چڑھاؤ ، کھادوں کا غیر متناسب اور سٹوریج کی سہولتوں کا فقدان وغیرہ شامل ہیں۔

پیاز کا بیج بنانا:

وسطی پنجاب میں پیاز کا بیج بنانے میں بیماری ( پرپل بلاچ ) کافی بڑی روکاوٹ ہے۔ کسی سال موسم ساز گار رہے۔ تو پیاز کا بیج کافی مقدار (5 تا 7 من فی ایکڑ) میں پیدا ہوجاتاہے۔ بیج پیدا کرنے کیلئے شروع دسمبر میں پیاز لگانے کی سفارش کی جاتی ہے۔ بجائی سے قبل تیز چاقویا چھری سے چوٹی سے پیاز کا ٹ کر بویا جائے تو اگاؤ بہتر ہوجاتاہے۔ نومبر کاشتہ اگیتی فصل پر بیماری (پرپل بلاچ) کا حملہ زیادہ شدت کے ساتھ ہوتاہے۔ لیکن دسمبر کاشتہ پیاز پر یہ بیماری کم آتی ہے۔ بیج والی فصل کاشت کرنے کے لئے علاقے کی مناسبت سے مقامی اقسام کی ضرورت ہوتی ہے۔ وسطی پنجاب می سوات۔1 کے مقابلے میں پھلکارہ اور دیسی سرخ زیادہ کامیابی کے ساتھ بیج پید ا کرسکتے ہیں۔ بیج کی بھر ۔ پور پیداوار حاصل کرنے کے لئے ایک ایکڑ میں درمیانہ سائز (40 تا 50 گرام) کے 18 تا 20 من یا 20 تا 22 ہزار پیاز ہونے ضروری ہیں۔بیج والے پیاز کاشت کرنے کے لئے لائنوں کا فاصلہ دو تا اڑھائی فٹ اور پودوں کا نو دس انچ رکھاجائے ۔ جب پیاز کی بیج والی ڈنڈیاں گنارے پوری طرح نکل آئیں تو پیاز کو مٹی چڑھادی جائے ۔ اگر مٹی نہ چڑھائی جائے تو پیاز کے گنارے پھولداری کے بوجھ سے گر سکتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے ڈوآل ۔ گولڈ 800 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر کاشت کرنے کے ایک دن بعد پیاز سمیت تمام کھیت میں سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگر منتقلی کے وقت کوئی بھی زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو اور پیاز میں چوڑے پتو ں والی جڑی بو۔ ٹیاں اگ چکی ہوں تو آکسی فلورفن(آکسی فن) 400 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے منتقل کرنے کے بعد تین تا چار ہفتے کے اند ر اندر سپرے کی جاسکتی ہے۔ کیڑے (تھرپس) سے بچانے کے لئے موزوں زہروں کا استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔ بیج والی فصل پر پرپل بلاچ کی بیماری شدید حملہ کرسکتی ہے۔ یہ بیماری بیج والی ڈنڈی ( Penduncle) پر ہلکے جامنی رنگ کے دھبوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور پیاز کی فصل بیج پیدا نہیں کرسکتی ۔ اس بیماری کے لئے انتیس درجے سینٹی گریڈ اور نمی کا تناسب پچاس فیصد انتہائی سازگارہے۔ایسا موسم اکثر مارچ کے مہینے میں ہوتا ہے۔ اس سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ کاشت کرتے وقت پیاز کو ٹاپسن ایم کے تین فیصد محلول میں ڈبو کر لگایا جائے۔ فروری اور مار چ کے دوران جب اس بیماری کے شدید حملے کی توقع ہوتی ہے۔ اس وقت کر زیٹ 300 گرام اور ٹاپسن ایم 100گرام دونوں زہریں سو لٹر پانی میں ملا کرہفتے ہفتے کے وقفہ سے تین سے پانچ مرتبہ سپرے کی جائے تو بیج والی فصل اس بیماری سے کافی حد تک بچھی رہتی ہے۔

معیاری پیاز کا حصول کیسے ممکن ہے؟

معیاری پیداوارحاصل کرنے کے لیے مناسب بیج کا انتخاب اولین شرط ہے۔ اگر بیج کا درست انتخاب نہ ہو تو بیشتر پیاز گنارے نکال کر ضائع ہوسکتاہے۔ مثلاً لمبے دنوں میں پیاز گنارے والی اقسام جو سوات، کوئٹہ اور مری سائیڈ میں لگائی جاتی ہیں وہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں لگائی جائے تو وہ پیاز نہیں بنائیں گی ۔ اسی طرح زیادہ عمر کی نرسری بھی مناسب سائز کے پیاز نہیں بناسکتی ۔ زیادہ عمر کی نرسری منتقل کی جائے تو پیاز نسارو ہو سکتاہے ۔ ڈیڑھ ماہ کی نرسری منتقل کردی جائے ۔ علاقے کی مناسبت سے اقسام منتخب کی جائیں۔ زیادہ اگیتا (دسمبر کے شروع میں) منتقل شدہ پھلکارہ پیاز تو یقینی اور پردس فیصد تک نسارو ہوتاہے۔

پیداوری عوامل کا حصہ:

اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں کھادوں و آبپاشی کا حصہ تقریباً 25 فیصد ، زمینی تیاری و بیج یا نرسری و کاشت کا 25 فیصد ،کیڑوں، بیماریوں اور جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کا 25 فیصد ، فصل کی برداشت اور مارکیٹنگ کا 25 فیصد بنتاہے ان اخراجات میں زمین کا ٹھیکہ شامل نہیں ہے۔

پیداواری اخراجات اور آمدن:

موجودہ پیداواری حالات کے دوران ذاتی زمین کی صورت میں پیاز پیدا کرنے کا فی ایکڑ خرچ 66 ہزار (وسطی اور جنوبی پنجاب کے 1 تا 10 ایکڑ والے ایسے کاشتکار جن کو نصف مقدار نہری پانی بھی دستیاب ہو اور بعض ناگزیر اطلاقی اخراجات بھی شامل کریں تو زمینی تیاری و کاشت 10000، بیج ( ہائی برڈ) 10000، کھادیں 20000 ، پانی 3000، گوڈی و جڑی بوٹیوں کی تلفی 5000، کیڑے 1000، بیماری 1000 برداشت 7000، ٹرانسپورٹ 7000، متفرق 2000، کل 66,000) روپے بنتاہے ۔

تعارف
پیاز ایک ایسی سبزی ہے جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ کاشت اور استعمال کی جاتی ہے۔ تمام طبقات زندگی کے لوگ اسے اپنی خوراک میں لازماً شامل کرتے ہیں ۔ یہ سالن کو ذائقہ دار اور خو شبو دار بنا تا ہے اور بطور سلاد بھی استعمال ہو تا ہے۔

اہمیت

payaz-onion-ki-kasht-farming-in-pakistan-urduپیاز میں معدنی اجزاءمثلاً کیلشیم ، لوہا اور فاسفورس کے علاوہ پروٹین اور وٹامن سی بھی پائے جاتے ہیں ۔طبی لحاظ سے بھی اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔اس کے استعمال سے خون میں چر بیلا مادہ کو لیسٹرول جمنے نہیں پاتااور انسان بلڈ پریشر اور دل کے دیگر مہلک امراض سے محفوظ رہتا ہے۔ پاکستان میں پیاز کی کاشت بتدریج بڑھ رہی ہے۔پاکستا ن میں پیاز کی سالا نہ پیداوار تقریباً 1.7 ملین ٹن ہے۔پیاز کی اوسط پیداوار 5.3 ٹن فی ایکڑ ہے۔

آب و ہوا

پیاز کو بڑھوتری کے دوران سرد اور مرطوب آب وہوا کی ضرورت ہو تی ہے۔جس کےلئے درجہ حرارت 13 تک 20 ڈگری سنٹی گریڈ بہتر سمجھا جاتا ہے۔لیکن گنڈھیاں بننے کے عمل کے دوران درجہ حرارت 16 تا25 ڈگر ی سنٹی گریڈاور لمبے دن سازگار ہو تے ہیں۔پاکستان میں چھوٹے دنوں والی اقسام جن کو گنڈھیاں بنانے کے لئے 18تا 20 گھنٹے تک لمبے دن درکار ہو تے ہیں‘کامیابی سے کاشت ہو سکتی ہیں۔درمیانے دنوں والی اقسام جن میں گنڈھیاں بننے کے لئے 13تا14 گھنٹے والے لمبے دنوں کی ضرورت ہو تی ہے‘ بھی کامیاب ہو سکتی ہیں۔جب کہ بہت لمبے دنوں والی اقسام جن کو 16 گھنٹے سے بھی زیادہ لمبے دنوں کی ضرورت ہو تی ہے۔ہمارے موسمی حالات میں بالکل کامیاب نہیں کیو ں کہ ان میں پودوں کے پتے بڑھتے رہتے ہیں اور پیاز بالکل نہیں بنتے ۔لہٰذا ضروری ہے کہ پیاز کی کامیاب کاشت کےلئے موزوں اقسام کا انتخاب کیا جائے۔

پیاز کی اقسام

پیاز کی اقسام کو رنگ،خوشبو،ذخیرہ کرنے اور چھوٹے و درمیانے اور لمبے دنوں میں تیاری ہو نے کے لحاظ سے تقسیم کیا جاسکتا ہے۔پاکستان میں چھوٹے اور درمیانے دنوں والی اقسام کامیاب ہیں۔پیاز کی اقسام سریاب سرخ اور چلتن 89 بلوچستان میں زیادہ رقبہ پر کاشت کی جاتی ہیں ۔پیاز کی سرخ اقسام کھانے میں تیز اور کڑوی ہو تی ہیں اور سفید رنگت والی اقسام کی نسبت زیادہ دیر تک سٹور کی جاسکتی ہیں ۔وہ اقسام جن میں پیاز بڑے جسامت کے ہو تے ہیں زیادہ نمی کی وجہ سے زیادہ دیر تک سٹور نہیں ہو تی ۔درآمد شدہ اقسام ہمارے موسمی حالات میں کامیاب نہیں ہیں۔ملک کے باقی علاقوں میںپیاز کی دیگر اقسام کاشت ہورہی ہے۔صوبہ سندھ میں پیاز کی مشہور قسم پھلکا را زیادہ تر کاشت کی جاتی ہے۔پیاز کی یہ قسم صوبہ پنجاب میں بھی کامیابی سے کاشت ہو رہی ہے۔یہ قسم موسم خزاں کے لئے بہت موزوں ہے۔صوبہ خیبر پختونخوا میں پیاز کی قسم سوات نمبر 1 بہت مقبول ہے۔

شرح بیج

پیاز کی بذریعہ پنیری کاشت کے لئے دو تا تین کلو گرام فی ایکڑ بیج درکارہو تا ہے۔لیکن اچھے اگاﺅ والا بیج ایک کلو گرام فی ایکڑ ہی کافی ہو تا ہے۔ پنیری کے نسبت چھٹے کے ذریعہ پیاز کاشت کرنے کےلئے تین گنا زیادہ بیج درکار ہو تا ہے۔اس طریقہ میں چھ تا نو کلوگرام فی ایکڑ بیج کی ضرورت ہو تی ہے۔چھوٹے پیاز کے ذریعہ کاشت میں 450 سے 500 کلو گرام فی ایکڑ چھوٹا پیاز درکار ہوتا ہے۔ایک ایکڑ میں پودوں کی تعداد ایک لاکھ ساٹھ ہزار کے لگ بھگ ہوتی ہے۔

payaz-onion-ki-kasht-farming-in-pakistan-urdu

وقت کاشت

پاکستان میں پیاز کی پنیری لگانے اور منتقل کرنے کے اوقات کار درج ذیل ہیں:

علاقے                                                   پنیری اگانے کا وقت                     پنیری منتقل کرنے کا وقت

پہاڑی علاقے (صوبہ پنجاب)                      مارچ ، اپریل                               مئی ، جون

                                                            (۱) اکتوبر ، نومبر                        جنوری ، فروری

صوبہ پنجاب                                           (۲) جو لائی (موسم خزاں کی فصل ) اگست ، ستمبر

صوبہ خیبر پختونخواہ (بالائی علا قے)          اکتوبر ۔نومبر                               دسمبر، جنوری

صوبہ سندھ (بالائی)                                  اکتوبر                                        دسمبر، جنوری

صوبہ سندھ (زیرین علاقے)                        جولائی ،اگست                             اگست ، ستمبر

پنیری کی کاشت

ایک ایکڑ رقبہ پر پیاز کاشت کرنے کےلئے چار پانچ مرلے زمین درکار ہو تی ہے۔زمین کو اچھی طرح ہموار کرکے 400 کلو گرام گلی سڑی گوبر کی کھاد ڈالیں اور زمین میں اچھی طرح ملانے کے بعد آبپاشی کریں۔ جب خودرو جڑی بوٹیاں ا±گ آئیں تو دو تین بار ہل چلا کر زمیں تیار کرلیں اور سوا میٹر چوڑی ،اڑھائی میٹر لمبی اور پندرہ سنٹی میٹر اونچی پٹٹریاں بنائیں۔پٹٹریوں کے درمیان 50 سنٹی میٹر چوڑاراستہ رکھیں۔ان پٹٹریوں پر تین تا چار سنٹی میٹر کے فاصلے پر قطاروں میں بیج لگائیں۔بیج کو ریت ،کھیت کی مٹی اور گلی سڑی گو بر کی کھاد کے 3:1:2 کے تناسب سے تیار شدہ آمیزے سے ڈھانپ دیں اور فوارے کے ساتھ احتیاط سے آبپاشی کردیں تاکہ بیج اوپر سے ننگا نہ ہو جائے۔پانی لگانے کے بعد کیاریوں کو پلاسٹک کی شیٹ یا پرالی سے ڈھانپ دیں ۔پلاسٹک کے شیٹ سے ڈھانپنے سے ہر روز پانی نہیں لگانا پڑے گااور زمین میں نمی برقرار رہے گی۔بصورت دیگر ہر روز صبح فوارے سے پانی دیتے رہیں۔بیج اگنے کے بعد پلاسٹک کی شیٹ یا پرالی وغیرہ اتاردیں اور پنیری کو حسب ضرورت پانی لگاتے رہیں۔جڑی بوٹیوں کی تلفی کاعمل بھی جاری رکھیں۔ ٹھنڈے علاقوں میں پیاز کی پنیری پلاسٹک کی چھوٹی ٹنل کے اندر بھی لگائی جا سکتی ہے جس کو رات کے وقت ہوا کی آمدورفت کےلئے کھولا جا سکتا ہے۔پلاسٹک کی ٹنل کے اندر درجہ حرارت باہر کی نسبت زیادہ رہتا ہے جو پودوں کی نشوونما کےلئے ضروری ہے۔کاشت کے تقریباً دس ہفتے بعد پنیری کھیت میں لگانے کے قابل ہو جاتی ہے۔

payaz-onion-ki-kasht-farming-in-pakistan-urdu

طریقہ کاشت

پیاز کو دوطریقوں سے کھیت میں لگا تے ہیں۔

(۱) کھیلیوں میں
(۲) ہموار کھیت میں


کھیلیاں 60 سنٹی میٹر کے فاصلے پر بنائیں اور پودوں کو دس دس سنٹی میٹر کے فاصلے پر کھیلیوں کے دونوں طرف لگائیں۔اس طریقہ کار سے پیاز کی زیادہ پیدوار حاصل ہو تی ہے۔ہموار کھیت میں پیاز کی کاشت 20تا 25 سنٹی میٹر کے فاصلے پر قطاروں میں کریں اور پودے سے پودے کا فاصلہ دس سنٹی میٹر رکھیں۔

زمین کی تیاری اور کھادوں کااستعمال

میرا زمین جس میں پانی کا نکاس اچھا ہو،پیاز کی کاشت کےلئے موزوں ہے۔کاشت سے ایک ماہ پہلے10ٹن فی ایکڑ گوبر کی گلی سڑی کھاد ڈالیں اور ایک دو دفعہ ہل چلاکر زمین میں یکساں طور پر ملادیں ،ہل چلانے کے بعد آبپاشی کردیں۔وترآنے پر دو تین بار ہل چلاکر سہاگہ دے دیں اس عمل سے گوبر کی کھاد بھی اچھی طرح زمین میں مل جائے گی اور شروع میں اُگنے والی جڑی بوٹیاں بھی تلف ہو جائیں گی۔زمین کی تیاری کے وقت کھادوں کا استعمال مناسب مقدار میں کریں۔

زمین کی آخری تیاری کے ساتھ اور کاشت کے وقت زمین میں تین بوری سپرفاسفیٹ اور ایک بوری امونیم سلفیٹ فی ایکڑ ڈالیں ۔فصل کاشت کرنے کے ایک ماہ بعد ایک بوری امونیم سلفیٹ یا آدھی بوری یوریا کھاد فی ایکڑ ڈالیں اور آبپاشی کردیں ۔جب پیاز بننے شروع ہو ں تو مزید ایک بوری امونیم سلفیٹ فی ایکڑ ڈال کر آبپاشی کردیں۔

آبپاشی

زمین کو نرم رکھنے کےلئے ہر ہفتہ آبپاشی کی ضرورت ہو تی ہے۔پہلی تین آبپاشیاں ہفتہ وار کریں پھر اس کے بعد موسمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے آبپاشی کا وقفہ بڑھایا جاسکتاہے۔جب پیاز کی گنڈھیاں بڑی ہو جا ئیں اور پکنے کے قریب ہو ں تو آبپاشی بند کردیں ورنہ پیاز زمین کے اندر گلنا شروع ہو جائے گا۔پکنے پر جتنا پیاز خشک ہو گااتنی ہی زیادہ دیر تک ذخیرہ کرنے کے قابل ہو گا۔

گوڈی

پیاز کی بہتر پیداوار حاصل کرنے کےلئے ضروری ہے کہ جڑی بوٹیوں کی بروقت روک تھام کی جائے اس لئے ضروری ہے کہ جڑی بوٹیوںکی تلفی کے لئے مناسب وقت پر گوڈی کی جائے۔جڑی بوٹیوں کی مکمل تلفی کے لئے چار گوڈیاں درکار ہیں۔جو ماہانہ وقفے سے کریں۔

برداشت اور پیداوار

پیاز کو بہتر طور پر پکنے کےلئے گرم خشک آب وہوا درکار ہوتی ہے۔جب پیاز کی فصل کے پتے 70 فیصد تک گردن کے قریب ایک طرف جھک جائیں تو فصل برداشت کے قابل ہو جاتی ہے۔باقی ماندہ پیاز کے پتوں کو گردن کے قریب ایک طرف جھکادیں۔برداشت شدہ پیاز کو کھیت کے قریب کھلی جگہ پر بکھیر دیں اور جب پتے اچھی طرح خشک ہو جائے تو دو سنٹی میٹر گردن چھوڑ کر پتے کاٹ دیں اور پیاز کو ہموار اور خشک جگہ پر ذخیرہ کرلیں۔ہر آٹھ دس دن بعد الٹ پلٹ کریںاور خراب پیاز ذخیرہ سے نکالتے رہیں۔فصل کی بہتر نگہداشت سے پیاز کی پیداوار 10 تا 12 ٹن فی ایکڑ حاصل کی جاسکتی ہے۔

پیاز کی ذخیرہ کاری

زخیرہ کاری کے لئے ضروری ہے کہ پیاز صحیح طور پر پک جائے۔ذخیرہ کرنے سے پہلے موٹی گردن والے،کٹے ہوئے اور گلے ہوئے خراب پیاز نکال دینے چا ہیے کیو ں کہ اچھے پیاز زیادہ دیر تک ذخیرہ کیے جاسکتے ہیں۔اچھے پیاز کے ساتھ چند گلے سڑے پیاز ذخیرہ کرنے سے اچھے پیاز خراب ہو نے کا بھی خدشہ ہو تا ہے۔بہت بڑے پیاز پانی کے زیادہ تناسب کی وجہ سے زیادہ دیر تک ذخیرہ نہیں ہو تے ۔ان کو منڈی میں فوری طور پر فروخت کرنا دینا چاہیے۔پیاز کو سرد گودام جن کا درجہ حرارت 2تا 4 سینٹی گریڈ کے قریب ہو اور رطوبت 65 فیصد تک ہو تقریباً 6 ماہ تک سٹور کیاجاسکتا ہے۔اگر سرد گودام کی سہولت موجود نہ ہو تو عام سٹور کا ہوادار ہو نا ضروری ہے۔نائیلوں کی جالی دار بوریاں پیاز ذخیرہ کرنے کےلئے موزوں ہو تی ہیں۔اگر ہوادار کمروں میں موٹی جالی کے خانے ایک دوسرے کے اوپر بنائے جائیں اور ان خانوں پر پیاز بکھیر دیا جائے تو ان کو دیر تک ذخیرہ کیاجاسکتا ہے۔اگر عام سٹور میں ایگزاسٹ فین اور بجلی کے پنکھے لگا دئیے جائیں تو پیاز تین چار ماہ تک درست حالت میں رکھے جاسکتے ہے۔

پیاز کے کیڑے مکوڑے اور ان کا تدارک

۱) تھرپس (Thrips)

تھرپس (thirps) ایک چھوٹا سا کیڑا ہے جو پیاز کی فصل پر حملہ کرتا ہے ۔یہ کالے یا پیلے رنگ کا باریک سا کیڑا ہے۔جو غور سے پتوں کی جڑوں میں دیکھنے سے نظر آتا ہے۔جب تھرپس کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو یہ پتوں کے بیرونی (ظاہری) حصوں پر بھی نظر آتے ہیں ۔یہ کیڑا پیاز کے پتے کو پنکچر کر کے اس کا رس چوستا ہے اور خشکگرم مو سم میں پو رے کھیت میں پھیل جاتا ہے۔جہاں بھی پیازکی کاشت ہو تی ہے وہاں یہ کیڑا پایا جاتا ہے۔تھرپس پیاز کی پیداوار کو کم کر دیتا ہے اور اس کی کوالٹی کو بھی خراب کردیتاہے۔

تدارک

  • فصل کے نئے پتوں کا بغور معائنہ کریں تھرپس کی بڑ ی تعداد نئے پتوں کے درمیان میں پائی جاتی ہے۔
  • کھیت میں مختلف جگہوں پر 30 سے 50 پودوں پر تھرپس کی تعدا دمعلوم کریں۔
  • فی پودا اوسط تھرپس کی تعداد معلوم کریں۔
  • اس کو پتوں کے تعداد پر تقسیم کریںتاکہ فی پتہ تھرپس کی اوسط تعداد معلوم ہو جائے۔
  • اگرفی پتہ تھرپس کی تعداد 3 سے زیادہ ہو تو کنٹرول کےلئے زہریلی ادویات کا سپرے کریں۔
  • جب پیاز کی فصل برداشت ہو جائے تو تمام پتوں کو اکٹھاکر کے جلا دیاجائے ۔
  • تھرپس کی روک تھام کیلئے فصل پر ایکٹارا یا میڈا کلو پر پر ڈیا ر پکار ڈ یا کنفیڈار لیبل پر درج ہدایات کے مطابق ہفتے میں ایک بار سپرے کر لینا چاہیے ۔بارش ہو نے کے صورت میں سپرے دوبارہ کروالیں۔

۲) شگو فے کی سنڈی (Budworm)

یہ کیڑا مختلف اوقات میں پیاز کی فصل کو نقصان پہنچا تا ہے۔تخم پیدا کرنے والے پیاز کی فصل پر اس کاحملہ پھول بننے کے دوران شدید ہو تا ہے۔اس کی مادہ پر وانہ پھول پر انڈے دیتی ہے جس سے نکلنے والی سنڈیاں پھول پر خوراک شروع کرتی ہے اور اس زردانوں کو کھاجاتی ہے۔ پھول آہستہ آہستہ خشک ہو نا شروع ہو جاتے ہیں۔ چونکہ یہ کیڑا پھول کے اندر چھپا رہتا ہے۔اس لیے کاشتکار کو اس کے مو جودگی کا پتہ آسانی سے نہیں چلتا۔ایسے مواقع پر سپرے کرنے کا خاطر خواہ فائدہ بھی نہیں ہو تا ۔اس لیے کاشتکار بھائیوں کو چاہیے کہ جب پیاز کا پھول کھلنا شروع ہو تو وقتاً فوقتاً کھیت کے اندر جاکر پیاز کے پھولوں کو کسی سفید چادر یا کاغذ پر چھڑ کیں تو پھول کے اندر موجو د کیڑے گر جا ئیں گے جس سے اس کے موجودگی کا پتہ چل سکے گا۔

انسداد

  • ایمامیکٹن 40 ملی لیٹر فی 10 لیٹر پانی میں ملاکر سپرے کریں۔یا
  • ارینا یا اسیٹا مپرڈ 20 گرام فی 10 لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کریں۔یا
  • رپکارڈ 40 ملی لیٹر فی 10 پانی میں ملا کر سپرے کریں۔یا
  • سٹیوارڈ 20 ملی لیٹر فی 10 لیٹر پانی میں ملا کر فی ایکڑ پر سپرے کریں۔

۳) جو ئیں (Mites)

یہ ایک چھو ٹا،چمکیلا ،سفید کریمی رنگت کا کیڑا ہو تا ہے۔جوکہ0.5تا 1 ملی لیٹر لمبا ہو تاہے ۔یہ گچھوں کی شکل میں پیاز کے زخمی حصے کے نیچے جمع ہو تے ہیں۔جوئیں پیاز کے بیرونی چھلکے کے ذریعہ داخل ہو تی ہیں اور پیاز کو کھا کر خراب کردیتی ہیں ۔جب موسم سرد اور نمدار ہو تو یہ بہت زیادہ نقصان کرتی ہے ۔حملہ شدہ پیاز پست قد اور کمزور ہو تے ہیں اور سٹور میں گل سڑ جاتے ہیں۔

انسداد

  • فصلوں کا ہیر پھیر (Crop rotation) کریں۔
  • فصل کی باقیات کو جلا کر ختم کریں۔
  • خراب گلی سڑی ڈھیرانی کھاد استعمال نہ کریں۔
  • پیاز یا لہسن کے کھیت میں دوبارہ پیاز کاشت نہ کریں۔
  • سردیوں میں آبپاشی کرنے یا خوب بارش ہو نے سے اس کی تعداد کم ہو جاتی ہے۔
  • حفاظتی اقدمات ہی اس کا حل اور علا ج ہے۔
  • نسوارن 10فیصد ڈبلیو پی یا فلیوڈ 500 فیصد پی یا پیراڈ بین 5 فیصد ای سی یا گولڈ سٹار میں سے کو ئی ایک پیکٹ پر دی گئی ہدایات کے مطابق استعمال کریں۔

۴) لیف مائنرز(Leaf Miners)

اس کا شدید حملہ پیاز کے پتوں کو نقصان پہنچا کر اس کی پیداوار کو کم کردیتا ہے۔اس کا بالغ ایک چھوٹا سا سیاہ اور پیلے رنگ کا ہو تا ہے۔اس کی مادہ پتے کو پنکچر کر کے اس کا رس چوستی ہے اور اس کے ٹشو ز میں انڈے دیتی ہے۔اس کے انڈے سے 2تا دنوں میں چھوٹے سفید یا پیلے رنگ کے لاروے نکلتے ہیں اور خوراک شروع کرکے گیلریز بناتے ہیں ۔جو باہر سے صاف نظر آجاتے ہیں ۔لاروے بڑے ہو کر پتوں سے نکلتے ہے اور پتوں کے درمیان یا زمین میں کو ئے (Pupae)بناتے ہیں ۔سال میں اس کی کئی نسلیں پیدا ہو تی ہیں۔

انسداد

  • دوست کیڑے خاص کر بھڑیں اس کا قدرتی انسداد کرتی ہیں۔
  • دوسری میزبان فصلات مثلاً پالک ،سلاد وغیرہ پیاز کے کھیت کے قریب کاشت نہ کر نے سے اس کی تعداد کم کی جاسکتی ہے۔
  • شدید حملے کے صورت میں کنفیڈار 20 فیصد یا موسپلان 20 فیصد یا ایکٹارا یا ٹائمز میں سے کو ئی ایک ڈبے پر دی گی ہدایات کے مطابق سپرے کریں۔

پیاز کی بیماریاں  (Onion Diseases)

۱) ڈاونی ملڈیو     (Downy Mildew)

اس بیماری کے اثرات سب سے پہلے پرانے پتوں پر بھورے سفید یا ارغوانی (Purple) رنگ کے دھبوں کی صورت میں نمودار ہو تے ہیں۔دھبوں کے نیچے بافتوں (Tissues) کا رنگ سبزپیلا ہو جا تا ہے اس کے بعد زرد اورآخر کار پتے مرجاتے ہیں ۔کھیت میں پہلا حملہ پودوں کی مختلف جگہوں پر گروپ کی شکل میں زرد ہو نے کے صورت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔جو چند فٹ سے لے کر کئی فٹ تک پھیلا ہو گا ۔پودوں کے یہ پیلا ہٹ اکثر ہوا کے رخ بھڑتی جاتی ہے۔یہ بیماری ہو اکے زریعہ لگ جاتی ہے۔اور سازگار ماحول میں یعنی درجہ حرارت اور نمی کی مو جودگی میں وبائی شکل اختیار کرلیتی ہے۔اس بیماری کے فطرے (Spores) ہو ا میں ایک جگہ سے دوسرے جگہ منتقل ہو جاتے ہیں۔

انسداد

  • بیماری سے پاک صحت مند پیاز (Bulbs) اور بیج استعمال کریں۔
  • فصلوں کا ہیرے پھیرے کریں ۔اور حملہ شدہ کھیت میں تین سال تک پیاز کاشت نہ کریں۔
  • پیاز ایسی جگہ کاشت کریں۔جہاں ہو چلتی ہو تاکہ پودے جلدی خشک ہو ۔
  • مناسب پھپھوند کش زہر مثلاً ڈائی تھین ایم45- یا ریڈومل گولڈ یا ٹرائی ملٹا کی یا انٹراکول یا مٹالیکسل + منکو زیب کا سپرے کریں۔

(۲)       پرپل بلاچ (Purple Blotch)         
یہ بیماری بھی ایک پھپھوندی (Aeternaria Porri) سے لگتی ہے۔پتوں میں بیضوی شکل کے زعفرانی رنگ کے دھبے نمودار ہوتے ہیں ۔پتوں پر زرد رنگ کی دھاریاں بن جاتی ہیں ۔اس کا حملہ زیادہ تر تخم والی فصل پر ہو تا ہے۔پرپل بلاچ اور لیف بلا ئیٹ کے آثار ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیںاور دونوں کو ایک ہی طریقے سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔زیادہ بارشوں اور زیادہ نمی میں یہ بیماری تیزی سے پھیلتی ہے۔اس کے فطرے (Spore) ہوا کے ذریعہ پھیلتے ہیں۔ جب ڈاو¿نی ملڈیو کا حملہ ہو تا ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس بیماری کا بھی حملہ ہو تا ہے۔یہ بیماری تخم کی پیداوار اور کوالٹی دونوں کو بری طرح متا ثر کرتی ہے۔

انسداد

  • بیماری سے پاک صحت مند پیاز (Bulbs) اور بیج استعمال کریں۔
  • فصلوں کا ہیر پھیر کریں اور حملہ شدہ کھیت میں تین سال تک پیاز کاشت نہ کریں۔
  • پیاز ایسی جگہ کاشت کریں۔جہاں ہوا چلتی ہو تاکہ پودے جلدی خشک ہو ں۔
  • مناسب پھپھوند کش زہر مثلاً ڈائی تھین ایم45- یا ریڈومل گولڈ یا ٹرائی ملٹا کی یا انٹراکول یا مٹالیکسل + منکو زیب کا سپرے کریں۔

۳) بیکٹیریل سافٹ راٹ (Bactrieal Soft Rot)

اس بیماری میں پیاز کے بلب کے اندر ایک سے زیادہ پرت یا چھلکے (Scales) گل سڑ جاتے ہیں۔متاثرہ پرت زردی مائل مگر وقت کے ساتھ ساتھ بھوری رنگ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔متاثرہ پیاز کی گردن یا بالائی حصہ کو اگر دبایا جائے تو نرم محسوس ہو تاہے۔اس بیماری کے جراثیم پتوں یا خم کے ذریعہ داخل ہو تے ہیں۔یہ جراثیم زمین میں موجود ہو تے ہیںاور پانی کے ذریعہ پھیلتے ہیں۔

انسداد

  • جب بلب بننے شروع ہو جا ئیں تو ہلکی آبپاشی کریں تاکہ پانی میں کھڑا نہ ہو اور بلب پانی میں ڈوبے نہ رہیں۔
  • اس وقت برداشت (Harvest) کریں جب اوپری حصہ اچھی طرح پک جائے۔
  • اگر درجہ حرارت زیادہ ہو تو پیاز کو کسی سایہ دار جگہ پر اچھی طرح خشک کریں۔
  • فصلوں کا ہیر پھیر کریں۔

۴)  پیاز کا کیڑا (Maggot)

اس کا بالغ چھوٹا بھورے رنگ کا ہوتا ہے۔جو عام گھریلو مکھی سے چھوٹا ہو تا ہے۔اس کا کیڑا (Larvae) کریمی سفید رنگ کا بغیر پاﺅں کے 10 ملی میٹر لمبا ہو تا ہے۔اس کا بالغ سطح زمین پر نوزائیدہ پودے کے قریب انڈے دیتا ہے،لاروا نوزائیدہ پو دے کے پتوں کو کھانا شروع کردیتے ہیں۔بڑا ہو کر یہ کیڑا زمین کے اندر کو ئے کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ایک سال میں اس کی کئی نسلیں ہو تی ہیں۔

انسداد

  • ایسے کھیتوں میں پیاز کاشت نہ کریں جس میں تازہ نامیاتی کھاد یا ڈھیرانی کھاد موجود ہو۔خوب گلی سڑی ڈھیرانی کھاد استعمال کریں۔
  • فصل کا ہیر پھیر کریں۔
  • زرد سٹکی پھندے (Yellow Sticky Traps) کا استعمال کر کے بالغ کی تعداد کا اندازہ کرلیں۔
  • دانہ دار زہر مثلاً فیوراڈان، لارسبین، ریفری کا استعمال بھی اس کا مو¿ثر انسداد کرتا ہے۔
  • زہریں ہمیشہ زرعی ماہر کے مشورے سے کریں۔

ساگوان کیا ہے؟
ساگ (ٹیکٹونا گرینڈیز) ایک ایسا درخت ہے جس کی سخت لکڑی دنیا کی نمبر لڑکی مان جاتی ہے۔ ساگوان جو کے درختوں کی وہ نسل ہے جو پھولوں والے پودوں کے خاندان لامیسی سے تعلق رکھتی ہے۔  ساگوان کی لکڑ ی مشرق و مغرب میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے. ساگوان کی کچھ شکلیں برمی ساقی ، وسطی صوبہ ساگ (سی پی ساگ) ، نیز ناگپور ٹیک کے نام سے مشہور ہیں۔ گرینڈس ایک بہت بڑا ، تیز دار درخت ہے جو مخلوط لکڑی کے جنگلات میں ہوتا ہے۔ اس کے چھوٹے چھوٹے ، خوشبودار سفید پھول ہیں جو شاخوں کے آخر میں گھنے جھنٹوں (پینلز) میں ترتیب دیئے گئے ہیں۔ یہ پھول دونوں طرح کے تولیدی اعضاء (کامل پھول) پر مشتمل ہیں۔ ساگون کے درختوں کے بڑے ، کاغذی پتے اکثر نچلی سطح پر بالوں والے ہوتے ہیں۔ ساگون کی لکڑی میں چمڑے کی طرح کی بو ہوتی ہے جب اس کی تازہ گھسائی ہوتی ہے اور اس کی استحکام اور پانی کی مزاحمت کے لیے خاص طور پر اس کی قدر ہوتی ہے۔ لکڑی کا استعمال کشتیوں کی عمارت ، بیرونی تعمیر ، پوشاک ، فرنیچر ، نقش و نگار ، موڑ اور لکڑی کے دوسرے چھوٹے چھوٹے منصوبوں کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس لکڑ سے فرنیچر، دروازے، فرش، خاص طور پر کشتیاں اور جہاز وغیرہ بنائے جاتے ہیں. پانی، دھوپ، دیمک، گُھن، گویا کسی بھی طرخ کے حالات میں یہ لکڑ خراب نہیں ہوتی. بعض محققین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اس کی لکڑ دو ہزار سال تک اپنی اصل حالت برقرار رکھتی ہے.

ساگوان کا پودا کتنے سالوں میں فروخت کے قابل ہو سکتا ہے؟

بتایا جا رہا ہے کہ ساگوان کی ہائبرڈ قسم دس سال کی عمر میں بیچنے کے قابل ہو جاتی ہے. دس سال سے پہلے اگر آپ یہ درخت کاٹیں گے تو آپ کو خاطر خواہ منافع نہیں ملے گا. کیونکہ ایک تو آپ کو لکڑ کم حاصل ہو گی اور دوسرے لکڑ کی کوالٹی بھی اتنی اچھی نہیں ہوگی.
اس سے پہلے ساگوان کا درخت 25 سال میں جوان ہوتا تھا. لیکن ساگوان میں عملی تجربہ رکھنے والے حضرات کا دعوی ہے کہ بھارت کے سائنس دانوں نے مختلف تجربات کر کے ساگوان کی ایک ایسی نسل (نیلمبر ساگوان ہائبرڈ) تیار کر لی جو محض 10 سال میں ہی جوان ہو جاتی ہے. اور ساگوان کی یہی قسم ان کے پاس ہے جو بھارت سے منگوائی گئی ہے.

ساگوان کا درخت کہاں کہاں لگایا جا سکتا ہے؟

ساگوان کی حمائیت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ساگوان کی نیلمبر قسم اسلام آباد ،کراچی، گوادر، ٹھٹہ، بدین، پسنی، خیر پور، کشمور، بھمبر، کوٹلی سمیت پنجاب کے تمام اضلاع، سندھ کے تمام اضلاع، خیبر پختونخواہ کےتمام اضلاع حتی کے بلوچستان کے کم گرم اضلاع میں کامیابی سے لگائی جا سکتی ہے. ساگوان میرا زمین میں زیادہ کامیاب ہے. خاص طور پر ایسی میرا زمین جو قدرے ریتلی ساخت کی طرف مائل ہو وہاں یہ درخت زیادہ خوش رہتا ہے کیونکہ یہ درخت اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ پانی اس کی جڑوں کے آس پاس زیادہ دیر کھڑا رہے. یہی وجہ ہے کہ کلر والی زمینیں جہاں پانی کا نکاس کم ہو تا ہے وہاں یہ پودا نہیں لگایا جا سکتا.

پودے سے کتنی لکڑی حاصل ہوتی ہے؟

دس سال کے پودے سے 15سے 25 مکعب فٹ لکڑی حاصل ہو سکتی ہے.

ساگوان کے پودے کہاں سے ملیں گے اور قیمت کیا ہو گی؟

میری معلومات کے مطابق آپ کو ساگوان کے پودے اسلام آباد سے مل سکتے ہیں. فی پودا قیمت 500 روپے بتائی جا رہی ہے.

ایک ایکڑ میں کتنے درخت لگائے جا سکتے ہیں اور خرچ کتنا ہو گا؟

عام طور پر ایک ایکڑ میں 500 درخت لگائے جاتے ہیں. ہر پودا دوسرے پودے سے تقریباََ 9 تا 10 فٹ کے فاصلے پر ہونا چاہیئے. ایک ایکڑ میں 500 سے زیادہ درخت لگانے کی صورت میں درختوں کی موٹائی مناسب نہیں ہوگی.
500 درخت لگانے کے لئے نرسری پر آپ کا خرچہ تقریباََ اڑھائی لاکھ روپے آئے گا

500 درختوں سے کتنی آمدن ہو گی؟

آمدن کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ساگوان کی لکڑ بازار میں کس قیمت پر فروخت ہوتی ہے.
راقم نے شہر فیصل آباد میں ساگوان کا ریٹ معلوم کرنے کے لئے خود مارکیٹ کا دورہ کیا اور لکڑ کے بڑے بڑے سٹوروں سے معلومات حاصل کیں۔ ساگوان کی قیمت کے متعلق جو معلومات حاصل ہوئیں وہ کچھ اس طرح سے ہیں۔
فیصل آباد کی مارکیٹ میں چار قسم کی ساگوان لکڑی فرووخت ہو رہی ہے۔ اور اس کے ریٹ درج ذیل ہیں۔
نمبر 1. برما کی ساگوان قیمت 15 ہزار فی مکعب فٹ
نمبر 2. برونائی کی ساگوان . . . قیمت 9 ہزار 5 سو روپے فی مکعب فٹ
نمبر 3. افریقہ کی ساگوان . . . قیمت 4 ہزار روپے فی مکعب فٹ
نمبر 4. برازیل کی ساگوان . . . قیمت 3 ہزار روپے فی مکعب فٹ
واضح رہے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی تمام ساگوان لکڑ باہر کے ممالک سے آتی ہے. ساگوان کی پہچان رکھنے والے بتاتے ہیں کہ برازیل، افریقہ اور برونائی کی ساگوان میں ساگوان کی خوبیاں نہیں پائی جاتیں یہ محض نام کی ہی ساگوان ہیں. اصل ساگوان کی پہچان یہ ہے کہ جب آپ لکڑی پر ہاتھ پھیریں تو یوں لگتا ہے کہ جیسے اس لکڑی کو سرسوں کے تیل میں بھگو کر خشک کیا گیا ہو.

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مختلف ملکوں سے آنے والی ساگوان کا ریٹ اتنا مختلف کیوں ہے؟

اس کی وجہ ظاہر ہے کہ لکڑ کی کوالٹی ہے. اور لکڑ کی کوالٹی کا دارومدار ساگوان کی نسل اور ہر ملک کی اپنی آب و ہوا پر ہے. پاکستان میں پیدا ہونے والی لکڑ کی کوالٹی کیا ہو گی اور یہ کتنے میں بکے گی؟ اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از قت ہے. زیادہ سے زیادہ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں لگنے والے پودوں کا برما ساگوان سے قریبی تعلق ہے لہذا امید کی جا سکتی ہے کہ پاکستانی ساگوان لکڑ، افریقہ اور برازیل کی ساگوان سے بہتر ہو گی. اور اس کا کم از کم ریٹ چھ سات ہزار سے اوپر جائے گا.
ساگوان کے درختوں سے آمدن کا حساب لگانے کے لئے ہم پاکستانی ساگوان کی تھوک قیمت اگر 5 ہزار روپے فی مکعب فٹ فرض کر لیں تو تو پھر بھی ایک درخت کی 15 مکعب فٹ لکڑی سے 75ہزار کی آمدن ہو گی.
بعض لوگ یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ 10 سال بعد ساگوان کا درخت دو لاکھ میں بکے گا.
اس حساب سے اگر آپ کا ایک درخت 75 ہزار میں بھی بکے تو آپ کے 500 درخت پونے چار کروڑ میں بکیں گے.
پونے چار کروڑ کو سامنے رکھتے ہوئے اگر حساب لگایا جائے تو آپ کی ماہانہ آمدن 3 لاکھ ساڑھے 12 ہزار روپے ہو گی.
واضح رہے کہ ہم نے احتیاطاََ کم سے کم لکڑ اور کم سے کم قیمت کو سامنے رکھتے ہوئے یہ حساب لگایا ہے. آپ کی آمدن اس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے.

یہ درخت کس موسم میں لگایا جا سکتا ہے؟

ساگوان کا درخت موسمِ بہار یعنی فروری مارچ اور اگست ستمبر کے مہینوں میں لگائے جا سکتے ہیں. لیکن بہتر یہی ہے کہ اسے موسم بہار میں لگایا جائے.

پاکستان میں ساگوان کے درخت لگانے سے متعلق ماہرِ جنگلات کیا کہتے ہیں؟ 

راقم نے جنگلات کے شعبہ میں تحقیق کرنے والے ماہرین سے بھی ساگوان کی کاشت کے متعلق رائے لینے کی کوشش کی اور اس سلسلے میں دو الگ الگ ماہرین سے رابطہ کیا گیا.
ماہرین نے بتایا کہ چھانگا مانگا اور فیصل آباد کے گٹ والا پارک میں ساگوان کے درخت لگے ہوئے ہیں جو کہ جوان ہو چکے ہیں. لیکن یہ کتنے سالوں میں جوان ہوئے ہیں اور ان سے کتنی لکڑ حاصل ہو گی اور حاصل ہونے والی لکڑ کی کوالٹی کیا ہوگی؟ اس بارے میں کوئی تحقیق ان کے علم میں نہیں ہے.
دونوں ماہرین نے بتایا کہ پاکستان میں ساگوان کی کاشت پر کوئی بھی تحقیق غالباََ نہیں ہوئی.ان کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان میں ساگوان کی کاشت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں سکتے کیونکہ ساگوان کے درخت کو بڑھنے کے لئے ہوا میں جس قدر نمی چاہئے وہ پاکستان کے ماحول میں نہیں ہے. اس لئے بقول ان کے ساگوان پاکستان میں کاروباری مقاصد کے لئے کامیابی سے اگا نا مشکل ہے. البتہ ماہرین نے ساگوان کی نئی ورائٹی سے متعلق کوئی حتمی رائے دینے سے گریز کیا.

ماہرین کی رائے پر ساگوان کے پودے فراہم کرنے والے کیا کہتے ہیں؟

ساگوان کے پودے فروخت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ روائتی طور پر ساگوان کا درخت پاکستان میں نہیں لگایا جا سکتا تھا لیکن یہ باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں.
وہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ساگوان کی ایک جدید اور ہائبرڈ قسم ہے جسے نیلمبر ساگوان کہتے ہیں. اور یہ نئی قسم پاکستان کے گرم اور کم نمی والے علاقوں میں کامیابی کے ساتھ اگائی جا سکتی ہے.

کسان بھائیوں کے لئے کیا مشورہ ہے؟

کسان بھائیوں کے لئے مشورہ یہ ہے کہ اگر وہ اس کاروبار میں دلچسپی رکھتے ہیں تو پہلے پندرہ بیس پودے تجرباتی طور پر لگا لیں. اور دو سال ان پودوں کا مشاہدہ کریں. اگر تو ساگوان کے پودے کا قد دو سالوں میں آٹھ دس فٹ تک پہنچ جاتا ہے تو مزید درخت لگانی کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے.
راقم کاشتکار حضرات کے لئے نیک تمنائیں رکھتا ہے.

ساگوان اور پودوں کے حصول کے متعلق معلومات میں اگر آپ دلچسپی رکھتے ہیں تو نیچے دئیے گئے نمبر پر رابطہ کر سکتے ہیں.
موبائل نمبر 03336195522
ساگوان کے پودے بیچنے والوں کا راقم یا ایگری اخبار سے کوئی کاروباری تعلق نہیں ہے.موبائل نمبر محض کاشتکاروں کی دلچسپی اور معلومات کے لئے دیا جا رہا ہے.

وارننگ
اس مضمون کے کسی بھی حصے کو مصنف کی اجازت کے بغیر:
1. کاپی کر کے کسی ویب سائٹ پر لگانا
2. مصنف کا نام ہٹا کر اسے اپنا ظاہر کرنا
3. ویڈیو بنانے کے لئے استعمال کرنا
اخلاقاََ و قانوناََ جرم ہے اور علمی چوری کے زمرے میں آتا ہے.
البتہ ایگری اخبار اس مضمون کا لنک شئیر کرنے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے.
اس تحریر کے جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں.

تحریر:
ڈاکٹر شوکت علی
ماہرِ توسیعِ زراعت، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد

یہ مضمون لکھنے کے لئے جن حضرات سے معلومات اور آراء لی گئیں، راقم ان کا از حد مشکور ہے.
1. رانا توسیف اقبال، ساگوان کی عملی کاشت میں دلچسپی رکھتے ہیں
2. ڈاکٹر عرفان احمد، ماہرِ جنگلات ہیں
3. حافظ مسعود احمد، ماہرِ جنگلات ہیں

بشکریہ: ایگری اخبار

sagwan teak tree plantation in pakistan

sagwan teak tree plantation in pakistan

sagwan teak tree plantation in pakistan

sagwan teak tree plantation in pakistan

sagwan teak tree plantation in pakistan

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget