مئی 2019

آج میں آپ کو میتھی اگانے کا طریقہ بتائوں گا۔ میتھی ستمبر تا اکتوبر اگائی جا سکتی ہے۔ میتھی ہم کیاری میں بھی اگا سکتے ہیں اور گملے یا کسی کنٹینر میں بھی۔ میتھی اگانے کے لیے سب سے پہلے ہمیں میتھی کے بیج چاہیے ہوں گے۔ میتھی کے بیج آپ اپنی لوکل نرسری یا بیجوں کی دوکان سے حاصل کر سکتے ہیں۔ بیج حاصل کرنے کے بعد آپ کو اب میتھی اگانے کے لیے مٹی تیار کرنی ہو گی۔ میتھی کو کھاد وغیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن بہتر یہ ہے کہ آپ آدھی مٹی لے لیں اور آدھی اورگینک کھاد اگر آپ کے پاس اورگینک کھاد نہیں ہے تو آپ اُس کی جگہ گوبر بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ اب مٹی اور اورگینک کھاد یا گوبر کو اچھی طرح ملا لیں۔ اِس کے بعد اِس اورگینک کھاد یا گوبر ملی مٹی کو کسی کنٹینر یا گملے میں بھر لیں۔ کوشش کریں کے کوئی ایسا کنٹینر یا گملا لیں جس کی چوڑائی ذیادہ سے ذیادہ ہو اور لمبائی کم ہو۔ ایسا اِس لیے کیوں کہ ہم کنٹینر میں ذیادہ سے ذیادہ میتھی اگا سکیں۔ جب آپ وہ مٹی کنٹینر میں بھر لیں تو تھوڑی سے مٹی بچا کر علیحدہ رکھ لیں کیوں کہ یہ مٹی ہم بعد میں بیجوں کے اوپر بکھیرنے کے لیے استعمال کریں گے۔ کنٹینر میں مٹی بھرنے کے بعد آپ شاور کی مدد سے مٹی کے اوپر اچھی طرح پانی ڈالیں۔ تاکہ مٹی اچھے طریقے سے بیٹھ جائے اور اُس میں موجود حلا بھی بھر جائے۔ جب مٹی اچھے طریقے سے پانی جزب کر لے تو اب آپ میتھی کے بیج لے لیں اور اُن کو کنٹینر کی اُس مٹی پر بکھیر دیں۔ بیج بکھیرنے کے بعد اب آپ وہ مٹی لیں جو آپ نے بچا کر رکھی تھی۔ اب اِس مٹی کو بیجوں کے اوپر بکھیر دیں۔ مٹی کو بیجوں کے اوپر اِس طرح بکھیریں کہ کوئی بھی بیج نظر نہ آئے اور تمام بیج مٹی کے نیجے ڈھک جائیں۔ اِس کے بعد پھر شاور کی مدد سے مٹی کے اوپر پانی ڈالیں۔ شاور کی مدد سے پانی اِس لیے ڈالنا ہے کہ کہیں مٹی بیجوں کے اوپر سے ہٹ نہ جائے۔ اسی طرح ہر روز کنٹینر میں شاور کی مدد سے پانی ڈالیں۔ میتھی کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اِس کے بیجوں میں سے کم سے کم دو اور زیادہ سے زیادہ تین دنوں میں پودے نکل آتے ہیں۔
گھر میں میتھی اگانے کا آسان طریقہmaithi ki kashat at home

میتھی کے بارے میں اختیاطی تدابیر


میتھی کو کسی ایسی جگہ لگائیں جہاں صبح چار کھنٹے تک دھوپ رہتی ہو اور دوپہر کو چھائوں آ جاتی ہو۔ اگر میتھی کو پورا دن دھوپ لگتی رہے تو اُس کے پتے جل جاتے ہیں۔

میتھی کو بہت کم مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ میتھی کو ہر روز پانی دیں لیکن کم مقدار میں اور جس گملے میں آپ میتھی لگائیں اُس میں پانی کے اخراج کا اچھا انتظام ہونا چاہیے۔ اگر آپ کے گملے میں پانی کھڑا رہا تو میتھی کی جڑیں گل جائیں گی اور مختلف قسم کے کیڑے آپ کی میتھی پر حملہ کر دیں گے۔

جب میتھی بڑی ہو جائے تو اُس کو کاٹ لیں لیکن جڑ سے نہ اکھاڑیں کیوں کے جب آپ میتھی کاٹ لیں گے تو نیچے سے اور میتھی کے پتے نکل آئیں گے۔

موسم گرما میں میتی گرمی کی وجہ سے سوکنے شروع ہو جاتی ہے اور اُس کے پھول بھی نکل آتے ہیں۔ آپ ان پھولوں کو اسی طرح پودوں پر لگا رہتے دیں جب وہ سوک جائیں تو اُن کو اتار لیں۔ اُن میں میتھی کے بیج ہوں گے۔ آپ اِن کو کسی شاپر میں محفوظ کر لیں تاکہ آنے والی سردیوں میں پھر اُن کو بویا جا سکے۔

اُمید ہے کہ آپ کو یہ پوسٹ اچھی لگی ہو گی۔ اِس کو شعیر کریں تاکہ ذیادہ سے ذیادہ لوگ اِس سے فائدہ اٹھا سکیں۔ اب میں آپ سے اجازت چاہوں گا۔ پھر کبھی حاضر ہوں گا کچن گارڈنگ کے کسی اور موضوع کے ساتھ۔ اُس وقت کے لیے خدا حافظ ۔

آج میں تمباکو سے کیڑوں کو بھگانے کے لیے سپرے بنانے کا طریقہ بتانے جا رہا ہوں ۔ یہ سپرے ہر قسم کے کیڑوں کے لیے یکساں مفید ہے۔ چاہے وہ کیڑے پودوں کے لیے فائدہ مند ہوں یا نقصاندہ۔ یہ سپرے اتنا زبردست ہو گا کہ کیڑوں کو پودوں کے پاس پھٹکنے ہی نہیں دے گا۔ ان شاء اللہ
سب سے پہلے آدھا کلو تمباکو لے لیں ۔ تمباکو آپ کو بازار سے آسانی سے مل جائے گا۔ پھر ایک پرانا برتن جس کو آپ استعمال نہ کرتے ہوں یا پھر کوئی ٹین کا ڈبہ لے لیں ۔ پھر اس کو چولہے پر رکھ کر بیچ میں پانچ لیٹر پانی ڈال دیں۔ پھر اس میں تمباکو ڈال کر آگ جلا لیں ۔ اب اس تمباکو والے پانی کو ابلنے دیں ۔ جب پانی ابل کر ایک لیٹر رہ جائے تو آگ بجھا دیں اور پانی کو چھان کر ایک بوتل میں ڈال دیں۔ لیجیے آپ کا سپرے تیار ہے۔
سپرے استعمال کرنے کا طریقہ:
اس سپرے کو استعمال کرنے کا ایک خاص طریقہ ہے۔ اگر اس طریقے کے برعکس سپرے استعمال کیا جائے تو فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔ طریقہ یہ ہے کہ سپرے پودوں پر شام کے وقت کرنا ہے۔ اور سپرے کرتے ساتھ ہی پودوں کو پانی دے دینا ہے۔
چند اختیاطی تدابیر:
ہو سکتا ہے اس سپرے کی خوشبو آپ کو اچھی لگے لیکن آپ اس کو غلطی سے بھی چکھنے یا پینے کی کوشش نہ کرنا کیوں کہ اس میں بہت ذیادہ مقدار میں کوکین شامل ہو گا جو انتہائی خطرناک چیز ہے صحت کے حوالے سے۔ اور یہ ہے بھی حرام۔
اس لیے اس کو بنانے کے لیے بھی کوئی پرانا برتن یا ٹین کا ڈبہ استعمال کریں۔

امید ہے آپ کو یہ پوسٹ پسند آئی ہو گی۔ اب میں آپ سے اجازت چاہوں گا۔ اور پھر کسی اور موضوع کے ساتھ خاظر ہوں گا۔ آپ کی آراء اور تجاویز کا بھی انتظار رہے گا۔ اللہ خافظ

امرود ایک اہم سدا بہار پودا ہے۔ اس کی کاشت بہت پرانے وقتوں سے گرم مرطوب اور معتدل آب و ہوا والے علاقوں میں ہو رہی ہے۔ سب سے پہلے یہ جنوبی امریکہ میں پیرو کے درمیان پایا گیا تھا وہاں سے یہ دنیاکے مختلف ممالک میں پھیلا۔ تقریباً ہر قسم کی زمین اور آب و ہوا میں اگنے کی صلاحیت کی وجہ سے امرود نے ایک اہم تجارتی پھل کی حیثیت حاصل کر لی ہے۔

پاکستان میں یہ پھل تقریباً پورے پاکستان میں اس وقت45.7ہزار ہیکٹر رقبہ پر اگایا جا رہا ہے اور اس کی مجموعی سالانہ پیداوار340.3ہزار ٹن ہے۔ پنجاب میں اس کی کاشت زیادہ تر شیخوپورہ، قصور، لاہور، شرقبول، سانگلہ ہل، گوجرانوالہ، ملتان، سرگودھا اور فیصل آباد کے اضلاع میں ہوتی ہے۔ جب کہ خیبر پختونخواہ میں کوہاٹ، ہری پور اور بنوں اس کی کاشت کے اہم علاقے ہیں۔ سندھ میں لاڑکانہ اور حیدرآباد ڈویژن میں یہ بکثرت کاشت کیا جاتا ہے۔ امرود کے زیر کاشت رقبہ میں بتدریج توسیع ہو رہی ہے۔

امرود کی اوسط قومی پیداوار اس وقت7.4ٹن فی ہیکٹر ہے جو کہ بہت کم ہے۔ جس کی درج ذیل وجوہات ہیں:
  • گرمی کی فصل پر پھل کی مکھی کا حملہ
  • اچھی نسل کے قلمی پودوں والے باغات کا فقدان
  • بیج سے اگائے ہوئے پودوں کے باغات
  • باغات کی نامناسب دیکھ بھال

غذائی اعتبار سے یہ پھل نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اس پھل کو حیاتین”ج“ کا بادشاہ اور سستا ماخذ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس میں حیاتین ”ج“100گرام پھل میں91ملی گرام سے لے کر280ملی گرام تک موجودہوتی ہے۔ جب کہ ترشاوہ پھلوں میں حیاتین ”ج“ کی مقدار صرف30سے60ملی گرام ہوتی ہیں۔

پھل کا غذائی تجزیہ

پانی                                         82.50     فیصد

کھٹاس                                     2.45        فیصد

مٹھاس                                     4.75        فیصد

تحلیل شدہ ٹھوس مادہ                9.73        فیصد

راکھ                                         0.48        فیصد

اجزائے لحمیہ                          1.25        فیصد

روغن                                     0.52        فیصد

ریشہ                                       4.45        فیصد

حیاتین”ج“                 260                     ملی گرام فی100گرام پھل

لوہا                                          1.82        ملی گرام فی100گرام پھل

چونا                                        17.0        ملی گرام فی100گرام پھل

فاسفورس                               28.4        ملی گرام فی100گرام پھل

حیاتین ”الف“                        250         انٹرنیشنل یونٹ

اس کے علاوہ امرود میں میں اعلیٰ قسم کی پیکٹن بھی خاصی مقدار میں موجود ہوتی ہے جو کہ عمدہ کوالٹی کی جیلی بنانے کے کام آتی ہے۔

آب وہوا

امرود کے لیے گرم مرطوب و نیم گرم مرطوب معتدل آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا درخت بہت سخت جان ہوتا ہے ٹھنڈے علاقوں میں بھی اُگ جاتا ہے۔ مگر نیم گرم مرطوب آب و ہوا میں خوب پرورش پاتا ہے۔ چھوٹی عمر کے پودوں کے لیے زیادہ سردی نقصان دہ ہے۔ اس لیے تین سے چار سال کی عمر تک کے پودوں کو سردی سے بچانے کے لیے ڈھانپ دینا چاہیے۔ ہوا روکنے والی باڑیں پودوں کو گرم لو اور سرد ہواؤں کو روکنے میں کافی مدد دیتی ہیں۔ زیادہ بارش پھل کی خاصیت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ جس سے پھل پھٹنا شروع ہو جاتا ہے۔

زمین

امرود کا پودا ہرقسم کی زمین میں اگایا جا سکتا ہے۔ اس کا درخت بھاری زمین سے لے کر ہلکی ریتلی زمین تک اگایا جاتا ہے۔ سیم اور تھور زدہ زمینوں میں بھی کامیاب رہتا ہے۔ مگر دوسرے پھلدار درختوں کی طرح اس کے لیے بھی نرم اور زرخیز زمین بہت موزوں ہے۔

پودے لگانا

امرود کے پودے لگانے کا بہترین موسم اگست ستمبر ہے۔ فروری مارچ میں لگائے گئے پودوں کا جون کی گرمی میں سڑ جانے کا خطرہ ہوتا ہے۔ پودے لگانے کے فوراً بعد پانی ضرور دینا چاہیے۔ پودے سے پودے کا درمیانی فاصلہ6میٹر رکھنا نہایت ہی موزوں اور ضروری ہے۔

آب پاشی

آب پاشی کا انحصار علاقہ کی آب و ہوا اور زمین کی خاصیت پر ہے چھوٹے پودوں کو سارا سال تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد پانی لگاتے رہنا چاہیے۔ جوان پودوں کو پھل لگنے پر زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔جب پودوں پر پھول آرہے ہوں تو اس قت پانی روک دینا چاہیے۔ جب تک پھل مکمل طور پر سیٹ نہ ہو جائے۔ سردیوں میں ہر ہفہ پودوں کو پانی دینا زیادہ بہتر ہے۔ اس طرح پھل کی کوالٹی بہتر ہوتی ہے اور پھل کورے کے مضر اثرات سے بھی بچ جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق امرود کو سال میں12 سے15مرتبہ آبپاشی ضروری ہے۔

کھاد دینا

امرود کے پودے سال میں دو مرتبہ پھل دیتے ہیں۔ اس لیے پودوں کی صحت برقرار رکھنے کے لیے کافی مقدار میں نائٹروجن کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ گوبر کی کھاد سب سے اچھی تصور کی جاتی ہے۔ اس لیے گوبر کی کھاد30سے40کلو گرام فی پودا کے حساب سے دینی چاہیے۔ عام قاعدے کے مطابق گوبر کی کھاد دسمبر جنوری میں دینی چاہیے۔ کھاد دینے سے بیشتر پودے کے پھیلاؤکے مطابق گوڈی کر کے پودے کے چاروں طرف اچھی طرح کھاد بکھیر کر آبپاشی کر دینی چاہیے۔ کیمائی کھادوں میں ایمونیم سلفیٹ اڑھائی سے تین کلو فی پودا یا یوریا سوا ایک تا ڈیڑھ کلو سپر فاسفیٹ اڑھائی تا تین کلو اور پوٹاش کے لیے ایک کلو پوٹاشیم سلفیٹ فی پودا پھول آنے سے پیشتر ڈالیں۔ یہ مقدار جوان پودوں کے لیے ہے۔

افزائش نسل

عام طور پر امرود کی افزائش بیج سے کی جاتی ہے۔ مگر اس طرح اگائے ہوئے پودے اصل درخت سے مشابہ نہیں ہوتے اور ان کے پھل کے طبعی اور کیمیائی خواص اپنے موروثی پودوں سے مشابہ نہیںہوتے اس لیے اس پودے کی نباتاتی افزائش بذریعہ قلم یا گٹی کی جاتی ہے۔

بذریعہ قلم امرود کی افزائش نسل اگرچہ مشکل ہے۔ تاہم تحقیق نے یہ ظاہر کیا ہے کہ80فیصد نمی کے اندر گرین ہاؤس میں اگر درجہ حرارت25ڈگری سنٹی گریڈ رکھا جائے تو 10سے12سنٹی میٹر لمبی، شاخ کے سرے والی قلمیں پتون کے ساتھ تیار کر کے اگر24گھنٹے کے لیے تین پی پی پیکلو بیوڑرازول کے محلول میں قلموں کا نچلا سرا ڈبو کر ریت کے اندر لگائیں تو نوے فیصد قلمیں جڑیں نکال لیتی ہیں۔ تحقیق نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ اگر قلمیں موسم برسات میں لگائیں تو زیادہ جڑیں نکالتی ہیں۔ آٹھ ہفتوں کے بعد ان قلموں کو گرین ہاؤس میں ہی مومی تھیلوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔ ان مومی تھیلوں میں مٹی، بھل اور اچھی گلی سڑی کھاد کی برابر مقدار کا آمیزہ بھرا جاتا ہے۔ تین ہفتوں کے بعد ان تھیلیوں کو شیڈ ہاؤس میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ہوائی داب یا گٹی اور پیوندکاری سے بھی مطلوبہ نسل کے صحیح پودے تیار کیے جا سکتے ہیں۔

شاخ تراشی

عام طور پر امرود کو شاخ تراشی کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن چونکہ پھل نئی پھوٹ پر آتا ہے اس لیے تھوڑی سی سالانہ شاخ تراشی کر لینی چاہیے۔ چھوٹی عمر میں پودے کا ڈھانچہ یا ساخت صحیح کرنے کے لیے اور اسے مضبوط بنانے کے لیے اس کی شاخ تراشی ضروری ہے۔ بعض اوقات لمبی اور کمزور شاخوں پر پھل ہوتا ہے وہ بوجھ سے نیچے جھک جاتی ہیں۔ ایسی شاخوں کے سرے کاٹ دینے چاہئیں۔ اس کے علاوہ تنے کے نچلے حصے سے چھوٹی چھوٹی شاخیں پھوٹتی ہیں ان کو بھی کاٹتے رہنا چاہیے۔ فصل کی برداشت کے بعد سوکھی ہوئی، بیمار اور کمزور شاخوں کو بھی کاٹ دینا چاہیے۔ اچھی قسم کا پھل حاصل کرنے کے لیے پھل کی چھدرائی بھی ضروری ہے۔

کیڑوں اور بیماریوں کا تدارک

پھل کی مکھی

امرود کو گرمیوں کی فصل میں سے سب سے زیادہ نقصان پھل کی مکھی پہنچاتی ہے جو کہ پھل کے اندر اپنا ڈنگ داخل کر کے انڈے دیتی ہے۔ جن سے چھوٹی چھوٹی سنڈیاں پیدا ہو کر گودے کو کھانا شروع کر دیتی ہیں اور پھل گل سڑ کر زمین پر گرپڑتا ہے۔اس مکھی کی لمبائی تقریباً5ملی میٹر ہوتی ہے۔ اس کا رنگ کالا اور پیلا ہوتا ہے۔

تدارک

  • گرے ہوئے تمام پھل اکٹھے کر کے زمین میں دبا دیں۔
  • امرود کا پھل جب بڑے سائز کا ہو جائے تو میٹا سسٹاکس، ڈائی میکران یا ڈپٹریکس پانی میں ملا کر سپرے کریں۔
  • سپرے فصل کی برداشت سے 20 دن پہلے بند کردیا جانا چاہیے۔
  • جنسی پھندوں کا استعمال پھل کی مکھی کو کنٹرول کرنے کے لیے بہت موزوں ہے۔

تنے کا گڑویں

یہ شاخوں میں سوراخ کر کے ٹہنیوں کے اندر چلے جاتے ہیں ٹہنیاں سوکھ جاتی ہیں۔

تدارک

  • سوکھی ہوئی ٹہنیوں کو کاٹ دیں۔
  • میٹاسٹاکس2.5ملی لیٹر فی لیٹر پانی میں ملا کر تین مرتبہ سپرے کریں۔

امرود کا سوکھنا

یہ بیماری گرمی اور کاشتی امور کی بے احتیاطی سے ہوتی ہے۔ جس سے پودا آہستہ آہستہ سوکھنا شروع ہو جاتا ہے۔

تدارک

  • کاشتی امور کو بروقت سرانجام دیں۔
  • ریڈومل گولڈ پودے کی عمر کے مطابق سپرے کریں۔

کھادوں کا استعمال

امرود کے پودے سال میں دو مرتبہ پھل دینے ہیں۔ اس لیے پودے کی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے کافی نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ گوبر کی کھاد سب سے اچھی تصور کی جاتی ہے۔ گوبر کی کھاد30سے40کلو گرام فی پودا کے حساب سے دینی چاہیے۔ عام قاعدے کے مطابق گوبر کی کھاد دسمبر اور جنوری کے مہینے میںدینی چاہیے۔ عام طور پر درجہ ذیل سفارشات کے مطابق کھاد کا استعمال کرنا چاہیے۔

پودے کی عمر

پودے کی عمر
یوریا ( کلو گرام)
سنگل سپر فاسفیٹ( کلو گرام)
سلفیٹ آف پوٹاش( کلو گرام)
کھاد گوبر ( کلو گرام)
ایک سال
20
125
دو سال
20
¼
¼
تین سال
30
½
½
½
چار سال
40
¾
¾
¾
پانچ سال اور اس سے زائد
50
1
1
1

اقسام

پاکستان میں اس وقت امرود کی جتنی بھی مختلف اقسام فروخت کے لیے بازار میں آتی ہیں ان میں ایک بھی خالص اور معیاری نہیں کیونکہ وہ زیادہ تر بیج سے لگائے گئے باغات کی پیداوار ہیں۔ یہاں قسموں کو جو نام بھی دئیے گئے ہیں وہ یا گودے کو مدنظر رکھ کر دئیے گئے یا اس علاقہ کے نام پر جہاں یہ پیدا ہوتا ہے۔ ان اقسام میں سب زیادہ مشہور ”سفیدہ“ ہے۔ اس کا پھل گول، چھلکا صاف اور ذائقہ کافی لذیذ اور میٹھا ہوتا ہے۔ ”چتی دار“ اس کے پھل پر چھوٹے چھوٹے سرخ نشان ہوتے ہیں اس کا ذائقہ بھی لذیذ اور میٹھا ہوتا ہے۔ ”حفصی“ بھی امرود کی ایک قسم ہے اس کا پھل گول اور گودا سرخ ہوتا ہے۔ یہ قسم اتنی میٹھی نہیں۔ ”کریلا“ اس قسم میں پھل کی شکل ناشپاتی سے ملتی ہے۔ اس کا چھلکا کھردرا اور گودے کا رنگ سرخ یا سفید ہوتا ہے۔ امرود کی ایک قسم ”سیڈلیس“ ہے اس میں بیج نہیں ہوتے اس میں پیداوار تھوڑی اور پھل کی شکل بے قاعدہ ہوتی ہے۔ یہ ابھی تک تجارتی پیمانہ پر کاشت نہیں کیا جاتا۔

خیبرپختونخواہ میں امرود کی کاشت ہونے والی اقسام میں گولا اور صراحی شامل ہیں۔

پھل کا توڑنا اور پیداوار

امرود سال میں دو مرتبہ بار آور ہوتا ہے۔ ایک فصل موسم گرما جولائی اگست اور دوسری موسم سرما جنوری فروری میں حاصل ہوتی ہے۔ موسم گرما کی فصل کوالٹی کے لحاظ سے معیاری نہیں ہوتی۔ پکا ہوا پھل چمکدار سرخ یا سفید ہوتا ہے۔ پھل کو توڑنے کے بعد ٹوکریوں میں ڈال کر منڈیوں میں بھیجا جاتا ہے۔

جوان پودے کی اوسط پیداوار 60سے100کلو گرام فی پودا ہے۔ اس کی پیداوار مختلف جگہوں پر مختلف ہوتی ہے۔ پکا ہوا پھل ہفتہ میں دو سے تین بار توڑا جاتا ہے کیونکہ اس کا پھل جلد خراب ہونے والا ہے اس لیے اسے فوراً منڈی بیج دینا چاہیے۔

امرود کی مصنوعات

امرود کی پھل کے طور پر استعمال کرنے کے علاوہ اس سے بہت ساری چیزیں تیار کرنے مثلاً جیم، جیلی، جوس، نیکٹر، ڈبوں میں بند کرنے اور مٹھائی بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

زمین کی تیاری

 سبزیوں کی کاشت کے لئے زمین کا بالائی حصہ(9 تا 12 انچ) انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چونکہ اسی حصہ سے پودے نے خوراک اور پانی حاصل کرنا ہے۔ اس لئے اس کی اچھی تیاری اور زرخیزی انتہائی ضروری ہے۔ سبزی کی کاشت کے لئے عام نرم میرا زمین انتہائی موزوں خیال کی جاتی ہے۔ اگر آپ کے رقبے میں چکنی مٹی والی یا ریتلی زمین ہو تو بھی رقبے کو درج ذیل طریقے سے قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے۔

٭ سخت زمین یا چکنی مٹی والی زمین بھل یا ریت اور گوبر کھاد وافر مقدار میں ملا کر قابل کاشت بنائی جا سکتی ہے۔

٭ریتلی مٹی والی زمین کو عام مٹی اور گوبر کی کھاد وافر مقدار میں ملا کر قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے۔

زمین کی اچھی تیاری کے لئے ایک فٹ گہرائی تک زمین کی بار بار کھودائی کیجیے۔ زمین میں شامل کنکر، پتھر، پلاسٹک وغیرہ باہر نکال دیں۔ مٹی کے ڈھیلوں کو توڑ کر نرم اور ہموار کر لیں۔ مکمل تیاری پر مٹی کا بھر بھرا اور نرم ہونا ضروری ہے۔ تا کہ پودوں کی جڑیں اچھی طرح پھیل سکیں اور پودے زمین سے وافر خوراک و پانی وغیرہ حاصل کر سکیں۔

کھادوں کا استعمال

پودوںکی بڑھوتری کے لئے نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ نائٹروجن پتوں اور پودے کے قد اور پھیلاﺅ کے لئے انتہائی ضروری عنصر ہے۔ فاسفورس پودوں کی جڑوں کی مضبوطی اور پھیلاﺅ کے لئے انتہائی اہم عنصر ہے ۔

فاسفورس پودوں کی جڑوں کو مضبوط بناتی ہے جبکہ پوٹاش پودوںمیں مختلف بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح سے پوٹاشیم کی موجودگی سے پودہ نائٹروجن اور فاسفورس کا صحیح فائدہ لے سکتا ہے۔ علاوہ ازیں پھل اور بیج کی صحت مند بڑھوتری اور کوالٹی کے لئے پوٹاشیم انتہائی اہم ہے۔ ان تین عناصر ( نائٹروجن، فاسفورس، پوٹاشیم) کے علاوہ بعض دیگر عناصر مثلاً کیلشیم، آئرن،زنک، بوران، وغیرہ بھی انتہائی قلیل مقدار میں پودوں کی ضرورت ہوتے ہیں۔

اگرچہ یہ تمام عناصر مختلف کیمیائی کھادوں کی صورت میں بازار میں دستیاب ہیں۔ تا ہم گھریلو باغیچے کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اتنی کھادیں اکٹھی کی جائیں جبکہ قدرت نے یہ تمام عناصر گوبر کی کھاد میں یکجا کئے ہیں۔ قدرتی کھادیں جن میں گوبر اور پتوں کی کھادیں شامل ہیں نہ صرف پودوں کو ضروری غذائی اجزاءفراہم کرتی ہیں بلکہ زمین کی ساخت کو بھی بہتر بناتی ہیں۔

گوبرکی کھاد

اس میں جانوروںاور مرغیوں کا فضلہ شامل ہیں۔ گوبر کی کھاد زمین کی تیاری کے وقت ڈالیں۔ خیال رہے کہ گوبر کی اچھی طرح سے گلی سڑی اور پرانی کھاد استعمال کیجئے۔ تازہ گوبر کی کھاد زمین میں ڈالنے سے دیمک لگ جانے کا اندیشہ ہے۔ نیز تازہ کھاد سے پودوں کو خوراک حاصل نہیں ہوتی۔ گوبر کی کھاد کو گڑھوں میں دو تا تین ماہ بند رکھیں یا زمین کے اوپر ہی مٹی کی موٹی تہہ سے ڈھانپ دیں تو کھاد تیار ہو جاتی ہے۔

پتوں کی کھاد

تین تا چار فٹ گہرا گڑھا کھودلیں اس گڑھے میں پتوں، سبزیوں، پھلوں اور انڈوں کے چھلکے نیزگلنے سڑنے والی دیگر اشیاءکی ہلکی تہہ لگا دیں۔اس تہہ کے اوپر گوبرکی کھاد کی تہہ لگائیں۔ اس طرح سے کئی تہیں لگا کر گڑھا بھر لیں آخر میں گڑھے کو مٹی کی موٹی تہہ سے بند کر دیں تقریباً دو تا تین ماہ میں یہ کھاد استعمال کے لئے تیار ہو جائے گی۔ گوبر اور پتوں کی کھاد 4 تا 5 من فی مرلہ استعمال کیجئے۔

کیمیائی کھادیں

کیمیائی کھادیں بازار میں دستیاب ہیں۔ مختلف اجزاء(عناصر) کے لئے گھریلو باغیچہ کیلئے گوبر کھاد یا پتوں کی کھاد ہی ترجیحاً استعمال کی جائے ۔کیمیائی کھادوں کے استعمال سے اجتناب کیجئے۔ اگر آپ کے باغیچہ کی زمین کم طاقت کی بھی ہے۔ تو نامیاتی کھادیں وافر مقدار میں استعمال کرنے سے زمین طاقت ور ہو جائے گی۔

زمین میں کھادیں ڈال کر اچھی طرح سے گوڈی کر کے کھادیں زمین میں ملا دیں۔ اب سبزی لگانے کے لئے زمین کو ہموار کر لیں اور سبزیوں کی قسم کے مطابق وٹیں پٹڑیاں یا ہموار جگہ میں سبزی کاشت کریں۔

وٹیں بنانے کا طریقہ

بھنڈی، مرچ، ٹماٹر، شملہ مرچ، بینگن، پھول گوبھی، بند گوبھی، مولی، شلجم، گاجر اور سلاد وٹوں پر کاشت کرنے سے اچھی پیداوار دیتی ہے۔ نرم اور ہموار زمین میں کسی ڈوری یا رسی کی مدد سے سیدھے نشان لگا لیں (قطاروں کے فاصلے کے لئے کیلنڈر دیکھیں ) اب نشان کے دونوں اطراف سے مٹی اُٹھا کر نشان کے اوپر ڈالتے جائیں۔ اس عمل سے جو اُبھار ہو گا یہی وٹیں کہلاتی ہیں۔ وٹوں کے درمیان پانی لگانے کے لئے نالی بن جائے گی۔

پٹڑیاں بنانے کا طریقہ

تمام بیلدار سبزیاں مثلاً کدو، کھیرا، تربوز، خربوزہ، تر اور مٹر پٹڑیوں پر کاشت ہوں گی۔ اگر ان سبزیوں کو باڑ کے نزدیک کاشت کیا جائے اور سہارا دے دیا جائے تو پٹڑیوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پٹڑ یوں کے لئے بھی نشان لگا کر مٹی اٹھائیں تا کہ سیدھی پٹڑیاں بن سکیں۔پٹڑیاں وٹوں کی نسبت زیادہ چوڑی ہوتی ہیں۔

ہموار جگہ پر کاشت

پالک ، میتھی، دھنیا، لہسن، پیاز اور پودینہ ہموار جگہوں پر قطاروں میں کاشت کیجئے۔ قطاروں میں کاشت کرنے سے جڑی بوٹیوں کا تدارک نیز گوڈی و آب پاشی میں آسانی کے علاوہ پودوں کو یکساں مقدار میں دھوپ، خوراک اور پانی بھی حاصل ہوتے ہیں۔

طریقہ کاشت

سبزیا ں عموماً تین طریقوں سے کاشت کی جاتی ہیں۔

1 ۔ براہ راست بیجوں سے

2 ۔ نباتاتی حصوں سے

3 ۔ پنیری سے

1 ۔ براہ راست بیجوں سے

زمین اچھی طرح سے تیار کرنے کے بعد ضرورت کے مطابق زمین میں وٹیں ، پٹڑیاں یا ہموار جگہ پر قطاروں کے نشان لگالیں۔ کیلنڈر میں دئیے گئے فاصلے کے مطابق بذریعہ بیج کاشت ہونے والی سبزیاںمثلاً بھنڈی،کھیرا، کریلا، توری، ٹینڈا، کدو، تربوز، خربوزہ،اور تر موسم گرما جبکہ مولی شلجم، گاجر، میتھی، پالک وغیرہ موسم سرما میں بیج سے کاشت کیجئے۔ ایک جگہ اچھی روئیدگی والا ایک بیج جبکہ کم قوت روئیدگی والے دو بیج کاشت کیجئے۔ بیجوں کو ان کی جسامت کے تین گنا گہرائی میں لگائیں۔ بعد ازاں فوارہ کے ذریعے آب پاشی کیجئے۔ بیج اگنے کے چند دن بعد ایک جگہ پر ایک پودا چھوڑتے ہوئے باقی پودوں کی چھدرائی کر دیں تا کہ پودا صحت مندانہ نشوونما پا سکے۔

2۔نباتاتی حصوں سے کاشت

چند سبزیاں تنوں یا جڑوں کے حصے سے کاشت کی جاتی ہیں۔ ان سبزیوں میں آلو، اروی، لہسن اور شکر قندی شامل ہیں۔

آلو

بہاریہ فصل کے لئے آلو کو اس طرح کاٹیں کہ ہر ٹکڑے پر دو یا تین آنکھیں ہوں۔ ان ٹکڑوں کو بطور بیج جنوری میں زمین میں لگائیں۔ انہیں وٹوں پر کاشت کریں۔ وٹوں کا درمیانی فاصلہ اڑھائی فٹ جبکہ پودے سے پودے کا فاصلہ 8سے10 انچ رکھیں۔ خزاں والی فصل میں درمیانی جسامت کا مکمل آلو بطور بیج وٹوں پر کاشت کیجئے۔ خزاں والی فصل شروع ستمبر میں کاشت ہو گی۔ جبکہ پہاڑی علاقوں مثلاً مری، کالام، کاغان، گلگت، سکردو میں گرمائی فصل اپریل تا جون لگائیں۔ جو کہ اگست، ستمبراور اکتوبر میں برداشت ہو گی۔

اروی

اروی کی درمیانہ جسامت کی گٹھلیوں کو بطور بیج استعمال کیجئے۔ وٹوں کا درمیانی فاصلہ دو فٹ جبکہ پودوں کا آپس میں فاصلہ 8انچ رکھیں فصل فروری، مارچ میں کاشت کیجئے۔

شکر قندی

شکر قندی کا (کھانے والا حصہ) فروری میں ریت میں دبا دیں۔ ریت کو اس قدر پانی دیتے رہیں کہ ریت نم حالت میں رہے۔ شکر قندی سے بیلیں نکلنا شروع ہو جائیں گی۔ مارچ میں ان بیلوں کو کاٹ کر 4 تا 6 انچ کی قلمیں تیار کر لیں۔

ان قلموں کو وٹوں پر کاشت کیجئے اور پانی لگا دیں۔ ابتداءمیں چونکہ ان کی جڑیں نہیں ہوں گی اس لیے مرجھائے ہوئے نظر آئیں گے تاہم چند دنوں میں پودے جڑیں بنا لیں گے ۔ یہ بات یاد رکھیں کہ شکر قندی والے کھیت میں گوبر کی کھاد کا استعمال نہ کیجئے۔

لہسن

 لہسن کی پوتھیاں بطور بیج استعمال ہوں گی۔ پوتھیوں کو الگ الگ کر لیں۔ ہموار زمین میں قطاروں سے قطاروںکا فاصلہ8انچ جبکہ پودے سے پودے کا فاصلہ2 تا4انچ رکھتے ہوئے لہسن اکتوبر میں کاشت کیجئے۔ لہسن میں جتنی گوڈی کریں گے اتنی پیداوار زیادہ ہو گی۔

پودینہ

پودینہ کی جڑیں ہموار سطح پر قطاروں میں کاشت کیجئے۔ پودینے کے اچھے پھیلاﺅ کے لئے زمین کا نرم ہونا اور اچھی مقدار میں گوبر کی گلی سڑی کھاد کا ہونا ضروری ہے۔

3۔پنیری والی سبزیوں کی کاشت

(الف)
ریت، گلی سڑی گوبر کی کھاد اور عام مٹی چھان کر برابر مقدار میں ملا کر آمیزہ تیار کرلیں۔ اس آمیزے کو گملوں،کریٹ یا پلاسٹک کی ٹرے میں بھر لیں۔ اس کے اندر ہی مرچ و شملہ مرچ، ٹماٹر، بینگن سلاد، پیاز، پھول گوبھی، بند گوبھی، بروکلی وغیرہ کے بیج لگا کر فوارے سے آبپاشی کیجئے۔ چند ہفتوں میں پودے نکل آئیں گے۔ مناسب جسامت کے پودے صبح یا شام کے وقت باغیچہ میںمنتقل کیجئے۔

(ب)
مرچ، ٹماٹر، شملہ مرچ اور بینگن کی اگیتی پنیری تیار کرنے کے لیے دسمبر میں گملوں یا کیاریوں میں بیج لگا لیں۔ ان کیاریوںکے اوپر شیشم یا دیگر درختوں کی ٹہنیوں سے ٹنل بنا لیں۔ ٹنل کو شفاف پلاسٹک سے ڈھانپ دیں تا کہ روشنی پودوں تک پہنچ سکے۔ دوپہر کے وقت پلاسٹک ہٹاکر پانی وغیرہ دیں اور کیاریوں کو ہوا لگنے دیں اسی دوران جڑی بوٹیوں کی صفائی کر دیں۔

(ج)
بیلوں والی سبزیوں کی اگیتی فصل کے لیے پنیری ایسے علاقے جہاں سردی زیادہ عرصہ تک رہتی ہے۔ گرمیوں کی سبزیوں مثلاً کھیرا، کدو وغیرہ کی کاشت میں کافی تاخیر ہو تی ہے۔ جس کے تدارک کے لیے طریقہ(ب) میں تیار کردہ ٹنل کے اندر پلاسٹک کی چھوٹی تھیلیاں(ڈیڑھ × ڈھائی انچ) پنیری کی تیاری کے لیے موزوں ہیں۔

تھیلیوں کے پیندے میں فالتو پانی کے اخراج کے لیے چھوٹے چھوٹے سوراخ کر لیں۔ اب تھیلیوں کو مٹی اور گوبر کی کھاد کے ہم وزن آمیزے سے بھر کر ہر تھیلی میں ایک بیج لگا کر ٹنل کے اندر رکھ کر ان کی آب پاشی کر دیں۔

اس طریقے میں کریلے دسمبر میں جب کہ گھیا کدو، تربوز، خربوزہ، کھیرا، ٹینڈا، چینی کدو، گھیا کدو، کالی توری آخر جنوری میں لگائیں۔ مارچ میں جب کورا پڑنا بند ہو جائے اور شدید سردی ختم ہو تو باغیچہ میں پنیری منتقل کرکے پانی لگا دیں۔ پنیری کی منتقلی کے وقت تھیلیوں کو پانی دے کر الٹانے سے پودے مٹی(گاچی) سمیت منتقل ہو سکتے ہیں اس طریقے سے پودوں کے مرنے کا خدشہ نہیں رہتا۔ تھیلیاں سنبھال کر رکھنے سے بار بار استعمال کی جاسکتی ہیں اس سے اگیتی پیداوار حاصل ہوگی۔ نیز اس طریقہ سے پیداوار میں عام فصل کی نسبت دُگنا اضافہ ممکن ہے۔

سبزیوں کی اہمیت وضرورت

سبزیاں اپنی غذائی و طبّی اہمیت کی وجہ سے”حفاظتی خوراک“ کے نام سے منسوب کی جاتی ہیں۔ ان میں صحت کو برقرار رکھنے اور جسم کی بہترین نشوونما کے لیے تمام ضروری اجزاءمثلاً نشاستہ، لحمیات، حیاتین،نمکیات وغیرہ وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں جو کہ دیگر غذائی اجناس میں قلیل مقدار میں ملتے ہیں۔ طبّی لحاظ سے بھی سبزیوں کی افادیت مسلّمہ ہے۔ سبزیاں جسم سے نہ صرف غلیظ مادوں کے اخراج میں مدد دیتی ہیں بلکہ یہ آنتوں میں کولیسٹرول کی تہوں کی صفائی نیز دماغ کی بڑھوتری کے لئے بھی یکساں مفید ہیں۔ سبزیوں کا متوازن استعمال جسم میں مختلف بیماریوں کے خلاف قوتِ مدافعت پیدا کرتا ہے۔

ghar mai sabzion ki kashtkari گھریلو پیمانے پر سبزیوں کی کاشتماہرین خوراک کے ایک اندازے کے مطابق انسانی جسم کی بہترین نشوونمااور بڑھوتری کے لیے غذا میں سبزیوں کا استعمال300 تا 350گرام فی کس روزانہ ہونا ضروری ہے۔ جبکہ پاکستان میں سبزیوں کا فی کس روزانہ استعمال 100 گرام سے بھی کم ہے۔ سبزیوں کے اس کم استعمال کی ایک وجہ کم پیداوار اور سبزیوں کا مہنگا ہونا بھی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تمام وسائل بروئے کار لاتے ہوئے سبزیوں کی پیداوار میں ممکنہ حد تک اضافہ کریں تا کہ وطن عزیز میں سبزیوں کی بدولت غذائیت کی کمی کو دور کیا جاسکے۔ گھریلو پیمانے پر سبزیوں کی کاشت اس سلسلہ میں انتہائی مؤثر کاوش ہے۔ گھریلو باغیچہ پر تھوڑی سی محنت سے نہ صرف تازہ اور زہریلی ادویات سے پاک سبزی پیدا کی جاسکتی ہے بلکہ یہ مشغلہ اخراجات کو کم کرنے کا اچھا ذریعہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

سبزیوں کی درجہ بندی

درجہ بندی بلحاظ موسم

موسمی عوامل کے لحاظ سے سبزیوں کی دو اقسام ہیں:

1 ۔گرمیوں کی سبزیاں

گرمیوں کی سبزیوں میں ٹماٹر،مرچ،شملہ مرچ، بینگن، کھیرا، بھنڈی، کالی توری، گھیا توری، گھیا کدو،کریلا، اروی، تربوز، خربوزہ، حلوہ کدو، پیٹھا کدو، آلو، ہلدی اور ادرک وغیرہ ہیں جو عموماً فروری مارچ میں کاشت ہوتی ہیں اور ستمبر اکتوبر تک ان کی برداشت جاری رہتی ہے۔ یہ گرمیوں کی سبزیاں کہلاتی ہیں۔

2 ۔سردیوں کی سبزیاں

یہ سبزیاں ستمبر اکتوبر میں کاشت ہوتی ہیں اور فروری مارچ تک برداشت ہوتی رہتی ہیں۔ موسم سرما کی سبزیوں میں پھول گوبھی، بند گوبھی، آلو، پیاز، سلاد، مولی، شلجم، مٹر، گاجر، پالک، میتھی، دھنیا، لہسن اور چقندر شامل ہیں۔

درجہ بندی بلحاظ طریقہ کاشت:

 طریقہ کاشت کی بنیاد پر سبزیات کی تین قسمیں ہیں۔

1 )۔ براہ راست بیج سے کاشت ہونے والی سبزیاں

موسم سرما میں مولی،شلجم، گاجر، پالک، دھنیا، میتھی اور مٹر جبکہ موسم گرما میں بھنڈی ، کریلا، کھیرا، تربوز اور خربوز وغیرہ کو زمین میں براہ راست کاشت کیا جا ئے گا۔

2)۔پنیری سے کاشت ہونی والی فصلیں

ٹماٹر، مرچ، شملہ مرچ، اور بینگن گرمیوں میں جب کہ پھول گوبھی، بند گوبھی، بروکلی، پیاز اور سلاد موسم سرما میںبذریعہ پنیری کاشت ہونے والی سبزیاں ہیں۔ علاوہ ازیں شعبہ سبزیات قومی زرعی تحقیقاتی مرکز اسلام آباد کی جدید تحقیق کے مطابق موسم گرما کی بیلوں والی سبزیات مثلاً کھیرا، تر، گھیا کدو وغیرہ کی اگیتی پنیری پلاسٹک کی تھیلیوں میں اُگائی جا سکتی ہے۔ جس سے پیداوار میں دُگنا اضافہ ممکن ہے۔

3)         نباتاتی حصوں سے کاشت ہونے والی سبزیاں

اروی،آلو، لہسن، ہلدی، ادرک، اور پودینہ نباتاتی حصوں سے کاشت ہونے والی سبزیاں ہیں۔ جبکہ شعبئہ سبزیات، قومی زرعی تحقیقاتی مرکز، اسلام آباد کی تحقیق کے مطابق ٹماٹر کی لمبے قد والی اقسام مثلاً منی میکر کے بغلی شگوفوں اور ٹماٹر کی دیگراقسام کی قلمیں بطور افزائش استعمال میں لائی جا سکتی ہیں۔

گھریلو باغیچہ کی منصوبہ بندی

٭          سبزیوں کے لیے ایسی جگہ منتخب کیجئے جہاں پودے دن میں کم از کم چھ گھنٹے سورج کی روشنی سے مستفید ہوسکیں۔ اگر آپ کے صحن یا باغیچے میں کوئی ایسی جگہ ہے جہاں زیادہ دیر تک سایہ رہتا ہو تو ایسی جگہ پر پتوں والی سبزیاں مثلاً دھنیا، پودینہ، پالک، سلاد وغیرہ کاشت کیجئے۔

٭          کاشت کے لیے منتخب رقبہ کو ناپ لیں تا کہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ رقبہ کے لیے کتنی کھاد اور بیج کی ضرورت ہو گی۔ ایک مرلہ زمین272مربع فٹ کے برابر ہوتی ہے۔ یعنی ایک مرلہ زمین کی لمبائی اور چوڑائی کا حاصل ضرب 272فٹ ہو گا۔

٭زمین ناپنے کے بعد اپنی ضرورت، پسند اور موسم کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف سبزیوں کے لئے رقبہ مختص کر لیں۔ بعض سبزیاں مثلاً دھنیا، پودینہ کم رقبے سے بھی گھر کی ضرورت پوری کر دیتی ہیں۔ جبکہ دیگر سبزیوں کو زیادہ رقبے کی ضرورت ہوتی ہے۔

٭کاشت سے قبل کاغذ پر ایک خاکہ بنا کر اس میں منتخب سبزیاں لکھ لیں اسی طرح سے خاکہ میں سبزیوں کی قطاروں، پودوں کا فاصلہ، کھاد کی ضرورت وغیرہ درج کر لیں تا کہ زمین کی تیاری کے وقت دشواری نہ ہو۔ بیلوں والی سبزیوں مثلاً مٹر ، کدو وغیرہ کو حفاظتی باڑ کے ساتھ کاشت کریں۔ تا کہ بیلوں کو باڑ پر چڑھایا جا سکے۔ سبزیوں کی قطاروں کا رُخ سردیوں میں شمالاً جنوباً رکھیں تا کہ دھوپ زیادہ مقدار میں مل سکے۔

٭سبزیوں کو پالتو جانوروں مثلاً مرغی، خرگوش وغیرہ سے بچانے کے لئے رقبے کے اردگرد حفاظتی باڑ کا انتظام کیجئے۔ پرندوں مثلاً طوطے چڑیا وغیرہ سے مٹر اور دیگر سبزیوں کو بچانے کے لئے رقبے میں چمکیلی پٹی باندھنے سے پرندے سبزیوں سے دور رہتے ہیں۔

٭ ایک خاندان کی سبزیاں ایک ہی ٹکڑے (رقبہ) پر یکے بعد دیگرے کاشت نہ کریں۔ تا کہ کیڑوں اور بیماریوں کے حملے کی شدت میں کمی رہے مثلاً بیلدار سبزیاں (کدو، توری وغیرہ) آلو، ٹماٹر مرچ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ عملی کاشت کاری سے قبل درج ذیل تمام اہم نکات مد نظر رکھیں۔ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ باغیچہ کی تیاری کیجئے۔

عملی کاشت کاری:

 عملی کاشت کاری کے لئے درج ذیل سامان کی ضرورت ہو گی۔
  1. درانتی:۔گھاس کی کٹائی کے لئے
  2. کھرپہ:۔گوڈی اور زمین نرم کرنے کے لئے
  3. ریک:۔ کٹی گھاس سمیٹنے کے لئے نیز زمین ہموار کرنے کے لئے
  4. کسی:۔ زمین کی کھدائی نیز پٹڑیاں یا وٹیں بنانے کے لئے
  5. کدال:۔ سخت زمین کی کھدائی کے لئے
  6. فوارہ:۔ آب پاشی کے لئے


خورا کی وادویاتی اہمیت:

سبزی طبی لحاظ سے سر دتر درجہ دوم کی تاثیر رکھتی ہے۔یہ منی پیدا کرتی ہے اور اس کو گاڑھا بھی کرتی ہے۔آئیوڈین کا سستا مآخذ ہے۔اس میں وٹامن اے،بی اور سی وافر مقدار مین پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس میں کیلشئیم، لوہا اور فاسفورس بکثرت موجود ہیں۔ طبی نکتہ نظر سے پھل کی بجائے اس کے بیج زیادہ مفید ہیں۔ جوکہ سرعت انزال جریان واحتلام جیسی بیماریوں کا علاج کرنے میں استعمال ہوتے ہیں۔ ٹھنڈی تاثیر کی وجہ سے پیشاب کی جلن دور کرتی ہے ۔ پیچش کا علاج کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہے۔اس لئے کمزور معدے والے افراد سے بکثرت ا استعماک نہ کریں۔

Bhindi Tori Ki Kashat in Pakistanفصلی ترتیب:

یہ فصل مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے:
بھنڈی فروری مارچ ۔میتھرے (اگست) سبزی نومبر
بھنڈی فروری چاول (جولائی)۔گوبھی نومبر
بھنڈی توری فروری چاول (جولائی) گندم نومبر
بھنڈی (فروری مارچ) چاول (جولائی اگست)۔گندم نومبر
بھنڈی (مئی جون) گندم (نومبر دسمبر)۔ چاول جولائی
تیر تیب نمبر ایک وسطی وجنو بی پنجاب کی ٹھنڈی اور صحت مند زمینوں میں زیادہ نفع بخش ثابت ہو سکتی ہیں۔ ترتیب نمبر ایک اور دو زیادہ نفع بخش ثابت ہوسکتی ہیں۔ ترتیب نمبر تین ، چار اور پانچ میں زیادہ مداخلات (Inputs) استعمال کرکے ہی نفع کمایا جاسکتاہے۔

زمین اور اس کی تیاری:

میراچکنی میرازمین میں بہتر ہوتی ہے۔کلراٹھی زمینوں میں اس کا اگاؤ نا مکمل ہوتاہے۔ بڑ ھوتری بھی صحیح نہیں ہوتی۔ فصل انچی نیچی رہیتی ہے۔ ریتی زمین میں بھی اس کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اچھے نکاس اور بہتر ہواداری والی صحتnمند زمین میں کاشت کی جائے تو ریکارڈ پیداوار حاصل ہو سکتی ہے ۔مسلسل کئی سالوں تک ایک ہی زمین میں بھنڈی توری کاشت کی جائے بیماریوں کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ہر سال ایک ہی کھیت میں بار بار بھنڈی کاشت کی جائے۔ یہ زیادہ گہری جڑوں والی فصل ہے۔ اس لئے زمین کافی گہرائی تک تیار کی جائے۔ بھنڈی توری کے بیجوں میں اگنے کی طاقت زیادہ نہیں ہوتی اس لئے باریک شدہ اور لیزر سے ہموار کردہ زمین میں کاشت کی جائے تو یکساں اگاؤ کی وجہ سے بھر پور پیداوار حاصل ہو سکتی ہے۔ یہ فصل اگر نامکمل زمینی تیاری کے بعد (زمین کو اچھی طرح خشک کیے بغیر) کاشت کردی جائے تو نہ صرف بھنڈی کا اگاؤ کم ہوتاہے بلکہ جڑی بوٹیاں اور سابقہ فصل کے بچے ہوئے کیڑے مکوڑے اس پر حملہ آور ہو کر شدید نقصان پہنچاسکتے ہیں۔ اگر چہ سارے پنجاب کے آبپاشی علاقوں میں اگائی جاسکتی ہے لاہور، قصور، کمالیہ، ساہیوال، گوجرانوالہ اور شیخو پورہ میں زیادہ اگائی جاتی ہے۔

آب وہوا اور اگاؤ:

بھنڈی کم ازکم 15تا16 اسطاً25تا41 درجے سینٹی گریڈ پر اگ سکتی ہے۔سبزپری کا عمومی اگاؤ 60 تا80 فیصد دوغلی اقسام کا 95 فیصد سے بھی زیادہ ہوتاہے۔ 20 سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت پر بھنڈی کا اگاؤ کم ہو جاتا ہے ۔ بہتر حالات میں ذخیرہ کر دہ بیج کی روئیدگی دو سال تک بر قرار رہتی ہے۔لیکن احتیاطاً ایک سال سے زیادہ پرانا بیج نہ لگایاجائے۔ منل میں بھنڈی کاشت کرنے والوں کو مطلع کیاجا تاہے کہ یہ فصل سردی اور کورے سے بری طرح متاثر ہوتی ہے ۔ اس لئے منل میں بھنڈی کاشت کرنے سے گریز کیاجائے تاہم مخلوط کاشت کی صورت میں منل میں بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ گرم و قدرے خشک ماحول میں زیادہ پیداوار دیتی ہے۔ شدیدگرم وخشک موسم مین اس پر جوؤں کا حملہ ہوتا ہے۔ لیکن گرم مرطوب آب وہوامیں اس پر کیڑے اور بیماری (وائرس)کاشدید حملہ ہوسکتا ہے۔

اقسام:

سبزپری بھنڈی کی بہترین مقامی قسم ہے۔ اس کے علاوہ دوغلی اقسام میں مخملی، بہاریہ ایف۔1 قسم نمبر 008 اور ادایچ152 بھی زیر کاشت ہیں۔

الف سبزپری:

اس کا رنگ ہلکا سبز ہوتا ہے اس لئے دوغلی اقسام کے مقابلے میں کم پسند کی جاتی ہے۔پیداوار بہتر،فروری کاشت کی صورت میں اس پر وائرس کا حملہ کم ہو تا ہے لیکن مئی جون میں کاشت کی صورت میں اس پر وائرس کا شدید حملہ ہوسکتا ہے۔بہاریہ کاشت کی صورت میں کئی دوغلی اقسام سے بہتر پیداوار دیتی ہے۔اس کے پھل پر دوغلی اقسام کے مقابلے میں بال زیادہ ہوتے ہیں۔یہ قسم چونکہ مقامی حالات میں تیار کی گئی ہے اس لئے انڈیا سے درآمدہ بیج کے مقابلے میں مقامی آب وہوا کے ساتھ بہتر مقابلہ کر سکتی ہے۔

ب - دوغلی اقسام:

اوایچ 152 ، بہاریہ الف۔ 1 اور قسم نمبر 008 کی بھنڈی کارنگ گہر ا سبز اور مارکیٹ میں سبز پری کے مقابلے میں زیادہ پسند کی جاتی ہے۔ان کے پودے جھاڑی نما (Bushy) ہوتے ہیں۔ گندم کا ٹنے کے بعد مئی جون میں کاشت کی صورت میں اس کی پیداواری صلا حیت سبز پری کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ ہائبرڈ اقسام کی رنگ گہرا سبز اور پر کشش ہوتا ہے۔جون میں کاشتہ دوغلی اقسام پر وائرس کا شدید حملہ نہیں ہوتا۔

کھادیں:

بھنڈی توری زمین سے خوراکی اجزا چٹ کر جانے والی (Exhaustive) فصل ہے۔نیز یہ زیادہ گہری جڑوں والی فصل ہے اس لئے فاسفورس اور پوٹاش والی بیشتر کھادیں بجائی کے وقت زمین میں ملادی جائیں۔دوبوری زر خیز اور دو بوریا استعمال کرکے بھنڈی توری کی کامیاب فصل اگائی جا سکتی ہے۔مختلف کھادیں استعمال کرنے کی تفصیل مندر جہ ذیل ہے۔

الف - بوائی کے وقت استعمال:

زمین کے زرخیزی ٹسیٹ، آب وہوا، زمینی صحت وساخت اور علاقے کی مناسبت سے بھنڈی کو 25-30-35 تا 25-50-50 کلو گرام فی ایکڑ نائٹروجن ، فاسفورس اورپوٹاش ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔اس میں سے ایک تہائی نائٹروجن،تمام فاسفورس اور نصف پوٹاش بوقت کاشت ڈالی جائے۔ بقیہ نا ئٹر وجن اور پوٹاش کاشت کی 35 تا 150 دن کے اندر اندر Split کرکے ڈالیں۔ جب بھنڈی بڑی ہو جا ئے تو جائٹروجن ڈلنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ہر پندرہ دن بعد 15 تا20 کلوگرام یوریا کھاد فرٹیگیشن کے طریقے سے ڈالی جائے۔ بیج والی فصل کو فاسفورس اور پوٹاش والی کھادیں زیادہ ڈالی جائیں۔

ب - کھادوں کی سپریں:

بھرپور اور مثالی فصل حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ جب بھنڈی ارنی شروع ہوجائے تو ہر دو ہفتہ بعد اعلی کولٹی کی NPK سپرے کی جائے۔ زمین میں پوٹاش ڈالنے کے بجائے پوٹاش کی سپرے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے اس مقصد کے لئے 45:15:5 یا 44:3:14 گریڈ کی فو لئر فر ٹیلا ئزر فصل کاشت کرنے کے بعد 50 تا 100 دن کے اندر اندر قسط وار کرکے سپرے کی جائے تو بھر پور پیداوار حاصل ہوتی ہے۔

ج - اضافی مرکبات:

جب فصل 50 دن کی ہوجائے تو امائنو ایسڈز 3 کلوگرام فی ایگڑ کے حساب سے فر ٹیگیشن کے طریقے سے ڈالے جاسکتے ہیں۔ اگر ازمین سخت یا کلر اٹھی ہو تو آبپاشی کے ساتھ سر فو گارڈ یا یوایس۔ 20 دس تا20 کلو جی ایکڑ حساب سے فر ٹیگیشن کے طریقے سے ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

آبپاشی

بھنڈی کو زمینی ساخت ، وقت کاشت ، مقصد کا شت، بھنڈی کے دورا نئے اور آب وہوا کی مناسبت سے مارچ میں کاشتہ بھنڈی کو دس تا بیس مرتبہ آبپاشی کی جاسکتی ہے۔ زمین اور موسم کی مناسبت سے تعداد میں کمی پیشی کی جاسکتی ہے۔

یکساں اگاؤ کی خاطر پہلا پانی خاص احتیاط سے لگایا جائے۔ اسے اگاؤ کے لئے چونکہ زیادہ نمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے پہلا پانی کھیلیوں کی نصف تک اوربہتر اگاؤ کی خاطر دوسراپانی دو تہائی اونچائی تک لگایا جائے۔ جب فصل 30تا35 دن کی ہو جائے تو اسے سو کا لگایا جائے تاکہ پھول آوری کا عمل جلدی شروع ہوسکے۔ اس مقصد کے لئے اپریل کے شروع میں آبپاشی کنڑول کرکے بھنڈی کی پھل آوری کی صلاحیت میں اضافعہ کیا جا سکتا ہے۔ پھل آوری شروع ہونے کے بعد آبپاشی کر دی جائے۔ اس کے بعد موسم کی مناسبت سے حسبِ معمول آبپاشی کا عمل جاری رکھا جائے۔

فصل کے پورے عرصہ کے دوران پرپٹڑیوں کے اوپر پانی نہ چڑ ھنے دیاجائے۔ اگر پانی پٹڑیوں کے اوپر چڑ ھتا رہے تو زمین دب کر سخت ہوجاتی ہے، آکسیجن کی کمی کی وجہ سے بھنڈی توری کی جڑیں زیادہ دور تک نہیں جا سکتیں۔ جس کے نتیجے میں پودے پوری آزادی سے نشوونما نہیں کر سکتے اور مثالی پیداوار حاصل نہیں ہو سکتی۔ جولائی کاشتہ بھنڈی توری کو مون سون کی بارشوں اورموسمی پیش گوئی کی مناسبت سے پانی لگانا چا ہئے۔ زیادہ پھل لینے کی غر ض؂ سے کسی بھی مر حلے پر بھر پور آبپاشی سے گریز کیا جائے۔

شرح بیج:

سبزپری کا ستر فیصد اگاؤ والا20تا25 کلو فی ایکڑ استعمال کیا جائے ۔ بیج کے لئے8-6 کلو گرام فی ایکڑ استعمال کیا جائے۔ زیادہ اگیتی کاشت کی صورت میں سبزپری کا 25 کلو یا زیادہ بیج ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔بیشتر دوغلی اقسام کا 4 تا5 کلو گرام فی ایگڑ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔اس کا ایک سال پرانا بیج بہتر اگاؤ دیتاہے۔ اگر بیج دو سال پرانا ہو تو 50% زیادہ دالا جا ئے۔

طریقہ کاشت:

بھنڈی توری کھیلیوں کے کناروں پر چوکے لگاکر کاشت کی جاتی ہے۔ ہموار زمین میں دس دس مرلے کے کیاروں میں دو تا اڑھائی کے فاصلہ پر 6 انچ گہری کھیلیوں کے دونوں طرف چوکے لگا جائیں۔ مثالی پیداوار حاصل کر نے کے لئے چوکے لگانے کے ہفتہ دس دن بعد ناغے پر کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ فروری کاشتہ بھنڈی کی کھالیاں 6 انچ سے کم گہری جبکہ مئی جون میں کاشت کی جانے والی فصل کی کھالیاں 6 انچ سے زیادہ بنانے کی تاکید کی جاتی ہے۔

الف - سبزپری:

سبز بھنڈی کے لئے مارچ میں کاشت کی صورت میں پودوں کا باہمی جاصلہ ایک ایک انچ رکھا جائے تو مناسب اور باریک بھنڈیاں لگتی ہیں۔ بیج کی غرض سے کاشتہ فصل کے لئے 12-9 انچ برقرار رکھا جائے۔ اس طرح پودوں کی تعداد سبز بھنڈی کی صورت میں اڑھائی تا تین لاکھ اور بیج کی صورت میں 40-30 ہزار ہونی ضروری ہے۔ ب۔ دوغلی اقسام میں اوایچ 152 اور قسم نمبر008 خواہ مارچ میں کاشت کی جائیں یا مئی جون میں ، ان کے پودوں کا باہمی فاصلہ زیادہ ہونے کے باوجود ان کو باریک باریک بھنڈیا ں لگی ہیں۔

مخلوط کاشت:

اڑھائی فٹ کے فاصلے پر فروری کاشتہ کھاد میں کھیلیوں کے کناروں پر یاتربوز میں بھی بھنڈی توری کاشت کی جاسکتی ہے۔

وقت کاشت:

آبپاشی پنجاب کے لئے جموعی طور پر وسط فروری تاوسط مارچ زیادہ موزوں ہے۔ پنجاب میں بھنڈی توری کی زیادہ تر کاشت فروری اور مارچ کے دوران ہوتی ہے۔ وقتِ کاشت کی تغیرات کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: الف۔ بہاریہ کاشت: بھنڈی توری کی اگیتی کاشت مقامی موسمی رجحان دیکھ کر کرنی چا ہئے۔ موسمی حالات سابقہ عشروں کے مقابلے میں بہت بدل چکے ہیں اسلئے وسطی و جنوبی پنجاب کے موجود موسمی حالات میں بھنڈی توری کی اگیتی کاشت فروری کے پہلے ہفتے میں کی جاسکتی ہے۔ پنجاب کے بیشتر آبپاش علاقو ں میں مجموعی طور پر وسط فروری تا وسط مارچ زیادہ موزوں ہے۔ زیادہ اگیتی بہار یہ فصل کا اگاؤ کم ہوتا ہے۔ لہذا درمیانی کاشت کو تر جیح دی جائے۔ 25 فروری سے10 مارچ کے دوران کا شتہ فصل زیادہ نفع بخش ثابت ہو تی ہے۔ بہاریہ کاشت کے لئے سبز پر ی کو تر جیح دی جائے۔

ب - گرمی میں کاشت:

موسم گرما کی فصل عام طور پر گندم کے بعد کاشت کی جاتی ہے۔سبزپر ی کا بیج پکانے کے لئے آخرجون تاوسط جوالائی زیادہ موزوں ہیں۔ گندم کے بعد مئی جون میں کا شت کی صورت میں سبزپری کی بجائے دوغلی اقسام کو تر جیح دی جائے۔اس موسم میں سبزپری پر وائرس کا شدید حملہ ہوسکتاہے لیکن دوغلی اقسام کافی حد تک وائرس سے محفوظ رہتی ہیں۔

ج - موسمی پیش گوئی کی مناسبت سے کاشت

بھنڈی توری موسمی پیش گوئی کی مناسبت سے کاشت کی جائے توکرنڈسے بچ کر پودوں کی مناسب تعداد اگائی جاسکتی ہے۔ہر ضلع کی موسمی پیش گوئی سے باخبر رہنے کے لئے انٹر نیٹ بہتر ذریعہ ہے ۔ اس سلسلے میں کئی ویب سائٹس سے م معلومات لی جاسکتی ہیں۔ پنجاب کے کسی بھی ضلے کا نام لکھنے کے بعد weather forecast لکھ کرپنجاب کے ہر ضلعے کا بھر کا ٹھیک ٹھیک موسم دیکھا جا سکتا ہے۔

بھنڈی توری کا بیج بنانا:

اگر چہ بہاریہ بھنڈی توری سے بھی بیج بنایا جا سکتاہے لیکن جون کے شدید گرم اور خشک موسم میں پکنے والے بیج کا اگاؤ متاثر ہوتا ہے۔اس لئے بیج کے لئے جون یا جولائی کاشتہ فصل زیادہ مو زوں سمجھی جاتی ہے۔ جولائی کاشتہ بھنڈی توری (سبزپری) پر وائرس کا شدید حملہ ہوسکتاہے۔ بیج والی فصل سے پھول گرنے پر بد شکل ، غیرضروری اور وائرس سے متاثرہ پودے نکال دیئے جائیں۔ اگر زیادہ اقسام کا بیج بنانا ہو تو مختلف اقسام کے درمیان فاصلہ 500 میڑ رکھیں۔ اگر پہلی چند ایک چنائیاں کر لی جائیں تو بھی بیج کی پیداوار میں نمایاں کمی واقع نہیں ہوتی۔

بیج والی فصل پر بارش:

بھنڈی توری کے بیج میں چونکہ خوابیدگی نہیں ہوتی اس لئے پکنے کے فوراً بعد اگ سکتا ہے۔ پکائی کے دوران اس کے بیج کو بارش اور نمی سے بچاناازحد ضروری ہے۔ اگر پکی ہوئی یا کٹی ہوئی فصل پر بارش ہو جائے تو اندرونی طور پر بیج کے اگاؤ کا عمل شروع ہوجاتاہے۔اس کے بیج کا اگاؤ بری طرح متاثر ہو جاتاہے۔ اس لئے بارش سے متاثر بیج کھبی بھی استعمال نہ کیا جائے۔

مارکیٹنگ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ

سندھ خاص طورپر ٹھٹہ اور بدین سے سبز بھنڈی کی سپلائی فروری میں ہی شروع ہوجاتی ہے۔اور اپریل تک جاری رہتی ہے۔ یہ کافی اونچے ریٹ سے فروخت ہوتی ہے۔ اس کے بعد وسطی پنجاب کی اگیتی فصل وسط اپریل کو مارکیٹ میں آتی ہے جس کا ریٹ پہلے دو ہفتے بہتر رہتا ہے اس کے بعد تد ریجاً کم ہو جاتاہے۔ باافراد پیداوار کی وجہ سے جون اور جولائی کے دوران اکثر اس کا ریٹ گرجاتاہے۔ جولائی میں بہت سی بھنڈی توری ختم ہو جاتی ہے۔ اس لئے مون سون کی بارشوں کے دوران اس کا ریٹ دوبارہ بہتر ہوجاتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ستمبر اکتو بر تک جاری رہتاہے۔

برداشت یا چنائی:

وقتِ کاشت ، شرح بیج اور اقسام کی مناسبت سے فروری کاشتہ بھنڈی کی پہلی چنائی عموماً 55 تا60 دنو ں میں تیارہو جاتی ہے۔گرمیوں میں کاشتہ بھنڈی کی پہلی چنائی 45 تا50 دنو ں میں کی جاسکتی ہے۔چنائی عمل بہت مشکل ہو تاہے ہاتھوں پر ہوادار دستانے چٹرھاکر یا انگلیوں پر پٹیاں لپیٹ کر چنائی کر نی چاہئے بڑی سخت بھنڈیوں کی کیمت بہت کم ملتی ہے اس لئے سخت ہونے سے پہلے پہلے بھنڈی کی چنائی کرنی ضروری ہوتی ہے۔چنائی کے دوران بچ جانے والی بھنڈیاں اگلی چنائی تک بڑی ہو جاتی ہے اس لئے چنائی کرنے کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا جائے۔ درمیانی قسم کی بہاریہ فصل بیس تا پچیس چنائیاں دیتی ہے۔ لیکن چنائی کے ساتھ ساتھ اگر مسلسل کھاد، پانی اور کیڑوں کے انسداد کا بندو بست کیا جائے تو چا لیس چنائیاں بھی لی جاسکتی ہیں۔مئی جون میں کاشت کی گئی دوغلی اقسام کی چنائیاں اس سے بھی زیادہ ہوسکتی ہیں۔

پیداوار:

بہاریہ کاشت کی صورت میں تازہ پھل کی پیداوار 100 تا 125 من فی ایکٹر حاصل ہوتی ہے۔ بیج کی 12تا15 من فی ایکٹر حاصل ہوتی ہے۔ لیکن بہتر پیداواری حالات میں تازہ بھنڈی کی پیداوار 200  تا 225 من اوریج کی 18 تا 25 من فی ایکڑ تک حاصل کی جا سکتی ہے۔دوغلی اقسام کی پیداواری صلا حیت 300 من فی ایکڑ سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔

بیماریاں اور ان کا انسداد:

بھنڈی توری پر وائرس ، مر جھاؤ،سفو فی پھپھوندی اور نیما ٹو ڈز کی بیماریاں حملہ آور ہوسکتی ہیں۔

مرجھاؤ:

جمر جھاؤ کی بیماری کا امکان ہو تو کاشتی امور کی بہتری کے ساتھ ساتھ بیج کو ٹاپسن ایم لگا کر کاشت کریں۔ ڈائی ناسٹی یا سن کے متبا دل زہریں دو ملی لٹر فی کلو بیج کو لگا کر کاشت کریں تو یہ فصل انتدائی بیماریوں خصو صاً مر جھاؤ سے محفوظ رہتی ہے۔ ہر سال ایک ہی کھیت میں بار بار بھنڈی کا شت کی جائے تو جڑوں کی بیماری (Root rot) کا شدید مسئلہ پیدا ہو سکتاہے اس لئے ہر سال جگہ بدل کر کاشت کی جائے۔ مسلسل کئی سالوں تک ایک ہی زمین میں بھنڈی توری کا شت کی جائے تو اس بیماری کے امکانات بہت برھ جاتے ہیں۔

سفوفی پھپھوندی:

مئی جون کے گرم اور خشک موسم کے دوران بھنڈی توری پر سفوفی پھپھوندی کا شدید حملہ ہو سکتاہے۔ مارچ کاشتہ بھنڈی توری کے بیشتر پتے اسی بیماری کی وجہ سے گر جاتے ہیں اور جون کے دوران فصل کا تقریناً خاتمہ ہو جا تاہے اس سے بچاؤ کے لئے ابتدائی علامات ظاہر ہونے پر 50 ملی لڑ سستھین یا ٹو پاس یا ان کے متبادل زہر یں سو لڑ پانی میں ملاکر سپرے کرنے کر نے کی سفارش کی جاتی ہے۔

واترس:

گندم کے بعد کاشت کی جانے والی فصل سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ قوت مدافعت رکھنے والی اقسام کاشت کی جائیں۔متوازن کھادیں ڈالنے کے علاوہ کیڑوں اور جڑی بوٹیوں سے پوری طرح بچایا جائے تو بھی فصل وائرس سے محفوظ رہتی ہے۔ وائر س انتدائی علامات ظاہر ہونے پر 12 فیصد زنک آکسائیڈ 800 ملی لٹر اور بوران 200 گرام 100 لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جائے تو نہ صرف وائرس مزید نہیں پھیلتا بلکہ فصل گہرے سبز رنگ کی ہوجاتی ہے۔ جون یا جولائی میں کا شت کی گئی بھنڈی توری کو کیڑوں اور وائرس سے بچانا کا دشوار عمل ہے۔ ان سے بچاؤ کے لئے خصوصی مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔


نیما ٹو ڈز:

بیج لگانے سے پہلے کاربو فیو ران زہر نو کلوگرام فی ایکڑ کے حساب زمین میں ملائی جائے تو یہ فصل نیماٹو ڈز سے محفوظ رہتی ہے۔دانے دار زہر امین میں ڈالے بغیر بھر پیداوار کا حصو ل مشکل ہوتا ہے۔دانے دار زہر بوئی کے وقت اور مٹی چٹر ھاتے وقت یعنی دو مر تبہ ڈالی جائے تو بھنڈی توری کی فصل حیرت انگیز طور پر لمبے عرصے کے لئے سر سبز رہ کر ریکارڈ پیداوار دے سکتی ہے۔اگر بوائی کے وقت نو کلو گرام فی ایکڑ کے حساب سے کاربو فیو ران یا فیوراڈان استعمال کی جائے تو بیما ٹو ڈز اور بہت سے انتدائی کیڑوں کے مضر اثرات سے بچی رہتی ہے اور فصل کی رنگ گہرا سبز رہتا ہے۔

کیڑے اور ان کا انسداد:

بھنڈی توری کے کیڑوں میں چور کیڑا،چست تیلہ، سفید مکھی، چتکبری سنڈی، تھرپس، جوئیں، ملی بگ اور امریکن سنڈی وغیرہ شامل ہیں۔چور کیڑے کا حملہ اگاؤ کے دوران ہوسکتاہے۔ اگاؤ کے بعد سفید مکھی، چست تیلہ اور تھرپس کا حملہ ہوتاہے۔بیج کے لئے جولائی کاشتہ فصل پر سبز تیلے کا شدید حملہ ہوتا ہے۔پھل آروی کے دوران عموماً چتکبری سنڈی زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔لیکن بعض حا لات میں امریکن سنڈی کا حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ بھنڈی توری کے نظر انداز شدہ کھیتوں میں میلی بگ بھی آسکتا ہے۔ گرم اور خشک موسم کے دوران جوؤں کا شدید حملہ ہو سکتا ہے۔ اگر کیٹروں کا حملہ ابھی انتدائی مر حلے پر ہی ہو تو حسب ضرورت ہلکی اور کم قیمت زہریں استعمال کی جائیں۔ اگر کسی وجہ سے کیڑوں کا شدید حملہ ہو جا ئے تو زیادہ طاقتور اور مہنگی زہریں استعمال کی جائیں۔مثلاً مارچ اپریل کے دوران امیڈا کلو پر ڈ اور ایمامیکٹن سے گذارہ کیا جا سکتاہے۔ لیکن اگست ستمبر کے دوران جب تیلے اور سنڈیوں کیا حملہ شدید تر ہوتا ہے اس وقت کونفیڈاریا ایسیفیٹ یا ڈائی میتھویٹ کے ساتھ پروایکسز ، پروکلیم یا ہیلٹ یا میچ جیسی زیادہ موثر زہریں استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

الف - سفید مکھی اور چست تیلہ:

بھندی توری چست تیلہ کی انتہائی پسندیدہ خوراک ہے۔ اس پر حملہ زیادہ نقصان پہنچاتا ہے اور سفید مکھی کم حملہ کر تی ہے۔ ابتدائی حملہ کی صورت میں ان سے بچاؤ کے لئے کو نفیڈار 250 ملی لٹر یا موسپیلان 125 گرام سو لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جا سکتی ہیں۔اگر سفید مکھی کا شدید حملہ ہو جائے تو پائری پروکسی فن 300 ملی لٹر یا مورینٹو 250 ملی لٹر یا پولو 200 ملی لٹر جیسی طاقت ور زہریں 100 لٹر پانی میں ملاکر تسلی بخش طریقے سے سپرے کی جاسکتی ہیں۔

چست تیلہ:

اگر مسلسل کو نفیڈار سپرے کرنے کے نتیجے میں چست تیلہ سخت جان ہو جائے تو پانرامڈ (Nitenpyram) 200 ملی لٹر یا ایسیفیٹ 250 گرام یا ڈائی میتھویٹ 500 ملی لٹر فی ایکٹر کے حساب سے ہفتے کے وقفے سے دو مرتبہ سپرے کی جائے۔ اور ا س کے بعد پھر کو نفیڈار یا ایکٹارا پاور سپرئر کی مدد سے استعمال کی جائیں تو تیلے کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔

ب - چتکبری سنڈی:

بھنڈی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔اس سے بچاؤ کے لئے ٹریسر 60 ملی لٹر یا دیلٹا میتھرین 300 ملی لٹر یا پروایکسز 75 ملی لٹر یا ان کے متبادل زہریں سو لٹر پانی میں ملاکر استعمال کی جاسکتی ہیں۔

ج - چور کیڑا:

یہ کیڑا آبپاشی علاقوں میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہے۔چور کیڑا بھنڈی کو اگاؤ کے دوران اور پہلے ایک ماہ کے اندراندر نقصان پہنچا سکتاہے۔ اس کے بچاؤ کے لئے ٹالسٹاریا ہائی فینتھرین 200 ملی لیڑ یا سیون 85 بحساب 400 گرام یا لارسبن یا ینڈ وسلفان 800 ملی لٹر سولٹر پانی ملاکر صرف شام کے وقت سپرے کریں۔

د - امریکن سنڈی:

امریکن سندی کے انتدائی حملہ کی صورت میں ایمامیکٹن 200 ملی لٹر استعمال کی جاسکتی ہے۔ لیکن شدید حملہ ہونے پر پروکلیم یا ٹریسریاان کے متبادل زہر سپرے کی جائیں۔ ہر قسم کے سنڈیوں کے شدید حملہ سے بچاؤ کے لئے ریڈی اینٹ100 ملی لٹر یا ٹریسر80 ملی لٹر فی ایکڑ سپرے کی جاسکتی ہے۔

ر - گدھیڑی یا میل بگ:

میلی بگ کے حملے کے انتدائی مر حلے میں کونفیڈار الٹرایا امیڈاکلو پرڈ بھی اس کو مو ثر طور پر کنڑول کر سکتی ہے۔ لیکن شدید حملہ کی صورت میں پرو فینو فاس یا کیورا کران یا لارسبن 1000 ملی لٹر مناسب تر بیت کے بعد استعمال کی جاسکتی ہیں۔

س - ۔جوئیں:

مئی جون کے گرم اور خشک موسم کے دوران نباتاتی جوئیں بھی بھنڈی توری کو شدید نقصان پہنچاسکتی ہیں۔اس سے بچاؤ کے لئے نسواران یا یو نیک یا پولو 200 ملی لٹر فی ایکڑ ڈائی کو فال 300 ملی لٹر یا اوبیران 60 ملی لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

جڑی بوٹیاں:

فروری کاشتہ بھنڈی توری میں ہاتھو، جنگلی پالک، جنگلی ہالون اور چولائی وغیرہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ مارچ سے جولاتی کے دوران کاشتہ فصل اٹ سٹ، ڈیلا، مدھانہ، لمب گھاس ، قلفہ اور چولائی سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔پہلے دو ماہ کے دوران جڑی بوٹیوں کو کنڑول کرلیا جائے تو بھنڈی توری کی فصل کامیابی سے اگائی جاسکتی ہے۔ ان کی تلفی کے لئے زمینی ساخت ، وقتِ کاشت، طریقہِ کاشت اور اگنے والی جڑی بوٹیوں کی مناسبت سے کاشت کے ایک دن بعد پینڈی میتھالین یا ڈوال گولڈ یا کاشت کے ایک ماہ بعد پو ما سپریاگرامکسون سپرے کی جاسکتی ہیں۔ جڑی بوٹی مار

زہریں استعمال کر نے کی تفصیل مندر جہ ذیل ہے:

الف - اگاؤ سے پہلے سپرے:

اگاؤ سے پہلے پہلے زہریں استعمال کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ فروری میں بھنڈی کاشت کر کے پانی لگائیں اور ایک یا دو دن بعد پینڈی میتھالین بحساب 1200 ملی لٹر فی ایکڑ سپرے کی جاسکتی ہے۔ جنکہ مئی جون میں کاشتہ بھنڈی توری پر یہی زہر 1000 ملی لٹر فی ایکڑ سپرے کر یں۔سپرے کرنے کے تقریباً ایک ماہ بعد جڑوں کی مناسب ہواداری کے لئے ایک گوڈی بھی کر دی جائے ۔

وضاحت:

بھنڈی توری پر پینڈی میتھالین زہر ڈوال گولڈ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ثابت ہوئی ہے۔اگر کھیت میں دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ ساتھ ڈیلا اگنے کا قو ئی امکان ہو تو ڈوآل گولڈ بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔اگر سپرے کے ایک ہفتہ بعد تک بارش کا امکان نہ ہو تو نہار یہ کاشت کی صورت میں ڈوآل گولڈ کا فی حد تک محفوظ ہے۔لیکن پوری مقدار میں استعمالکی جائے تو مئی جون میں کاشتہ بھنڈی توری کا اگاؤ بھی متاثر کرتی ہے۔ اس زہر کے محفوظ استعمال کا طریقہ یہ ہے کہ فروری کاشت کی صورت میں بھاری میراز مینوں میں 800 ملی لٹر جبکہ مئی جون مین کاشت کی صورت میں ہلکی یا کلراٹھی زمینوں میں 650 ملی لٹر فی ایکڑ 100 لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہے۔

ب - اگاؤ کے بعد سپرے:

اگر بجائی کے وقت کوئی بھی زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو اور صرف گھاس خاندان کی جڑی بو ٹیوں کا مسئلہ ہو کاشت کے بعد پہلے ایک ماہ کے اندر اندر پرسیپٹ 350 ملی لٹر یا فیٹوکساپراپ یا پوماسپر 400 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جا سکتی ہیں۔ یہ زہریں بھنڈی توری کو نقصان نہیں پہنچاتیں۔ گھاس خاندان کی جڑی بوٹیوں کی بہتر تلفی کے لئے ضروری ہے کہ وتر حالت میں صبح یا شام کے ٹھنڈے وقت میں سپرے کی جائیں۔

متفرق:

زیادہ کھاد یا پانی کی وجہ سے یا مون سون کے دوران بکثرت بارشو ں کی وجہ سے اس کا قد تیزی سے بڑ ھنے لگے تو سٹانس 30 ملی لٹر فی ایکڑ سو لٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہے۔ اس سپرے سے اس کا قد تیزی سے نہیں بڑھتا ہے۔اور پھل آوری کا عمل حسبِ معمول جاری رہتاہے۔ اگر اس کے بیج کو جبر یلک ایسڈ 400ppm یا انڈول ایسٹک ایسڈ 20ppm کے حساب سے لگا کر کاشت کیا جائے تو اگاؤ زیادہ ہوتاہے۔

پیداواری مسائل:

جڑی بو ٹیاں ، کیڑے (چتکبری سنڈی تیلہ)، وائرس کا حملہ اور بیج پکنے کے دوران بارش اس کی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔کرنڈ وغیرہ کی وجہ سے بیج کی نا مکمل اگاؤ اور چنائی میں تا خیر بھی نفع بخشی میں کمی کا باعث بنتا ہے۔

پیداواری عوامل کا حصہ:

اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں کھادوں کا حصہ تقریباً 30 فیصد زمینی کیڑوں، بیماریوں اور جڑی بو ٹیوں سے بچاؤ کا 15 فیصد فصل کی برداشت ومارکیٹنگ کا 35 فیصد بنتاہے۔ ان اخراجات میں زمین کا ٹھیکہ شامل نہیں ہے۔

پیداواری اخراجات اور آمدن:

حالیہ سالوں کے دوران ذاتی زمین پر فروری میں کاشت کی صورت مین بھنڈی توری پیدا کرنے کافی ایکڑ خرچ61 ہزار روپے سے بھی زیادہ آتا ہے۔ (وسطی پنجاب کے 1 تا 10 ایٹر والے کاشتکار، نصف مقدار نہری پانی دستیاب صرف نا گزیر اطاقی اخراجات شامل کرتے ہوئے زمینی تیاری 5000، کاشت 2000، بیج دوغلی اقسام 8000، کھادیں 10000، پانی 3000، جڑی بوٹی2000، کیڑے 5000، برداشت (30 چنائیاں) 20000، ٹرانسپورٹ 5000 متفرق 1000، کل 61000) بہتر پیداواری ٹیکنالوجی پر عمل پیرا ہونے کے ساتھ ساتھ اگر مارکیٹ اور موسمی حالات بھی ساز گار رہیں تو 250 من بھنڈی توری پیدا ہو سکتی ہے۔ جس سے تین لاکھ روپے سے زیادہ کمائے جا سکتے ہیں۔ مناسب حکمت عملی کی بدولت مذ کورہ اخراجات میں کمی کر کے اس سے بھی زیادہ بچت کی جاسکتی ہے۔

نفع بخش کاشت کے اہم راز:

اس فصل کی نفع بخش کاشتکاری کے اہم رازوں میں قسم سبزی کو مناسب وقت پر اچھے طریقے سے قدرے زیادہ بیج ڈال کر کاشت کرکے پودوں کی مناسب (تین لاکھ) تعداد حاصل کرنا، فصل کو کیڑوں و جڑی بوٹیوں سے بچانا، ؤکھاد ڈال کر فصل کو مٹی چڑ ھا نا، نشونما اور پھل آوری کو تحریک دینے والے مرکبات کی سپرے کرنا ، پانی کا سوکا لگا کر اگیتا پھل حاصل کرنا ، کھاد، پانی اور ہارمون استعمال کر کے قد کنٹرول کرنا اور مناسب سائز کی چنائی کرکے مارکیٹنگ کرنا شامل ہیں۔

[youtube src="3_G-hbamQZ8"]


پاکستان میں اس سال شہد کی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ جبکہ شہد کی قیمتیں بھی غیر معمولی طور پر بڑھی ہیں۔ جس کی ایک وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کو قرار دیا جارہا ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور اکتوبر میں بے موسم کی بارش و ژالہ باری سے شہد کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی ہے اور گزشتہ برسوں کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہوئی ہے۔ خدشہ ہے کہ شہد کی ایکسپورٹ کے آرڈر پورے نہیں کیے جاسکیں گے، جس کی وجہ سے آئندہ سال کیلئے توقعات کے مطابق آرڈر ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
پاکستان ہنی ایسوسی ایشن کے ذرائع کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر شہد کی پیداوار 40 ہزار ٹن ہے۔ سب سے زیادہ بیری کے شہد کی پیداوار ہے اور یہی شہد ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ باقی اقسام کے شہد مقامی مارکیٹ میں ہی فروخت ہوتے ہیں۔ شہد کی فارمنگ سے منسلک افراد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ڈیمانڈ بیری کے شہید کی ہے اور دیگر کے مقابلے میں بیری کے شہد کی پیداوار دگنی ہے۔ بیری کے شہد کا سیزن عمومی طور پر اگست کے آخر سے شروع ہوکر نومبر تک جاتا ہے۔ جبکہ اس کے ہول سیل کاروبار کا سیزن وسط اکتوبر سے شروع ہوکر جنوری تک چلتا ہے، جو شہد کے کاروبار سے منسلک لوگوں کے منافع کا سیزن ہوتا ہے۔ تاہم اگر بیری کا شہد اچھا نہ ہو یا اس کی پیداوار کم ہو تو کاروباری لوگوں کو خاصا نقصان ہوتا ہے۔

ماہرین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بیری کے شہد کی تین کشید ہوتی ہیں۔ یعنی شہد جمع کرنے والے ڈبوں میں سے تین مرتبہ شہد نکالا جاتا ہے۔ سیزن کے آغاز میں پہلی کشید اکتوبر کے آخر اور نومبر کے شروع میں نکالی جاتی ہے۔ دوسری کشید نومبر کے درمیان اور تیسری کشید نومبر کے آخر اور دسمبر میں ہوتی ہے۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق بیری کا اصلی اور معیاری شہد دوسری کشید کا ہوتا ہے۔ ماہرین کے بقول پہلی اور تیسری کشید کے مقابلے میں بیری کے شہد کے اصل فوائد دوسری کشید سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ دوسری کشید سے حاصل ہونے والا شہد زیادہ تر ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے۔ یہ شہد بہت کم ہی پاکستانی مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے۔ مقامی مارکیٹ میں عموماً پہلی اور تیسری کشید کا شہد فروخت ہوتا ہے۔ یہ شہد گرم علاقوں میں بیری کے درختوں پر لگے پھولوں سے حاصل کیا جاتا ہے، جو عمومی طور پر ستمبر سے اکتوبر کے آخر تک درختوں پر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے اب اس دورانیے میں فرق آگیا ہے۔
ٹریڈنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ شہد کی درآمد پہلے ہی متاثر ہے۔ 2013ء میں شہد کی درآمد تقریباً 9 ملین ڈالر تھی، جو 2017ء میں کم ہوکر تقریباً ساڑھے 6 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ پاکستان ہنی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری شیر زمان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برسوں میں پاکستان سے کم و بیش اٹھارہ سے بیس ہزار کلو گرام کے 700 کنٹینر ایکسپورٹ ہوئے ہیں۔ تاہم اس سال تو شہد کی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی سیزن جاری ہے، اس لئے مکمل اعدادوشمار تو نہیں بتائے جاسکتے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں نظر آرہا ہے کہ شاید اس سال 200 کنٹینر بھی ایکسپورٹ نہ کئے جاسکیں۔ جب پاکستانی ایکسپوٹرز آرڈر پورے نہیں کرسکیں گے تو انہیں آئندہ سال کیلئے آرڈر نہیں ملیں گے۔ کیونکہ خریدار دوسری مارکیٹوں کی طرف رجوع کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں بیری کے علاوہ مختلف اقسام کے شہد ہوتے ہیں۔ لیکن اس سال کسی قسم کے شہد کی پیداوار مناسب نہیں رہی۔ اگر سیزن میں صرف بیری کے شہد کی پیداوار اچھی ہو تو فارمر سے لے کر کاروباری افراد تک، سب فائدے میں رہتے ہیں۔ لیکن اس سال بیری کا شہد بھی بہت کم ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہول سیل مارکیٹ میں دوسری کشید کے شہد کی قیمت 65 ہزار روپے فی من ہے، جوکہ ریکارڈ قیمت ہے۔ قیمت میں اس قدر اضافے کی ایک وجہ تو پیداوار میں کمی ہے اور دوسری بڑی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے، جس نے کاروباری افراد کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کبھی شہد کی صنعت پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ محتاط اندازے کے مطابق شہد کی صنعت سے مجموعی طور پر 10 لاکھ لوگوں کو روزگار مل رہا۔ اگر حکومت اس صنعت پر توجہ دے اور پیداوار بڑھائی جائے تو 20 لاکھ لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ جبکہ ایکسپورٹ 700 کنٹینر سے بڑھا کر تین ہزار کنٹیر تک لے جائی جاسکتی ہے، جس سے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔ شیر زمان کا کہنا تھا کہ شہد کی پیداوار کم ہونے کی متعدد وجوہات ہیں، جس میں ایک تو موسمی تبدیلی، دوسری جنگلات کا کم نہ ہونا اور تیسری آلودگی میں اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ فارمرز کا غیر تربیت یافتہ ہونا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے ان مسائل پر توجہ دی جائے تو شہد کی صنعت میں بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔
محکمہ ماحولیات خیبر پختون کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر نعمان رشید کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پاکستان میں شہد کی صنعت موسمی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ غفلت کا شکار ہورہی ہے ۔ بیری کے درخت آبادیوں کی نذر ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے پیداوار کم ہوتی جارہی ہے۔ اس سال اکتوبر، نومبر میں بے وقت بارشیں اور ژالہ باری ہوئی، جس سے بیری کے درختوں پر موجود پھول تباہ ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے ایک موثر پالیسی تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

کماد کو زمینی ساخت ، زمینی نکاسی، زمینی زرخیزی، نہر یا دریا سے فاصلے کی وجہ سے زمین کی آبی حیثیت Water Stauts ،نہری پانی کی دستیابی اور طریقہ ہائے کاشت کے مناسبت سے پنجاب کے مختلف علاقوں میں کھادوں کی مختلف مقدار ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر گنے کا شمار چونکہ زیادہ کھادیں طلب کرنے والی فصلوں میں ہوتاہے۔ اس لئے اسے زیادہ کھادیں ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ ہر قسم کے پیش نظر دو بوری ڈی اے پی ، تین بوری یوریا، دیڑھ بوری ایس او پی، زنک و بوران دودو کلو اور میگنیشیم سلفیٹ پانچ کلو گرام فی ایکڑ کے حساب سے ڈالنے سے بہتر پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے ۔ کماد کے لئے خوراکی اجزا کی تفصیلات مندرجہ ذیل ہیں۔

کھاد کی اصل ضرورت کنتی ہوتی ہے:
ایک ایکڑ سے 1600 من گنا پیداکرنے کے لئے 188 کلو نائٹروجن ، 48 کلو فاسفورس اور 448 کلو پوٹاش اور چھوٹے
خوراکی اجزااستعمال ہوتے ہیں۔ اگرچہ خوراک کی کچھ مقدار پہلے سے موجود زمین سے بھی دستیاب ہوجاتی ہے۔ لیکن بھر پور پیداوار لینے کے لئے پھر بھی کافی مقدار اضافی طور پر ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتاہے۔ کہ گنے کے لئے پوٹاش کی ضرورت سب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ اگر کوئی کاشتکار 2000 من فی ایکڑ پیداوار حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے خود ہی اندازہ کر لینا چاہئے کہ کتنی زیادہ خوراک ڈالنے کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

کماد زیادہ کھاد طلب فصل ہے:
یہ بات بھی تجربات سے ثابت ہوچکی ہے۔ کہ کماد صرف زیادہ خوراک ڈالنے سے ہی بھر پور پیداوار دیتاہے۔ کماد کی پیداوار میں کھادوں کا حصہ 57 فیصد تک ہے۔ ہمارے بیشتر کاشتکار ضرورت سے بھی کم کھاد استعمال کرتے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ سے پتہ چلا ہے کہ ہمارے 30 فیصد کاشتکار فاسفورس، 40 فیصد نائٹروجن اور90 فیصد پوٹاش ضرورت سے کم استعمال کرتے ہیں کماد کو اگر کھاد کم ڈالی جائے تو اس کی پیداوار بری طرح گر جاتی ہے۔ کماد کو کھاد پوری مقدار میں ڈالی جائے تب ہی اچھی پیداوار دیتاہے۔ اس لئے کاشتکاروں کو مشورہ دیاجاتاہے کہ دس ایکڑ کے بجائے سات ایکڑ کا شت کرلیں لیکن انکو پوری مقدار ڈالیں تو دس ایکڑ کے مقابلے میں زیادہ پیداوار حاصل ہوسکتی ہے۔


گنے کی فصل کے وقتِ کاشت کے تغیرات

مقامی حالات کی مناسبت سے گنے کے وقت ہائے کاشت میں فرق پایا جاتاہے ۔ حالیہ سالوں کے دوران شدید سردی کا ایک مہینہ چھوڑ کر کم وپیش سال بھر گنا کاشت کیاجانے لگاہے۔ اس لئے گنے وقت کاشت کو محدود نہیں کیا جاسکتا ۔ تاہم بہتر پیداوار کے لئے بہاریہ اور ستمبر کاشتہ کمادکے وقت ہائے کاشت کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے ۔

الف - بہاریہ کاشت:

اگرچہ تجربات سے ثابت ہوچکاہے۔ کہ دو یا تین آنکھوں والے سمے وسط فروری سے وسط مارچ کے دوران کاشت کریں تو پچھیتی (اپریل یا اس کے بعد میں کاشتہ فصل ) کے مقابلے میں زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ لیکن جس سال فروری کے دوران موسم ٹھنڈا (25سیٹی گریڈ یا کم) رہے تو فروری کے بجائے مارچ میں کاشت کیاجائے۔ بہار یہ فصل کی کاشت وسط فروری سے لے کر مارچ کے آخر تک کی جاسکتی ہے۔ لیکن مجموعی طور پر جنوبی پنجاب میں وسط مارچ کے بعد کاشتہ کماد میں پیداوار دیتاہے۔ انٹرنیٹ کی مددسے موسمی رجحان کے پیش نظر وقتِ کاشت کا فیصلہ کرناچاہئے۔ اگر وسط فر وری کے بعد درجہ حرارت کی بالائی حدود ہفتہ بھر یا زیادہ دنوں کے لئے 28 سینٹی گریڈ یا زیادہ رہنے کا امکان ہو تو فروری میں ہی کماد کاشت کردینا چاہئے۔

نئے افق:

ٹھنڈے موسم میں کاشتہ کماد کا اگاؤ کم ہوتاہے۔ لیکن ایک تدبیر اختیار کر کے فروری کا شتہ کماد کا یقینی اگاؤ حاصل کیا جاسکتاہے۔ وہ تد بیر یہ ہے۔ کہ کماد کی سمو ں کو فرٹی گرین سٹارٹ کے 3 فیصد محلول میں دبونے کے بعد کاشت کیا جائے۔ فرٹی گرین سٹارٹ میں نہ صرف گروتھ ہارمون ہوتے ہیں بلکہ اس میں تھوڑی مقدار میں خوراک بھی ہوتی ہے۔

ب - ستمبر کاشت:

ستمبر کاشت اگرچہ ماہ ستمبر کے دوران مکمل کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ لیکن حالیہ سالوں کے دوران موسم پہلے کے مقابلے میں زیادہ گرم اور خشک رہنے لگے ہیں۔ اس لئے جس سال ستمبر میں درجہ حرارت 37 سیبٹی گریڈ یا زیادہ ہو اس سال اس موسم کے کماد کو اکتوبر میں ہونے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اسی طرح اگر مون سون کی بارشیں کم ہوں ۔ تو ایسی صورت میں بھی یہ فصل وسط اکتوبر تک بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ ستمبر کاشتہ کماد کے سموں کو جلدی اگاؤ دینے والے ٹانک یعنی فرٹی گرین سٹارٹ لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔

طریقہ کاشت کماد کاشت کرنے کے چار طریقے ہیں

الف - کھیلیوں میں کاشت:

ہمارے کاشتکار اڑھائی فٹ کے فاصلے پر بنائی گئی کھیلیوں میں ایک ایک سمہ جوڑ کر کماد کاشت کرتے ہیں۔ اس طریقے سے کاشتہ کماد زیادہ گرتاہے۔ اور اس بھر پور پیداوار حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ اڑھائی فٹ کے فاصلے پر کاشت کی صورت میں کماد بڑا ہونے پر بین الکاشتی (Intercultural) امور کی انجام دہی میں دشواری پیش آتی ہے۔

ب - پٹٹریو ں میں کاشت:

نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کھیلیوں کی بجائے چار چار فٹ کے فاصلے پر بنائی گئی پٹٹریوں میں کاشتہ کماد زیادہ پید۔ اوار دیتاہے۔ اس طریقہ سے اڑھائی فٹ پر کاشت کئے جانے والے روایتی طریقہ کے مقابلے میں چار پانچ سومن فی ایکڑ تک زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ ایک ایکڑ میں دو دو آنکھوں والے تیس ہزار ٹکڑے چار چار فٹ کے فاصلہ پر بنائی گئی ایک فٹ پیندے والی کھالیوں میں کاشت کئے جائے ہیں۔ ایک ایکڑ سے ساتھ ہزار گنے حاصل ہوسکتے ہیں جن کی پیداوار آسانی کے ساتھ ایک ہزار من ہوسکتی ہے۔ زیادہ فاصلے پر کاشت ہونے کی وجہ سے کھالیوں کے درمیانی پٹٹریوں پر ٹریکٹر کی مدد سے تسلی بخش گوڈی کی جاسکتی ہے۔ اور کماد گرنے سے بھی کافی حد تک بچارہتاہے۔

ج - گڑھوں میں کاشت:

یہ بھی کماد کاشت کرنے کا جدید طریقہ ہے۔ اس کو پٹ پلا نئنگ (Pit planting) کا طریقہ کہاجاتاہے۔ اس طریقے میں اڑھائی مربع رقبے پر چھ انچ گہرے گڑھوں میں بھر پور کھاد اور بیج ڈال کر کماد کاشت کیا جاتاہے۔ دستی  طریقے سے گڑھے بنانے کی صور ت میں یہ کافی محنت طلب طریقہ ہے۔ لیکن حالیہ سالوں کے دوران کماد کے لئے  گڑھے بنانے والی مشین بھی آچکی ہے اور کام میں زیادہ دشواری باقی نہیں رہی۔ اس طریقے میں کماد کو بہتر طریقے سے مٹی چڑھائی جاتی ہے۔ اورنہ صرف کماد گرنے سے تک بچا رہتا ہے بلکہ ہر طرف سے بکثرت روشنی اور ہوا لگنے کی وجہ سے اس کی پیداوار سابقہ دونوں طریقوں کے مقابلے میں زیادہ حاصل ہوتی ہے۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget