ٹنل فارمنگ: بے موسمی سبزیوں کی کاشت کا مقبول طریقہ

کاشتکاروں کو موسمِ سرما کے دوران درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے ماہ دسمبر سے ماہ فروری تک سبزیوں کی کاشت میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔انہی مسائل کو دیکھتے ہوئے سال 1985ء میں ایوب ایگریکلچر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ٹنل فارمنگ کا طریقہ کار متعارف کروایا گیا تھا جس سے انتہائی کم درجہ حرارت میں بھی سبزیوں کی کاشت ہو سکتی ہے۔ تاہم مناسب رہنمائی اور آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ تر کسان روائتی طریقوں کو ہی ترجیح دیتے رہے لیکن اب بڑے اور درمیانے درجے کے ترقی پسند کاشتکاروں میں ٹنل فارمنگ مقبول ہو رہی ہے۔واضح رہے کہ ٹنل فارمنگ کو اقسام کے لحاظ سے تین اقسام اونچی، درمیانی یا واک ان اور چھوٹی ٹنل میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
جڑانوالہ کے رہائشی میاں عبدالطیف نے جڑانوالہ ستیانہ روڈ پر جسوآنہ بنگلہ کے علاقے میں زرعی ماڈل فارم بنایا ہے۔اٹھارہ ایکڑ رقبے پر محیط اس زرعی ماڈل کو تینوں اقسام کی ٹنلز میں تقسیم کیا گیا ہے جہاں مختلف اقسام کی غیر موسمی سبزیاں کاشت کی گئی ہیں۔سجاگ سے گفتگو کرتے ہوئے میاں عبدالطیف کا کہنا تھا کہ انہوں نے وقت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اس طریقہ کاشت کاری کو اختیار کیا ہے۔ان کے بقول 'لوگ غیر موسمی سبزیاں کھانا پسند کرتے ہیں جبکہ ٹنل سے حاصل کی گئی سبزیاں دوسرے ممالک بھیج کر بھی اچھا منافع کمایا جا سکتا ہے۔'انہوں نے بتایا کہ پچھلے سال انہوں نے تین ایکڑ رقبے پر کھیرا اور ٹماٹر کی فصل کاشت کی تھی جس پر ان کے تقریباً پندرہ لاکھ روپے خرچ ہوئے اور انہیں فی ایکڑ زمین سے پانچ لاکھ روپے منافع ہوا۔ان کے مطابق ٹنل فارمنگ کے دوران سبزیوں کو نگہداشت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے لیکن اس میں نفع کا تناسب بھی کافی زیادہ ہے۔
زرعی ماڈل فارم کے مینیجر محمد رمضان نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ٹنل کا رُخ ہمیشہ مشرق سے مغرب کی جانب رکھا جاتا ہے تاکہ سورج کی روشنی زیادہ سے زیادہ ٹنل پر پڑے اور اندر گرمی پیدا ہو سکے۔انہوں نے بتایا کہ اونچی ٹنل چار سے پانچ میٹر بلند ہوتی ہے اور ایک ایکڑ پر بارہ لاکھ روپے کے قریب رقم خرچ ہوتی ہے۔ درمیانی ٹنل کی بلندی دو میٹر تک ہوتی ہے اور اس پر چار لاکھ روپے فی ایکڑ خرچ آتا ہے۔ان کے بقول 'دونوں ٹنلز کی تیاری میں لوہا یا پھر سفیدہ، بانس اور شہتوت کی لکڑی استعمال کی جاتی ہے جبکہ ہر ٹنل میں سبزیوں کی بیلوں کو چڑھانے کے لیے نائیلون کے جال استعمال ہوتے ہیں جن پر اضافی خرچہ آتا ہے۔'ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں اقسام کی ٹنلز میں زمیندار کھیرا، ٹینڈے، کریلا، ٹماٹر، شملہ مرچ، سبز مرچ، بینگن اور تربوز وغیرہ باآسانی کاشت ہو سکتے ہیں اور چھوٹی ٹنل کی نسبت فصل بھی زیادہ پہلے حاصل کی جا سکتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ٹنلز کو بارش یا تیز ہوا سے ہونے والے نقصان سے بچانے کے لئے انگریزی زبان کے حروف یو یا اُلٹے وی کی شکل میں بنایا جاتا ہے اور انہیں پلاسٹک کی شیٹ سے ڈھکا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والی پلاسٹک شیٹ کی قیمت تین سے ساڑھے تین سو روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ان کے بقول 'درمیانی ٹنل پر تقریباً 170 کلو جبکہ بڑی ٹنل پر تین سو کلو پلاسٹک شیٹ استعمال ہوتی ہے جس پر بالترتیب پچپن ہزار اور ایک لاکھ روپے خرچ آتا ہے۔' رمضان کا خیال ہے کہ زیادہ لاگت کی وجہ سے مقامی کاشتکاروں کے لیے چھوٹی ٹنل زیادہ موزوں اور فائدہ مند ہے۔انہوں نے بتایا کہ چھوٹی ٹنل زمین سے بمشکل آدھا میٹر بلند ہوتی ہے۔ اس پر بڑی ٹنل کی نسبت ہوا کا دباؤ قدرے کم ہوتا ہے اور اسے لگانے کے لیے زیادہ رقم کی بھی ضرورت نہیں۔ان کے مطابق 'ٹنل سے عام فصل کی نسبت تین سے چار گنا زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے جبکہ کھاد اور پانی کا بھی مناسب استعمال ہوتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے کسان کے لیے انتہائی نفع بخش طریقہ ہے۔'انہوں نے کہا کہ بظاہر یہ ایک مہنگا طریقہ دکھائی دیتا ہے اور اسی لیے کسان ہچکچاہٹ کا شکار رہے ہیں لیکن اس طریقہ کاشتکاری کے ذریعے ایک بار پیسے لگا کر تین سے چار سال تک فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget