فروری 2018

زیتون کا پھل غذائی اعتبار سے بہت اہم ہے، اس میں ایسے خواص بدرجہ اتم موجو\د ہیں جن کی بدولت اسے دافع
امراض اور انسانی تندرستی کے لیے انتہائی مفید قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کا پھل اچار اور چٹنی بنانے کے علاوہ تیل نکالنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔
اس کا تیل غذائی اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل ہے، اسے کھانا پکانے کے علاوہ براہ راست بھی استعمال میں لایا جاسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ دردیں رفع کرنے اور مالش میں بھی بطریق احسن استعمال کیا جاسکتا ہے ۔ حکومت زیتون کی کاشت کے فروغ کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے ۔ زیتون کے کاشتکاروں کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاروں کے لئے کو اس کی کاشت میں دلچسپی کے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں۔
وادی زیتون کے قیام کے لئے منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے اور اس سلسلے میں کاشتکاروں میں زیتون کے 20لاکھ پودے تقسیم کئے جارہے ہیں۔ زیتون بنیادی طور پر ایک سخت جان پودا ہے اور اس کو زیادہ مقدار میں پانی کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ۔ زمین کی ہمواری بھی ضروری نہیں۔ کھیت کی تیاری میں ایک ایکڑ پر 50ہزار روپے خرچ آتا ہے، جبکہ ہر سال تقریباََ 1لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ کی آمدن شروع ہو جاتی ہے ۔
زیتون کا پودا 9سو سال تک زندہ رہتا ہے اور پھل دیتا ہے ۔ تین سال کی عمر میں پھل لگتے ہیں تو سوسال کی عمر تک پوری پیداوار ملتی رہتی ہے ۔ ایک پودا سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہے، ایک بار مارچ ، اپریل اور دوسرا اگست ، ستمبر میں ۔
اس وقت پاکستان میں زیتون کی 69اقسام کی کاشت کامیابی سے جاری ہے ۔بارانی انسٹی ٹیوٹ نے زیتون کی دو اقسام باری زیتون 1اور باری زیتون 2تیار کی ہیں۔ جو پاکستان کی آب و ہوا میں کامیابی سے فصل دے رہی ہیں۔پاکستان میں اب تک تقریباََ10ہزار ایکڑ زمین پر زیتون کاشت کیا جاچکا ہے ۔ جس میں سے 3ہزار ایکڑ کے قریب زمین علاقہ پوٹھوہار، یعنی راولپنڈی ، جہلم ، اٹک ، چکوال اور خوشاب میں ہے ۔
پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے درآمد کئے جانے والے خوردنی تیل پر 2کھرب 25ارب 69کروڑ 61لاکھ روپے خرچ آرہا ہے ۔ اس کے ساتھ 35کروڑ روپے مالیت کا تیل ہر سال درآمد کیا جارہا ہے ۔ اس کی کامیاب کاشت کے لئے ایسی آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے جہاں گرمیوں کا موسم خشک اور سردیوں میں درجہ حرارت کچھ عرصے کے لئے 17ڈگری سے کم ہو تو ایسے موسمی حالات پودے کی خوابیدگی ختم کرنے کے لئے بہترہیں اور پودا مناسب انداز میں بار آور ہوتا ہے ۔
پودوں کی قطاروں کا رخ شمالاََ جنوباََرکھا جائے اورہر دو قطاروں کے درمیان فاصلہ 20فٹ ہونا چاہیے اور ہر قطار کے اندر پودے پندرہ فٹ کے فاصلے پر لگائیں۔ کسی بھی کھیت میں داغ بیل کرتے وقت خیال رہے کہ پودوں کے جوان عمر ہونے کے بعد بھی پودوں اور باغات کی بیرونی حدود کے درمیان ہل وغیرہ با آسانی چلایا جاسکے۔
سب سے پہلے پودوں کے نشانات لگا کر ایک میٹر گہرے اور ایک میٹر قطر کے گڑھے کھودتے وقت بالائی ایک تہائی مٹی رکھی جائے ۔ گڑھوں کو تقریباََ3ہفتے کھلا رکھیں۔ بالائی /اچھی قسم کی مٹی دو حصے اور گوبر کی گلی سڑی کھاد ایک حصہ لے کر اچھی طرح ملائیں اور گڑھوں کے اطراف کی زمین کی نسبت دس انچ اونچا بھریں۔ گڑھوں میں سے نکالی گئی مگر استعما ل نہ ہونے والی مٹی کی مدد سے گڑھے کے منہ سے 2فٹ باہر تک دور بنائیں۔ اس دور کو پانی سے بھر دیں۔جب یہ پانی ختم ہوجائے تو دوبارہ اس دور کو پانی سے بھر دیں۔ گڑھے میں ڈالی گئی مٹی بیٹھ کر بھی اطراف کی زمین کی نسبت ڈیڑھ سے دو انچ اونچی رہ جائے گی ۔
گڑھوں کو کھلا پانی دینے کے 6سے 7ہفتے بعد پودے لگائے جائیں۔گڑھوں کو کھلا پانی دینے کے لئے بنائے گئے دور میں استعمال شدہ مٹی کھیتوں سے نکال دی جائے ۔ پودوں کی جڑوں یا گاچی کی ضرورت کے مطابق چھوٹا سا گڑھا کھود کر پودا لگائیں تاکہ پیوند کا جوڑ یقینی طور پر باہر رہے۔ زیتون کے پودے وسط فروری تا مارچ اور اگست، ستمبر میں لگائے جائیں۔
زیتون ایک سخت جان پوداہے ۔ ضرورت کے مطابق چھوٹے پودوں کا 4سے 10دن کے وقفے سے اور بڑے پودوں کو 2تا 4بار سال میں ضرور پانی دینا چاہیے۔ پانی پودے کے تنے کو نہ چھوئے ۔ پودوں کی بڑھوتری اور پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لئے کھادوں کی بہت اہمیت ہے ۔ گوبر کی گلی سڑی کھاد ، فاسفورس اور پوٹاش کی سفارش کردہ پوری مقدار آخر دسمبر میں دیں،جبکہ نائٹروجن کی نصف مقدار پھول آنے سے 2ہفتہ پہلے دی جائے۔
نائٹروجن کی باقی نصف مقدار پھل بننے کے 2ہفتے بعد دی جائے ۔ کھاد پودے کے تنے سے دو اڑھائی فٹ دور سے پودے کی شاخوں کے بیرونی پھیلاؤ تک ڈالنے کے بعد ہلکی گوڈی کر کے بھرپور پانی لگایاجائے۔ چھوٹے پودوں کو متوازن شکل دینے کے لئے مناسب کانٹ چھانٹ کرنا نہایت ضروری ہے ۔ بڑی عمر کے پودوں کی سوکھی، بیمار یا ایک دوسرے سے الجھی ہوئی شاخیں کاٹ دینی چاہئیں ۔ پودوں کی شاخ تراشی باقاعدگی سے جاری رکھیں تاکہ نئی شاخوں کی آمد زیادہ ہو اور پودوں پر زیادہ پھل لگے۔

کاہے بگاہے ہل چلا کر اور گوڈی کر کے جڑی بوٹیوں کو ختم کرتے رہنا چاہیے ۔ زیتون کی سنڈی ، سکیل اور وولی ایفڈ کے لئے محکمہ زراعت (توسیع)کے عملے کے مشورے سے سفارش کردہ زہریں سپرے کریں۔ بیکٹریل ناٹ بیماری کے خلاف بورڈ و مکسچر (100لِٹر پانی :1کلو نیلا تھوتھا:1کلو چونا )کا سپرے کریں۔

زیتون کی کاشت کے ذریعے ہر سال خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بچا کر ملکی معیشت پر پڑنے
والے بوجھ کو کم کیا جاسکتا ہے۔زیتون کی کاشت کے لیے گرم معتدل درجہ حرارت والے علاقے موزوں ہیں۔ اس کی کاشت ان علاقوں میں ہوسکتی ہے جہاں شدید سردی نہ پڑتی ہو۔ زیتون میں کلیاں بننے کے لیے سردیوں میں تقریباً دو ماہ کے عرصہ کے لئے روزانہ درجہ حرارت کا اتار چڑھا 1.5اور 15.5 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہنا چاہےے۔ ٹھنڈک کی یہ ضرورت پوری نہ ہونے کی صورت میں پھول اور پھل نہیں بنتے۔ البتہ پھول بننے کے بعد کورا اور سرد ہوا سے پھولوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ لہٰذا وہ خطے جہاں اوائل بہار کے بعد کورا پڑتا ہو اس کی کاشت کےلئے موزوں نہیں ہےں۔ پنجاب میں پوٹھوہار کا خطہ اپنی مخصوص آب وہوا کی وجہ سے زیتون کی کاشت کےلئے نہایت موزوں ہے۔ کالا چٹا پہاڑ، چوآسیدن شاہ، کلر کہار، وادی سون اور چینجی فارسٹ میں جنگلی زیتون کثرت سے موجود ہے۔ تجربات کے بعد زیتون کی چند اچھی اقسام شمالی پنجاب کےلئے موزوں پائی گئی ہیں جو اس آب و ہوا میں اچھی پیداوار دیتی ہیں۔ اچھے آبی نکاس والی ریتلی سے میرا زمین جس کی پی ایچ(PH ) 5.5سے 8.5 کے درمیان ہو اس میں زیتون کو کامیابی سے کاشت کیا جاسکتا ہے۔ کامیاب کاشت کےلئے زمین کا زرخیز ہونا ضروری ہے۔ اگر پانی کا نکاس اچھا نہ ہو تو چند ہفتے جڑوں کے ارد گرد پانی کھڑا رہ جانے سے پودے مر جاتے ہیں۔ اگست اور فروری کے مہینے زیتون کے پودے لگانے کےلئے موزوں ہیں۔ پہلے ایک سال کے دوران موسم کی شدت اور پانی کی کمی سے پودوں کو بچانا نہایت ضروری ہے۔زیتون کی افزائش نسل کے کئی طریقوں میں افزائش بذریعہ قلم کو زیادہ بہتر پایا گیا ہے۔ قلموں کی جڑیں عموماً مشکل سے بنتی ہیں۔ جڑیں حاصل کرنے کےلئے قلمیں لگانے سے پہلے نچلے 1/2 انچ پر3000ppmانڈول بیو ٹائرک ایسڈ (IBA) کے استعمال سے اچھے نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں زمین اور ہوا میں اچھی خاصی نمی کا ہونا بھی جڑ بننے کےلئے ضروری ہے۔ درجہ حرارت 25 ڈگری سینٹی گریڈ (3+)اور فضا میں نمی 90فیصد مناسب عوامل ہیں۔ قلمیں بھی دونوں موسموں یعنی مون سون (برسات) اور فروری میں لگائی جاسکتی ہیں۔ زیتون کو اکثر دیگر پھل دار پودوں کے مقابلے میں پانی کی بہت کم ضرورت ہوتی ہے۔ البتہ مناسب مقدار میں پانی کی فراہمی اس کی بڑھوتری اور اچھی پیداوار کے لئے اہم ہے۔

پاکستان کا جنوب مغربی صوبہ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے تو ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر یہاں آبادی فی مربع کلومیٹر بہت کم ہے۔ معدنیات سے مالا مال اس علاقے میں لوگوں کی اکثریت کا ذریعہ معاش بارانی کاشتکاری اور غلہ بانی ہے۔ پھلوں کے باغات اور خشک میوہ جات بھی یہاں کی خاص سوغاتیں ہیں۔
لیکن شورش زدہ اس صوبے میں پانی کی کمی کے باعث زراعت، خصوصاً پھلوں کے باغات متاثر ہو رہے تھے۔ اس مسئلے کے حل اور زمینداروں کو نقد آور فصل تیار کرنے کے لیے زرعی تحقیقاتی مرکز بلوچستان نے ایک منصوبے کا آغاز کیا ہے جسے ’او لِو پراجیکٹ‘ کا نام دیا گیا ہے۔
تحقیقاتی پراجیکٹ کے ڈائریکٹر محمد اسلم چوہان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے تحت انگور، پستہ اور انار کے ساتھ اب زیتون بھی متعارف کراویا گیا ہے اور ان کے بقول کیونکہ سیب کے درخت کو پانی کی بہت ضرورت ہوتی ہے لہذا پانی کی قلت کے پیش نظر زیتون کا درخت بہت مفید ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ درخت کو سال میں صرف چار یا پانچ بار پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ایک ایکڑ پر لگائے گئے زیتون کے پھل سے 500 لیٹر خوردنی تیل حاصل کیا جا سکتا ہے’’اور بین الاقوامی سطح پر مانگ زیادہ ہونے کے باعث 500 لیٹر تیل سے کم ازکم پانچ لاکھ روپے کمائے جا سکتے ہیں۔‘‘
اس وقت صوبے کے دو اضلاع خضدار اور ژوب میں 2,000 سے زائد زیتون کے درخت لگائے جا چکے ہیں جن سے پیداوار بھی شروع ہو گئی ہے۔
زرعی تحقیقاتی مرکز بلوچستان کے ڈائریکٹر نے بتایا کہ صوبائی حکومت کی درخواست پر وفاقی حکومت نے 19 کروڑ روپے مالیت کے اس منصوبے پر کام شروع کر رکھا ہے اور اب کوئٹہ، پشین، شیرانی، ہرنائی، موسیٰ خیل، بارکھان، مستونگ، قلات، نوشکی، خاران، لسبیلہ کے اضلاع کو بھی اس منصوبے میں شامل کیا گیا ہے۔
اسلم چوہان کے مطابق تحقیق کے بعد صوبے کے 12 اضلاع میں زمینداروں کو مفت یا بہت ہی کم قیمت پر زیتون کے پودے دیے جائیں گے۔
اُنھوں نے بتایا کہ اٹلی سے دو مشینیں منگوائی گئی تھیں جن سے اب لورالائی اور خضدار میں کام لیا جارہا ہے اور دوسرے اضلاع میں بھی زیتون کا تیل نکالنے والی یہ مشینیں لگا کر بیرون ملک سے اس خوردنی تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والے اربوں روپے کا زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے۔
زیتون سے تیل نکالے جانے کے بعد اس کا فضلہ بھی اسلم چوہان کے بقول بہت کارآمد ہوتا ہے جسے بطور کھاد، جانوروں کی خوراک، صابن یا فارمیکہ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔


پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملکی زراعت میں صوبہ پنجاب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی
کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے خوردنی تیل کی درآمد پر ہر سال کثیر زرمبادلہ خرچ کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کی حیثیت سے زرعی تحقیق اور جدید کاشتکاری کو اپناتے ہوئے خوردنی تیل کی پیداوار میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران خوردنی تیل کی مقامی پیداوار میں کسی حد تک اضافہ ہوا ہے، لیکن یہ اضافہ خوردنی تیل کی ضرورت کو پورا کرنے کیلئے ناکافی ہے۔
زیتون اپنی غذائیت، رنگت اور خوشبو کی وجہ سے بیحد مقبول ہے، جس کی دنیا میں ایک ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ زیتون کا تیل انسانی صحت کیلئے انتہائی مفید ہے جسکے اثرات دل کی بیماریوں، پٹھوں کی مضبوطی اور دماغی صلاحیت کو بڑھانے کیلئے بھی کارآمد ہیں۔ پاکستان میں زیتون کی کاشت کیلئے پوٹھوہار کا علاقہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ زیتون کا پودا ہر قسم کی زمین میں، جہاں پانی کی مناسب مقدار موجود ہو، کاشت کیا جاسکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس کی کاشت کیلئے زمین کی تیزابی خاصیت ۵ء۵ سے ۵ء۸ تک ہونی چاہئے۔ زیتون کے درخت کی نشوونماء کیلئے ایسی آب وہوا جہاں گرمیوں میں موسم خشک، سردیوں میں درجہ حرارت کچھ عرصہ کیلئے ۷ ڈگری سینٹی گریڈ سے کم اور زیادہ بارشیں ہوتی ہوں، بہت مناسب ہے۔ مذکورہ موسمی حالات میں زیتون کا پودا اچھی طرح پھلتا پھولتا ہے۔
زیتون کی افزائش نسل زیادہ تر بذریعہ قلم کی جاتی ہے، جبکہ بعض اقسام کو پیوند کاری کے ذریعے بھی کامیابی سے کاشت کیا جاسکتا ہے۔ زیتون کا درخت عموماً ۳ سے ۴ سال کے عرصہ میں پھل دینا شروع کردیتا ہے اور اس کی اچھی اقسام سے ہر سال ۲۰ سے ۲۵ کلوگرام فی پودا پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ زیتون کی کاشت موسم بہار (فروری، مارچ) اور مون سون (اگست، ستمبر) میں کی جاتی ہے۔ زیتون کے پودوں کو ہموار جگہوں پر قطاروں میں لگایا جاتا ہے اور قطاروں کا رخ شمالاً جنوباً رکھا جاتا ہے۔ قطاروں کا درمیانی فاصلہ ۲۰ فٹ اور پودے سے پودے کا فاصلہ بھی ۲۰ فٹ ہونا چاہئے۔ کاشت سے قبل زمین پر پودوں کیلئے نشانات لگا کر ۲ فٹ گہرے اور ۲ فٹ چوڑے چوکور گڑھے کھودیں اور انہیں تقریباً ۲ ہفتے تک کھلا رکھیں۔ ان گڑھوں سے نکالی گئی بالائی مٹی ۲ حصے اور گوبر کی گلی سڑی کھاد ایک حصہ لے کر اچھی طرح ملانے کے بعد گڑھے کو مٹی سے بھر دیں اور خوب پانی ڈالیں تاکہ مٹی اچھی طرح بیٹھ جائے۔ گڑھوں کو کھلا پانی دینے کے ۲ سے ۳ ہفتے بعد پودوں کی جڑوں یا گاچی کی ضرورت کے مطابق گڑھے کھود کر پودے لگائیں، جبکہ بذریعہ پیوند کاری تیار کئے گئے پودے کے پیوند کا جوڑ بوقت کاشت مٹی سے باہر ہونا ضروری ہے۔
زیتون کا پودا خشک سالی کے خلاف بہتر قوت مدافعت رکھتا ہے لیکن موسمی حالات کے مطابق چھوٹے پودوں کو حسب ضرورت ۴ سے ۱۰ دن جبکہ بڑے پودوں کو ۱۵ سے ۲۰ دن کے وقفہ سے آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے۔ زیتون کی بہتر پیداوار کے لئے پھول آنے سے پہلے، پھل بننے کے بعد اور پھل پکنے سے ایک ماہ پہلے تک پودوں کو آبپاشی کی ضروری ہوتی ہے۔ ڈرپ یا ببلر اریگیشن آبپاشی کے جدید طریقے ہیں جن کی مدد سے دستیاب پانی کو باکفایت طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے اور زیادہ رقبہ پر زیتون کی کاشت کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ زیتون کی بڑھوتری اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کیلئے کھاد کی فراہمی خاص اہمیت رکھتی ہے، اسلئے پودوں کی عمر کے لحاظ سے دیسی و کیمیاوی کھادوں کا بروقت استعمال بہت ضروری ہے۔ پودوں کو متوازن شکل میں رکھنے کیلئے کاٹ چھانٹ کا عمل بھی ضروری ہے۔ یہ عمل پودے لگانے کے ساتھ ہی شروع کردیا جاتا ہے تاکہ پودے ابتداء ہی سے سیدھے اور متوازن شکل میں رہیں۔ بہتر نشوونماء کیلئے بڑے پودوں کی سوکھی، بیمار اور ایک دوسرے سے الجھی ہوئی شاخوں کو کانٹ چھانٹ کے دوران کاٹ دیا جائے۔
زیتون میں از خود اور مخلوط دونوں طرح کی بار آوری پائی جاتی ہے۔ اسکی ترقی دادہ اقسام میں از خود بارآوری ہوتی ہے اسلئے مخلوط بارآوری کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ باغات میں زیتون کی بیک وقت کم از کم ۳ اقسام کاشت کی جانی چاہےءں تاکہ اگر از خود بارآوری نہ ہو تو مخلوط بارآوری یقینی طور پر ہوسکے۔ زیتون کے پودوں پر زیتون کی مکھی، بارک بیٹل اور وولی ایفیڈ حملہ آور ہوتی ہیں، جبکہ مون سون میں نمی کی مقدار زیادہ ہونے کی وجہ سے وولی ایفیڈ کا حملہ شدید ہوجاتا ہے۔ زیتون کے درخت کی دیگر بیماریوں میں پیکاک لیف اسپاٹ اور کینکر یا بیکٹریل ناٹ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ زیتون کے کاشتکار بیماریوں اور کیڑوں کے تدارک کیلئے محکمہ زراعت کے ماہرین سے رابطہ میں رہیں۔


MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget