2018

کپاس میں بیماری کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔ تاہم مختلف موسمیاتی اور کاشتی حالات میں بعض اوقات بیماریا۔ ں بھی شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ کپاس میں جڑکا گالا، مرجھاؤ اور وائرسی بماریاں نقصان کرتی ہیں ۔ شدیدگرم موسم میں بعض اوقات کپاس کے پتوں کا سرخ جھلساؤ بھی پہنچا سکتا ہے۔ مرجھاؤ اور وائررس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے

الف ۔جڑوں کا گالا یا مرجھاؤ:

یہ بیماری عام طورپر ایسے کھیتوں میں زیادہ لگتی ہے جہاں برس ہا برس سے مسلسل کپاس ہی کاشت کی جارہی ہو ۔ اسے کنٹرول کرنے کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز دی جاتی ہیں:

1 غیر کیمیائی طریقہ:

اس بیماری سے بچاؤ کے لئے کاشتی امور کی بہتری کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ جس کھیت میں ایک سال جڑکا گالا یا مرچھاؤ کی بیماری زیادہ پائی گئی ہو اگلے سال اس میں کپاس کاشت نہ کی جائے۔ بلکہ کچھ رقبے پر مونجی یا کماد کاشت کردیا جائے تو اگلے کئی سالوں کے لئے بیماری کے جراثیموں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ قوتِ مدافعت رکھنے والی اچھی اقسام کاشت کی جائیں۔ مثلاً ایف ایچ 142 اور ایف ایچ لالہ زار اس بیمار ی سے کم متاثر ہوتی ہیں۔

کیمیائی طریقہ:

بیج کو دوائی لگاکر کاشت کریں تو بھی یہ بیماری کم ہوجاتی ہے۔ بیج کو مونسرین لگاکر کاشت کیا جائے تو اس بیماری کا حملہ کم سے کم ہوتاہے۔ ابتدائی مرحلے پر یہ بیماری 300 گرام ٹاپسن ایم یا تھایو فیٹیٹ استعمال کرکے کافی حدتک کنٹرول کی جاسکتی ہے۔

ب - پتوں کا جھلساؤ:

پتوں کا جھلساؤ شدید گرمی کی وجہ سے ہوتاہے۔ اس لئے بچاؤ کے لئے ڈائنامٹی 2 ملی لٹر یا کا پر آکسی کلورائیڈ (خاص طورپر کوباکس) 4 گرام فی لٹر پانی میں ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

ج - وائرس:

اگرچہ وائرس کے خلاف مختلف اقسام میں فرق پایاجاتاہے۔ لیکن کاشتکار کو اس بات سے باخبر رہنا چاہئے کہ شدید گرم و خشک آب و ہو امیں کوئی بھی قسم وائرس سے متاثر ہو سکتی ہے۔ کپاس کے نئے وائرس کانام بورے والا و ائرس ہے۔ گلوبل وار منگ کے نتیجے میں سابقہ عشروں کے مقابلے میں حالیہ سالوں کو موسم زیادہ گرم رہنے لگ گئے ہیں۔ گرمی اور ھبس کے نتیجے میں وائرس کاحملہ زیادہ ہوتاہے۔

 وائرس کنڑول کرنے کے لئے کیا کجائے؟

وائرس کے اثرات کو کم سے کم سطح پررکھنے میں اقسام اور زہروں کے مقابلے میں انتظامی امور Practices) (Management زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔

۔ کپاس کی قوتِ مزاحمت رکھنے والی اقسام کی اگیتی کاشت کی جائے ۔ مثلاً ایف ایچ ۔ 142 ، ایم این ایچ۔ 886 علی اکبر 703 یا ٹارزن ۔ 1 فروری مارچ میں کاشت کی جائیں۔ایم ایچ ۸۸۶ میں بی ٹی ٹاکسن کافی کم مقدار میں ہوتاہے اس لئے گندم کے بعد کاشت کی جائے تو درمیانے موسم میں اس قسم پر بھی وائرس کا حملہ کم ہوتاہے ۔ جن اقسام میں بی ٹی ٹاکسن زیادہ ہوتاہے ۔ گندم کے بعد کاشت کی صورت میں ان پر وائرس کا حملہ بھی زیادہ ہوتاہے۔ سال 2010 کے دوران کپاس کی بیشتر اقسام پر وائرس کا شدید حملہ ہوا لیکن غیر بی ٹی اقسام اور وہ اقسام جن میں بی ٹی ٹاکسن کم ہوتاہے۔ (مثلاً الیف ایچ ۔ 142الیف ایھ ۔ لالہ زادہ آئی آر ۔ 5 ، ایم این ایچ 886 ، ایم این ایچ 802 اور سی 127) ان پر وائرس کا حملہ بھی کم ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ ٹاپسن کی حامل اقسام کو فروری مارچ میں کا۔ شت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔
۔ کپاس کی مڈھ فروری سے پہلے پہلے تلف کردیے جائیں۔ تاکہ ان پر پلنے والے کیڑے نئی فصل پر منتقل نہ ہو سکیں۔
۔ ہو ا کے آزادانہ گزرنے کے لئے شرقاً غر با بجائی کرنے کی بجا ئے شمالاً جوباً قطاروں میں کاشت کی جائے۔ ڈرل سے کاشتہ کپاس پر پٹٹریوں پر کاشتہ فصل کے مقابلے میں وائرس کا زیادہ حملہ ہوتاہے۔
۔ کپاس کے کیڑوں خصوصاً سفید مکھی اور چست تیلے کو صرف کیڑے مار زہروں سے تلف کرنے کے بجائے اس کے ساتھ ساتھ دوست کیڑوں کو بھی فروغ دیا جائے۔
۔جڑی بوٹیوں پر کپاس کے کیڑے پرورش پاتے ہیں۔ اس فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھا جائے۔
۔کپاس کی خوراکی اور آبی ضروریات کا خاص خیال رکھاجائے ۔ گرمی کے دوران یوریا کم مقدار میں ڈالی جائے ۔ فوری اثر کرنے والی یوریا کھاد کی بجا ئے کپاس کو امونیم نائٹریٹ ڈالی جائے۔ وائرس کی ابتدائی علامات ظاہرہونے پر با اعتبار کمپنی کی NPK سپرے کی جائے۔
۔ وائرس سے بری طرح متاثر پودوں کو نکال دیا جائے۔ اگر چند ٹینڈوں کے حامل پودے وائرس سے متاثر ہوجا۔ ئیں تو ان کی چوٹیاں کاٹ دی جائیں۔
۔ این ایف سی فیصل آباد کا تیار شدہ CMM نصف کلو گرام 100 لٹر پانی میں ملا کر بارشی سیزن شروع ہونے سے پہلے پہلے گرم و خشک موسم میں دس دس دن کے وقفے سے دو مرتبہ سپرے کیا جائے تو گندم کے بعد کاشتہ کپاس بھی کافی حد تک وائرس سے محفوظ رہتی ہے۔

کپاس کا قد کنٹر ول کرنا:

کچھ عرصہ بعد کپاس کی بڑے قد والی اقسام کاشت کی جاتی تھیں۔ ان کے گرنے یا بے ثمر (Fruitess) رہنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر کپاس کا قد زیادہ بڑھ رہا ہو تو ٹینڈے کم لگتے ہیں، کافی زیادہ پھول اور ٹینڈے گرجا۔ تے ہیں، فصل کے گرنے اور ٹینڈوں کے گلنے کا امکان بڑھ جاتا ہے، فصل کی پکائی میں تاخیر ہوجاتی ہے، فصل کی نگہدا شت اور سپرے وغیرہ میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ اس لئے ان کا قد مناسب حد تک روکنے Rationalize کرنے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کی جاتی تھیں۔ اگرچہ کپاس کی بیشتر حالیہ اقسام کاقد زیادہ نہیں ہوتا۔ مثلاً ایف ایچ 114 اور نبجی آئی آر۔ 5 کافی چھوٹے قد کی ہیں ایف ایچ۔ 142 ، ایم این ایچ 886، ایف ایچ ۔ لالہ زار ار ایف ایچ ۔ ٹور درمیانے قد کی حامل اقسام ہیں۔ ان اقسام کو مئی میں کاشت کی صورت میں قد روکنے والے مرکبات سپرے کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن بعض اقسا۔ م قدرتی طورپر بڑے قد والی ہوتی ہیں۔ مثلاً بی ٹی ۔ 121 اور السیمی۔ 151 جیسی اقسام قدرتی طور پر زیادہ قد کی حامل ہیں۔ ان جیسی اقسام کا قد ضرورت سے زیادہ بڑھنے لگے تو اسے کنٹرول کرنے کی تدبیر کرنی چاہئے۔ وقتِ کاشت ، کھاد، پانی ، بارش یا پودوں کی تعداد کی تغیرات کی مناسبت سے چھوٹے قد والی اقسام کا قد بھی بعض اوقات حد سے زیادہ بڑھنے لگتاہے۔ کسی بھی مرحلے پر قد زیادہ بڑھنے لگ جائے تو پھل کم لگتاہے۔ ایسی صورتحال میں کپاس کا قد کنٹر ول کرنا ضروری ہوتاہے۔


قد کنڑول کرنے کے لیے کھاد، پانی کا متناسب استعمال بہت ضروری ہوتا ہے۔ کسی بھی مرحلے پر نائٹروجنی کھاد کا بھر پور استعمال پھل آوری سے روک کر قد آور ی کی جانب مائل ہوسکتاہے۔ اس طرح آبپاشی کنڑول کرکے بھی قد کنڑ۔ ول کیا جاسکتاہے۔ کھاد، پانی اور موسم کا اجتماعی عمل ہوجائے تو کسی بھی قسم کا قد بڑھ سکتاہے۔ ایسی صورت میں کیمیائی کھادوں کا استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ قد کو متو ازن رکھنے والی زہر سٹانس 30 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی میں ملا کر سپرے کرنے کی سفا۔ رش کی جاتی ہے۔ سٹافس کا استعمال مارچ کاشتہ کپاس میں 60تا70 دن بعد جبکہ مئی کاشتہ کپاس میں 50 دن بعد از کاشت شروع کیا جاسکتاہے۔ درمیانے قد والے اقسام کا قد اکثر ایک سپرے سے ہی کنڑول کیاجاسکتاہے۔ اگر کھاد کی فروانی یا باریشی ماحول کے تسلسل کے نتیجے میں کپاس تیزی سے بڑھ رہی ہو تو اس کی مناسب ٹریٹنگ کا طریقہ یہ ہے کہ12 تا15 دن کے وقفے سے دو تا چار مرتبہ سپرے کی جائے ۔ قد روکنے والی زہر کیڑے ما ر زہروں کے ساتھ ملاکر سپرے کی جاسکتی ہے۔ سپرے کرنے سے نہ صرف فصل کا فالتو قد کنٹرول ہوجاتاہے بلکہ پیداوار بھی زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ کاشتکار کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ قد کنٹرول کرنے والے مرکبات (سٹازس 30 ملی لٹر اپکس 100 ملی لٹر یا فائنو فکس 80 ملی لٹر فی ایکڑ) کے غیر ضروری استعمال سے فصل کی شکل خراب ہوسکتی ہے۔ اور پیداوار متاثر ہوسکتی ہے۔ اس لئے مناسب رہنمائی لے کر ان کا استعمال کیا جائے۔

پھول گڈی گرنے سے نچانا:

پھول گڈی گرنے کاعمل ایک حد تک قدرتی عمل ہے۔ لیکن بعض اوقات پھول اور کچے ٹینڈے حد سے زیادہ ہی گر جاتے ہیں۔ ٹینڈے گرنے کا عمل بیک وقت (Simultaneously) کئی وجوہات کے اجتما عی عمل کے نتیجے میں ظاہر ہوتاہے۔ جن میں خوراک، پانی کا غیر متناسب استعمال اور شبانہ روزگرمی کی شدت (Heat index) زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ موسمی تغیرات اور کھادوں کا غیر متناسب استعمال کی وجہ سے پھول و ٹینڈے گرنے کا عمل زیادہ شدت کے ساتھ واقع ہوتاہے ۔ نائٹروجنی کھادوں کا بے وقت استعمال، زمینی زرخیزی اور فضائی نمی کی فراوانی کی وجہ سے وسطی پنجاب میں کپاس کا فاضل نشوونما کر جانا بھی ٹینڈے گرنے کی بڑی وجہ ہے۔ اس لئے کھادوں اور پانی کا متناسب استعمال یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پودوں اور قطاروں کا فاصلہ زمینی ساخت، زرخیزی، طریقہ کاشت، وقتِ کاشت اور اقسام کی مناسبت سے متعین کیاجائے ۔ کمزور فصل پر کھادیں خصوصاً پوٹاش اور بوران کی حامل فولیر کھادیں سپرے کرنے سے کیرا روکنے میں مددملتی ہے۔ پھول آوری کو دوران امائنو ایسڈ، بوران اور گروتھ ہارمون سپرے کیے جائیں تو ٹینڈے گرنے کاعمل کافی حد تک رک جاتاہے۔

سپرے کے دوران سرزدہونے غلطیاں

الف - سکا وٹنگ کے بعد سپرے:

کئی کاشتکار اندھا دھند سپرے کرتے ہیں۔ اندھا دھند سپرے کرنے کے بجائے کیڑوں کی ضرررساں حد تک موجودگی کا اندازہ لگانا ضروری ہے۔ چنانچہ پچاس ایکڑ کے کھیت میں ہر ہفتے مختلف مقامات کے کم ازکم تیس پودوں کے تیس درمیانی اونچائی والے پتوں کا معائنہ کر کے مختلف کیڑوں کی موجودگی کا مشاہدہ ( پیسٹ سکاو ٹنگ ) کیا جائے محتاط مشاہدے کاعمل صبح یا شام کے ٹھنڈے وقت کے دوران کیا جائے ۔

ب - فصل کی سٹیج کی مناسبت:

مختلف کیڑوں کے لئے چھوٹی سٹیج پر قدرے نرم Soft اور لیٹ سٹیج پر سخت زہریں سپرے کرنے کی کوشش کی جا۔ ئے تو بہتر نتائج ملتے ہیں۔ تمام زہریں صبح یا شام کے ٹھنڈے موسم کے دوران استعمال کی جائیں۔

ج - غلط زہر کا انتخاب:
مالی مشکلا ت کے ساتھ ساتھ زہروں کے زمینی صحت و زرخیزی کے ساتھ پیچیدہ تعلق سے بے خبر ی کی وجہ سے بہت سے کاشتکار ڈیلر حضرات کے غلط مشورہ سے غلط زہر خرید کر استعمال کر لیتے ہیں۔
 د - غلط طریقہ استعمال:
حالیہ سالوں کے دوران اکثر کاشتکاروں کو زہروں کو غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئے پایا گیا ۔ بعض اچھی اور طاقت ور زہروں کے بھی نا مکمل نتائج ملنے کی بڑی وجہ غلط طریقہ استعمال ہی پا یا گیا ۔ مثلاً مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے کئی کاشتکار ٹوزل کو لہراتے ہوئے سپرے کرتے ہیں۔ ہر پھیرے میں زیادہ رقبہ طے کرتے ہوئے پاڑے چھوڑ جاتے ہیں۔

ر - ۔پانی کی کم مقدار:

دستی سپر یئر کی مشقت سے بچنے کے لئے زیادہ تر کاشتکار خصو صاً کاشتکاروں کے غلام کام جلد ی ختم کرنے کے لئے پانی کی مقدار سفارش کردہ مقدار کے مقابلے میں کم استعمال کرتے ہیں۔

س - غلط وقتِ استعمال :

زہروں کی طریقہِ عمل سے بے خبری اور نامکمل تربیت کی وجہ سے بہت سے کاشتکار کیڑوں کاشدید حملہ ہونے پر زہر۔ وں کو تاخیر سے استعمال کرتے ہیں۔
ص - مقدار کی کمی بیشی:
مقدار کی کمی بیشی اکثر کاشتکاروں سے ہوجاتی ہے۔ زہریں استعمال کرنا جدید تکنیکی عمل ہے۔ ان کے استعمال کے دوران مقدار کی کمی بیشی والی غلطی تو زرعی ماہرین سے بھی ہوتی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سپرے جیسا تکنیکی کام اکثر ان پڑھ لوگو ں کے ہاتھوں عمل میں آتاہے۔ غیر تربیت یافتہ آدمی غلط مقدار استعمال کرنے کی وجہ سے بہتر فوائد حاصل نہیں کر سکتا۔

ط۔ خراب سپرے مشین:

معیاری مشین مہنگی ہونے کی وجہ سے اکثر کاشتکار غیر مرتب شدہ اور قطرے ٹپکانے والی، دیسی ساخت کی بھاری چلنے والی مشین سے ہی کام چلاتے ہیں۔ لیکڑیگل سپرے مشین اور بوم کے ذریعے زہریں استعمال کرنے سے بہتر نتائج ملتے ہیں۔

غلط نیوزل کا استعمال:

مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے کپاس کی سٹیج اور نوزل کے تعلق کو پیشِ نہیں رکھتے۔

ق - موسمی حالات سے بے خبری:
زہروں کا موسمی حالات سے بہت گہرا تعلق ہوتاہے۔ کاشتکار تیز دھوپ، ہوا، ابر آلود موسم اور آئندہ ایام کی موسمی پیشگوئی سے بے خبری کے عالم میں سپرے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔

زہروں کا استعمال:

کپاس سے کیڑوں کی تلفی کے لئے سینکڑوں کے حساب سے زہریں منظور ہوچکی ہیں۔ تاہم اختصار کے پیشِ نظر چند اہم اور زیادہ معاری زہریں استعمال کرنے کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔

الف - رس چو سنے والے کیڑے:

کم و بیش پہلے ایک ماہ تک ان سے بچنے کے لئے بیج کی براتارنے کے بعدہومبرے 20 ملی لٹر فی کلو بیج کو لگا کر کا۔ شت کریں۔ بیج کو زہر آلود کرکے کاشت کیاجائے تو پہلے تین چار ہفتوں تک کپاس رس چوسنے والے بیشتر کیڑوں سے کافی حد تک محفوظ رہتی ہے۔ کپاس کو ابتدائی مرحلے پر رس چوسنے والے کیڑے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔

سست تیلہ:

اگر بیج کو زہر آلو نہ کیا جاسکا ہو اور کپاس مارچ میں کاشت کی گئی ہوتو سست تیلے کا حملہ بھی ہو سکتاہے۔ اگست ستمبر میں موسم زیادہ مرطوب ہوجائے تو عین ٹینڈے کھلنے کے دوران بھی اس کا حملہ ہوسکتاہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے کو نفیڈ۔ ار یا امیڈاکلو پر ڈیا ایڈو انٹیج200 ملی لٹر فی سولٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

تھرپس:

اگرچہ تھرپس کا حملہ کسی بھی وقت ہوسکتاہے۔ لیکن مارچ اپریل کاشتہ کپاس پر اگنے کے بعد پہلے دو ہفتے کے اندر ہی شروع ہوجاتاہے۔ زیادہ شدید حملہ اس وقت ہوتاہے جب فصل گرمی یا سردی کی وجہ سے سختی (Stress) کی شکار ہو۔ اکثر و بیشتر چھوٹی سٹیج پر تھرپس کا حملہ زیادہ شدید ہوتاہے۔ چھوٹی چھوٹی کپاس کو اس سے بچانے کے لئے ٹریسر 40 ملی لٹر یالیسیٹ 40تا60 گرام یا ان کے متبادل زہریں تجویز کی جاتی ہیں۔ اگر لیٹ سٹیج پر اس کا حملہ ہوتو کلو رفیٹا پائر (ایسٹیٹ) یا اس کے متبادل زہر سپرے کی جائے۔

سفید مکھی:

گرم اور خشک موسم میں سفید مکھی کا حملہ شدید تر ہوتاہے۔ جب فصل کو پانی کا سوکا لگ جاتاہے ۔اس وقت اس میں گلوکوز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے سوکے والی فصل پر سفید مکھی کا زیادہ حملہ ہوتاہے۔ موسپیلان یا ایسیٹاپرڈ کے خلاف سفید مکھی میں قوتِ مزاحمت پیداہو چکی ہے۔ اس وقت یہ زہر اکیلی استعما ل کی جائے تو تقریباً غیر موثر ہو۔ چکی ہے۔ البتہ اسے پائری پروکسی فن کے ساتھ ملاکرا ستعمال کیا جائے تو سفید مکھی کنٹرول ہوجاتی ہے۔ بہتر نتائج کے لئے اگراکیلی بائری پروکسی فن یا مووینٹو میں سے کوئی ایک زہر6 دن کے وقفے سے دومر تبہ سپرے کردی جائے تو تو سفید مکھی کا یقینی خاتمہ ہوجاتاہے۔ شدید حملہ کی صورت میں پائری پروکسی فن اور مووینٹو ملاکر سپرے کردی جائیں تو ایک ہی سپرے سے سفید مکھی کا خاتمہ ہوجاتاہے۔ اگر فصل دہ ماہ کی یا بڑی ہوجائے تو 200 ملی لٹر فی ایکڑکے حسا ب سے پولو جیسی طاقت ور زہر استعمال کی جائے ۔

گدھیٹری یا میلی بگ:

گندم کے بعد کاشتہ کپاس پر کاشتی اور موسمی حالات کی مناسبت سے ماہ جولائی اور اکتوبر کے دوران میلی بگ کا حملہ ہو سکتاہے۔ اس کا حملہ ہر سال یکساں نہیں ہوتا۔ کسی سال کم ہوتاہے۔ اور کسی سال زیادہ ۔ میلی بگ کے حملے کے ابتدائی مرحلے میں جب اگاؤ کا پودوں پر یہ کیڑا نظر آئے تو کو نفیڈار الٹر ایا امیڈا کلوپرڈ بھی اس کو موثر طور پر کنڑول کرسکتی ہیں۔ میلی بگ اگر پورے کھیت میں پھیل جائے اور کافی بڑی بڑی ہوجائے تو لییغا 60 گرام یا پروفینو فاس یا کیورا کران 1000 ملی لٹر یا لارسبن 1000 ملی لٹر شدید حملہ کی صورت میں متاثرہ پودوں پر ایک ہفتے میں دو مرتبہ سپرے کی جائیں۔ اس کے انسداد میں زہر کے ساتھ ساتھ اس کے بہتر استعمال کی اہمیت زیادہ ہے۔

مائٹس یا جوئیں:

گرم اور خشک موسم میں کپاس پر جوؤں کا شدید حملہ ہوسکتاہے ۔ ان سے بچاؤ کے لئے نسوران یا یونیک یا پولو 200 ملی لٹر فی ایکڑ یا 2 ملی لٹر فی ڈائی کو فال 300 ملی لٹر یا اوبیران 60 ملی لٹر سو لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

ڈسکی کاٹن بگ:
بی ٹی اقسام کی آمد سے پہلے کپاس پر سخت زہریں استعمال کی جاتی تھیں۔ وہ زہریں ڈسکی کاٹن بک کو بھی زیرِ کنٹرول رکھتی تھیں۔ لیکن سابقہ عشرے کے دوران کپاس کی بی ٹی اقسام کی کاشت عام ہو گئی جس میں زیادہ سخت کیڑے مار زہر یں استعمال نہیں ہوتی رہیں۔ رس چوسنے والے کیڑوں کے خلاف کم طاقت ور زہریں ڈسکی کاٹن بگ کو پوری طرح تلف نہیں کرتیں۔ اس لئے حالیہ سالوں کے دوران ڈسکی کاٹن بگ کافی اہم کیڑا بن چکاہے۔ اس کی تلفی کے لئے بیٹا سائی ہیلو تھرین پنس ٹرائی ایز وقاس یا فپرونل 400 ملی لٹرسو لٹر پانی میں ملاکر سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ پروفینوفاس بھی اس کیڑے کو 60سے70 فیصد تلف کرتی ہے۔

کپاس کی سنڈیاں:

کپاس کو نقصان پہنچانے والی سنڈیوں میں امریکن سنڈی، چتکبری سنڈی، لشکری سنڈی، گلابی سنڈی، چور کیڑا وغیرہ شامل ہیں۔ بی ٹی اقسام پر سنڈیوں کا حملہ کم ہوتاہے لیکن غیر بی ٹی اقسام پر سنڈیوں کا شدید حملہ ہوتاہے۔

امریکن سنڈی:

غیر جینیاتی اقسام پر امریکن سنڈی شدید حملہ کرتی ہے۔ حالیہ سالوں کے دوران امریکن سنڈی کے خلاف قوتِ مزا۔ حمت رکھنے والی اقسام کی کاشت فروغ پا چکی ہے۔ اس لئے آج کل اس سنڈی کے خلاف اس سے نچاؤ کے لئے چھوٹی سٹیج پر ایمامیکٹن سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگر بے خبری کی وجہ سے سنڈیاں بڑی ہو جائیں تو سٹیوارڈ 175 ملی لٹر یا ٹریسر 80 ملی لٹر یا بیلٹ 50ملی لٹریا ریڈی اینٹ 100 ملی لٹر یا پروکلیم بحساب 200 ملی لٹر فی سو لٹر پانی ملا کر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

چور کیڑا:

اس کی سنڈیاں کپاس کو اگنے کے پہلے ایک ماہ کے دوران نقصان پہنچاتی ہیں۔ آبپاشی اور بہری زمینوں میں ان کا حملہ کم ہوتاہے لیکن بارانی اور خشک حالات میں ان کا حملہ زیادہ شدید ہوتاہے۔ چو ر کیڑے کی سنڈیا ں کافی موٹی اور مضبوط اور گہرے مٹیالے رنگ کی ہوتی ہیں۔ یہ کے دن وقت فرداًفرداً زمین میں چھپی رہتی ہیں اور رات کے وقت نو خیز پودوں کو زمین کے برابر سے کاٹ دیتی ہیں۔ اس سے بچاؤ کے لئے کراٹے 300 یا ٹال ا سٹار یا بائی فینتھرین 250 ملی لٹر یا اینڈ و سلفان 800 ملی لٹر سو لٹر پانی میں ملاکر شام کے وقت سپرے کی جاسکتی ہیں۔ پہلی آبپاشی کے ساتھ کلورپائری فاس فلڈ کردی جائے تو بھی اس کیڑے کا حملہ نہیں ہوتا۔

چتکبری سنڈی:

اس کا حملہ پھول آوری کے بعد شروع ہوتاہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے دیلٹا میتھرین 300 ملی لٹر یا ہائی فینتھرین 250 یا ٹریسر 80ملی لٹر فی ایکڑ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ٹرائی ایزو فاس یا کراٹے بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔

لشکری سنڈی:

آلو کے بعد مارچ اپریل میں اگیتی کاشتہ کپاس پر لشکری سنڈی کا شدید حملہ ہوسکتاہے ۔ اس سے بچاؤ کے لئے لیوفینو ران یا میچ یا رنر 200 ملی لٹر یا ٹریسر 40 ملی لٹر یا بیلٹ25 ملی لٹر سو لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔ اگر اس کا حملہ ابتدائی مرحلے پر پہچان لیاجائے تو ٹائمر یا پروکلیم یا ایما میکٹن بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔

گلابی سنڈی:

اس کا حملہ ستمبر اکتوبر میں زیادہ شدت کے ساتھ ہوسکتاہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے مناسب تربیت کے بعد پچاس ایکڑ یا زیادہ رقبے پر کاشت کی صورت میں پی بی روپس استعمال کئے جائیں۔ بیس ایکڑ یا کم رقبے کی صورت میں تین چار فیر ومون  ریپ لگائے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔زہروں میں ٹرائی ایزوفاس 1000 ملی لٹر یا ڈیلٹافاس 600 ملی لٹریا مومی الفا 200 ملی لٹر ستمبر میں بروقت پہچان کرکے سپرے کی جاسکتی ہیں۔ گلابی سنڈی کا بھر پور حملہ ہونے کے بعد کوئی بھی زہر سپرے کرنے کا فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لئے بر وقت پیسٹ سکاو ٹنگ کرنے کے بعد منا۔ سب زہر سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

کچن گارڈن سے مراد گھر میں سبزیاں اگانا ہے۔ کچن گارڈن آپ اپنے گھر کے کسی بھی حصے میں اگا سکتے ہیں۔ اگر آپ کسی فلیٹ میں رہتے ہیں تب بھی آپ یہ کام خوش اسلوبی کر سکتے ہیں اور اسکے لئے آپ اپنی کھڑکیون یا بالکونی کو استعمال کرکے ورٹیکل گارڈن سے اپنے گھر کی سبزی کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں۔ کچن گارڈن کیلئے کسی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں، انہیں آپ کیاریوں میں اگاسکتے ہیں۔ اگر آپ کے گھر میں تھوڑی سی کچی زمین ہے تو یہ سونے پہ سہاگہ ہے ورنہ آپ کیاریوں سے بھی اچھا منافع کما سکتے ہیں۔ اسکیلئے آپ کوئی سے پرانے برتنوں جیسے پرانی بالٹی، ٹوٹا ہوا مٹکا، پرانے ٹائر، ٹیوب یا پائیپ کے ٹکڑے یا کوئی بھی ایسا برتن جس میں تھوڑی سی مٹی اور پانی جمع کیا جاسکے استعمال کر سکتے ہیں، یہاں تک کہ لکڑی کے تختوں سے بنے پھلوں کے کارٹن یا موٹے کپڑے سے بنے تھیلے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ پانی یا کوکنگ آئل وغیرہ کے کین یا کولڈ ڈرنک کی دو لیٹر یا اس سے بڑی بوتلیں کچن گارڈن کیلئےبڑی افادیت رکھتی ہیں۔ ان بوتلوں سے ورٹیکل گارڈن جو شہری گھروں کیلئے بہت کارآمد ہیں،  بڑی عمدگی سے بنائے جاسکتے ہیں۔ ان کے علاوہ آپ اپنے گھر یا فلیٹ کے فرش کو بھی برؤئیکار لاسکتے ہیں، اسکے لئے فرش پر موٹے پولی تھین کی دہری تہہ لگانی چاہئے تاکہ سیپیج سے فرش خراب نہ ہو۔

کچن گارڈن میں کیا اگایا جاسکتا ہے؟

کچن گارڈن میں آپ ٹماٹر، مرچ، کھیرا، بینگن، بھینڈی، کریلہ، توری، پیاز، پالک، دھنیا اور لہسن کے علاوہ اور بہت سی سبزیاں اگاسکتے ہیں۔ یہاں تک کہ آلو اور شلجم یا گاجر تک اگائے جاسکتے ہیں۔ آجکل ایسے بیج بازار میں دستیاب ہیں جو زیادہ اور جلدی پھل دیتے ہیں اور بیماریوں سے بھی کم متاثر ہوتے ہیں۔ بیج کے علاوہ کسی اچھی نرسری سے ان سبزیوں کے پودے بھی لئے جاسکتے ہیں جو جلد پھل دیتے ہوں۔ سبزیوں کو اگانے اور ان کی دیکھ بھال کے طریقے آن لائن دیکھے جاسکتے ہین اور کئی سرکاری ادارے اور غیرسرکاری تنظیمیں اس کام میں آپ کی معاونت کرسکتی ہیں۔

 !اسکول میں کچن گارڈن یا بیک یارڈ گارڈن کو فروغ دیجئے

اسکول میں بچوں کو سبزیون کے پودے لگانے کیلئے تعلیم اور ترغیب دیجئے اور اسکول کے آگے پیچھے زمین اور کیاریوں میں ان سے پودے لگوائیں اسطرح کچن گارڈن کو  بہت آسانی سے فروغ دیا جاسکتا ہے۔ اسطرح بچوں میں سبزیوں اور پھلوں سے رغبت بڑھے گی اور اور اپنے والدین اور رشتہ داروں میں اس شوق کو پروان چڑھانے میں مددگار بنیں گے اور کچن یا بیک یارڈ گارڈن ترقی یافتہ ملکوں کیطرح تقریباً ہر گھر کا حصہ بن جائے گا۔ اور اسطرح غریب گھرانوں کی سبزی ترکاری کی ضروریات کم خرچ میں پوری ہوسکیں اور ان میں غزائی کمی پہ بھی قابو پایا جاسکے۔    
​گملوں میں پودے کیسے لگائیں؟

یہاں آپکی رہنمائی کیلئے کچن گارڈن یعنی بالکونی یا گھروں کے آنگن یا پچھواڑے میں سبزیوں کی کاشت وڈیوز کے ذریعے آسان انداز میں سمھجائی گئی ہے، امید ہے یہ آپکے لئے فائدہ مند ثابت ہونگی۔ 

[youtube src="Zxn5vC6maWE"]
[youtube src="TWsoG3_u45E"]
[youtube src="1NWsRd5l7rU"]
[youtube src="FPgZK2XbUSU"]

جرمن باشندوں کا مرغوب ترین پھل سیب ہے۔ صرف سیب کھانے کی حد تک ہی جرمنوں کا شوق محدود نہیں بلکہ اس ملک
میں ہزاروں اقسام کے سیب دستیاب ہیں۔

بریبرن، گالا، گلوسٹر، اسکالا۔ یہ ہیں وہ سیب جن کی جرمنی میں سب سے زیادہ مانگ ہے۔ یہی نہیں بلکہ بے شمار دیگر اقسام کے سیب سارا سال مارکیٹ میں دستیاب رہتے ہیں۔ تین تا پانچ ہزار اقسام کے سیب جرمنی میں پائے جاتے ہیں۔

جرمنی میں اتنے زیادہ اقسام کے سیب اُگانے کا رواج اُس وقت بہت زیادہ تھا، جب بجلی کی مدد سے غذائی اشیاء کو ٹھنڈا رکھنے کی مشینیں اتنی ایجاد نہیں ہوئی تھیں اور نہ ہی بحری جہاز اور ہوائی جہازوں کے ذریعے سیبوں کو ٹرانسپورٹ کرنے کی سہولت عام تھی۔

تب جرمن باشندوں نے سوچا کہ اتنے مختلف اقسام کے سیب اُگائے جائیں کہ اُن کا مختلف طریقے سے استعمال کیا جا سکے۔ کچھ سیب بہت ہی ذائقہ دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ کو پکا کر اس کا مربا تیار کیا جاتا ہے یا اسے بیک کر کے مختلف کھانے تیار کیے جاتے ہیں یا کیک وغیرہ بنایا جاتا ہے۔

سیب کی کچھ قسمیں شراب بنانے کے کام بھی آتی ہیں۔ سیب کی چند اقسام کو تہہ خانوں میں کئی مہینوں تک رکھا جا سکتا تھا کیونکہ تہہ خانے ہمیشہ ٹھنڈے رہتے ہیں تاہم دیگر کئی اقسام کو خراب ہونے سے پہلے ہی بروئے کار لانا پڑتا تھا۔

سیبوں کی چند اقسام گرمیوں کے موسم میں پک کر کھانے کے قابل ہو جایا کرتی تھیں اور کچھ خزاں کے موسم میں قابل استعمال ہوا کرتی تھیں۔ یوں کم و بیش گاؤں کے رہائشیوں کو کم از کم چھ ماہ تک تازہ پھل دستیاب ہوتے تھے۔

صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ سیب کی بہت سی قسمیں ناپید ہو چُکی ہیں۔ تجارتی کسان اب یہ فیصلے کرتے ہیں کہ سیب کی کون کون سی اقسام کی مانگ عوام میں زیادہ ہے اور اب وہ انہی اقسام کی کاشت پر زور دیتے ہیں۔

جرمنی میں اب زیادہ ایسے سیبوں کی کاشتکاری کی جا رہی ہے جو نہایت میٹھے ہوتے ہیں اور ان کا چھلکا سُرخ ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے سیبوں کی کاشت کی جائے جو جلدی خراب نہیں ہوتے اور دیر تک کھانے کے قابل رہیں۔ ساتھ ہی ان کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ ایک ہی سائز کے سیب اُگائے جائیں تاکہ ان کی پیکینگ میں آسانی رہے۔

کچھ سیب بہت ہی ذائقہ دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ کو پکا کر اس کا مربا تیار کیا جاتا ہے

جرمنی میں ماضی میں ایسے شہر اور دیہات موجود تھے جن کے اردگرد باغات ہوا کرتے تھے اور ان باغات تک ہر کسی کی رسائی تھی۔ ان باغات میں درختوں کے نیچے جانور آزادانہ پھرا کرتے تھے اور ہر کوئی ان کے پھل توڑ سکتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایسے علاقوں کے یہ باغات ناپید ہو گئے۔ یہ اراضی بیچ دی گئی یا ان علاقوں میں تعمیراتی کام شروع ہو گیا۔

سیب کا شمار گلاب کے خاندان میں ہوتا ہے۔ اُسی طرح جیسے کے آلو بخارے، آڑو، خوبانی اور چیریز کا شمار بھی اُسی نباتاتی فیملی سے ہوتا ہے۔ سیب رومی سلطنت کے دور میں جرمنی پہنچے تھے۔ ہزاروں سال پہلے سیب کی کاشت ایران، یونان، آرمینیا اور وسطی ایشیا اور قفقاذ کے علاقوں میں ہوا کرتی تھی۔

آپ اپنے لئے خوراک کیسے حاصل کرتے ہیں؟‏ کیا آپ اِسے خود اُگاتے ہیں یا بازار سے خریدتے ہیں؟‏ چند سال پہلے تک انسان گزربسر کرنے کیلئے کھیتی‌باڑی کِیا کرتے تھے۔‏ اِسکا مطلب ہے کہ وہ اپنے لئے خود خوراک اُگاتے تھے۔‏ لی
کن اب بعض صنعتی ممالک میں ۵۰ میں سے صرف ایک شخص کاشت‌کاری کرتا ہے۔‏ یہ تبدیلی کیسے واقع ہوئی؟‏

زراعت کے میدان میں پہلے آہستہ‌آہستہ مگر پھر بڑی تیزی سے بہتری آنا شروع ہو گئی۔‏ ہر تبدیلی کیساتھ لاکھوں خاندانوں کو بہت سا ردوبدل کرنا پڑا اور آج تک پوری دُنیا میں ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔‏ کاشت‌کاری کے سلسلے میں ہونے والی ترقی نے لوگوں کو جسطرح متاثر کِیا ہے اُس پر غور کرنا آپکو یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ دُنیا کس طرف جا رہی ہے۔‏

کاشت‌کاری کے طریقوں میں ایک بڑی تبدیلی

بارھویں صدی میں جب یورپ میں ہارس کالر کی ایجاد ہوئی تو کاشت‌کاری محض گزربسر کا ذریعہ نہ رہی۔‏ ہارس کالر گھوڑے کو جوتنے کیلئے درکار سازوسامان کا ایک اہم حصہ ہے جسے لوگ عام طور پر گھوڑے کی اصلی یا حلقی کہتے ہیں۔‏ اِسکی مدد سے ہل میں جوتے جانے والے گھوڑے کا گلا نہیں گھونٹتا تھا۔‏ پس اِسطرح گھوڑے بیلوں کی نسبت زیادہ زور سے،‏ تیزی کیساتھ اور زیادہ دیر تک ہل کو کھینچ سکتے تھے۔‏ کاشت‌کاری میں گھوڑوں کے استعمال سے کسان اپنی پیداوار میں اضافہ کرنے کے قابل ہوئے۔‏ وہ لوہے کے ہل کی مدد سے سخت زمین کو کاشت کر سکتے تھے۔‏ ایک اَور قدم جو کاشت‌کاری میں بہتری لانے کا سبب بنا وہ مٹی کو زیادہ زرخیز بنانے والی فصلوں کی کاشت تھی۔‏ اِن میں دالیں،‏ مٹر،‏ ترفل اور برسیم یا لوسن جیسی فصلوں کی کاشت شامل تھی جنکی وجہ سے نائٹروجن مٹی کیساتھ شامل ہو کر (‏تثبیت کا عمل)‏ زمین کو زرخیز رکھتی ہے۔‏ یوں زرخیز زمین کی بدولت فصلیں کثرت سے پیدا ہونے لگیں۔‏

اِن ابتدائی تبدیلیوں کی بدولت بعض کسان وافر مقدار میں اناج اُگانے اور اِسے بازار میں فروخت کرنے کے قابل ہو گئے۔‏ یوں ایسے شہر وجود میں آ گئے جہاں لوگ اپنے لئے خوراک خریدنے کے علاوہ صنعتکاروں اور تاجروں کے طور پر کام کر سکتے تھے۔‏ اِن امیر صنعتکاروں،‏ تاجروں اور کسانوں کی بدولت کاشت‌کاری کیلئے استعمال ہونے والی مشینوں کی ایجاد کا آغاز ہوا۔‏

سن ۱۷۰۰ میں جیتھرو ٹل نامی ایک کسان نے بیج بکھیرنے کیلئے گھوڑوں کی مدد سے چلنے والی ایک مشین ایجاد کی۔‏ اِس سے قبل بیج بکھیرنے کا کام ہاتھوں سے کِیا جاتا تھا جس سے کافی بیج ضائع ہو جاتے تھے۔‏ سن ۱۸۳۱ میں،‏ امریکہ میں سائرس میک‌کورمک نے گھوڑوں کی مدد سے چلنے والی ایک ایسی مشین ایجاد کی جسے فصل کو کاٹنے اور جمع کرنے کیلئے استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ یہ مشین ہاتھ سے چلنے والی درانتی کی نسبت پانچ گُنا تیز چلتی تھی۔‏ اُسی دوران تاجروں نے جنوبی امریکہ کے اینڈین ساحل سے یورپ میں کھاد لانا شروع کر دی۔‏ مشینوں اور کھاد کے استعمال سے کاشت‌کاری کی صنعت میں بہت ترقی ہوئی۔‏ مگر اِس سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوا؟‏

کاشت‌کاری میں ترقی ایک صنعتی انقلاب کا باعث بنی جس سے شہروں میں رہنے والے لوگوں کیلئے سستی اور وافر مقدار میں خوراک حاصل کرنا ممکن ہو گیا۔‏ سب سے پہلے یہ انقلاب برطانیہ میں تقریباً ۱۷۵۰-‏۱۸۵۰ میں رُونما ہوا۔‏ ہزاروں خاندانوں کو لوہے اور کپڑے کے کارخانوں،‏ کوئلے کی کانوں اور بحری جہاز بنانے اور مرمت کرنے کی جگہوں میں کام کرنے کیلئے صنعتی شہروں کا رُخ کرنا پڑا کیونکہ اُنکے پاس اِسکے علاوہ اَور کوئی چارہ نہ تھا۔‏ غریب کسان جو کاشت‌کاری کیلئے جدید آلات خریدنے کے قابل نہیں تھے کم پیداوار کی وجہ سے زیادہ پیسہ نہیں کما سکتے تھے حتیٰ‌کہ اُنکے لئے اپنا کرایہ ادا کرنا بھی مشکل تھا۔‏ پس اُنہیں اپنی زمینیں چھوڑ کر گنجان آباد شہروں کی کچی آبادیوں میں رہنا پڑا جہاں بیماریاں بڑی تیزی سے پھیلتی ہیں۔‏ پہلے سارا خاندان ملکر کھیتی‌باڑی کا کام کرتا تھا مگر اب صرف مرد کارخانوں میں کام کرنے کیلئے جاتے تھے۔‏ یہاں تک کہ بچے بھی کارخانوں میں کئی‌کئی گھنٹے کام کرتے تھے۔‏ جلد ہی دیگر ممالک کو بھی ایسی ہی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا۔‏

سائنسی طریقوں سے کاشت‌کاری میں مزید تبدیلیاں

سن ۱۸۵۰ میں بعض ممالک کے پاس اتنے مالی وسائل تھے کہ وہ زرعی تحقیق سے فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔‏ زراعت کے متعلق سائنسی تحقیق آج ہمارے زمانے تک متواتر تبدیلیاں لانے کا باعث بنی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ بعض اشخاص نے پودوں کی مختلف اقسام پر تحقیق کرنے کے بعد ایسے پودے تیار کئے ہیں جو زیادہ پھل دیتے اور مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔‏ تحقیق‌دانوں نے نمکیات کے ایسے مرکبات بھی دریافت کئے ہیں جو مختلف قسم کی فصلوں اور زمین کیلئے اشد ضروری ہیں۔‏ کھیتوں میں مزدوری کرنے والے لوگ بھی سارا سال فصلوں میں اُگنے والی جڑی بوٹیوں کو نکالنے میں مصروف رہتے تھے۔‏ مگر جب سے سائنس‌دانوں نے کیڑےمار ادویات تیار کی ہیں اُس وقت سے جڑی بوٹیوں کی پیداوار قدرے کم ہو گئی ہے جسکی وجہ سے بہت سے مزدور اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔‏ مختلف طرح کی سنڈیاں،‏ کیڑے اور گھن بھی کاشت‌کاروں کے پُرانے دُشمن ہیں۔‏ تاہم،‏ اب کیڑےمار ادویات کی اتنی مختلف اقسام ہیں کہ کسان ہر طرح کے کیڑوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے کسی کا بھی انتخاب کر سکتے ہیں۔‏*

جانور پالنے والے کسانوں کی زندگیوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔‏ دودھ نکالنے اور جانوروں کو چارا ڈالنے کیلئے دستیاب خودکار مشینوں کی بدولت مویشیوں کی نگرانی پر مامور ایک شخص اپنے ساتھی کی مدد سے تقریباً ۲۰۰ گایوں کی دیکھ‌بھال کر سکتا ہے۔‏ کسان اپنے گائےبیل اور سوأروں کو جلدی بڑا کرنے کیلئے اُنہیں کھلے میدانوں میں رکھنے کی بجائے باڑوں میں رکھتے ہیں۔‏ اِسطرح اُنکے لئے جانوروں کے جسم کے درجۂ‌حرارت اور خوراک پر کنٹرول رکھنا ممکن ہوتا ہے۔‏

سائنسی طریقوں کے مطابق کی جانے والی کاشت‌کاری کے اکثر شاندار نتائج نکلے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے بعض کسانوں کی پیداوار میں ۱۰۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔‏ اِسکا مطلب ہے کہ جدید طریقوں کو استعمال کرنے سے ہر مزدور نے پہلے کی نسبت کہیں زیادہ عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کِیا ہے۔‏ لیکن اِن سائنسی کامیابیوں نے لوگوں کی زندگیوں کو کیسے متاثر کِیا ہے؟‏

کسانوں کا طرزِزندگی بدل گیا

مشینوں نے مختلف ممالک میں رہنے والے کسانوں کے طرزِزندگی کو بدل ڈالا ہے۔‏ زیادہ‌تر کسانوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو اب جدید مشینوں کو چلانے اور اِنکی دیکھ‌بھال کرنے کیلئے مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‏ عام طور پر اُنہیں اکیلے ہی کام کرنا پڑتا ہے۔‏ کیونکہ اب لوگوں کو بیج بونے،‏ کھتیوں کی دیکھ‌بھال کرنے اور کٹائی کرنے کیلئے پہلے کی طرح گروہوں کی شکل میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏

بہت سے ممالک میں اب کسانوں کا ایک نیا طبقہ سامنے آیا ہے۔‏ ایک اعلیٰ تعلیم‌یافتہ کاروباری شخص چند زرعی اشیا یا شاید کسی ایک چیز کی پیدوار کے بارے میں خاص مہارت حاصل کرتا ہے۔‏ وہ زمین خریدنے،‏ عمارت کھڑی کرنے اور مشینیں خریدنے کیلئے بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ وہ تنہا یہ سب کچھ نہیں کر تا۔‏ کھانے پینے کی اشیا تیار کرنے والی مختلف کمپنیاں اور سپر مارکیٹیں نہ صرف اُسکی تیارکردہ اشیا کی قیمتیں طے کرتی ہیں بلکہ اُنکی قسم،‏ سائز اور رنگ کا بھی تعیّن کرتی ہیں۔‏ نیز،‏ یہ اشیا کیسے تیار کی جائینگی اِسکا تعیّن زرعی انجینئر کرتے ہیں۔‏ ماہر کمپنیاں اُسکے کھیت کی زمین کے مطابق اُسے خاص قسم کی کھاد،‏ کیڑےمار ادویات اور مختلف بیج فراہم کرتی ہیں۔‏ یہ اعلیٰ تعلیم‌یافتہ کسان کاشت‌کاری کے اُن طریقوں کو بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے جو اُسکے باپ‌دادا استعمال کرتے تھے۔‏ اگرچہ وہ اِس کام میں سخت محنت کر رہا ہے توبھی کئی لوگ کھیتی‌باڑی کے بعض جدید طریقوں کے نقصاندہ اثرات کے بارے میں پریشان ہیں۔‏

کسان آج بھی مسائل سے دوچار ہیں

ترقی‌یافتہ ممالک میں آج بھی بہت سے کسانوں کو اپنی زمینوں سے ہاتھ دھونے پڑ رہے ہیں کیونکہ وہ بڑی‌بڑی زرعی کارپوریشنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‏ اِسلئے بعض کسان اپنے گزربسر کی خاطر سیاحوں کیلئے رہائش گاہیں بناتے اور ہاتھ سے بنی ہوئی چیزیں تیار کرتے ہیں۔‏ نیز،‏ وہ اُنکے لئے سیروتفریح کے کیمپ لگانے کیلئے جگہ اور گالف کھیلنے کے وسیع میدان مہیا کرتے ہیں۔‏ بعض کسان خاص قسم کی چیزیں تیار کرتے،‏ کیمیاوی کھاد کے بغیر خوراک اور مختلف قسم کے پھول کاشت کرتے اور شترمُرغوں اور جنوبی امریکی بھیڑوں کے اپنے گلّوں کو بڑھاتے ہیں۔‏

غریب ممالک میں آبادی کا ۸۰ فیصد حصہ جو گزربسر کرنے کیلئے کاشت‌کاری کر سکتا ہے وہ بھی ایسی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہا ہے۔‏ عالمی کمپنیاں زمین کو زرخیز بنانے کیلئے کاشت‌کاری کے جدید طریقے استعمال کرتی ہیں تاکہ پیداوار کو دُوردراز علاقوں میں فروخت کر سکیں۔‏ بعض کسانوں کے پاس چند مشینیں ہیں جبکہ بعض کے پاس ایک بھی مشین نہیں ہے۔‏ اِسکے باوجود وہ سب اپنے خاندانوں کو خوراک فراہم کرنے کیلئے بنجر زمین یاپھر زمین کے ایک چھوٹے سے حصے میں کاشت‌کاری کرتے ہیں۔‏

اِس وقت بیشتر ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد کا گاؤں سے شہروں میں منتقل ہونا اُس تبدیلی کا نتیجہ ہے جو صدیوں پہلے واقع ہوئی تھی۔‏ اگرچہ کاشت‌کاری کے میدان میں ہونے والی اِس تبدیلی کی وجہ سے شہروں میں رہنے والے بعض لوگ فائدہ اُٹھا رہے ہیں توبھی دیگر ابھی تک غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔‏ اگرچہ کچھ حکومتیں متاثرہ لوگوں کو ضروری مدد فراہم کر رہی ہیں توبھی انسانوں کو خدا کی بادشاہت کی ضرورت ہے۔‏ کیونکہ خدا کی بادشاہت ایک ایسی تبدیلی لائیگی جو اُنکے لئے بہتر زندگی بسر کرنا ممکن بنا دیگی!‏—‏‏

کاشت‌کاری کے دو طریقے

رچرڈ کینیڈا کا رہنے والا ہے اور اُسکے پاس کھیتی‌باڑی کرنے کیلئے ۵۰۰ ایکڑ زرخیز زمین ہے۔‏ عام طور پر وہ اکیلا ہی کھتیوں میں کام کرتا ہے لیکن بویائی اور کٹائی کے موسم میں وہ اپنے ساتھ ایک مزدور رکھ لیتا ہے۔‏

رچرڈ کہتا ہے کہ ”‏آجکل کاشت‌کاری کے کام میں بھی جسمانی دباؤ کی نسبت ذہنی دباؤ زیادہ ہو تا ہے۔‏ میری فصل کاٹنے کی مشین اور میرے ٹریکٹر دونوں کے کیبن میں اےسی لگا ہوا ہے۔‏ جسکی مدد سے مَیں گرد اور کیڑےمکوڑوں سے محفوظ رہتا ہوں۔‏ میرے پاس ۳۰ فٹ چوڑی مشینیں ہیں جن سے مَیں ایک دن میں آدھی ایکڑ زمین میں بیج بو سکتا یا پھر کٹائی کر سکتا ہوں۔‏ کیونکہ مَیں اپنے کام کیلئے زیادہ تر مشینوں پر انحصار کرتا ہوں اِسلئے مَیں زیادہ دباؤ محسوس کرتا ہوں۔‏ بعض اوقات،‏ مشینوں میں کسی طرح کی تبدیلی کیلئے مجھے قرض لینا پڑتا ہے۔‏ مَیں یہ نہیں جانتا کہ سود پر لی گئی یہ رقم کب اور کیسے ادا کرونگا کیونکہ میری فصل کو متاثر کرنے والی قدرتی آفات اور مارکیٹ میں چیزوں کی قیمتوں میں اُتارچڑھاؤ پر میرا اختیار نہیں ہے۔‏ کاشت‌کاری میں درپیش دباؤ کی وجہ سے یہاں بھی لوگوں کی شادی‌شُدہ زندگی میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جوکہ بعض اوقات کسانوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔‏“‏

یوسیبیو اینڈیز میں رہتا ہے اور کاشت‌کاری کا کام کرتا ہے۔‏ اُسکے پاس ۱۴ مویشی بھی ہیں جنکی وہ دیکھ بھال کرتا ہے۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں نے اُن سب کے نام رکھے ہوئے ہیں۔‏ مجھے کھیتی‌باڑی کرنا بہت پسند ہے۔‏ ہم اپنے لئے خود سبزیاں اُگاتے ہیں۔‏ مَیں اور میری بیوی ہل چلانے اور فصل کاٹنے میں اپنے پڑوسیوں کی مدد کرتے ہیں اور وہ ہماری مدد کرتے ہیں۔‏ ہم میں سے کسی کے پاس مشینیں نہیں ہیں۔‏ ہم سب بیلوں کی مدد سے ہل چلاتے اور بیلچوں سے زمین کھودتے ہیں۔‏

ایک مرتبہ وبا نے ہمارے بہت سے مویشیوں کو مار ڈالا۔‏ اِسکے بعد مَیں نے جانوروں کا علاج کرنے کے سلسلے میں کچھ تربیت حاصل کی۔‏ اُس وقت سے لے کر ہمارا ایک بھی جانور بیماری کی وجہ سے نہیں مرا۔‏ اب مَیں پڑوسیوں کے جانوروں کا بھی علاج کرتا ہوں۔‏ ہم گاؤں کی دُکانوں پر پنیر بیچتے ہیں مگر اِس سے کچھ خاص آمدنی نہیں ہوتی۔‏ اِسکے باوجود ہمارے پاس اپنے چھ بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے بہت کچھ ہے۔‏“‏


سن ۱۸۳۱ میں ایجاد ہونے والی میک‌کورمک ریپر مشین جس نے کسانوں کیلئے پہلے کی نسبت ۵ گُنا تیزی کیساتھ فصل کاٹنا ممکن بنا دیا۔


اگر پاکستان کے 21 کروڑ لوگوں میں سے صرف 30٪ لوگ روزانہ 10 روپے کا جوس پیں تو مہینے بھر میں تقریبا "1800 کروڑ"
روپے خرچ ہوتے ہیں ۔
اور اگر آپ انہی پیسوں سے کوکا کولا یا پیپسی پیتے ہیں
تو یہ "1800 کروڑ" روپے
ملک سے باہر چلے جاتےہیں ....
اصل میں کوکا کولا اور پیپسی جیسی کمپنیاں روزانہ
"3600 کروڑ" سے زیادہ مال غنیمت اس ملک سے جمع کرتی ہیں ...

آپ سے درخواست ہے کہ آپ
گنے کے جوس اور پھلوں کے رس وغیرہ کو اپنائیں اور ملک کے "3600 کروڑ" روپے بچا کر ہمارے کسانوں کو دیں ...
"کسان خود کشی نہیں کریں گے .."
پھلوں کے رس کے کاروبار سے
ہزاروں لوگوں کو روزگار مل سکتاہے. ... آپ کا یہ چھوٹا سا کام ملک میں خوشحالی لا سکتا ہے۔
مقامی اپنائیں،
قوم کو طاقتور بنائیں ...
اور یہ میسیج تین لوگوں تک ضرور پہنچائیں ..
میسج رکنا نہیں چاہئے ..
Cocacola
Maggi
Fanta
Garnier
Ravlon
Lorial
Huggies
Pampars
MamyPoko
Libro
Levis
Nokia
Macdonalds
Calvin cline
Kit kat
Sprite
Nestle
Pepsi
KFC
-كولگیٹ
نہیں تھا تو کیا پاکستان میں
لوگ دانت صاف نہیں کرتے تھے؟
فئر اینڈ لولی نہیں تھی تو کیا سبپاکستانیعورت کالی تھیں؟
اگرتمام پاکستانی 150دن تککوئیبھی غیر ملکی ساماننہیں خریدیں ....
تو پاکستان ایکامیر ملک بن سکتا ہے ..
صرف 150 دن میں ہی ڈالر کی قیمت آسمان سے زمین پرلائی جاسکتی ہے.
ہم سب کو مل کر
یہ کوشش آزمانی چاہئے
كيونکہ یہ ملک ہے ہمارا ہے.. !!!!
.
.
ہم اتنے بیکار کے مسجز فارورڈ کرتے ہیں.
کیوں نہ اسے بھی اتنا فارورڈ
کریں تا کہ سارا پاکستان اس کو پڑھے ...
اور
ایک تحریک بن جائے ...... !!
آئیے نئے پاکستان کی بنیاد اپنے گھر سے رکھیں


روشنی میں کھیرے کی پلاسٹک ٹنل میں کاشت کا جو مشاہدہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہے :

 1. جہاں کھیرا لگانا ہو وہ زمین لیزر لیول کروا لیں . 
2. زمین کی تیاری کے وقت دو سے تین بوری ڈی اے پی ، ایک سے ڈیڑھ بوری ایس او پی اور 8 کلوگرام فیوراڈان زہر اچھی طرح زمین میں ملائیں .
3. بیڈ سائز 2 فٹ چوڑا رکھیں اور پودے سے پودے کا فاصلہ پونے فٹ سے ایک فٹ تک ہونا چاہیے .
 4. چوپہ کاشت کی صورت میں 48 گھنٹے کے اندر اندر پچاس فیصد اگاؤ آ جاتا ہے 50 فیصد اگاؤ آتے ہی ٹنل کے گیٹ سورج کی روشنی میں کھول دیں .
 5. روزانہ صبح سورج نکلتے ہی تمام ٹنلز کے گیٹ اوپن کریں اور 3 سے 4 بجے کے درمیان بند کر دیں .
6. دھند یا بارش کی صورت میں گیٹ بند رکھیں . 
7 .جب تک پودے کے 4 پتے نہ بن جائیں کسی بھی قسم کا سپرے مت کریں . 
8. جس کمپنی کا بیج ہو اس کمپنی سے سپرے پروگرام مرتب کروائیں اور ہر کسی کے مشورے پر عمل کرنے سے اجتناب کریں . 
9. وتر آنے پر واٹر چینلز میں ایک یا دو دفعہ گوڈی لازمی کریں . 
10. سپرے پروگرام میں امائنو ایسڈ اور این پی کے کا استعمال لازمی کریں . 
11. ٹنلز میں نمی کا تناسب دیکھتے ہوۓ پانی لگائیں جو عمومن پہلی چنائ کے بعد لگایا جاتا ہے .
12. پہلے پانی پہ ایک بوری ڈی اے پی اور ایک بوری ایس او پی یا لیکوئڈ پوٹاش ایک گیلن فلڈ کریں جس سے لگاتار چنائیاں شروع ہو جائیں گی .
13. ایک پانی چھوڑ کے اور پھر پلاسٹک اترنے کے بعد ہر پانی پر کھاد لازمی فلڈ کریں .
14. گرمی کے دنوں میں روزانہ شام کو پانی دیں . نوٹ : ٹنلز میں نمی نہ بڑھنے دیں روزانہ گیٹ کھولیں ورنہ ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے .


تو ڈھائی ایکڑ میں آپ 25000 پال سکتے ہیں اور اس کا تین انچ کا سیڈ آپ کو چھ روپیہ فی کس مل جائے گا اور یہ مچھلی چار ماہ میں پانچ سو گرام سے چھ سو گرام کی ہو جائے گی اس مچھلی کو آپ اپنی لوکل مارکیٹ میں 150 روپے کلو کے حساب سے باآسانی بیچ سکتے ہیں.
اسکا سیڈ چھ روپے کے حساب سے آپ کو Rs. 150,000 کا ملے گا.

چار ماہ میں یہ مچھلی 23 ٹن فیڈ کھا جائے گی مطلب 575 من فیڈ کھا جائے گی 1200 روپے فی من کے حساب سے فیڈ آپ کو ملے گی مطلب چار ماہ میں 690،000 کی فیڈ کھا جائے گی.
یہ مچھلی 150 روپے کلو کے حساب سے 22،50،000 روپے میں فروخت ہو جائے گی.
اب جو اخراجات ہیں ان میں تقریباً 150,000 اس کو نکال کر مارکیٹ تک لیجانے میں آئے گا جو گاڑی کے کرائے کی مد میں آپ کو ادائیگی پیشگی کرنی پڑے گی.
چار ماہ کی ملازم کی تنخواہ جو اس کی روزانہ دو وقت باقاعدگی سے فیڈ تیار کر کے ڈالے گا وہ 40,000 چار ماہ میں لے گا۔کلیرس ایک افریقی نسل کی گوشت خور مچھلی ہے جو بہت سخت جان ہوتی ہے اور اس مچھلی مچھلی کو تین وقت خوراک ڈالنی چاہیے نہیں تو یہ آپس میں ایک دوسرے کو شکار کر لیتی ہیں.
کلیرس کا تین انچ کا سیڈ آپ کو 9 روپے فی کس کے حساب سے ملے گا اور آپ تیس ہزار مچھلی اپنے پانڈ میں پال سکتے ہیں.
یہ تیس ہزار مچھلی چھ ماہ میں تین کلو کی ہو جاتی ہے اور مارکیٹ میں 400 روپیہ کلو بک جاتی ہے.
یہ مچھلی چھ ماہ میں 135 ٹن خشک خوراک کھا جائے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ 3375 من خوراک جس کی مالیت 40،50،000 بنے گی یہ کھا جائے گی.
لیکن اس مچھلی کو آپ مرغی کی آلائشوں اور اگر آپ کے علاقے میں کوئی سلاٹر ہاؤس موجود ہے تو جانوروں کی اوجڑیوں پر بھی پالا جا سکتا ہے جو اس کو پالنے کا سستا طریقہ ہے.
اس مچھلی کو زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ کسی بھی قسم کے حالات سے خود نمٹ لیتی ہے.
چار سو روپیہ فی کلو کے حساب سے یہ ایک مچھلی 1200 روپے فی کس فروخت ہو گی، اور 3 کروڑ 60 لاکھ روپے میں فروخت ہو جائے گی.
اب آپ خود سمجھدار ہیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے



مٹر اپنی نوعیت کے اعتبار سے سردی کی فصل ہے یہ آٹھ سینٹی گریڈ سے لے کرتیس سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت برداشت کر سکتا ہے


وقت کاشت: 
مٹر کی کاشت کا وقت مانسہرہ ہری پور اور ملحقہ علاقوں میں وسط اگست سے لے کر بیس ستمبر تک ہے جبکہ بالائی پنجاب میں ستمبر کے پہلے ہفتے سے لے کر شروع نومبر تک کاشت کیا جا سکتا ہے اور جنوبی پنجاب اور سندھ میں بیس اکتوبر سے لے کر وسط دسمبر تک کاشت ہوتا ہے
مٹر کی اقسام:
اگیتی کاشت کے لئے کلاسک اور الینا جبکہ پچھیتی کاشت کے لئیے مٹور بہترین ورائٹیز ہیں البتہ یہ تقسیم ان کے پیداواری صلاحیت اور مدت برداشت کے حسب سے کیا گیا ہے جبکہ موسم کی برداشت کی قوت سب میں ایک جیسی ہوتی ہے
اگیتی کاشت کے لئیے بیج کا استعمال ڈیڑھ گنا زیادہ کرنا چاہئے پٹڑیوں کی چوڑائی 18 انچ تک رکھیں اور پودے سے پودے کا فاصلہ 2انچ رکھیں مٹر کی پچھیتی اقسام کی کاشت کیلئے پٹڑیوں کی چوڑائی 20سے 22 انچ اور پودے کا پودے سے درمیانی فاصلہ 3انچ تک رکھیں کاشتکار مٹر کی اگیتی اور پچھیتی اقسام کو پٹڑیوں کے دونوں جانب کاشت کریں اور کاشت کرنے کےلئے ہاتھ سے کیرا یا ہر بیج کو 2سے 3انچ کے فاصلہ پر 2 سے 3 سینٹی میٹر گہرا لگا دیں۔

پانی اور کھاد:
شروع میں فصل کو ہفتہ کے وقفہ سے پانی دیا جائے تاہم بعد میں موسم سرد ہو جانے پر پانی کا وقفہ بڑھا یاجاسکتاہے ۔
زمین کی تیاری کے وقت ایک سے دو بیگ ڈی اے پی ایک بیگ پوٹاش اور ایک بیگ یوریا ڈالیں اور پھر ہر دوسرے پانی کے ساتھ دس کلو یوریا لازمی دیں

جڑی بوٹیوں کا تدارک:
مٹر کی فصل میں کرنڈ، باتھو، اٹ سٹ، جنگلی پالک، مینا، سینجی، دمبی گھاس، لہلی، پیازی اور ڈیلا وغیرہ جیسی جڑی بوٹیاں اگتی ہیں جو فصل کی خوراک، پانی اور روشنی میں حصہ دار بننے کے ساتھ ساتھ بیماریاں اور کیڑے پھیلانے کا سبب بھی بنتی ہیں لہٰذا کاشتکار ان جڑی بوٹیوں کی تلفی کےلئے گوڈی کریں کیونکہ اس سے زمین نرم ہو جاتی ہے ، اس میں آکسیجن کا گزر بڑھ جاتا ہے اور پودوں کی بڑھوتری بھی تیز ہو جاتی ہے مگر اس کے برعکس دوائی کے استعمال سے زمین کی سطح دوائی کی تہہ جم جانے سے سخت ہو جاتی ہے جس سے جڑی بوٹیاں توتلف ہو جاتی ہیں لیکن پودوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔

جڑی بوٹیوں کے کیمیائی تدارک:
زمین کی تیاری کے وقت جب رونی وتر حالت میں آجائے تو زمین میں ہل چلا کر پینڈی میتھولین اور اسیٹا کلور کا سپرے کریں اور سہاگہ چلا کر زمین کو 24 گھنٹے پڑا رہنے دیں پھر زمین تیار کر کے مٹر کاشت کریں
2۔ پانی میں چوکا لگا کر دوآل گولڈ کا سپرے کریں
3-نوک دار پتے والی اگی ہوئی جڑی بوٹیوں کے لئے پوما سپر کا استعمال کر سکتے ہیں فصل پر اس کا کوئی سٹریس نہیں
4۔چوڑے پتے کی جڑی بوٹیوں کے لئے زنکر 50گرام فی ایکڑ استعمال کر سکتے ہیں مگر اس سے زیادہ فصل کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اس بات کا خیال رہے کہ زنکر کو پھول آنے سے پہلے استعمال کر سکتےہیں..


چونکہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس لیے تیل دار اجناس کی مانگ میں بھی تیزی سے اضافہ سامنے آیا ہے ۔ جبکہ
ہمارے ملک میں اس کی طرف خاصہ رجحان نہیں اس لیے اجناس کی قلت مہنگائی کو جنم دیتی ہے جس کے نتیجہ میں عوام کو بلی کا بکرا بننا پڑتا ہے ۔ ہمارے ملک میں  ضرورت کا صرف 20سے30فیصد خوردنی تیل پیدا کیا جاتا ہے جبکہ باقی کی ضروریات دوسرے ممالک کی بدولت پوری کی جاتی ہیں ۔ ہماری روایتی تیل دار فصلیں کپاس ، رایا اور سر سوں وغیرہ ہے ۔ جبکہ غیر روایتی فصلیں کینولا ، سورج مکھی اور سویا بین وغیرہ ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ ان غیر روایتی فصلوں کی کاشت روایتی فصلوں  سے خاصی آسان ہے کیونکہ یہ کم عرصے میں تیار ہو جاتی ہیں ۔ اور اس کے علاوہ ان میں تیل کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے اس لیے کسانوں کو چاہیے کہ اپنا رجحان ان فصلات کی طرف بھی لائیں تاکہ پاکستان کو تیل کے حوالے سے دوسرے ممالک کا محتاج نہ ہونا پڑے ۔ چونکہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اس لیے اس کو مکمل طور پر استعمال میں لانا چاہیے ۔ اب میں آپ سے چند غیر روایتی روغنی اجناس کی کاشت کے حوالے دوچار ہوں گا ۔ سب سے پہلے کینولا کی کاشت کے بارے بتاؤں گا ۔ ویسے تو کینولا سر سوں کی ایک ترقی یافتہ قسم ہے اور اس کے علاوہ یہ منافع بخش فصل بھی ہے اس لیے اس کی طرف رجحان ملکی معیشیت کے لیے موزوں ہے ۔ اس فصل کی کاشت کے لیے ہر قسم کی زمین موزوں ہے مگر سیم تھور اور ریتلی زمین میں فصلکامیاب نہیں بلکہ پیسے کا ضیاع ہے ۔ اچھی پیداوار کے حصول کے لیے آبپاشی کا نظام بہتر ہونا لازم ہے ۔ زمین کی تیاری کی بات کی جائے تو بارانی علاقوں میں سہاگہ اور ہل کی مدد سے وتر کو محفوظ کرنا لازمی ہے جبکہ نہری علاقوں میں کاشت کے لیے کاشت سے قبل تین مرتبہ ہل لازمی چلائیں اور اس کے بعد زمین کی ہمواری کے لیے سہاگہ دے دیں ۔ پنجاب کے تمام علاقوں میں  کینولا کو 20ستمبر تا 31اکتوبر تک کاشت کیا جاسکتا ہے اور کاشت میں تا خیر سے پر ہیز کریں اس وجہ سے فصل کی بہت کم پیداوار حاصل ہو گی اور یہ کاشتکار کے لیے نہایت نقصان دہ ہے ۔کینولا کی کاشت کے لیے گندم کاشت کرنے والی ڈرل کا استعمال کریں ۔ شرح بیج کی بات کی جائے تو یہ دو کلو کافی ہے جبکہ اہم بات یہ کہ قطاروں کا درمیانی فاصلہ 14سے18انچ مناسب ہے ۔ ڈرل نہ ہونے کی صورت میں اسے چھٹہ دے کے بھی کاشت کیا جا سکتا ہے ۔ کاشت سے قبل بیجوں کو کم از کم 12سے 14گھنٹے بھگوائیں اور اچھی پیداوار  کے حصول  کے لیے بیج کا معیار ہونا لازمی ہے ۔ کھادوں کی بات کی جائے تو  ایک بوری یوریا ، ایک بوری ڈی ،اے ، پی  اور ایک بوری ایس ، او ، پی کافی ہے ۔ فصل کی کامیابی کے لیے تین سے چار آبپاشی ضروری ہے جبکہ نہ اس سے کم نہ زیادہ مگر موسم کی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔ کینولا کی فصل پر کیڑوں کے حملے کی بات کریں تو اس سنڈیاں اور تیلہ حملہ کرتا ہے ۔ اور یہ حملہ پھول یا پھیلیاں بنتے وقت ہوتا ہے اس لیے اسے محکمہ زراعت کی سفارشات کے مطابق کنٹرول کریں ورنہ پیداوار میں شدید کمی واقع ہو سکتی ہے اس کے علاوہ فصل کو جڑی بوٹیوں سے بھی محفوظ رکھیں تاکہ یہ کیڑوں کے لیے آماج گاہ نہ بنیں ۔ اب آپ کو سویا بین کی کاشت کے حوالے سے بتا ات چلوں کہ یہ بھی ایک نہایت منافع بخش فصل ہے اس میں 40فیصد تک پروٹین پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں بیس فیصد تک بہترین قسم کا تیل  پایا جاتا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ دل کے مریضوں کے لیے سویا بین کا تیل موزوں سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کا آٹا شوگر کے مریضوں کے لیے نہایت مفید ہے ۔ کاشت کے لحاظ سے سویا بین کے لیے میرا زمین کا  انتخاب موزوں ہے ۔ جبکہ کلراٹھی زمینوں میں اسے کاشت کرنے سے پر ہیز کریں ۔ کاشت ہمیشہ صبح یا شام کے وقت وتر  مین کریں اچھی پیداوار حاصل  ہوگی ۔ صوبہ پنجاب میں بہار یہ فصل کے لیے سویا بین کا وقت کاشت فروری ہے ۔ جبکہ خزاں کی فصل کے لیے کاشت کا وقت جون تا اگست ہے ۔ شرح بیج 35کلو گرام فی ایکڑ استعمال کریں اور بیج اچھی کوالٹی کا ہو ۔ اس کے علاوہ کھادوں کا استعمال صرف ایک بوری ، ڈی اے پی ، آدھی بوری یوریا بوقت کاشت اور آدھی بوری یوریا یا دوسرے پانی پر استعمال کریں ۔ ویسے تو سویا بین کو عموماً 6سے7آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بہاریہ فصل کو پہلاپانی اُگاؤ کے تین سے چار ہفتے بعد دینا چاہیے ۔ اور خزاں کی فصل کو پہلا پانی اُگنے کے ایک سے دو ہفتے بعد دے دینا چاہیے ۔ سویا بین پر تیلہ سفید مکھی اور لشکری سنڈی حملہ آور ہوتی ہیں ۔ اس کے علاوہ جوؤں کا حملہ بھی دیکھنے میں آیا ہے ۔ خصوصاً  جڑی بوٹیوں سے فصل کو پاک رکھیں اور کیڑے مار ادویات کا درست انتخاب کریں ۔ آخر میں سورج مکھی کی کاشت کی بات کریں تو اصل فصل کو بہتر بڑھوتری کے لیے میرا زمین درکار ہے ویسے تو یہ ہر قسم کی زمین میں ہو جاتی ہے مگر چونکہ ہمارا مقصد زیادہ پیداوار ہے اس لیے میرا زمین کا انتخاب کریں ۔ موسم خزاں میں اس کو یکم جولائی سے 10 اگست تک زیرِ کاشت لایا جا سکتا ہے جبکہ موسم بہار میں اس فصل کا وقت کاشت فروری کا مہینہ ہے ۔ سورج مکھی  کی کاشت کے لیے دو سے تین کلو گرام بیج فی ایکڑ کافی ہے مگر بیج صاف ستھرا ہونا چاہئے ۔ کھادوں کے بارے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ نہری علاقوں میں ایک بوری ، ڈی اے پی، ایک بوری ،ایس او پی ، بوائی کے وقت جبکہ آدھی بوری یوریا پہلے پانی پر اور آدھی بوری دوسرے پانی پر استعمال کریں اس کے علاوہ ایک بوری یوریا ڈوڈیاں بنتے وقت استعمال کریں ۔ اس فصل کو چار سے پانچ آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے سبز تیلہ ، سست تیلہ ، چور کیڑا اور دیگر سنڈیوں سمیت مختلف کیڑوں سے نقصان پہنچتا ہے۔ ان سے بچاؤ کے لیے وقت ِ مدافعت والی اقسام کاشت کریں اور فصل کو جڑی بوٹیوں سے ہمیشہ پاک رکھیں ۔ حکومت پنجاب  محکمہ زراعت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو تیل دار اجناس کی کاشت پر مائل کریں تاکہ ہمارا ملک معاشی طور پر مزید ترقی کر سکے ۔


1۔۔
ایک ڈرم پلاسٹک 200 لٹر ۔۔۔۔ حوص،پکا کھاڈا ۔۔ٹیوب ویل کے جیسا۔۔15/10 فٹ گول ۔۔۔اور 4 فٹ اونچا۔
2۔۔

اس میں مندرجہ زیل چیزیں ڈال دیں۔۔۔۔
1۔۔۔
گوبر ۔۔۔نرم ،۔گیلی ۔۔۔۔۔۔15۔کلو فی ایکڑ۔
2۔۔۔
پیشاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔15 لٹر فی ایکڑ ۔۔پا زپادہ ۔۔۔دوگنا ۔۔تین گنا ۔۔3۔۔۔
گڑ ۔۔۔۔5۔1 کلو فی ایکڑ ۔۔۔
4۔۔
دال کا آٹا 5۔1 کلو فی ایکڑ۔
5۔۔۔
مٹی ۔۔بوہڑ ۔ پیپل کے درخت کے نیچے سے۔۔
6۔۔۔
اس کو گول لیں۔ اچھی طرح ۔۔روزانہ۔۔۔
7۔۔
اپ کی ارگینک کھاد تیار ہے ۔۔۔
8۔۔
نوٹ۔۔۔۔حوض کو زمین کے اوپر بنایں۔۔۔
9۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔فائدے۔ ۔

10۔
زمین نرم ، زرخیز، بھربھری ہو گی۔۔۔
وتر ۔نمی ۔زیادہ دیر رکھےگی۔۔۔۔۔۔
پانی کم لے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔
نامیاتی مادہ میں اضافہ ہو گا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ Earth worm پیدا کرے گی ۔۔۔۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget