تیل دار اجناس کی کاشت


چونکہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس لیے تیل دار اجناس کی مانگ میں بھی تیزی سے اضافہ سامنے آیا ہے ۔ جبکہ
ہمارے ملک میں اس کی طرف خاصہ رجحان نہیں اس لیے اجناس کی قلت مہنگائی کو جنم دیتی ہے جس کے نتیجہ میں عوام کو بلی کا بکرا بننا پڑتا ہے ۔ ہمارے ملک میں  ضرورت کا صرف 20سے30فیصد خوردنی تیل پیدا کیا جاتا ہے جبکہ باقی کی ضروریات دوسرے ممالک کی بدولت پوری کی جاتی ہیں ۔ ہماری روایتی تیل دار فصلیں کپاس ، رایا اور سر سوں وغیرہ ہے ۔ جبکہ غیر روایتی فصلیں کینولا ، سورج مکھی اور سویا بین وغیرہ ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ ان غیر روایتی فصلوں کی کاشت روایتی فصلوں  سے خاصی آسان ہے کیونکہ یہ کم عرصے میں تیار ہو جاتی ہیں ۔ اور اس کے علاوہ ان میں تیل کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے اس لیے کسانوں کو چاہیے کہ اپنا رجحان ان فصلات کی طرف بھی لائیں تاکہ پاکستان کو تیل کے حوالے سے دوسرے ممالک کا محتاج نہ ہونا پڑے ۔ چونکہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اس لیے اس کو مکمل طور پر استعمال میں لانا چاہیے ۔ اب میں آپ سے چند غیر روایتی روغنی اجناس کی کاشت کے حوالے دوچار ہوں گا ۔ سب سے پہلے کینولا کی کاشت کے بارے بتاؤں گا ۔ ویسے تو کینولا سر سوں کی ایک ترقی یافتہ قسم ہے اور اس کے علاوہ یہ منافع بخش فصل بھی ہے اس لیے اس کی طرف رجحان ملکی معیشیت کے لیے موزوں ہے ۔ اس فصل کی کاشت کے لیے ہر قسم کی زمین موزوں ہے مگر سیم تھور اور ریتلی زمین میں فصلکامیاب نہیں بلکہ پیسے کا ضیاع ہے ۔ اچھی پیداوار کے حصول کے لیے آبپاشی کا نظام بہتر ہونا لازم ہے ۔ زمین کی تیاری کی بات کی جائے تو بارانی علاقوں میں سہاگہ اور ہل کی مدد سے وتر کو محفوظ کرنا لازمی ہے جبکہ نہری علاقوں میں کاشت کے لیے کاشت سے قبل تین مرتبہ ہل لازمی چلائیں اور اس کے بعد زمین کی ہمواری کے لیے سہاگہ دے دیں ۔ پنجاب کے تمام علاقوں میں  کینولا کو 20ستمبر تا 31اکتوبر تک کاشت کیا جاسکتا ہے اور کاشت میں تا خیر سے پر ہیز کریں اس وجہ سے فصل کی بہت کم پیداوار حاصل ہو گی اور یہ کاشتکار کے لیے نہایت نقصان دہ ہے ۔کینولا کی کاشت کے لیے گندم کاشت کرنے والی ڈرل کا استعمال کریں ۔ شرح بیج کی بات کی جائے تو یہ دو کلو کافی ہے جبکہ اہم بات یہ کہ قطاروں کا درمیانی فاصلہ 14سے18انچ مناسب ہے ۔ ڈرل نہ ہونے کی صورت میں اسے چھٹہ دے کے بھی کاشت کیا جا سکتا ہے ۔ کاشت سے قبل بیجوں کو کم از کم 12سے 14گھنٹے بھگوائیں اور اچھی پیداوار  کے حصول  کے لیے بیج کا معیار ہونا لازمی ہے ۔ کھادوں کی بات کی جائے تو  ایک بوری یوریا ، ایک بوری ڈی ،اے ، پی  اور ایک بوری ایس ، او ، پی کافی ہے ۔ فصل کی کامیابی کے لیے تین سے چار آبپاشی ضروری ہے جبکہ نہ اس سے کم نہ زیادہ مگر موسم کی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔ کینولا کی فصل پر کیڑوں کے حملے کی بات کریں تو اس سنڈیاں اور تیلہ حملہ کرتا ہے ۔ اور یہ حملہ پھول یا پھیلیاں بنتے وقت ہوتا ہے اس لیے اسے محکمہ زراعت کی سفارشات کے مطابق کنٹرول کریں ورنہ پیداوار میں شدید کمی واقع ہو سکتی ہے اس کے علاوہ فصل کو جڑی بوٹیوں سے بھی محفوظ رکھیں تاکہ یہ کیڑوں کے لیے آماج گاہ نہ بنیں ۔ اب آپ کو سویا بین کی کاشت کے حوالے سے بتا ات چلوں کہ یہ بھی ایک نہایت منافع بخش فصل ہے اس میں 40فیصد تک پروٹین پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں بیس فیصد تک بہترین قسم کا تیل  پایا جاتا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ دل کے مریضوں کے لیے سویا بین کا تیل موزوں سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کا آٹا شوگر کے مریضوں کے لیے نہایت مفید ہے ۔ کاشت کے لحاظ سے سویا بین کے لیے میرا زمین کا  انتخاب موزوں ہے ۔ جبکہ کلراٹھی زمینوں میں اسے کاشت کرنے سے پر ہیز کریں ۔ کاشت ہمیشہ صبح یا شام کے وقت وتر  مین کریں اچھی پیداوار حاصل  ہوگی ۔ صوبہ پنجاب میں بہار یہ فصل کے لیے سویا بین کا وقت کاشت فروری ہے ۔ جبکہ خزاں کی فصل کے لیے کاشت کا وقت جون تا اگست ہے ۔ شرح بیج 35کلو گرام فی ایکڑ استعمال کریں اور بیج اچھی کوالٹی کا ہو ۔ اس کے علاوہ کھادوں کا استعمال صرف ایک بوری ، ڈی اے پی ، آدھی بوری یوریا بوقت کاشت اور آدھی بوری یوریا یا دوسرے پانی پر استعمال کریں ۔ ویسے تو سویا بین کو عموماً 6سے7آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بہاریہ فصل کو پہلاپانی اُگاؤ کے تین سے چار ہفتے بعد دینا چاہیے ۔ اور خزاں کی فصل کو پہلا پانی اُگنے کے ایک سے دو ہفتے بعد دے دینا چاہیے ۔ سویا بین پر تیلہ سفید مکھی اور لشکری سنڈی حملہ آور ہوتی ہیں ۔ اس کے علاوہ جوؤں کا حملہ بھی دیکھنے میں آیا ہے ۔ خصوصاً  جڑی بوٹیوں سے فصل کو پاک رکھیں اور کیڑے مار ادویات کا درست انتخاب کریں ۔ آخر میں سورج مکھی کی کاشت کی بات کریں تو اصل فصل کو بہتر بڑھوتری کے لیے میرا زمین درکار ہے ویسے تو یہ ہر قسم کی زمین میں ہو جاتی ہے مگر چونکہ ہمارا مقصد زیادہ پیداوار ہے اس لیے میرا زمین کا انتخاب کریں ۔ موسم خزاں میں اس کو یکم جولائی سے 10 اگست تک زیرِ کاشت لایا جا سکتا ہے جبکہ موسم بہار میں اس فصل کا وقت کاشت فروری کا مہینہ ہے ۔ سورج مکھی  کی کاشت کے لیے دو سے تین کلو گرام بیج فی ایکڑ کافی ہے مگر بیج صاف ستھرا ہونا چاہئے ۔ کھادوں کے بارے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ نہری علاقوں میں ایک بوری ، ڈی اے پی، ایک بوری ،ایس او پی ، بوائی کے وقت جبکہ آدھی بوری یوریا پہلے پانی پر اور آدھی بوری دوسرے پانی پر استعمال کریں اس کے علاوہ ایک بوری یوریا ڈوڈیاں بنتے وقت استعمال کریں ۔ اس فصل کو چار سے پانچ آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے سبز تیلہ ، سست تیلہ ، چور کیڑا اور دیگر سنڈیوں سمیت مختلف کیڑوں سے نقصان پہنچتا ہے۔ ان سے بچاؤ کے لیے وقت ِ مدافعت والی اقسام کاشت کریں اور فصل کو جڑی بوٹیوں سے ہمیشہ پاک رکھیں ۔ حکومت پنجاب  محکمہ زراعت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو تیل دار اجناس کی کاشت پر مائل کریں تاکہ ہمارا ملک معاشی طور پر مزید ترقی کر سکے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget