پاکستان میں پیاز کی کامیاب کاشت

پیاز کی خوراکی و ادویاتی اہمیت :

پیاز کی تاثیر گرم درجہ اول اور خشک درجہ دوم میں ہے۔ یہ خون کی شریانوں میں فالتو کولیسٹرول کو تحلیل کرکے دل ے امراض سے محفوظ رکھنے میں معاون ثابت ہوتاہے۔ یہ نظامِ ہضم کی رطوبتوں میں اضافہ کر کے بھوگ بڑھاتاہے۔  یض و پیشاب آور ہونے کے ساتھ ساتھ جراثیم کش خصوصیات بھی رکھتا ہے۔ ہاضم طعام ہونے کے ساتھ ساتھ دافع، بلغم بھی کھتاہے۔ نیز قوت باہ میں تحریک پید اکرتاہے ۔ نزلہ زکام ، ہیضہ کے امراض میں مفید ثابت ہوتاہے۔ خون کی کمی کا علاج ہے۔ کثیر استعمال سے ریاح غیلظ پیدا کرتاہے۔ہوا سو گرام پیاز میں 60 حرارے توانائی 10 گرام نشاستہ ، کیلشیم و فاسفورس تیس تیس ملی گرام، اس میں وٹامن بی اور سی کافی مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ یہ فصل کس حد تک منافع بخش ہے؟ اس کا شمار درمیانی اور کم منافع بخش فصلوں پرہوتاہے۔ اگر جدید دوغلی اقسام کاشت کرکے بھر پور پیداوار حاصل کی جائے تو پیاز ایک منا فع بخش فصل ہے۔ جیسا کہ حالیہ سالوں کے دوران بھارت کو ترجیحی ملک قرار دیاجا چکاہے اور ہماری مارکیٹ میں بھارتی پیاز کی مسلسل یلغان ہوتی رہتی ہے۔ ان حالات میں پیاز کی فصل زیادہ منا فع بخش نہیں رہی۔
payaz ki kasht in pakistan پاکستان میں پیاز کی کاشت

فصلی ترتیب:

وسطی پنجاب میں یہ فصل مندرجہ ذیل فصلی ترتیب کے ساتھ کاشت کی جاسکتی ہے۔

پیاز ( دسمبر جنوری)۔ چاول (جون)۔ گندم ( نومبر)
پیاز ( فروری)۔ کدو کریلا (جون)۔ مٹر ( اکتوبر)
پیاز ( فروری) ۔ بھنڈی (جون) ۔ گوبھی ( اگتوبر)
پیاز + مرچ ( فروری)۔ چاول (جولائی) ۔ گندم ( نومبر)
پیاز + کپاس( فروری)۔ پیاز + مرچ(اگلے سال فروری)
پیاز گڈی( اگست)۔ گندم(نومبر دسمبر) ۔ چاول ( جون)
پیاز اگیتا( اکتوبر) ۔ ٹماٹر (جنوری فروری)۔ مولی جولائی)
کیسی زمین میں کاشت کی جائے؟
پیاز میرا و ہلکی میرا زمین میں بہتر پیداوار دیتاہے۔ کلراٹھی اور ریتلی زمین میں اس کی پیداوار کم ہوتی ہے۔ یہ کم گہری جڑوں والی فصل ہے۔ اس لئے زمین زیادہ گہرائی تک تیار نہ کی جائے۔ لیزر لیولر کی مدد سے ہموار شدہ زمین میں روٹا ویٹر چلانے کے بعد رجر کی مدد سے کھیلیاں بنائی جائیں۔ یکساں سائز کی کھیلیوں میں نہ صرف آبی استعمال کی کفا۔ یت ہوتی ہے۔ بلکہ ساری فصل (Uniform) پیداہوتی ہے

کاشت کے علاقے:

عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو پیاز چین میں سب سے زیادہ اگایا جاتاہے۔ پیاز کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان اگرچہ دنیا میں پانچویں نمبر پرہے۔ لیکن فی ایکڑ پیداوار کے لحاظ سے جنوبی کوریا پہلے اور پاکستان 75 ویں نمبر پر ہے جس سے ظاہر ہے کہ فی ایکڑ پیدا وار کے لحاط سے بہت پیچھے ہے۔ حالیہ سالوں کے دوان پاکستان میں پیاز تین لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے پر کاشت کیا جارہاہے۔ جس سے کم و پیش تین لاکھ ٹن پیداوار حاصل ہوئی۔ کم و پیش پورے پنجاب میں اگایا جاتاہے۔ لیکن ملتان، بہاولپور اور لیہ میں زیادہ کاشت ہوتا ہے۔

آب و ہوا اور اگاؤ:

معتدل اور خشک آب و ہوا میں بہتر پیداوار دیتاہے۔ یہ سردی اور کورابرداشت کرسکتاہے لیکن گرم موسم میں متاثر ہوتا ہے۔ پیا زکوا گاؤ کے لئے کم از کم 3 تا 5 اوسطاً 10 تا 15 اور زیادہ 32 تا 35 درجہ سینٹی گریڈ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کا عمومی اگاؤ 70 تا 90 فیصد ہوتاہے۔ معتدل خشک آب و ہوا میں اسے بیماری نہیں لگتی ۔ اگر مارچ میں فضائی نمی زیاد ہ ہوجائے تو بیماری (روئیں دار پھپوندی) کا شدید حملہ ہوسکتاہے۔

اقسام اور بیج کی دستیابی:

پنجاب میں عام طوپر چھوٹے (10 تا 12 گھنٹوں والے) دنوں میں پیاز بنا نے والی کھلے عام اختلاط کرنے والی (Open polinated) اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔ چھوٹے دنوں والی دوغلی اقسام بھی کاشت کی جاسکتی ہیں۔ پنجاب میں لمبے (14 تا 15 گھنٹوں والے) دنوں میں پیاز بنانے والی اقسام کاشت نہیں کی جاسکتیں ۔ کھلے عام اختلاط کرنے والی مقامی اقسام میں پھلکارہ ، ڈارک ریڈ، سوات۔1 دیسی سُر خ وغیرہ شامل ہیں۔ مقامی طور پر تیار شدہ بیج نا کافی ہوتاہے۔ اس لئے پنجاب میں دیسی اقسام کا بیشتر بیج انڈیا سے اور دوغلی اقسام کا امریکہ اور دیگر مما لک سے درآمد کیا جاتاہے۔

ان میں سے اہم اقسام کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:

پھلکارہ:

یہ قسم پنجاب اور سندھ میں اگائی جاتی ہے۔اس کی پیداوار ی صلاحیت کافی زیادہ (200 تا 250 من) فی ایکڑ تک ہوتی ہے ۔رنگ قدرے گلابی، چھلکا موٹا، سٹوریج کولٹی بہترہے۔ یہ قسم اس لحاظ سے منفرد ہے کہ ہو چھوٹے اور بڑ۔ ے دنوں میں پیاز بنا سکتی ہے۔ اسی وجہ سے پنجاب میں اسکی کا شت کا دورانیہ کافی طویل ہے۔

دیسی سرخ اور دیسی سفید:

دیسی سرخ قسم پنجاب میں بکثرت اگائی جاتی ہے۔اس کی پیداواری صلاحیت درمیانی، رنگ گلابی، چھلکا د درمیانہ۔ سٹوریج کوالٹی بہترین ، Short day ، لیکن دیسی سفیدسفید کی سٹوریج کوالٹی کم ، پنجاب میں اس کی پیداوار دیسی سرخ کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ دیسی سفید کی مانگ بھی کم ہے۔ فیصل آباد اگیتی یہ قسم پنجاب میں اگائی جاتی ہے۔ اس کی پیداوار زیادہ ( 200 تا 250 من، رنگ گلابی ، چھلکا درمیانہ ، سٹوریج کوالٹی بہترین ،Short day پودا ہے۔

سوات:

یہ قسم زیادہ تر سرحد (پختونخواہ) میں اگائی جاتی ہے۔ لیکن پنجاب میں کامیاب ہے ۔ اس کی پیداوار زیادہ، رنگ ہلکا۔ گلابی، چھلکا موٹا، اس کی سٹوریج کوالٹی بھی کافی بہتر ہے۔

دوغلی اقسام:

جدید کاشتکاری میں دوغلی اقسام زیادہ اہمیت حاصل کر چکی ہیں۔ پیاز کی مقامی اقسام میں سٹور کیے جانے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے لیکن ان کی پیداوار ی صلاحیت کم ہوتی ہے۔کم پیداوار کی وجہ سے دیسی اقسام ملکی ضرورت پوری نہیں کر سکتیں ۔ پیاز کے پیشہ ور کا شتکار صرف دوغلی اقسام ہی کاشت کرتے ہیں۔ پیاز کی کاشت کا تجربہ نہ رکھنے والے کاشتکاروں کو چاہئے کہ دوغلی اقسام کا شت کرنے سے پہلے قسم کی پوری پوری چھان بین کرلیں ۔ صرف اپنے علاقے اور ماحول سے مناسبت رکھنے والی اقسام ہی کاشت کریں۔ حالیہ دوغلی اقسام میں ایس پی ریڈ، ریڈ بیوٹی، سیلون، ریڈ کمانڈر، ریڈ پرنس، ریڈڈائمنڈ، روزیٹا، ریڈبون، رائل ریڈ اور تکی وغیرہ شامل ہیں۔ ان اقسام کا بیج کافی مہنگا ہوتاہے۔ حالیہ سالوں کے دوران ایک کلوگرام ہائی برڈ بیج 10 تا 25 ہزار روپے میں فرورخت ہو رہاہے۔ پنجاب کی مارکیٹ میں ہلکے سرخ رنگ والے پیاز کی ڈیمانڈ زیادہ ہوتی ہے ریڈ بیوٹی اور روز یٹا جیسے جامنی سرخ رنگت والے پیاز کی ڈیمانڈ کم ہوتی ہے۔ سفید رنگت والے پیاز کی ڈیمانڈ کراچی کی مارکیٹ میں زیادہ ہوتی ہے۔ایسی دوغلی اقسام جن کے پیاز نصف کلو گرام یا اس سے بھی زیادہ ہوجاتے ہیں وہ بلوچستان کی وادیوں میں کاشت کیے جاتے ہیں۔ یہ لمبے دنوں والی اقسام ہیں۔ یہ اقسام پنجاب کے بیشتر علاقوں میں پیاز نہیں بناتیں۔ اس اقسام کو زیادہ عرصہ کے لئے سٹور نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے درمیانے سائز کے پیاز پیدا کرنے والی اقسام کو ترجیح دی جاتی ہے۔ چند اہم حالیہ دوغلی اقسام کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

ریڈ کمانڈ:

ریڈ کمانڈ کی پیداواری صلاحیت 500 تا 600 من فی ایکڑ تک ریکارڈ کی جا چکی ہے۔ اس کا سائز درمیانہ و بڑا و رنگت پر کشش گلابی ، پھولداری (Peduncle) نکالے بغیر پیاز بناتاہے۔ اسی وجہ سے ان اقسام کو پیداواری صلاحیت دیسی اقسام کے مقابلے میں زیادہ وہوتی ہے۔

روزیٹا:

اس کی پیداواری صلاحیت بھی 500 من فی ایکڑ تک ہے۔ لیکن اس کا سائزدرمیانہ رنگت ہلکی گلابی ، پھولداری نکا۔ لے بغیرپیاز بناتاہے۔

ریڈبیوٹی:

اس قسم کی پیداواری صلاحیت ریڈ کمانڈر اور روزیٹا سے کم نہیں ہے لیکن گہرے سرخ اور جامنی رنگت کی وجہ سے مار۔ کیٹ میں یہ پیاز درمیانی قیمت پر فروخت ہوتاہے۔ پیاز بننے کے دوران ہلکی سی پھولداری بھی نکال لینا ہے۔ مثالی کاشتکاری کے لئے صرف دوغلی اقسام کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

شرح بیج:

اقسام کی نوعیت اور اوقاتِ کاشت کی مناسبت سے اس کی شرح بیج میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ بیج کی روئیدگی عموماً ایک سال تک ہی بہتر رہتی ہے۔ ایک سال بعد اس کی روئیدگی میں کمی واقع ہوجاتی ہے۔ اس لئے صرف تازہ بیج کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ ایک گرام میں پیاز کے تقریباً تین سو بیج آتے ہیں۔ پیاز کے ایک ہزار بیجوں کا وزن عموماً 4 تا 5 گرام ہوسکتا ہے۔ بہتر ٹیکنالوجی کی بدولت اگر سارے بیج اگ کر منتقلی کے لئے تیار ہوجائیں تو اڑھائی لاکھ پیازوں کے لئے صرف ایک تا سوا کلو گرام بیج کی ضرورت ہوتی ہے۔ مختلف حالات میں مندرجہ ذیل شرح بیج استعمال کی جاسکتی ہے۔

موسمی کاشت:

اکتو بر کاشتہ موسمی فصل کے لئے 99 فیصد اگاؤ والا ایک کلو گرام ہائبر دیج دو تا تین مرلے جگہ پرکاشت کیا جاسکتا ہے۔ دیسی اقسام پھلکارہ یا نصرپوری کا (60 تا 70 فیصد اگاؤ) 2کلو گرام تین تا چار مرلے رقبہ پر کیاریاں بنا کر کاشت کیا جائے۔

نرسری کی اگیتی کاشت:

پھلکارہ یا دیسی اقسام کی جولائی کا شتہ فصل کیلئے تین کلوگرام بیج استعمال کیاجائے۔ دیسی اقسام کا بیج تین مرلے رقبہ پر کیاریاں بنا کر کاشت کیا جائے تو ایک ایکڑ کی صحت مند نرسری حاصل ہوتی ہے۔

چھوٹے پیاز کی اگیتی کاشت:

پیاز کی سائز کی مناسبت سے ایک ایکڑ میں سات تا دس من چھوٹے پیاز (Sets) استعما ل ہوتے ہیں۔

بیج والی فصل:

بیج والی فصل کاشت کرنے کے لئے درمانہ سائز (40 تا 50 گرام) کے 18 تا 20 من پیاز کی ضرورت ہوتی ہے

نرسری کی تیاری:

باریک تیاری کردہ پوری طرح خشک اور ہموار شدہ چار مرلے زمین میں چھوٹی چھوٹی (ایک میٹر چوڑی اور دو میٹر لمبی) کیاریوں میں چھٹہ کرکے کاشت کیا جاتا ہے چھٹے کی صورت میں اگر زیادہ گھنی نرسری اگ آئے تو نہ صرف اس پر بیماری کا حملہ زیادہ ہوت اہے بلکہ کمزور نرسری سے چلنے والی فصل میں بہت سے پودے مر جاتے ہیں اور پیاز کی بھر پور پیداوار نہیں ملتی۔ اس لئے پیاز کی نرسری زیادہ گھنی کاشت نہ کی جائے۔ چھٹے سے کاشتہ فصل کا کافی زیادہ بیج کیڑے چراکر لے جاسکتے ہیں۔ اس لئے چھٹہ کی بجائے 3تا4 انچ کے فاصلے پر قطاروں میں نرسری کاشت کی جاسکتی ہے۔ خصوصاً چھوٹے پیمانے پر کاشت یا زیادہ اگیتی کاشت کی صورت میں قطاروں میں نر سری کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

پیاز کو اگاؤ کے لئے زیادہ نمی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لئے اگاؤ مکمل ہونے تک روزانہ فوارے کی مدد سے آبپاشی کریں۔ اگاؤ کے بعد نرسری کو ہلکی آبپاشی کی جائے۔ اگیتی کاشت کی صورت میں نمی برقرار رکھنے کے لئے اس پر پرالی یا سر کنڈ ا وغیرہ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اگر زمین ہلکی میرا ہوتو فورے سے پانی ڈالنے کے بجائے ہلکی آبپاشی بھی کی جاسکتی ہے۔ بیج اٹھانے والے کیڑے کے خاتمہ کیلئے نرسر ی کے گرد اگرد کو نفیڈار کے 2 فیصد آبی محلول کی سپرے کو پیکس پاوڈر کا دھوڑا کیا جاسکتاہے۔ نرسری کا اگاؤ مکمل ہونے کے بعد اس پر بیماری کے خلاف دو تا تین مرتبہ خطرہ کش زہریں مثلاً ایمی سٹار، کیبریو ٹاپ ، ریڈومل گولڈ یا سکسس سپرے کی جائیں۔ اکتوبر میں کاشتہ 35تا 45 دن میں منتقلی کے قابل ہوجاتی ہے۔ لیٹ (نومبر) کاشتہ نرسری دو ماہ میں تیار ہوجاتی ہے۔ زیادہ اگیتی نرسری کو منتقل کرنے سے ایک ہفتہ قبل پانی بند کردیا جائے تاکہ سخت جان ہو جائے۔ اکھاڑنے کے دوران زمین میں وتر موجود ہونا چاہئے تاکہ اکھاڑنے میں سہولت رہے۔ اگر نرسری پھپھوندکش زہر ٹاپسن ایم کے دو فیصد آبی محلول میں ڈبو کر منتقل کی جائے تو ابتدائی بیماری سے محفوظ رہتی ہے۔ بہتر یہی ہے نرسری اکھاڑنے کے بعد اسی دن منتقل کردیا جائے۔ اگرچہ بلوچستان اور جنوبی مغربی پنجاب کے کچھ علاقوں میں براہ راست بیج سے بھی پیاز اگایا جاتا ہے۔ لیکن پنجاب میں زیادہ تر پیاز نرسر ی منتقل کرکے کاشت کیا جاتاہے۔ لیہ اور تھل ایریا کی آبپاش زمینوں میں کھیلیوں کے کناروں پر چوکے کی مدد سے وسیع پیمانے پر پیاز کی کامیاب کاشت کے امکانا ت موجود ہیں ۔ پیاز کی نرسری منتقل کرنے کا طریقہ ہائے کاشت کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

کیاریوں میں کاشت:

میرا اور ہلکی میرا زمینوں میں اور جہاں پانی کے نکاس کا اچھا انتظام ہو وہاں پیاز کیاریوں میں بھی منتقل کیا جاسکتا ہے۔ کیاریوں میں نرسری منتقل کرتے وقت اقسام کی مناسبت سے قطاروں کا باہمی فاصلہ 6 تا 9 انچ اور پودوں تین تا چار انچ ہونا چاہئے۔ گویا ہموار زمین میں 6x4 یا 8x3 انچ کے حساب سے ایک ایکڑ میں کم از کم دو لاکھ پیاز لگائے جا۔ ئیں توبھر پور پید ا وار حاصل ہوسکتی ہے۔

کھیلیوں پر کاشت:

بھاری میرا اور سخت زمینوں میں پیاز کی کاشت کیاریوں پر نہ کی جائے۔ بلکہ کھیلیاں بنا کر ان کے کناروں پر منتقل کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ نرسری کو زیادہ گہرانہیں دبایا جائے تو پیاز کا سائز چھوٹا رہ جاتاہے۔چھے سے آٹھ ہفتے کی نرسری کھیلیوں کے کناروں پر منتقل کی جاتی ہے۔ سوا دو دو فٹ کی کھیلیوں کے دونوں کناروں پر منتقل کرتے وقت پودوں کا فاصلہ دو تین انچ رکھاجائے ۔

چھوٹے پیازوں (Sets) کی کاشت:

نئی ٹیکنالوجی کی بدولت پیاز سے نفع کمانے کے لئے دوسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں پھلکارہ یا نصر پوری کا 3 کلو بیج چھ تا آٹھ مرلے پر نرسری کاشت کریں۔ اتنی سردی میں پیاز کا اگاؤ متاثر ہوتاہے۔ چنانچہ بہتر اگاؤ کے لئے اس پر پلاسٹک شیٹ استعمال کریں۔ پانچ ملی میٹر موٹائی کے قدرے گول کئے گئے سریے کیاریو ں پر گاڑنے کے بعد اس پر سفید ( شفاف) پلاسٹک شیٹ ڈالی جائے۔ اگاؤ مکمل ہونے پر شیٹ اتار دی جائے۔ اگر نرسری مارچ میں کا۔ شت کی جائے تو شیٹ ڈالنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مئی کے آخر تک اس جگہ کھڑی نرسری سے چھوٹے چھوٹے پیاز تیار ہوجاتے ہیں۔ مئی میں اس سے بننے والے چھوٹے چھوٹے (مٹر کے دانے جتنے موٹے یا صرف اتنے موٹے کہ ایک کلو میں 600 عدد آجائیں) پیاز کھاڑ لئے جائیں۔ ایک ایکڑ میں سات آٹھ من چھوٹے پیاز (Sets) استعمال ہوتے ہیں۔ ہوادار بوریوں یا ٹوکریوں میں ڈال کر ان کو تین ماہ تک ٹھنڈی جگہ پر سٹور کر لیں۔ مون سون کے دوران یعنی جولائی کے آخر یا اگست کے شروع ان کو 75 سینٹی میٹر کی کھالیوں کے دونوں طرف دو تین انچ کے فاصلہ پر کاشت کردیں اور ایک ایکڑ میں ڈیڑھ تا دو لاکھ پیاز کاشت کیے جاسکتے ہیں۔ واضح رہے کے کھالیوں میں منتقلی کی بجائے کھالیوں کو پانی لگانے کے فوراً بعد پیاز کی گنڈیاں منتقل کی جائیں۔ لہذا منتقلی کے ایک دن بعد اس پر ڈو آل گولڈ کا اعتشاریہ آٹھ فیصد آبی محلول سپرے کیا جائے۔ یہ فصل پیاز کی قلت کے دوران یعنی نومبر میں بطور سبز پیاز او ر دسمبر میں بطور خشک تیار ہوجاتی ہے۔ اس فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھنا اور پوٹاش ڈالنا بے حد ضروری امور میں سے ہے۔

بہت اگیتی کاشت کرنے کا طریقہ:

دوسراطریقہ یہ ہے کہ پھلکارہ جو لائی کے آخر میں چھ انچ اونچی ، تین مربع فٹ کی پٹٹریوں پر تین تین انچ کے فاصلے پر لکیریں لگا کر کاشت کیاجائے۔ کاشت کے فوراً بعد اسے پرالی یا سر کنڈا وغیرہ سے ڈھانپ دیا جائے۔ فوارے سے روزانہ ہلکی آبپاشی کرتے ہوئے اس کا اگاؤ مکمل کیا جائے۔ جب اگنا شروع ہوجائے تو دن کے وقت شدید دھوپ سے بچانے کے لئے کیاریوں پر پرالی یا سر کنڈا کی سر کی ڈال دی جائے اور روزانہ شام کو اتار دیاجائے۔ نرسری کے بہتر اگاؤ کے لئے کم و بیش دس دن تک یہ عمل بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ دس دن بعد سایہ ہٹا دیاجائے۔ اگر مسلسل زیادہ دنوں تک پرالی یا سرکنڈا اگے ہوئے پیاز پر پڑارہے تو اسے مرجھاؤ کی بیماری (Damping off) لگ جاتی ہے۔ اگاؤ کے بعد پہلے ایک ماہ کے دوران اس پر بیماری کے خلاف کم از کم دو مرتبہ ریڈومل گولڈ یا متبادل زہر کا سپر ے ضروری ہے۔ یہ نرسری ستمبر کے دوران کیاریوں میں یا کھالیوں کے کنارے منتقل کردی جائے۔ یہ پیاز قلت کے دنوں میں دسمبر میں مارکیٹ میں آتاہے اور او نچے ریٹ پر بکتا ہے۔

مخلوط کاشت کا طریقہ:

ستمبر اکتوبر یا فروری میں وسیع پیمانے پر مخلوط کاشت کی صورت میں کماد پٹس پیاز بہت نفع بخش ثابت ہوسکتی ہے۔ اڑ۔ ھائی فٹ کے فاصلہ پر کھینیاں بناکر سمبر کے آخر میں کھالیوں میں کماد اور کھالیوں کے کناروں پر پیاز کاشت کردیا جائے۔ فروری مارچ کاشتہ کماد میں پیاز کاشت کرنے کا طریقہ یہ ہے۔ کہ دسمبر میں اڑھائی تا تین فٹ کے فاصلے پر کھلیاں بناکر پیاز کاشت کردیا جائے ۔ اسے فروری تک جڑی بوٹیوں سے اچھی طرح صاف رکھا جائے۔ فروری کے دوران اس کی کھالیوں میں کماد کاشت کردیا جائے ۔ جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کے لئے 800 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے ڈوآل گولڈ سپر ے کی جاسکتی ہے۔ کماد کے علاوہ مرچ ، تمباکو ، ٹماٹر، بھنڈی توری، کپاس اور دیگر کئی فصلو۔ ں کے ساتھ اس کی مخلوط کاشت کی جاسکتی ہے۔

آبپاشی:

نرسری منتقل کرنے کے بعد دسمبر سے اپریل تک پیاز کو زمین اور آب و ہو کی مناسبت سے چھ سے آٹھ مرتبہ پانی لگانے کی ضرورت ہوسکتی ہے۔ منتقلی کے بعد پہلی دو آبپاشیاں ایک ہفتے کے وقفے سے کی جائیں۔ فصل اگر کھالیوں پر کاشت کی گئی ہوتو پانی کسی بھی سٹیج پر ان کے اوپر نہیں چڑھنا چاہئے۔ فصل کو کسی بھی مرحلے پر بھر پور آبپاشی سے نقصان ہوسکتاہے۔ دسمبر جنوری کے دوران منتقل شدہ پیاز کو اگر فروری کے دوران سوکا (Water Stress) لگ جائے تو کنارے نکال سکتاہے۔ اس لئے کسی بھی مرحلے پر پانی کا سوکا نہیں لگنا چاہئے۔ منتقلی سے چند یو م پہلے پانی روک کر نرسری کو سخت جان بنا لیا جائے۔ تو منتقلی کے بعد اچھی نشوونما کرتی ہے۔

وقتِ کاشت اور منتقلی:

وسطی پنجاب میں بیشتر فصل اکتوبر میں کاشت کی جاتی ہے۔ وسط اکتوبر سے وسط نومبر کے دوران کاشتہ نرسری کو دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں منتقل کیاجاتاہے۔ اکتوبر میں بوئی گئی نرسری منتقل کرنے کا بہترین وقت وسط دسمبر تا آخر دسمبر ہی ہے۔ لیکن ہمارے کاشتکاری اپنے اپنے کاشتی حالات کی مناسبت سے جنوری سے مارچ تک اس کی منتقلی کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ جو کہ دوست نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ پیاز کو ماہ دسمبر کے دوران ہی منتقل کیاجائے۔ اگر اکاد کا پودوں پر گنارے توڑدیے جائیں تو پیداوار میں زیادہ کمی واقع نہیں ہوتی ۔ تاہم دسمبر میں منتقل کردہ پیاز کی پیدا وار فروری میں منتقل کردہ پیاز کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔

وقتِ کاشت کے نئے افق:

حالیہ سالوں کے دوران پنجاب میں پیاز کو مختلف طریقوں سے کاشت کیاجانے لگاہے۔ اس لئے اس کے اوقاتِ کاشت بھی مختلف ہوچکے ہیں۔

زیادہ اگیتی کاشت:

جدید ٹیکنالوجی کے مطابق پنجاب میں پھلکا رہ پیاز کی کاشت جولائی اگست میں کی جاسکتی ہے۔ اسے ستمبر کے شروع میں منتقل کیاجاتاہے۔ اس موسم کی نرسری بیماری (Damping off) سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ نرسری منتقل کرنے کے بعد اس فصل پر جڑی بوٹیوں کا حملہ بھی زیادہ شدت کے ساتھ ہوتاہے۔

چھوٹے پیازوں کی کاشت:

چھوٹے پیاز (Sets) حاصل کرنے کے لئے پلاسٹک شیٹ ڈال کر دسمبر جنوری میں بھی نرسری کاشت کی جاسکتی ہے۔ مئی جون میں چھوٹے پیاز اکھاڑ لئے جاتے ہیں۔ دو ماہ تک ان کو ٹھنڈی اور ہو ادار جگہ پر سٹور کیاجاتاہے۔ یہ فصل وسط اگست کے دوران منتقل کی جاتی ہے۔ اور دسمبر جنوری میں تیار ہوجاتی ہے۔

پیاز کے گٹارے (Peduncle) نکلنا:

اگر نرسری دسمبر کے دوران اگائی جائے اور اس کی منتقلی فروری کے دوران کی جائے تو گٹارے نہیں نکلتے ۔ لیکن اتنی لیٹ نرسری منتقلی کرنے کی وجہ سے پیاز کی پیداوار کم ہوجاتی ہے۔ گٹارے نکلنے کا انحصار اقسام کی بجائے آب و ہو ا پر ہوتا ہے۔ اگر اگیتی منتقلی کی جائے تو گٹارے زیادہ نکلتے ہیں۔ اکتوبر کاشتہ نرسری کو دسمبر جنوری میں ( آٹھ ہفتے کی نرسری کو) منتقل کیا جائے تو پیاز نسارو نہیں ہوتا۔ منتقلی کے بعد بڑھوتری کے دوران کم و بیش ایک ماہ تک درجہ حرار۔ ت مسلسل 4 سینٹی گریڈ یا اس سے کم رہے تو آٹھ دس فیصد پودوں پر بھولداری یا گٹارے نکل سکتے ہیں۔ اگردسمبر جنوری میں بھی درجہ حرارت 6 سینٹی گریڈ سے زیادہ ہی بر قرار رہے تو گٹارے نہیں نکلیں گے۔ عام طور پر وسط جنوری کے بعد درجہ حرارت بڑھنا شروع ہوجاتاہے۔ چنانچہ وسط جنوری کے بعد کی جائے تو بھی گٹارے کم نکلتے ہیں۔

کھادیں اور خوراکی اجزا:

زمین کی قدرتی زرخیزی ، وقتِ کاشت ، اقسام کی نوعیت ، طریقہ کاشت ، ذریقہ آبپاشی کی نوعیت، گوڈیوں کی تعداد، نامیاتی مادے کی مقدار ااور زمینی ساخت جیسے امور کے تغیرات کی مناسبت سے کھادوں کی مقدار میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ نارمل موسم میں ایک ایکڑ سے دو سومن پیاز پیدا کرنے کے لئے فاسفورس کے مقابلے میں نائٹروجن اور اور پوٹاش کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن بیج والی فصل کو نائٹروجن کو مقابلے میں فاسفورس اور پوٹاش والی کھادیں زیادہ ڈالی جائیں۔

کتنی کھاد ڈالی جائے؟

بیشتر حالات میں کم از کم 25-23-32 کلوگرام فی ایکڑ نائٹروجن ، فاسفورس اور پوٹاش ڈالنے کی سفارس کی جاتی ہے ۔ کھاد کی یہ مقدار ڈی اے پی ، ایک یوریا اور ایک ایس او پی سے پوری کی جاسکتی ہے۔ دوغلی اقسام کی خوارکی ضررویات بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ درمیانی اور کمزور زمینوں میں دوغلی اقسام کو 50-50-54 کلوگرام فی ایکڑ نائٹرو۔ جن، فاسفورس اور پوٹاش ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ کھاد کی یہ مقدار دو بوری ڈی اے پی ،دوبوریا اور 5 بوریا ایس اوپی یا ان کے متبادل کھادوں سے پوری کی جاسکتی ہے۔

کھاد کب ڈالی جائے؟

ایک تہائی نائٹرجن، تمام فاسفورس اور نصف پوٹاش بوقتِ کاشت ڈالی جائے ۔ بقیہ نائٹروجن میں سے ایک تہائی منتقلی کے 25 تا 40 دن کے اند ر اندر آبپاشی کے ساتھ ڈالیں۔ بقیہ نائٹروجن اور پوٹاش منتقلی کے 45تا60 دن کے اندر اندر آبپاشی کے ساتھ ڈالیں۔ منتقلی کے بعد ہر قسم کی کھاد ہمیشہ اوص خشک ہونے پر ڈالی جائے۔ اسکو کیلشئم کی بہت زیادہ مقدار کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ یوریا استعمال کرنے کے بجائے کیلشیم امونیم نائٹریٹ کھاد اس کیلئے زیادہ مفیدثابت ہوئی ہے۔ پیاز کاشت کرنے والے کاشتکاروں کی رائے یہ ہے کہ اسے بیشتر کھاد منتقل کر تے وقت ہی ڈالی جائے اور منتقلی کے بعد کم سے کم کھاد ڈالی جائے تو بیماری سے پاک رہتی ہے۔

اضافی مرکبات:

جب پیاز کی فصل پچاس ساٹھ دن کی ہوجائے تو کیلشیم امونیم نائٹریٹ کھاد اور ہیو مک ایسڈ ملا کر فرٹیگیشن کے طریقے سے دیے جائیں۔ کلر اٹھی زمین میں نومبر دسمبر میں منتقل شدہ فصل سے بہتر پیدا وار لینے کرنے کے لئے فروری یا مار۔ چ کے دوران 5 کلوگرام ہیومک ایسڈ یا 15 کلو گرام فی ایکڑ US-20 ایک بوری کیلشیم امونیم نائٹریٹ کے ساتھ ملا کر آبپاشی کے ساتھ دیاجائے۔ اگر پھپھوند کش زہروں کے ساتھ ملا کر امائنو ایسڈ بھی استعمال کئے جائیں تو اس کی مثالی فصل پید ا کی جاسکتی ہے۔ جس علاقے میں بار بار پیاز کے بعد پیاز ہی کاشت کیا جاتاہو وہاں نرسری منتقل کرنے کے ڈیڑھ تا دوماہ بعد چھوٹے خوراکی اجزا کا مرکب (مائکرو پاور یا اس کے متبادل) سپرے کرنے سے نہ صرف چھو۔ ٹے خوراکی اجزا کی کمی دور ہوجاتی ہے۔ بلکہ پیاز زیادہ عرصہ تک سبز حالت میں رہتاہے۔ اور اس کا سائز بڑا ہوجاتا ہے۔

پیاز کی بیماریاں اور ان کا انسداد :

نرسری کو پثر مردگی (Damping off) ،منتقل شدہ پیاز کو روئیں دار پھپھوندی اور بیج والی فصل کو گردن کی سڑاندیا پرپل بلاچ (Purpliblotch) اور جھلساؤ کی بیماریاں زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ پیاز کو مختلف مراحل پر بیماریوں سے بچانے کے لئے مندر جہ ذیل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔

رسری:

گرم موسم میں کاشتہ نرسری کو نوخیز پودوں کی پثر مردگی (Damping off) کی بیماری نقصان پہنچاتی ہے۔ اس بیماری میں پیاز کے پودے اگنے کے بعد جلدی (دو ہفتے کے اندر اندر) ہی مر جاتے ہیں۔اس سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ زیادہ اگیتی نرسری کاشت کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ نرسری پر سبز شیٹ کی مدد سے سائے کا انتظام کیا جائے ۔ پھپھوند کش زہر ( ٹاپسن ایم ڈائناسٹی) بیج کو لگا کر کاشت کیا جائے تواس بیماری کی وجہ سے کم سے کم نقصان ہوتاہے۔ نرسری مکمل ہونے کے بعد روئیں دار پھپوندی کا حملہ بھی ہوسکتاہے اس سے بچاؤ کے لئے ایگرو۔ بیٹ یا ریڈومل گولڈ ، ڈائی تین بار بدل بدل کر سپرے کریں۔

نرسری سے منتقل شدہ فصل نرسری سے منتقل شدہ فصل پر روئیں دار پھپوندی کا حملہ زیادہ ہوتاہے۔ اس بیماری میں پیاز کے پرانے پتوں کی نوکیں پیلی ہونے کے بعد خشک ہونے لگتی ہیں۔ اس بیماری سے بچانے کا طریقہ یہ ہے کہ منتقل کرنے کے ایک ماہ بعد انٹرا کال یا ریڈومل گولڈ دو مرتبہ سپرے کی جائے۔ بیماری کی کم شدد کی صورت میں کرزیٹ 300 گرم اور ٹاپسن ایم 100 گرام یا ان کے متبادل زہریں سو لٹر پانی میں ملا کر دو تاتین مرتبہ سپرے کی جاسکتی ہیں۔ جب یہ بیماری زیادہ شدد اختیارکرتی ہے تو سڑاند یا پرپل بلاچ کا حملہ بھی ہوجاتاہے۔ اس بیماری میں پیاز کے پتوں پر بڑے بڑے داغ پڑ جاتے ہیں اور پیاز کے پتے ٹوٹ کر گرجاتے ہیں۔ پیاز کو ڈائپنی اور سڑاند سے منتقل کرنے کے 50تا90 دنوں کے دوران ایزوکسی سڑوبن پلس ڈائی فینا کو نازول ( ایی سٹارٹاپ) یا ان کے متبادل زہر سپرے کی جاسکتی ہے۔

بیج والی فصل:

بیج والی فصل کو گردن والی سڑاندیا پرپل بلاچ زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔

تھرپس:

تھرپس کا بالغ کیڑا بہت چھوٹا سا ، سیاہ یا بھورے رنگ کا سلنڈر نمایا زیرے کی طرح کا ہوتاہے۔ ستمبر سے لے کر نومبر تک منتقل کیے گئے اگیتے پیاز کو یہ کیڑا نقصان نہیں پہنچاتا۔ لیکن جنوری فروری میں منتقل کی جانے والی فصل کو فروری مارچ سے لے کر فصل کے پکنے (اپریل مئی) تک نقصان پہنچاتا ہے۔ وسط مارچ سے لے کر وسط اپریل کے درمیان اس کا شدید حملہ ہوتاہے۔ اتنا چھوٹا سا ہوتاہے کہ کھلی دھوپ یا زیادہ ورشنی میں بغور مشاہد ہ کرنے سے ہی نظر آتاہے۔ بچے پیلے رنگ کے ہوتے ہیں،۔ بچے اور بالغ سب نئی کونپلوں میں چھپ کرپیاز کا رس چوستے ہیں۔ ان کے شدید حملہ کی صورت میں نئے پتوں کے کچھے سے بن جاتے ہیں۔ پتوں کی شکل خراب ہوجاتی ہے۔اور نیچے کی طرف جھک جاتے ہیں۔ حملے کی وجہ سے پیاز میں گٹھیاں اور بیج نہیں بنتا ۔ تھرپس کی حملہ شدہ فصل پر بیماری کا حملہ بھی زیادہ ہوسکتاہے ۔

تھرپس کا انسداد:

اس کے ابتد ائی حملے کی صورت میں امیڈا یا کونفیڈار اور فپرونل الگ الگ یا دونوں زہریں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہیں شدید حملہ کی صورت میں بہتر نتائج کے لئے ایک ہفتے میں دو مرتبہ سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ شدید حملہ کی صورت میں کلورفن پائر (ایسیفیٹ) 250 گرام یا ٹریسر 40 ملی لٹر یا لیسینٹا 25 گرام یا ان کے متبادل زہریں 100 لٹر پانی میں ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

موثر زہر پاشی کی سفارش:

دسمبر جنوری میں کاشتہ پیاز کو فروری اور مارچ کے دوران جبکہ فروری مارچ کے دوران کاشتہ پیاز کو اپریل کے دوران تین سے چار مرتبہ زہر پاشی کی ضرورت درپیش ہو سکتی ہے۔ کیڑے مار زہر کے ساتھ پھپھوندکش زہریں بھی ملا ئی جا۔ سکتی ہیں۔ کونپلوں کے اندر تک زہر پہنچا نا کافی دشوار ااور محنت طلب عمل ہو سکتاہے۔ ہالوکون ٹوزل لگاکر تسلی بخش طر۔یقے سے پیاز کی کونپلوں میں سپرے کیے بغیر تھرپس کا پورا انسداد ممکن نہیں ہوتا۔

جڑی بوٹیاں او ر ان کا انسداد:

وقتِ کاشت اور علاقے کی مناسبت سے گرمی اور سردی والی جڑی بوٹیاں نقصان پہنچاسکتی ہیں۔ دسمبر جنوری میں منتقل کیے گئے پیاز کو جنگلی ہالوں، جنگلی پالک، جنگلی چولائی، قلفہ، ہاتھو، دمبی سٹی اور کرنڈ وغیرہ زیادہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ ستمبر اکتوبر میں منتقل شدہ پیاز کو اٹ سٹ، ڈیلا لمب گھاس، سوانکی، مدھانہ، بھوئیں اور کرنڈ وغیرہ نقصان پہنچاتی ہیں۔ ان کی تلفی کے لئے اگاؤ سے پہلے یا اور اگاؤ کے بعد مناسب جڑی بوٹی مار زہر سپرے کرنے کے ایک ماہ بعد کمازکم ایک مرتبہ گوڈی کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ جڑی بوٹیوں کے گوناں گوں مسائل کی مناسبت سے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔

اگاؤ سے قبل سپرے:

اگاؤ سے قبل پینڈی میتھالین یا ایس میٹو لا کوریا ڈوآل گولڈ استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس دونوں میں سے کونسی زہر سپرے کی جائے؟ وقتِ کاشت اور جڑی بوٹیوں کی نوعیت کی مناسبت سے اس امرکی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

اگیتی فصل کو جڑی بوٹیوں سے کیسے بچایا جائے؟

جولائی سے لے کر اکتوبر کے درمیان منتقل کیے جانے والے اگیتے پیاز کو ڈیلا، سوانکی، تاندلہ اور اٹ سٹ جیسی جڑی بوٹیاں زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ ان سب کی تلفی کے لئے ڈوآل گولڈ 700 ملی لٹر فی ایکڑکے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر نرسری منتقل کرنے کے ایک دن بعد (مناسب انتدائی تربیت لینے کے بعد) پیاز سمیت تمام کھیت میں سپرے کردی جائے۔ اگر ڈیلے اور تاندلے کا مسئلہ نہ ہو اور صرف اٹ سٹ اور سوانکی کا مسئلہ ہو تو اگیتی فصل میں بھی ڈوآل گولڈ کی بجائے پینڈی میتھالین (1000 ملی لٹر) استعمال کی جاسکتی ہے۔اگیتی فصل پر ڈوآل گولڈ کا منفی اثر زیادہ ہوتاہے۔ زہروں کی اثر سے بچ جانے والی اکاد کا جڑی بوٹیوں کی تلفی اور جڑوں کی ہواداری کیلئے سپرے کرنے کے ایک ماہ بعد گوڈی بھی کردی جائے۔ اگر زہر کا اثر ختم ہونے کے بعد کچھ جڑی بوٹیاں دوبارہ نکل آئیں تو حسب ضرو۔ رت دوسری گوڈی کا بھی بندبست کیا جائے۔

موسمی فصل کو جڑی بوٹیوں سے کیسے بچایا جائے؟

سردیوں کی فصل پر ڈوآل گولڈ کا منفی اثر کم ہوتاہے۔ اس لئے دسمبر یاجنوری میں منتقل کی جانے والی فصل کے لئے ڈو آل گولڈ یا پینڈی میتھالین میں سے کوئی ایک استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس موسم میں گرمیوں کے مقابلے میں دونوں زہروں کی زیادہ مقدار ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ چنانچہ ڈوآل گولڈ 800 ملی لٹر یا پینڈی میتھالین 1200 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر نرسری منتقل کرنے کے ایک دن بعد سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے ۔جڑوں کی ہواداری اور بچ جانے والی جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے ضروری ہے کہ سپرے کرنے کے ڈیڑھ ماہ بعد ایک مرتبہ گوڈی بھی کر دی جائے ۔

Sets والی فصل کو جڑی بوٹیوں سے کیسے بچایا جائے؟

اگست میں چھوٹے پیازوں (Sets) والی فصل منتقل کرنے سے پہلے آبپاشی کردی جائے اوت چھوٹے پیاش لگا۔ دیے جائیں۔ آبپاشی کے ایک دن بعد گیلے وتر میں زمینی ساخت کی مناسبت سے ڈوآل گولڈ 700 تا 800 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر سپرے کر دی جائے۔ اگر کھیلیوں کی چونیوں پر چوڑے پتوں والی جری بوٹیا۔ ں بچ گئی ہو تو اس سرے کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر 300 ملی لٹر آکسی فلورفن ( آکسیجن یا ٹT کسی فن) سولٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہے۔ سپرے کرنے کے ایک تا ڈیڑھ ماہ بعد ایک مرتبہ گوڈی بھی کردی جائے تو یہ فصل ہر قسم کی جڑی بوٹیوں سے بچ جاتی ہے۔

اگاؤکے بعد سپرے:

اگاؤ کے بعدآکسیجن فلورفن (کسی فن)، فینوکساپراپ یا پیوکساڈین (ایگزیل) وغیرہ استعمال کی جاسکتی ہیں۔ ان زہروں کے استعمال کرنے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ اگر منتقلی کے وقت کوئی بھی زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو اور پیاز میں چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیاں اگ چکی ہوں تو آکسی فلورفن (آکسی فن) گرمیوں میں 300 ملی لٹر اور سردیوں میں 400 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے منتقل کرنے کے بعد تین تا چار ہفتے کے اند ر اندر سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگر صرف گھاس خاندان کی جڑی بوٹیوں کا مسئلہ ہوتو پیوکساڈین (ایگزیل) 300 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگر پیاز میں ہر قسم کی جڑی بوٹیاں اگ چکی ہوں تو مزکورہ دونوں اقسام کی زہریں ملاکر سپرے کرنے کے بجائے ہفتے بھر کا وقفہ کرکے الگ الگ سپرے کی جاسکتی ہیں۔

ڈیلا کیسے ختم کیا جائے؟

گرمیوں میں کاشتہ پیاز کوڈیلا شدید نقصان پہنچاتاہے۔ اگنے کے بعد زہروں کی مدد سے پیاز میں سے ڈیلے کو پوری طرح کنٹرول کرنا کافی مشکل ہے۔ڈیلا کنڑول کرنے کے لئے ہیلو سلفیوران یا گلائی فوسیٹ مندرجہ ذیل حالات میں استعما ل کی جاسکتی ہیں۔

ہیلو سلفیوران:

اگر پیاز کاشت کرنے سے پہلے سابقہ فصل مکئی کاشت کی گئی ہو اور اس مکئی میں ہیلو سلفیوران 15 تا 20 گرام فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی گئی ہو تو بیشتر ڈیلا گٹھیوں سمیت تلف ہوجاتاہے۔ مئی بعد اگست سے دسمبر تک کسی وقت پیاز کاشت کیا جائے تو ڈیلے سے بچا رہتاہے۔

گلائی فوسیٹ:

کھیت کو ڈیلے سے پاک کرنے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کاشت سے 40 دن پہلے خالی کھیت میں ڈیلا اگاکر اس پر راونڈاپ یا گلائی گوسیٹ ڈیڑھ تا دولٹر فی ایکڑ کے حساب سے سپرے کی جائے ۔ سپرے کاعمل تین ہفتے تک ڈیلا اگانے کے بعد وتر حالت میں کیا جائے ۔ سپرے شدہ کھیت دو سے تین ہفتے تک وتر قائم رکھا جائے ۔ ڈیلے کی زیرِ زمین گٹھیون تک بہتر سرایت پزیری کے لئے وتر قائم رکھنا ضروری ہے۔ سپرے کرنے کے ایک تا ڈیڑھ مہینہ بعد زمین تیار کرکے ڈیلے سے مبرا (Deela Free) کھیت میں پیاز کاشت کیے جاسکتے ہیں۔

پیاز پر زہریں کس حد تک محفوظ ہیں؟

گرمی کاشتہ پیاز پر زہریں کم محفوظ ہیں لیکن سردیوں کی فصل ان کے منفی اثرات سے کافی حد تک محفوظ رہتی ہے۔

پینڈی میتھالین:

مجموعی طور پر پینڈی میتھالین زہر ڈوآ ل گولڈ کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے۔ اٹ سٹ اور سوانکی ، مدھانہ جیسی موسمی جڑی بوٹیاں اگنے کا امکان ہوتو پینڈی میتھالین کو ترجیح دی جائے۔ یہ زہر گرمیوں اور سردیوں میں کاشتہ پیاز پر یکسا۔ ں محفوظ ہے۔ تاہم چھوٹی عمر کی یا دو دو پتوں والی نرسری سے کاشتہ فصل متاثر ہوتی ہے۔ یہ زہر پیاز کی نرسری کی بجائی کے وقت استعمال نہیں کی جاسکتی ۔

آکسی فلورفن:

پیاز میں اٹ سٹ اور سوانکی، مدھانہ جیسی موسمی جڑی بوٹیاں اگنے کا امکان ہو تو اکسی فلورفن (آکسی فن،T آکسیجن یا ہدف) گرمیوں میں 300 اور سردیوں میں 400 ملی لٹر پینڈی میتھالین کے متبادل کے طور پر استعمال کی جاسکتی ہے نرسری منتقل کرنے کے ایک دن بعد سپرے کی جائے تو محفوظ ثابت ہوتی ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ زہر نہ صر ف پینڈی میتھالین کے مقابلے میں زیادہ محفوظ ہے بلکہ جڑی بوٹیوں کے گاؤ کے بعد بھی سپرے کی جاسکتی ہے۔ بیز بیج والی فصل اور چھوٹے پیازوں (Sets) والی فصل پر یہ زہر کافی حد تک محفوظ ثابت ہو تی ہے۔ لیکن گرم موسم میں منتقل شدہ پیاز پر نئی کونپلیں نکلنے کے بعد سپرے کی جائے۔ تو پتوں کو معمولی نقصا۔ ن پہنچاتی ہے۔ پیاز کی نرسری میں اس زہر کا محتاط استعمال ابتدائی تربیت کے بعد ہی کیا جاسکتاہے۔

ایس میٹولا کلور:

اگر پیاز میں ڈیلا یا تاندلہ اگنے کا قوی امکان ہو تو اضطرارا ڈوآل گولڈ یا ایس میٹو لا کلور سپرے کی جاسکتی ہے۔ یہ زہر پیاز کی ابتدائی نشوونما کوروکتی ہے۔ دسمبر جنوری میں منتقل شدہ فصل کے مقابلے میں گرمیوں والی فصل اس زہر سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔اسی طر ح چھوٹی عمرکی یا دودو پتوں والی نرسری کے مقابلے میں چار چار پتوں پر مشتمل زیادہ عمر کی نرسری کم متاثر ہوتی ہے۔

برداشت اور سنبھال :

وسطی پنجاب کی جنوری میں منتقل کی گئی فصل مئی میں برداشت کی جاتی ہے۔ جبکہ جولائی کاشتہ خزاں کی فصل نومبر دسمبر میں تیارہوجاتی ہے۔ جب پیاز کے تنے خشک ہو کر گرجائیں تو اسے اکھاڑ لیا جائے ۔ اگر تنے گرنے سے پہلے ہی اکھاڑ لیا جائے تو کٹائی کے بعد نئی پھوٹ نکل آتی ہے جو پیاز کا معیار خراب کرتی ہے۔ فصل کو اچھی طرح پکا کر اکھاڑ ا جائے تو پھوٹتانہیں اور پیاز کو زیادہ عرصہ کے لئے سٹور کیاجاسکتاہے۔ پیاز اکھاڑنے کے بعد ایک دو دن کے لئے سایہ دار جگہ میں خشک کیا جائے پھر اس کے پتوں کی کٹائی کی جائے ۔ اکھاڑ نے کے بعد اسی روز کٹائی نہ کی جائے۔سخت اور بھاری میرا زمین میں پیاز اکھاڑنے کا عمل درمیانے یا کم وتر میں کھرپے کی مدد سے کیا جائے۔ اسی طرح گیلے وتر میں اکھاڑ ا گیا پیاز جلدی خراب ہوسکتاہے۔ کٹائی کے بعد چار انچ یا اس سے چھوٹی تہہ کی صورت میں سایہ دار جگہ پر سٹور کیا جائے ۔

پیداوار:

مجموعی طور پر پاکستان کی اوسط پید اوار بہت کم ہے ۔ دیسی پیاز کی عمومی پیداوار ڈیڑھ تا دو من او ر بیج کی 3تا4 من فی ایکڑ تک ہوجاتی ہے۔ لیکن بہتر کاشت اور ساز گارموسمی حالات کی بدولت 300 من پیاز یا 5تا7 من بیج فی ایکڑ حاصل کیا جاتا سکتا ہے۔ پیشہ ورانہ طریقے سے کاشت کیا جائے تو دوغلی اقسام کا پیاز 500 تا 600 من فی ایکڑ پیداوار دے سکتاہے۔ حالیہ سالوں کے دوران دیسی اقسام کی کاشت بہت محدود ہوتی جارہی ہے ۔وسیع پیمانے پر کاشت کرنے کے لئے بیشتر کاشتکار صرف دوغلی اقسام ہی کاشت کرتے ہیں۔

مارکیٹنگ ، ترسیل اور قیمت کا اتار چڑھاؤ:

پاکستان کی پیداوار میں پنجاب کی فصل کا حصہ تقریباً25 فیصد ہے ۔ مارکیٹ میں وسیع پنجاب کے پیاز کی آمد اپریل مئی سے جون تک جاری رہتی ہے اور اکثر اس فصل کا ریٹ کم ہوتاہے اور کافی اچھے ریٹ پر بکتاہے ۔ بلو چستان کی فصل کی حصہ 25 فیصد سے زیادہ ہے۔ بلو چستان میں فروری مارچ میں براہ راست پیاز ہوتے ہیں جو ستمبر سے لیکر نومبر تک مارکیٹ کو کنڑول کرتاہے۔سند ھ کی پیداوار کا حصہ تقریباً 40 فیصدہے۔ سندھ میں اگست میں منتقل کرتے ہیں جودسمبر میں تیار ہوجاتاہے۔ یہ فصل دسمبر سے لیکر مارچ تک مارکیٹ کو کنڑول کرتی ہے۔ وسط نومبر اور دسمبر کے درمیان پیاز کی قلت ہوجایا کر تی تھی لیکن بھارت سے درآمد کی وجہ سے حالیہ سالوں کے دوران اس عرصہ میں بھی پیاز کی قلت نہیں رہی۔ گویا پنجاب کے کاشتکار بہت اگیتی کاشت یا چھوٹے پیازوں والی کاشت سے بھی منافع نہیں کماسکیں گے۔

پیداواری مسائل:

اس کے اہم پیداواری مسائل میں جڑی بوٹیاں، بیماری (پرپل بلاچ) موسم وآب و ہو اکی ناسازگاری، غیر مستحکم مارکیٹ یا قیمتوں کا اتار چڑھاؤ ، کھادوں کا غیر متناسب اور سٹوریج کی سہولتوں کا فقدان وغیرہ شامل ہیں۔

پیاز کا بیج بنانا:

وسطی پنجاب میں پیاز کا بیج بنانے میں بیماری ( پرپل بلاچ ) کافی بڑی روکاوٹ ہے۔ کسی سال موسم ساز گار رہے۔ تو پیاز کا بیج کافی مقدار (5 تا 7 من فی ایکڑ) میں پیدا ہوجاتاہے۔ بیج پیدا کرنے کیلئے شروع دسمبر میں پیاز لگانے کی سفارش کی جاتی ہے۔ بجائی سے قبل تیز چاقویا چھری سے چوٹی سے پیاز کا ٹ کر بویا جائے تو اگاؤ بہتر ہوجاتاہے۔ نومبر کاشتہ اگیتی فصل پر بیماری (پرپل بلاچ) کا حملہ زیادہ شدت کے ساتھ ہوتاہے۔ لیکن دسمبر کاشتہ پیاز پر یہ بیماری کم آتی ہے۔ بیج والی فصل کاشت کرنے کے لئے علاقے کی مناسبت سے مقامی اقسام کی ضرورت ہوتی ہے۔ وسطی پنجاب می سوات۔1 کے مقابلے میں پھلکارہ اور دیسی سرخ زیادہ کامیابی کے ساتھ بیج پید ا کرسکتے ہیں۔ بیج کی بھر ۔ پور پیداوار حاصل کرنے کے لئے ایک ایکڑ میں درمیانہ سائز (40 تا 50 گرام) کے 18 تا 20 من یا 20 تا 22 ہزار پیاز ہونے ضروری ہیں۔بیج والے پیاز کاشت کرنے کے لئے لائنوں کا فاصلہ دو تا اڑھائی فٹ اور پودوں کا نو دس انچ رکھاجائے ۔ جب پیاز کی بیج والی ڈنڈیاں گنارے پوری طرح نکل آئیں تو پیاز کو مٹی چڑھادی جائے ۔ اگر مٹی نہ چڑھائی جائے تو پیاز کے گنارے پھولداری کے بوجھ سے گر سکتے ہیں۔ جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے ڈوآل ۔ گولڈ 800 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی ملا کر کاشت کرنے کے ایک دن بعد پیاز سمیت تمام کھیت میں سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگر منتقلی کے وقت کوئی بھی زہر سپرے نہ کی جاسکی ہو اور پیاز میں چوڑے پتو ں والی جڑی بو۔ ٹیاں اگ چکی ہوں تو آکسی فلورفن(آکسی فن) 400 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے منتقل کرنے کے بعد تین تا چار ہفتے کے اند ر اندر سپرے کی جاسکتی ہے۔ کیڑے (تھرپس) سے بچانے کے لئے موزوں زہروں کا استعمال کرنا بھی ضروری ہے۔ بیج والی فصل پر پرپل بلاچ کی بیماری شدید حملہ کرسکتی ہے۔ یہ بیماری بیج والی ڈنڈی ( Penduncle) پر ہلکے جامنی رنگ کے دھبوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں اور پیاز کی فصل بیج پیدا نہیں کرسکتی ۔ اس بیماری کے لئے انتیس درجے سینٹی گریڈ اور نمی کا تناسب پچاس فیصد انتہائی سازگارہے۔ایسا موسم اکثر مارچ کے مہینے میں ہوتا ہے۔ اس سے بچاؤ کا طریقہ یہ ہے کہ کاشت کرتے وقت پیاز کو ٹاپسن ایم کے تین فیصد محلول میں ڈبو کر لگایا جائے۔ فروری اور مار چ کے دوران جب اس بیماری کے شدید حملے کی توقع ہوتی ہے۔ اس وقت کر زیٹ 300 گرام اور ٹاپسن ایم 100گرام دونوں زہریں سو لٹر پانی میں ملا کرہفتے ہفتے کے وقفہ سے تین سے پانچ مرتبہ سپرے کی جائے تو بیج والی فصل اس بیماری سے کافی حد تک بچھی رہتی ہے۔

معیاری پیاز کا حصول کیسے ممکن ہے؟

معیاری پیداوارحاصل کرنے کے لیے مناسب بیج کا انتخاب اولین شرط ہے۔ اگر بیج کا درست انتخاب نہ ہو تو بیشتر پیاز گنارے نکال کر ضائع ہوسکتاہے۔ مثلاً لمبے دنوں میں پیاز گنارے والی اقسام جو سوات، کوئٹہ اور مری سائیڈ میں لگائی جاتی ہیں وہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں لگائی جائے تو وہ پیاز نہیں بنائیں گی ۔ اسی طرح زیادہ عمر کی نرسری بھی مناسب سائز کے پیاز نہیں بناسکتی ۔ زیادہ عمر کی نرسری منتقل کی جائے تو پیاز نسارو ہو سکتاہے ۔ ڈیڑھ ماہ کی نرسری منتقل کردی جائے ۔ علاقے کی مناسبت سے اقسام منتخب کی جائیں۔ زیادہ اگیتا (دسمبر کے شروع میں) منتقل شدہ پھلکارہ پیاز تو یقینی اور پردس فیصد تک نسارو ہوتاہے۔

پیداوری عوامل کا حصہ:

اہم پیداواری عوامل کے اخراجات میں کھادوں و آبپاشی کا حصہ تقریباً 25 فیصد ، زمینی تیاری و بیج یا نرسری و کاشت کا 25 فیصد ،کیڑوں، بیماریوں اور جڑی بوٹیوں سے بچاؤ کا 25 فیصد ، فصل کی برداشت اور مارکیٹنگ کا 25 فیصد بنتاہے ان اخراجات میں زمین کا ٹھیکہ شامل نہیں ہے۔

پیداواری اخراجات اور آمدن:

موجودہ پیداواری حالات کے دوران ذاتی زمین کی صورت میں پیاز پیدا کرنے کا فی ایکڑ خرچ 66 ہزار (وسطی اور جنوبی پنجاب کے 1 تا 10 ایکڑ والے ایسے کاشتکار جن کو نصف مقدار نہری پانی بھی دستیاب ہو اور بعض ناگزیر اطلاقی اخراجات بھی شامل کریں تو زمینی تیاری و کاشت 10000، بیج ( ہائی برڈ) 10000، کھادیں 20000 ، پانی 3000، گوڈی و جڑی بوٹیوں کی تلفی 5000، کیڑے 1000، بیماری 1000 برداشت 7000، ٹرانسپورٹ 7000، متفرق 2000، کل 66,000) روپے بنتاہے ۔

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget