سیب کی پیداواری ٹیکنالوجی

سیب خالص ٹھنڈے علاقے کا پھل ہے اس کی کثیر اقسام 1350 میٹر کی بلندی سے 2250 میٹر کی بلندی تک کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہیں۔ ایسا علاقہ جہاں موسم سرما میں شدید سردی، موسم گرما میں کم گرمی (21-240C) مگر وافر مقدار میں سورج کی روشنی میسر ہو اور درجہ حرارت میں بہت زیادہ اتار چڑھاؤ نہ ہو۔ موسم بہار کورے سے پاک ہو۔ موسم بہار سے قبل (وسط دسمبر تا وسط مارچ) سے قبل خوابیدگی توڑنے اور پھول لانے کے لیے اس پودے کو 7 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت کے 1000 سے 1500گھنٹے (Chilling hours) درکار ہوتے ہیں۔ کم بلندی پر سردی کا مطلوبہ دورانیہ ممکن نہ ہونے کی وجہ سے پھول نہیں آتے لہٰذا پھل بھی نہیں بنتا۔ اَنا اور این شیمر سیب کی ایسی اقسام ہیں جن کو کم بلندی پر کاشت کیا جاتاہے۔ جن کو لوچلنگ ورائٹی (Low chilling varieties) کہا جاتا ہے۔ سیب کو مجموعی طور پر100 سے 125 سم سالانہ بارش کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر بارشوں کا سلسلہ اگر پھول آنے، بارآوری کے دوران اور پھل پک جانے کے بعد جاری رہے تو پیداوار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بارآوری کے دوران تیز ہوائیں، ابرآلود موسم، سردی کی اچانک لہر اور لمبے عرصے تک خشک سالی پھل کی پیداوار کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔ پیداوار میں کمی کا ایک اور اہم عنصر ژالہ باری بھی ہے جس سے نہ صرف پھول اور پھل بلکہ پودوں کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔

اگرچہ سیب میرا زمین سے لے کر چکنی اقسام کی زمینوں میں بھی کاشت کیا جا سکتا ہے مگر بہتر پیداوار کے لیے زرخیز میرا زمین کا انتخاب کرنا چاہیے۔ جس میں پانی جذب کرنے کی صلاحیت ، ہوا کا بہتر نکاس اور نامیاتی مادے بھی وافر مقدار میں موجود ہوں۔ مزید برآں زمین کی پی ایچ کی حد 5.5 سے 6.5 ہو اور زمین سخت زیر زمین تہہ اور سیم کے مسائل سے پاک ہو۔ سیب کے پودوں کو کم ڈھلوان والی زمین میں جنوبی سمت میں لگانا چاہیے تاکہ پودے زیادہ سے زیادہ دھوپ سے مستفید ہو سکیں اور نتیجتاً اچھی خاصیت اور رنگت کا پھل مہیا کر سکیں۔ سیب کی افزائش نسل بذریعہ پیوند کاری کی جاتی ہے اور چھوٹاروٹ سٹاک استعمال کیا جاتا ہے۔ چھوٹے سیب کا روٹ سٹاک بذریعہ بیج بھی تیار کیا جاتا ہے۔ مگر عمومی طور پر رائج طریقہ یہ ہے کہ چھوٹے سیب کے زیر بچے دسمبر میں اکھاڑ کر نرسری میں لگا دیئے جاتے ہیں جو جون جولائی یا آئندہ سال فروری مارچ میں پیوند کاری کے قابل ہو جاتے ہیں۔ عموماً سیب میں کلفٹ گرافٹنگ اور ٹی بڈنگ کے ذریعے صحیح النسل پودے کامیابی سے تیار کیے جاتے ہیں۔ کلفٹ گرافٹنگ جنوری فروری میں جبکہ ٹی بڈنگ مون سون کی بارشوں کے بعد کی جاتی ہے۔

سائن بنانے کے لیے من پسند ورائٹی کا ایک سال کی پختہ اور مضبوط شاخ سے 10 سم کا پھانا تیار کیا جاتا ہے جس میں تین سے چار صحت مند آنکھیں ہوں۔ نیچے کے حصے سے 2.5 سم کی دونوں اطراف سے قلم بنائیں۔ روٹ سٹاک کو سطح زمین سے 30-20 سم تمام شاخیں اتار کر قینچی سے کاٹ دیا جاتاہے۔چاقو کی مدد سے اس کے درمیان میں کٹ لگا کر پھاڑ دیا جاتا ہے۔ اس میں سائن کی قلم کو اس طرح رکھا جائے کہ سائن اور سٹاک کی دیواریں آپس میں جڑ جائیں۔ اوپر سے پولیتھین کی مدد سے باندھ دیا جاتا ہے۔ جب سائن پھوٹ آئے تو پولیتھین اتار دیا جاتا ہے۔ اگست کے مہینے میں روٹ سٹاک پر Tکی شکل کا کٹ بنایا جاتا ہے۔ پھر اس میں من پسند ورائٹی کی ایک سال پرانی شاخ سے 1×1 کا ٹکڑا لیں جس پر ایک اچھی طرح ابھری ہوئی صحت مند آنکھ ہو کو T کی شکل کے کٹ میں اس طرح ڈالا جاتاہے کہ سائن کی آنکھ اور سٹاک آپس میں جڑ جائیں۔ اس کے بعد جوڑ پولیتھین سے باندھ دیا جاتا ہے۔ یہ خیال رہے کہ آنکھ پولیتھین سے باہر رہے۔ پودے خریدتے وقت صحت مند بیماریوں سے پاک اور صحیح النسل پودے محکمہ زراعت کی سرکاری نرسری سے خریدیں۔ پودے ہمیشہ آب و ہوا کی مناسبت سے لگائے جائیں اور ہمیشہ ایک سے زائد اقسام کے پودے لگائے جائیں تاکہ اس کی بار آوری میں آسانی ہو اور وہ اقسام جو اپنے زردانے سے بارآور نہیں ہوتیں۔ ان کو دوسری اقسام سے زردانے مل جائیں اور بہتر پیداوار حاصل کی جاسکے۔ پودوں کی قطاروں کا رخ شمالاً جنوباً رکھنا چاہیے۔ پہاڑوں پر ڈھلوان کو قدرے ہموار کر کے چھوٹے چھوٹے کنٹوئر (Contoier) بنا کر سیب کے پودے لگائے جا سکتے ہیں۔ پودوں کا درمیانی فاصلہ 15 فٹ اور قطاروں کے درمیانی فاصلہ 20فٹ رکھا جاتا ہے۔ نومبر میں 1×1 میٹر کے گڑھے کھود کر کچھ دن کھلا رہنے کے بعد بالائی اچھی قسم کی مٹی، گوبر کی کھاد اور بل 1:1:1 کے تناسب سے زمین سے دس انچ اونچا بھر دیں اور ساتھ ہی پانی لگا دیں۔ موسم بہار کے آغاز سے پہلے جب پودے ابھی خوابیدہ حالت میں ہوں۔ باغ میں منتقل کر دیئے جاتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ پیوند کا جوڑ سطح زمین سے اوپر ہو اور آبپاشی کا پانی اس جوڑ کو نہ چھو سکے۔

کھادوں کا استعمال زمین کی زرخیزی اور پودے کی عمر پر منحصر ہوتا ہے۔ ان کا استعمال پودے کو لگانے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے جس کی پہلی خوراک گڑھوں کو بھرنے کے ساتھ ہی دے دی جاتی ہے۔ ایک سال کے باغی پودے کو نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش کی 70N:35P:70K گرام کھاد دی جاتی ہے جوبڑھاتے بڑھاتے دس سال کے پودے کے لیے کھاد کی ڈوز 700N:350P:700K گرام تک پہنچ جاتی ہے۔ گوبر کی گلی سڑی کھاد نومبر دسمبر میں ڈال دی جاتی ہے۔ نائٹروجن کھاد کی نصف مقدار پھول نکلنے سے دو ہفتے قبل اور باقی ماندہ خوراک پھل بننے کے بعد ڈالی جاتی ہے۔ مری کے پہاڑوں میں سیب کے باغات کی آبپاشی کا زیادہ تر انحصار بارشوں پر ہے۔سال کے دوران بالعموم بارش کے ذریعے مناسب پانی میسر آ جاتا ہے تاہم مئی جون کے دوران درجہ حرارت زیادہ اور بارشیں کم ہونے کی وجہ سے کم عمر پودوں کے مرنے اور بڑے پودوں سے پھل گرنے کا خدشہ ہوتا ہے لہٰذا گرم موسم میں آب پاشی کا کوئی متبادل انتظام بھی ہونا چاہیے اس لیے چھوٹے پودوں کو 10 دن کے وقفے اور بڑے پودوں کو 15 دن کے وقفے سے پانی دینا چاہیے۔ پھر پودوں میں شاخ تراشی ان کو مناسب شکل و صورت اور مضبوطی دینے کے لیے ضروری ہوتی ہے تاکہ ہوا کا بہتر گزر ہو اور روشنی تمام حصوں کو بہم پہنچ سکے۔ پھل دینے والے پودوں میں ان کی اونچائی کو کم رکھنے کے لیے بھی شاخ تراشی کی جاتی ہے جس سے سپرے اور برداشت جیسے دیگر عوامل بھی آسانی سے انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ آپس میں الجھی، ٹوٹی اور بیمار شاخوں کو ختم کرنے کے لیے شاخ تراشی نہایت ضروری ہے۔ شاخ تراشی کے لیے بہتر وقت جنوری ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget