مارچ 2018


اگر پاکستان کے 21 کروڑ لوگوں میں سے صرف 30٪ لوگ روزانہ 10 روپے کا جوس پیں تو مہینے بھر میں تقریبا "1800 کروڑ"
روپے خرچ ہوتے ہیں ۔
اور اگر آپ انہی پیسوں سے کوکا کولا یا پیپسی پیتے ہیں
تو یہ "1800 کروڑ" روپے
ملک سے باہر چلے جاتےہیں ....
اصل میں کوکا کولا اور پیپسی جیسی کمپنیاں روزانہ
"3600 کروڑ" سے زیادہ مال غنیمت اس ملک سے جمع کرتی ہیں ...

آپ سے درخواست ہے کہ آپ
گنے کے جوس اور پھلوں کے رس وغیرہ کو اپنائیں اور ملک کے "3600 کروڑ" روپے بچا کر ہمارے کسانوں کو دیں ...
"کسان خود کشی نہیں کریں گے .."
پھلوں کے رس کے کاروبار سے
ہزاروں لوگوں کو روزگار مل سکتاہے. ... آپ کا یہ چھوٹا سا کام ملک میں خوشحالی لا سکتا ہے۔
مقامی اپنائیں،
قوم کو طاقتور بنائیں ...
اور یہ میسیج تین لوگوں تک ضرور پہنچائیں ..
میسج رکنا نہیں چاہئے ..
Cocacola
Maggi
Fanta
Garnier
Ravlon
Lorial
Huggies
Pampars
MamyPoko
Libro
Levis
Nokia
Macdonalds
Calvin cline
Kit kat
Sprite
Nestle
Pepsi
KFC
-كولگیٹ
نہیں تھا تو کیا پاکستان میں
لوگ دانت صاف نہیں کرتے تھے؟
فئر اینڈ لولی نہیں تھی تو کیا سبپاکستانیعورت کالی تھیں؟
اگرتمام پاکستانی 150دن تککوئیبھی غیر ملکی ساماننہیں خریدیں ....
تو پاکستان ایکامیر ملک بن سکتا ہے ..
صرف 150 دن میں ہی ڈالر کی قیمت آسمان سے زمین پرلائی جاسکتی ہے.
ہم سب کو مل کر
یہ کوشش آزمانی چاہئے
كيونکہ یہ ملک ہے ہمارا ہے.. !!!!
.
.
ہم اتنے بیکار کے مسجز فارورڈ کرتے ہیں.
کیوں نہ اسے بھی اتنا فارورڈ
کریں تا کہ سارا پاکستان اس کو پڑھے ...
اور
ایک تحریک بن جائے ...... !!
آئیے نئے پاکستان کی بنیاد اپنے گھر سے رکھیں


روشنی میں کھیرے کی پلاسٹک ٹنل میں کاشت کا جو مشاہدہ کیا وہ مندرجہ ذیل ہے :

 1. جہاں کھیرا لگانا ہو وہ زمین لیزر لیول کروا لیں . 
2. زمین کی تیاری کے وقت دو سے تین بوری ڈی اے پی ، ایک سے ڈیڑھ بوری ایس او پی اور 8 کلوگرام فیوراڈان زہر اچھی طرح زمین میں ملائیں .
3. بیڈ سائز 2 فٹ چوڑا رکھیں اور پودے سے پودے کا فاصلہ پونے فٹ سے ایک فٹ تک ہونا چاہیے .
 4. چوپہ کاشت کی صورت میں 48 گھنٹے کے اندر اندر پچاس فیصد اگاؤ آ جاتا ہے 50 فیصد اگاؤ آتے ہی ٹنل کے گیٹ سورج کی روشنی میں کھول دیں .
 5. روزانہ صبح سورج نکلتے ہی تمام ٹنلز کے گیٹ اوپن کریں اور 3 سے 4 بجے کے درمیان بند کر دیں .
6. دھند یا بارش کی صورت میں گیٹ بند رکھیں . 
7 .جب تک پودے کے 4 پتے نہ بن جائیں کسی بھی قسم کا سپرے مت کریں . 
8. جس کمپنی کا بیج ہو اس کمپنی سے سپرے پروگرام مرتب کروائیں اور ہر کسی کے مشورے پر عمل کرنے سے اجتناب کریں . 
9. وتر آنے پر واٹر چینلز میں ایک یا دو دفعہ گوڈی لازمی کریں . 
10. سپرے پروگرام میں امائنو ایسڈ اور این پی کے کا استعمال لازمی کریں . 
11. ٹنلز میں نمی کا تناسب دیکھتے ہوۓ پانی لگائیں جو عمومن پہلی چنائ کے بعد لگایا جاتا ہے .
12. پہلے پانی پہ ایک بوری ڈی اے پی اور ایک بوری ایس او پی یا لیکوئڈ پوٹاش ایک گیلن فلڈ کریں جس سے لگاتار چنائیاں شروع ہو جائیں گی .
13. ایک پانی چھوڑ کے اور پھر پلاسٹک اترنے کے بعد ہر پانی پر کھاد لازمی فلڈ کریں .
14. گرمی کے دنوں میں روزانہ شام کو پانی دیں . نوٹ : ٹنلز میں نمی نہ بڑھنے دیں روزانہ گیٹ کھولیں ورنہ ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے .


تو ڈھائی ایکڑ میں آپ 25000 پال سکتے ہیں اور اس کا تین انچ کا سیڈ آپ کو چھ روپیہ فی کس مل جائے گا اور یہ مچھلی چار ماہ میں پانچ سو گرام سے چھ سو گرام کی ہو جائے گی اس مچھلی کو آپ اپنی لوکل مارکیٹ میں 150 روپے کلو کے حساب سے باآسانی بیچ سکتے ہیں.
اسکا سیڈ چھ روپے کے حساب سے آپ کو Rs. 150,000 کا ملے گا.

چار ماہ میں یہ مچھلی 23 ٹن فیڈ کھا جائے گی مطلب 575 من فیڈ کھا جائے گی 1200 روپے فی من کے حساب سے فیڈ آپ کو ملے گی مطلب چار ماہ میں 690،000 کی فیڈ کھا جائے گی.
یہ مچھلی 150 روپے کلو کے حساب سے 22،50،000 روپے میں فروخت ہو جائے گی.
اب جو اخراجات ہیں ان میں تقریباً 150,000 اس کو نکال کر مارکیٹ تک لیجانے میں آئے گا جو گاڑی کے کرائے کی مد میں آپ کو ادائیگی پیشگی کرنی پڑے گی.
چار ماہ کی ملازم کی تنخواہ جو اس کی روزانہ دو وقت باقاعدگی سے فیڈ تیار کر کے ڈالے گا وہ 40,000 چار ماہ میں لے گا۔کلیرس ایک افریقی نسل کی گوشت خور مچھلی ہے جو بہت سخت جان ہوتی ہے اور اس مچھلی مچھلی کو تین وقت خوراک ڈالنی چاہیے نہیں تو یہ آپس میں ایک دوسرے کو شکار کر لیتی ہیں.
کلیرس کا تین انچ کا سیڈ آپ کو 9 روپے فی کس کے حساب سے ملے گا اور آپ تیس ہزار مچھلی اپنے پانڈ میں پال سکتے ہیں.
یہ تیس ہزار مچھلی چھ ماہ میں تین کلو کی ہو جاتی ہے اور مارکیٹ میں 400 روپیہ کلو بک جاتی ہے.
یہ مچھلی چھ ماہ میں 135 ٹن خشک خوراک کھا جائے گی اس کا مطلب یہ ہے کہ 3375 من خوراک جس کی مالیت 40،50،000 بنے گی یہ کھا جائے گی.
لیکن اس مچھلی کو آپ مرغی کی آلائشوں اور اگر آپ کے علاقے میں کوئی سلاٹر ہاؤس موجود ہے تو جانوروں کی اوجڑیوں پر بھی پالا جا سکتا ہے جو اس کو پالنے کا سستا طریقہ ہے.
اس مچھلی کو زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی اور یہ کسی بھی قسم کے حالات سے خود نمٹ لیتی ہے.
چار سو روپیہ فی کلو کے حساب سے یہ ایک مچھلی 1200 روپے فی کس فروخت ہو گی، اور 3 کروڑ 60 لاکھ روپے میں فروخت ہو جائے گی.
اب آپ خود سمجھدار ہیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے



مٹر اپنی نوعیت کے اعتبار سے سردی کی فصل ہے یہ آٹھ سینٹی گریڈ سے لے کرتیس سینٹی گریڈ تک درجہ حرارت برداشت کر سکتا ہے


وقت کاشت: 
مٹر کی کاشت کا وقت مانسہرہ ہری پور اور ملحقہ علاقوں میں وسط اگست سے لے کر بیس ستمبر تک ہے جبکہ بالائی پنجاب میں ستمبر کے پہلے ہفتے سے لے کر شروع نومبر تک کاشت کیا جا سکتا ہے اور جنوبی پنجاب اور سندھ میں بیس اکتوبر سے لے کر وسط دسمبر تک کاشت ہوتا ہے
مٹر کی اقسام:
اگیتی کاشت کے لئے کلاسک اور الینا جبکہ پچھیتی کاشت کے لئیے مٹور بہترین ورائٹیز ہیں البتہ یہ تقسیم ان کے پیداواری صلاحیت اور مدت برداشت کے حسب سے کیا گیا ہے جبکہ موسم کی برداشت کی قوت سب میں ایک جیسی ہوتی ہے
اگیتی کاشت کے لئیے بیج کا استعمال ڈیڑھ گنا زیادہ کرنا چاہئے پٹڑیوں کی چوڑائی 18 انچ تک رکھیں اور پودے سے پودے کا فاصلہ 2انچ رکھیں مٹر کی پچھیتی اقسام کی کاشت کیلئے پٹڑیوں کی چوڑائی 20سے 22 انچ اور پودے کا پودے سے درمیانی فاصلہ 3انچ تک رکھیں کاشتکار مٹر کی اگیتی اور پچھیتی اقسام کو پٹڑیوں کے دونوں جانب کاشت کریں اور کاشت کرنے کےلئے ہاتھ سے کیرا یا ہر بیج کو 2سے 3انچ کے فاصلہ پر 2 سے 3 سینٹی میٹر گہرا لگا دیں۔

پانی اور کھاد:
شروع میں فصل کو ہفتہ کے وقفہ سے پانی دیا جائے تاہم بعد میں موسم سرد ہو جانے پر پانی کا وقفہ بڑھا یاجاسکتاہے ۔
زمین کی تیاری کے وقت ایک سے دو بیگ ڈی اے پی ایک بیگ پوٹاش اور ایک بیگ یوریا ڈالیں اور پھر ہر دوسرے پانی کے ساتھ دس کلو یوریا لازمی دیں

جڑی بوٹیوں کا تدارک:
مٹر کی فصل میں کرنڈ، باتھو، اٹ سٹ، جنگلی پالک، مینا، سینجی، دمبی گھاس، لہلی، پیازی اور ڈیلا وغیرہ جیسی جڑی بوٹیاں اگتی ہیں جو فصل کی خوراک، پانی اور روشنی میں حصہ دار بننے کے ساتھ ساتھ بیماریاں اور کیڑے پھیلانے کا سبب بھی بنتی ہیں لہٰذا کاشتکار ان جڑی بوٹیوں کی تلفی کےلئے گوڈی کریں کیونکہ اس سے زمین نرم ہو جاتی ہے ، اس میں آکسیجن کا گزر بڑھ جاتا ہے اور پودوں کی بڑھوتری بھی تیز ہو جاتی ہے مگر اس کے برعکس دوائی کے استعمال سے زمین کی سطح دوائی کی تہہ جم جانے سے سخت ہو جاتی ہے جس سے جڑی بوٹیاں توتلف ہو جاتی ہیں لیکن پودوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔

جڑی بوٹیوں کے کیمیائی تدارک:
زمین کی تیاری کے وقت جب رونی وتر حالت میں آجائے تو زمین میں ہل چلا کر پینڈی میتھولین اور اسیٹا کلور کا سپرے کریں اور سہاگہ چلا کر زمین کو 24 گھنٹے پڑا رہنے دیں پھر زمین تیار کر کے مٹر کاشت کریں
2۔ پانی میں چوکا لگا کر دوآل گولڈ کا سپرے کریں
3-نوک دار پتے والی اگی ہوئی جڑی بوٹیوں کے لئے پوما سپر کا استعمال کر سکتے ہیں فصل پر اس کا کوئی سٹریس نہیں
4۔چوڑے پتے کی جڑی بوٹیوں کے لئے زنکر 50گرام فی ایکڑ استعمال کر سکتے ہیں مگر اس سے زیادہ فصل کو نقصان پہنچا سکتی ہیں اس بات کا خیال رہے کہ زنکر کو پھول آنے سے پہلے استعمال کر سکتےہیں..


چونکہ پاکستان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے اس لیے تیل دار اجناس کی مانگ میں بھی تیزی سے اضافہ سامنے آیا ہے ۔ جبکہ
ہمارے ملک میں اس کی طرف خاصہ رجحان نہیں اس لیے اجناس کی قلت مہنگائی کو جنم دیتی ہے جس کے نتیجہ میں عوام کو بلی کا بکرا بننا پڑتا ہے ۔ ہمارے ملک میں  ضرورت کا صرف 20سے30فیصد خوردنی تیل پیدا کیا جاتا ہے جبکہ باقی کی ضروریات دوسرے ممالک کی بدولت پوری کی جاتی ہیں ۔ ہماری روایتی تیل دار فصلیں کپاس ، رایا اور سر سوں وغیرہ ہے ۔ جبکہ غیر روایتی فصلیں کینولا ، سورج مکھی اور سویا بین وغیرہ ہیں ۔ اہم بات یہ ہے کہ ان غیر روایتی فصلوں کی کاشت روایتی فصلوں  سے خاصی آسان ہے کیونکہ یہ کم عرصے میں تیار ہو جاتی ہیں ۔ اور اس کے علاوہ ان میں تیل کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے اس لیے کسانوں کو چاہیے کہ اپنا رجحان ان فصلات کی طرف بھی لائیں تاکہ پاکستان کو تیل کے حوالے سے دوسرے ممالک کا محتاج نہ ہونا پڑے ۔ چونکہ ہمارا ملک ایک زرعی ملک ہے اس لیے اس کو مکمل طور پر استعمال میں لانا چاہیے ۔ اب میں آپ سے چند غیر روایتی روغنی اجناس کی کاشت کے حوالے دوچار ہوں گا ۔ سب سے پہلے کینولا کی کاشت کے بارے بتاؤں گا ۔ ویسے تو کینولا سر سوں کی ایک ترقی یافتہ قسم ہے اور اس کے علاوہ یہ منافع بخش فصل بھی ہے اس لیے اس کی طرف رجحان ملکی معیشیت کے لیے موزوں ہے ۔ اس فصل کی کاشت کے لیے ہر قسم کی زمین موزوں ہے مگر سیم تھور اور ریتلی زمین میں فصلکامیاب نہیں بلکہ پیسے کا ضیاع ہے ۔ اچھی پیداوار کے حصول کے لیے آبپاشی کا نظام بہتر ہونا لازم ہے ۔ زمین کی تیاری کی بات کی جائے تو بارانی علاقوں میں سہاگہ اور ہل کی مدد سے وتر کو محفوظ کرنا لازمی ہے جبکہ نہری علاقوں میں کاشت کے لیے کاشت سے قبل تین مرتبہ ہل لازمی چلائیں اور اس کے بعد زمین کی ہمواری کے لیے سہاگہ دے دیں ۔ پنجاب کے تمام علاقوں میں  کینولا کو 20ستمبر تا 31اکتوبر تک کاشت کیا جاسکتا ہے اور کاشت میں تا خیر سے پر ہیز کریں اس وجہ سے فصل کی بہت کم پیداوار حاصل ہو گی اور یہ کاشتکار کے لیے نہایت نقصان دہ ہے ۔کینولا کی کاشت کے لیے گندم کاشت کرنے والی ڈرل کا استعمال کریں ۔ شرح بیج کی بات کی جائے تو یہ دو کلو کافی ہے جبکہ اہم بات یہ کہ قطاروں کا درمیانی فاصلہ 14سے18انچ مناسب ہے ۔ ڈرل نہ ہونے کی صورت میں اسے چھٹہ دے کے بھی کاشت کیا جا سکتا ہے ۔ کاشت سے قبل بیجوں کو کم از کم 12سے 14گھنٹے بھگوائیں اور اچھی پیداوار  کے حصول  کے لیے بیج کا معیار ہونا لازمی ہے ۔ کھادوں کی بات کی جائے تو  ایک بوری یوریا ، ایک بوری ڈی ،اے ، پی  اور ایک بوری ایس ، او ، پی کافی ہے ۔ فصل کی کامیابی کے لیے تین سے چار آبپاشی ضروری ہے جبکہ نہ اس سے کم نہ زیادہ مگر موسم کی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ۔ کینولا کی فصل پر کیڑوں کے حملے کی بات کریں تو اس سنڈیاں اور تیلہ حملہ کرتا ہے ۔ اور یہ حملہ پھول یا پھیلیاں بنتے وقت ہوتا ہے اس لیے اسے محکمہ زراعت کی سفارشات کے مطابق کنٹرول کریں ورنہ پیداوار میں شدید کمی واقع ہو سکتی ہے اس کے علاوہ فصل کو جڑی بوٹیوں سے بھی محفوظ رکھیں تاکہ یہ کیڑوں کے لیے آماج گاہ نہ بنیں ۔ اب آپ کو سویا بین کی کاشت کے حوالے سے بتا ات چلوں کہ یہ بھی ایک نہایت منافع بخش فصل ہے اس میں 40فیصد تک پروٹین پائی جاتی ہے ۔ اس کے علاوہ اس میں بیس فیصد تک بہترین قسم کا تیل  پایا جاتا ہے ۔ اہم بات یہ ہے کہ دل کے مریضوں کے لیے سویا بین کا تیل موزوں سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کا آٹا شوگر کے مریضوں کے لیے نہایت مفید ہے ۔ کاشت کے لحاظ سے سویا بین کے لیے میرا زمین کا  انتخاب موزوں ہے ۔ جبکہ کلراٹھی زمینوں میں اسے کاشت کرنے سے پر ہیز کریں ۔ کاشت ہمیشہ صبح یا شام کے وقت وتر  مین کریں اچھی پیداوار حاصل  ہوگی ۔ صوبہ پنجاب میں بہار یہ فصل کے لیے سویا بین کا وقت کاشت فروری ہے ۔ جبکہ خزاں کی فصل کے لیے کاشت کا وقت جون تا اگست ہے ۔ شرح بیج 35کلو گرام فی ایکڑ استعمال کریں اور بیج اچھی کوالٹی کا ہو ۔ اس کے علاوہ کھادوں کا استعمال صرف ایک بوری ، ڈی اے پی ، آدھی بوری یوریا بوقت کاشت اور آدھی بوری یوریا یا دوسرے پانی پر استعمال کریں ۔ ویسے تو سویا بین کو عموماً 6سے7آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بہاریہ فصل کو پہلاپانی اُگاؤ کے تین سے چار ہفتے بعد دینا چاہیے ۔ اور خزاں کی فصل کو پہلا پانی اُگنے کے ایک سے دو ہفتے بعد دے دینا چاہیے ۔ سویا بین پر تیلہ سفید مکھی اور لشکری سنڈی حملہ آور ہوتی ہیں ۔ اس کے علاوہ جوؤں کا حملہ بھی دیکھنے میں آیا ہے ۔ خصوصاً  جڑی بوٹیوں سے فصل کو پاک رکھیں اور کیڑے مار ادویات کا درست انتخاب کریں ۔ آخر میں سورج مکھی کی کاشت کی بات کریں تو اصل فصل کو بہتر بڑھوتری کے لیے میرا زمین درکار ہے ویسے تو یہ ہر قسم کی زمین میں ہو جاتی ہے مگر چونکہ ہمارا مقصد زیادہ پیداوار ہے اس لیے میرا زمین کا انتخاب کریں ۔ موسم خزاں میں اس کو یکم جولائی سے 10 اگست تک زیرِ کاشت لایا جا سکتا ہے جبکہ موسم بہار میں اس فصل کا وقت کاشت فروری کا مہینہ ہے ۔ سورج مکھی  کی کاشت کے لیے دو سے تین کلو گرام بیج فی ایکڑ کافی ہے مگر بیج صاف ستھرا ہونا چاہئے ۔ کھادوں کے بارے میں آپ کو بتاتا چلوں کہ نہری علاقوں میں ایک بوری ، ڈی اے پی، ایک بوری ،ایس او پی ، بوائی کے وقت جبکہ آدھی بوری یوریا پہلے پانی پر اور آدھی بوری دوسرے پانی پر استعمال کریں اس کے علاوہ ایک بوری یوریا ڈوڈیاں بنتے وقت استعمال کریں ۔ اس فصل کو چار سے پانچ آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے اور اسے سبز تیلہ ، سست تیلہ ، چور کیڑا اور دیگر سنڈیوں سمیت مختلف کیڑوں سے نقصان پہنچتا ہے۔ ان سے بچاؤ کے لیے وقت ِ مدافعت والی اقسام کاشت کریں اور فصل کو جڑی بوٹیوں سے ہمیشہ پاک رکھیں ۔ حکومت پنجاب  محکمہ زراعت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو تیل دار اجناس کی کاشت پر مائل کریں تاکہ ہمارا ملک معاشی طور پر مزید ترقی کر سکے ۔


1۔۔
ایک ڈرم پلاسٹک 200 لٹر ۔۔۔۔ حوص،پکا کھاڈا ۔۔ٹیوب ویل کے جیسا۔۔15/10 فٹ گول ۔۔۔اور 4 فٹ اونچا۔
2۔۔

اس میں مندرجہ زیل چیزیں ڈال دیں۔۔۔۔
1۔۔۔
گوبر ۔۔۔نرم ،۔گیلی ۔۔۔۔۔۔15۔کلو فی ایکڑ۔
2۔۔۔
پیشاب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔15 لٹر فی ایکڑ ۔۔پا زپادہ ۔۔۔دوگنا ۔۔تین گنا ۔۔3۔۔۔
گڑ ۔۔۔۔5۔1 کلو فی ایکڑ ۔۔۔
4۔۔
دال کا آٹا 5۔1 کلو فی ایکڑ۔
5۔۔۔
مٹی ۔۔بوہڑ ۔ پیپل کے درخت کے نیچے سے۔۔
6۔۔۔
اس کو گول لیں۔ اچھی طرح ۔۔روزانہ۔۔۔
7۔۔
اپ کی ارگینک کھاد تیار ہے ۔۔۔
8۔۔
نوٹ۔۔۔۔حوض کو زمین کے اوپر بنایں۔۔۔
9۔۔
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔فائدے۔ ۔

10۔
زمین نرم ، زرخیز، بھربھری ہو گی۔۔۔
وتر ۔نمی ۔زیادہ دیر رکھےگی۔۔۔۔۔۔
پانی کم لے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔
نامیاتی مادہ میں اضافہ ہو گا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ Earth worm پیدا کرے گی ۔۔۔۔


گلاب دنیا میں سب سے زیادہ اُگایا جانے والا کٹ فلاور ہے۔ تمام کٹ فلاور کی برآمدات میں تقریباً 50 فیصد حصہ کٹ گلاب کا ہے۔
گلاب کا تعلق روزیسی فیملی سے ہے۔ اس کی 200 سے زاٸد پرجاتیاں ہیں۔ جن پر الگ الگ اور گوچھے کی صورت میں پھول لگتے ہیں۔ گلاب کو اس کی خصوصیات کی وجہ سے مختلف اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن کا ذکر الگ ایک تحریر کی صورت میں کیا جاٸے گا۔
پاکستان کے گلاب اُگانے والے علاقے:
پتوکی (قصور)، اسلام آباد، راولپینڈی، لاہور، فیصل آباد اور ملتان (میلسی) میں زیادہ تر کٹ گلاب کاشت کیا جاتا ہے۔
جبکہ پتیوں (تولواں گلاب) کے لیے قصور، ساہیوال، لاہور، راولپینڈی، پاکپتن اور حیدرآباد میں کاشت کیا جاتا ہے۔
زمین:
گلاب کو بہت سی اقسام کی مٹی میں اُگایا جا سکتا ہے۔ لیکن اچھی نکاسی والی، زرخیز، ہلکی میرا زمین جس کی پی ایچ (Ph) 6 سے 7 ہو۔ اس کی کاشت کے لیے بہت موزؤں ہے۔ گرین ہاؤس میں سوٸل لیس میڈیا کا استعمال، اس کی پانی کو زیادہ دیر تک جزب رکھنے کی صلاحیت، ہوا کی دستیابی اور جلد اجزا (nutrients) کی فراہمی جیسی خصوصیات کو وجہ سے کیا جاتا ہے۔


موسم گرما کی سبزیوں کدو، کریلا، بھنڈی ، ٹماٹر، بینگن، بیل توری ،سبز مرچ وغیرہ کی کاشت کا وقت قریب ہے جن دوستوں نے
موسم گرما کی سبزیاں لگانے کا پلان کیا ہے جلد از جلد مرچ اور ٹماٹر کی پنیریاں کاشت کر لیں یا مطلوبہ پنیریوں کا انتظام کر لیں اور زمین کی تیاری جلد از جلد مکمل کر لیں .
زمین کی تیاری اور کھادیں :
سب سے پہلے زمین کو لیزر لیول کروائیں .ایک سال پرانا گلا سڑا گوبر یا کمپوسٹ 4 تا 5 ٹرالی فی ایکڑ زمین میں ڈالیں اور اچھی طرح سے روٹاویٹ کر کے ہل چلائیں . ہر تیسرے یا چوتھے دن سہاگہ دے کے ہل چلاتے رہیں کہ 15 فروری تک زمین کی مٹی پاؤڈر نما ہو جاۓ .جن کی زمینیں کمزور ہیں سوائل لیبارٹری سے مٹی کا ٹیسٹ کروا لیں اور جن بھائیوں کی زمینیں فصلیں اگاتی ہیں بوقت کاشت دو بوری ڈی اے پی ،ایک بوری ایس او پی ،ایک بوری ایمونیم سلفیٹ ،اور 8 کلوگرام فیوراڈان فی ایکڑ ڈالیں اور آخری دفعہ روٹاویٹر چلا کر فصلوں کے مطابق بیڈ شیپر یا لیبر کی مدد سے مطلوبہ بیڈز تیار کر لیں .
بیج کو زھر لگا کے کاشت کریں :
بیج کو عام طور پر صرف تھائرم سے ٹریٹ کر کے پیک کیا جاتا ہے جو قطن بھی فنگس اور پیسٹس سے محفوظ نہیں کر پاتا.اس لئیے بیج کو خشک کپڑے پر بچھا دیں اور ٹاپسن ایم 2.5 گرام ، امیڈا کلوپرڈ 2.5 گرام اور 10ملی لیٹر پانی کا مکسچر بنا کے بیج پر چھڑکاؤ کریں اور دوسرے ہاتھ سے بیج کو لگاتے جائیں یہاں تک کے مکسچر ہر ایک بیج کے ساتھ چپک جاۓ . پھر 2 سے 4 گھنٹے بیج کو چھاؤں میں پڑا رہنے دیں کہ اچھی طرح خشک ہو جاۓ
مختلف سبزیوں کے لئیے بیڈز کے سائز اور پودے سے پودے کا فاصلہ :
بھنڈی،بینگن اور سبزمرچ کے بیڈز کا سائز 2 فٹ چوڑا رکھیں .مرچ اور بینگن کے پودے سے پودے کا فاصلہ 2 فٹ اور بھنڈی کے بیج کا چوپہ 2 سے 3 انچ کے فاصلے سے بیڈ کی دونوں اطراف میں کریں . کدو،ٹماٹر،کریلا،بیل توری کے بیڈز کا سائز چار فٹ رکھیں . ٹماٹر کے پودے سے پودے کا فاصلہ دوفٹ اور کدو،کریلا ،بیل توری کے بیج کا چوپہ ڈیڑھ سے دو فٹ کے فاصلے پر کریں لیکن چار فٹ بیڈ سائز پہ کدو،کریلا اور بیل توری کو بانس لگا کر جال پر چڑھانا ہوگا جو ان فصلوں کی بھرپور پیداوار لینے کا بہترین طریقہ ہے .اگر جال نہ لگانا ہو تو بیل توری،کدو اور کریلے کی فصل کے لئیے بیڈز کا سائز 8 فٹ رکھیں .
کیڑے مکوڑوں اور بیماریوں سے بچاؤ :
جب پودے چھوٹی عمر کے ہوتے ہیں تو ان کو نگہداشت اور دیکھ بھال کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے.روزانہ کی بنیاد پر دن میں دو دفعہ فصل کا بغور معائنہ کرتے رہیں . تیلہ،ٹوکہ ،سرخ ب . عام طور پر آپ کے سٹاک میں امائینو ایسڈ، این پی کے ، بائ فینتھرین ، امیڈا،پائری،مینکوزیب وغیرہ کے پراڈکٹس کا ہونا ضروری ہے
جڑی بوٹیوں کا خاتمہ :
جڑی بوٹیوں کا خاتمہ بذریعہ گوڈی لگاتار جاری رکھیں .


زیتون کا باغ لگائیں ۔ ہزار سال تک بھر پور منافع کمائیں
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ پاکستان میں ایک مرتبہ زیتون کا باغ لگا لیں تو وہ کم از کم ایک ہزار سال تک پھل دیتا رہے گا.
زیتون کن کن اضلاع میں لگایا جاسکتا ہے؟
زیتون کے باغات پنجاب سمیت پاکستان کے تمام علاقوں میں کامیابی سے لگائے جا سکتے ہیں. حتی کہ چولستان میں بھی زیتون کی کاشت ہو سکتی ہے.
لیکن فی الحال زیتون کی کاشت کے حوالے سے حکومتِ پنجاب کی ساری توجہ پوٹھوہار کے علاقوں پر مرکوز ہے.
زیتون کس طرح کی زمین میں لگایا جاسکتا ہے؟


پاکستان میں گندم کی اوسط پیداوار بہت کم ہے جو کہ تقریباً 29تا30من فی ایکڑ ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ کہ تقریبا 15سے 20 لاکھ
ایکڑ کلر و تھور زدہ رقبوں پر گندم کی کاشت کی جاتی ہے ۔ گندم کی کاشت کے لئے موزوں طریقے اختیار نہیں کیے جاتے نتیجتاً فی ایکڑ پیداوار بری طرح متاثر ہو رہی ہے ۔ ہماری تھوڑی سی توجہ اور محنت سے ان زمینوں کو مختلف کیمیائی یا حیاتیاتی طریقوں سے قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے ۔ اس مقصد کے لئے تحقیقاتی ادارہ شورزدہ اراضیات ،پنڈی بھٹیاں نے ان زمینوں کی اصلاح اور ان کی پیداواری صلاحیت بحال کر کے گندم اور دھان کی فصلوں کی کاشت کے لئے مختلف تجربات کیے ہیں ۔ کاشتکار ان تجربات سے استفادہ کرکے کلراٹھے رقبوں کی پیداواری صلاحیت بڑھا سکتے ہیں اور گندم کی بہتر فصل حاصل کر سکتے ہیں ۔


1۔اس کو کاٹتے جائیں اور کاٹنے والے جو مزدور ہوں انسے گھاس بھی ساتھ ساتھ نکلواتے جائیں جو چھوٹا چھوٹا ہو رہا ہے

2۔پانی لگا کر مکی کا چوپا لگوا دیں
3۔وتر جب آئے گا تو کچھ دن بعد پھر دھنیا کی کٹائی ہوگی تو ساتھ موٹی موٹی جڑیبوٹیوں کو نکلواتے جائیں۔
4۔تیسری کٹائی پر مکی بھی بڑی ہو جائے گی اور آپ دھنیا کی تین کٹائیاں لے چکے ہوں گے اگر چاہیں تو اس وقت بھی دھنیا کی کٹائی کے ساتھ ساتھ گھاس بھی مکی کے پودوں کے قریب سے کاٹنے والوں سے کہیں کے نکالتے جائیں۔
5۔اب آپ دھنیا سے کٹنگ لے چکے ہوں گے دھنیا کو کاٹیں اور اس پر مکی کے اندر چل کر سپرے کر دیں جڑی بوٹیوں والی جو مختلف کمپنیز دے رہی ہیں
6۔مکی کو کچھ نہیں ہوگا دھنیا اور گھاس نیچے سے ختم ہو جائے گا



لہسن کی کاشت فوری شروع کرنے کی ہدایت
محکمہ زراعت نے کاشتکاروں کو لہسن کی کاشت فوری شروع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ کاشتکار زمین کی تیاری مکمل کر کے لہسن کی کاشت کا آغاز کر دیں تاکہ بروقت کاشت کی صورت میں اچھی پیداوار کا حصول ممکن ہو سکے۔ ترجمان نے بتایا کہ لہسن کی کاشت سے پہلے 20 سے 25 ٹن گوبر کی گلی سڑی کھاد کھیت میں ڈال کر اسے زمین میں اچھی طرح ملا دینا چاہیے جس کے بعد زمین کی تیاری کیلئے ایک مرتبہ مٹی پلٹنے والا ہل اور دو سے تین مرتبہ کلٹیویٹر چلا کر سہاگہ دے دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ لہسن کی کاشت اکتوبر کے وسط میں شروع کر کے وسط نومبر تک مکمل کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ لہسن گلابی اور جی ایس ون لہسن ون کی منظور شدہ اقسام ہے جن کا صحتمند بیج شاندار فصل کا ضامن ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیج کی مقدار، کھادوں کے استعمال اور دیگر معلومات کیلئے محکمہ زراعت کے عملہ یا ہیلپ لائن سے بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
لہسن کی کاشت خشک زمین میں کریں ۔اور اس کے فوراً بعد آبپاشی کر دیں بعد میں دو تین آبپاشیاں ہفتہ وار اور اس کے بعد چودہ دن کے وقفہ آبپاشی کریں ۔جبکہ آخر میں تین ہفتہ کے بعد پانی لگا یا جا سکتا ہے بارش کے پانی کے نکاس کا بندوبست بہت ضروری ہے ۔کیونکہ اس فصل کے پودے زیادہ ہمقدار میں برداشت نہیں کر سکتے ۔
محکمہ زراعت نے کاشتکاروں کوہدایت کی ہے کہ لہسن کی کاشت ستمبر کے آخر یا اکتوبر کے آغاز میں شروع کر کے وسط نومبر تک مکمل کی جا سکتی ہے جبکہ لہسن کی منظور شدہ اقسام گلابی ، جی ایس ون، لہسن ون کی کاشت کو ترجیح دیں ۔

برداشت ۔

لہسن عام طور پر اپریل میں برداشت کیا جاتا ہے ۔جب پتے خشک اور بھورے رنگ کے  ہو رہے ہوں تو سمجھیں کہ فصل تیار ہے ۔اور آبپاشی بند کردیں ۔اس کے چار پانچ دن بعد کھرپوں کی مدد سے کھود کر گٹھیوں کو نکال لینا چاہئے۔ لہسن کو خشک کرنے کے لئے کسی سایہ دار جگہ یا ہوا دار کمرے میں تین چار دن کے لئے یکسان طور پر پھیلا دیں ۔جب اُوپر سے چھلکے آسانی سے علیحدہ ہونے لھیں تو گٹھیوں کو پتوں سمیت باندھ کر خشک اور  ہوادار جگہ پر سٹور کر لیں ۔اس طرح لہسن لمبے عرصہ تک سٹور کیا جا سکتا ہے ۔ لہسن کی فصل کے ضرر رساں کیڑے اور اُن کا انسداد لہسن کی فصل پر عموومی طور پر 'تھرپس' کا حملہ زیادہ ہوتا ہے ۔اس کی تدارک کے لئے کراؤن یا لانچر 200 ایس ایل کا 150-200  ملی لیٹر فی ایکڑ کے حساب سے اسپرے کریں ۔اگر اس کا حملہ شدید ہوتو فائنڈر یا کانٹیسٹ 320 ایس سی 100 ملی لیٹر فی ایکڑ کے حساب سے استعمال کریں ۔اور اسپرے کے بعد کھیت کی آبپاشی ضرور کریں  ۔کسی بھی قسم کی سُڈی کے حملے کی صورت میں ٹائمر 9'1 ای سی 200 ملی لیٹر فی ایکڑ کے حساب سے اسپرے کریں ۔

لہسن کی فصل کی اہم بیماریاں اور اُن کا علاج 
 (Purple Blotch 1۔ ار غوانی پھپھوندی (
یہ لہسن اور پیاز کی اہم اور نقصان دہ بیماری ہے ۔یہ
 نامی پھپھوندی سے پھیلتی ہے ۔ہوا میں نمی کی موجودگی اور 18 سے 30 ڈگری Alternaria Porri
سینٹی گریڈ درجہ حرارت اس بیماری کے لئے موافق حالات فراہم کرتے ہیں ۔پرانے پتوں پر بیماری کے حملہ کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔

علامات۔
؎ پتوں پر چھوٹے چھوٹے بھورے دھبے جامنی رنگ کے مرکزی حصوں کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں ۔
؎یہ دھبے بیل کی آنکھ سے مشابیت رکھتے ہیں اور ان کا بارڈر سُرخی مائل پوتا ہے ۔
؎اگر اس کا حملہ زیادہ ہوتو پیاز کے پتے بالکل مُرجھا جاتے ہیں ۔
؎گٹھیوں کا سائز چھوٹا رہ جاتا ہے اور لہسن زمین کے اندر صحیح طور پر تیا ر نہیں ہو پاتا ۔
انسداد ۔
؎جس کھیت میں بیماری کا حملہ مسلسل ہورہا ہو تو وہاں اگلے سال لہسن کی فصل کاشت نہ کریں بلکہ فصلوں کا ہیر پھیر کریں ۔
؎ہمیشہ صاف سُتھرا اور صحت مند بیج کاشت
؎کم بیماریوں کا شکار ہونے والے اور بہتر پیداواری صلاحیت کے حامل پودوں والی اقسام کاشت کریں ۔
؎لہسن کی برداشت کے بعد فصل کے باقیات کو مکمل طور پر تلف کریں کیونکہ ان کا پھپھوندانہی باقیامت میں رہتا ہے ۔
؎جڑی بوٹیوں کی تلفی کو یقینی بنائیں اور اگر حملہ مسلسل کئی سال ہو رہا ہو تو فصلوں کا 3 سال تک ہیر پھیر کریں ۔
؎لہسن کی فصل کو کھلی لائینوں میں کاشت کریں تاکہ ان میں ہوا کا گذر آسانی سے ہوسکے اور نمی کی مقدار کم ہو جائے تاکہ بیماری کا حملہ کم ہو ۔
؎جب فصل 45 سے 60 دن کی ہوتو ڈولومائیٹ 58 ڈبلیوپی 250 گرام فی ایکڑ یا شیلٹر 80 ڈبلیو پی 600 گرام فی ایکڑ کے حساب سے اسپرے کریں ۔
؎اس کے بعد دوسرے مرحلے میں جب پیاز کی فصل 60 سے 75 دن کی ہوتو ڈیزومل پلاٹینم 72 ڈبلیوبی 250 سے 300 گرام فی ایکڑ یا ہیلونل 75 ڈبلیوپی 200 گرام فی ایکڑ یا سکسیس 72 ڈبلیوپی 400 تا 500 گرام فی ایکڑ کے حساب سے اسپرے کریں ۔
(Downy Mildew۔ روئیں دار پھپھوندی (2
 نامی پھپھوندی سے پھیلتی ہے ۔ٹھنڈے اور برسات کے Peronospora destructor یہ بیماری
موسم میں اس کا حملہ زیادہ ہوتا ہے۔ سازگار حالات  ہوں تو یہ بیمار یلہسن کی فصل کو بہت تیزی سے تباہ و کر سکتی ہے ہوا میں نمی کی موجودگی اور 22 ڈگری سینٹی گریڈ سے کم درجہ حرارت اس بیماری کے لئے موافق حالات ہیں ۔لہسن کی کوالٹی کو بہت خراب کرتی ہے ۔اگر موسم خشک ہوجائے تو اس کا حملہ کم ہوجاتا ہے۔
علامات ۔
؎ پتوں کے اوپر والے آدھے حصے میں پیلے رنگ کے دھبے نظر آتے ہیں ۔اور زیادہ حملے کی صورت میں یہی آدھا حصہ نیچے کی طرف مڑجاتا ہے۔
؎جب پتوں پر شبنم پڑی ہوتو یہ سر مئی رنگ کے دھبے کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں جہاں پھپھوندی کی دھاگہ نما  ساختیں واضح نظر آتی ہیں۔
؎پرانے پتوں پر اس بیماری کا حملہ زیادہ ہوتا ہے ۔
؎ یہ بیماری ہوا کے زریعے بیمار پودوں سے صحت مند پودوں میں منتقل ہوتی ہے ۔
؎اس بیماری کے اسپور رات کے وقت پیدا ہوتے ہیں اور دن کے وقت دوسرے پودوں پر پھیلتے ہیں ۔
؎اس بیماری کے اسپور عموماً تین دن تک ذندہ رہتے ہیں ۔
؎9 سے 12 دنوں میں اس بیماری کی علامت پودوں پر نظر آجاتی ہیں ۔

انسداد
؎جس کھیت میں بیماری کا حملہ مسلسل ہورہا ہوتو وہاں اگلے سال پیاز کی فصل کاشت نہ کریں بلکہ تین سال تک فصلوں کا مناسب ہیر پھیر کریں ۔
؎کم بیماریوں کا شکار ہونے والے اور بہتر پیداواری صلاحیت کے حامل پودوں والی اقسام کاشت کریں ۔
؎لہسن کی فصل کو کھلی لائینوں میں کاشت کریں تاکہ ان میں ہوا کا گذر آسانی سے ہو سکے اور نمی کی مقدار کم ہو جائے تاکہ بیماری کا حملہ کم ہو ۔
جڑی بوٹیوں کی تلفی کو یقینی بنائیں اور فصل کو مناسب پانی دیں ۔
؎بیماریوں سے پاک صاف سُتھرا اور صحت مند بیج کاشت کریں ۔
؎نائٹر جن والی کھادوں کا مناسب استعمال کریں ۔
؎لہسن کی برداشت کےک بعد فصل کے باقیات کو مکمل طور پر تلف کریں ۔
؎جب فصل 45 سے 60 دن کی ہو تو ڈولو مائیٹ 58 ڈبلیو پی 250 گرام فی ایکڑ یا سا ئی می چنگ 70 ڈبلیو پی 500 تا 600 گرام فی ایکڑ کے حساب سے اسپرے کریں ۔
؎اس کے بعد دوسرے مرحلے میں جب پیاز کی فصل 60 سے 75 دن کی ہوتو ڈیزومل پلاٹینم 72 ڈبلیو پی 250 سے 300 گرام فی ایکڑ یا کلپر 50 ڈبلیوپی 500 گرام فی ایکڑ یا سکسیس 72 ڈبلیو پی 400 تا 500 گرام فی ایکڑ کے حساب سے اسپرے کریں ۔
3۔ بھبھکا یا بلاسٹ  
 نامی پھپھوندی سے Botrytis Squamosa یہ بھی لہسن کی ایک اہم ترین بیماری ہے ۔یہ بیماری
پھیلتی ہے ۔یہ پھپھوندی متاثرہ پودوں سے پھیلتی ہے اس پھپھوندی کے جراثیم زمین میں پائے جاتے ہیں ۔اس پھپھوندی کے سپورز زمین میں لمبے عرصے تک موجود رہتے ہیں اگر حالات اس کے مواقف ہوں تو یہ بیماری لہسن کی فصل کو بہت تیزی سے تباہ و کرسکتی ہے ہوا میں نمی کی موجودگی اس بیماری کو پھیلنے کیلئے ساز گار ماحول پیدا کرتی ہے ۔
علامات
؎ پتوں پر سفید رنگ کے دھبے نظر آتے ہیں اور ان دھبوں کے ارد گرد بہت واضح ہلکے سبز رنگ کے دائرے ہوتے ہیں ۔
؎پتوں پر یہ دھبے اوپر سے نیچے کی طرف  آتے ہیں اور حملے کی شدت کی وجہ سے چند دنوں مین پورا پتا سوکھ جاتا ہے ۔
؎اگر بیماری کی علامات ظاہر ہونے کے بعد مطلع صاف رہے تو اس کا حملہ شدت اختیار کر جاتا ہے ۔اگر موسم ابر آلود ہوتو پودوں پر حملہ آگے کم ہوجاتا ہے ۔
؎متاثرہ پتے بعد میں زردی مائل ہوجاتے ہیں اور جلد گر جاتے ہیں ۔
انسداد
؎جڑی بوٹیوں کو تلف کریں اور مناسب مقدار میں فصل کو پانی لگائیں ،زیادہ پانی دینے سے گریز کریں ۔
؎جب فصل مین کو نمپلیں اوپر سے سُوکھنی شروع ہوں تو نائٹرو جن والی کھاد کھیت مین ضرورڈالیں اور فصل کی آبپاشی کریں ۔
؎کم بیماریوں کا شکار ہونے والے اور بہتر پیداواری صلاحیت کے حامل پودوں والی اقسام کاشت کریں ۔
؎بیماریوں سے پاک صاف سُتھرا اور صحت مند بیج کاشت کریں ۔
؎لہسن کی فصل کو کھلی لائینوں میں کاشت کریں تاکہ ان میں ہوا کا گذر آسانی سے ہو سکے اور نمی کی مقدار کم ہو جائے تاکہ بیماری کا حملہ کم ہو ۔
؎ہیلو نل  75 ڈبلیو پی 200 سے 250 گرام  فی ایکڑ حفاظتی اسپرے کریں ۔
؎بیماری کے حملہ کی صورت میں تھائیومل یا تھائیو فینیٹ میتھائیل70 ڈبلیو پی 500 گرام فی ایکڑ کے حساب سے اسپرے کریں ۔
؎لہسن کی برداشت کے بعد فصل کے باقیات کو مکمل طور پر تلف کریں ۔
لہسن کی اچھی پیداوار کیلئے فصل کو جڑی بوٹیوں اور بیماریوں سے بچائیں! محکمہ زراعت پنجاب
محکمہ زراعت پنجاب راولپنڈی کے ترجمان کے مطابق گذشتہ سال 2014-15 کے دوران 7729 ایکڑ رقبہ لہسن کے زیر کاشت لایا گیا جس سے 25079 ٹن پیداوار حاصل ہوئی۔ سال 2015-16 کے دوران لہسن کا پیداواری رقبہ 8000 ایکڑ مقرر کیا گیا ہے جس سے 26300 ٹن پیداوار متوقع ہے۔ ترجمان کے مطابق لہسن کی اچھی پیداوار کیلئے فصل کو جڑی بوٹیوں اور بیماریوں سے بچانا ضروری ہے۔ لہسن کی فصل کو زیادہ نقصان چوڑے پتوں والی جڑی بوٹیاں پہنچاتی ہیں جن کا تدارک نہایت ضروری ہے۔ جڑی بوٹیوں کو بذریعہ گوڈی بھی تلف کیا جاسکتا ہے لیکن اگر لہسن کی فصل کے گھٹے پورے سائز کے ہوجائیں تو پھر گوڈی سے پرہیز کرنا چاہیے ۔ لہسن کی فصل پر مختلف بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں جن میں زیادہ مشہور لہسن کے پتوں کی چوٹی کا سفید جھلساؤ، لہسن کے پتوں اور تنوں کا گلاؤ، ارغوانی جھلساؤ، روئیں دار پھپھوندی، لہسن کی کنگھی اور تھرپس وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ترجمان نے لہسن کے کاشتکاروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ فصل کا باقاعدگی سے معائنہ کرتے رہیں اور اگر کسی بیماری کا حملہ نظر آئے تو فوراً محکمہ زراعت کے مقامی عملہ سے مشورہ کرکے مناسب تدارک کریں۔
لہسن اور کدو کی کاشت بڑھائی جائے

لہسن
لہسن کی کاشت کے لیئے زمین بہت اچهی طرح تیار کریں گہرا ہل چلائیں
گوبر کی کهاد بهی ڈالیں
مگر اس کے دو نقصانات ہیں ایک تو جڑی بوٹیاں زیادہ اگتی ہیں اور دوسرا دیمک لگنے کا خدشہ هوتا ہے
زمین کو پانچ مرلہ کی کیاریوں میں تقسیم کر لیں تو زیادہ مناسب ہے
وقت کاشت اخیر ستمبر سے اکتوبر تک اچها ٹائم ہے کاشت کے لیے
کهاد. زمین کی تیاری میں چار بوری سنگل سپر فاسفیٹ دو بوری امونیم نائٹریٹ اور ایک بوری پوٹاش
یہ محکمہ زراعت کی سفارش ہے مگر آپ اپنی زمین اور تجربے کے مطابق تبدیلی کر لیں.
دسمبر اور جنوری میں بهی امونیم نائٹریٹ استعمال کریں
اور اگر ایس او پی فلڈ کریں تو اچها رزلٹ آتا ہے.
شرح بیج.
لہسن کی تریاں 200 سے 250 کلو گرام فی ایکڑ استعمال کریں
اگر چائنیز لہسن کاشت کریں تو شرح بیج بہت زیادہ هو گا
ویسے دیسی لہسن کی ڈیمانڈ زیادہ ہے.
دیسی میں دو اقسام ہیں
ایک گلابی
دوسری جی ایس ون یہ سفید رنگ کا هوتا ہے دیسی لہسن کی پیداوار 4 سے 5 ٹن هو سکتی ہے
چائنیز کی اس سے دو گنا
طریقہ کاشت
بجائی قطاروں میں کریں
قطار سے قطار کا فاصلہ 15 سے 20 سینٹی میٹر
پودے کا پودے سے فاصلہ 8سے 7 سینٹی میٹر
پوتهی کو زمین میں اس طرح لگائیں کہ جڑ والا حصہ زمین کے اندر اور نوک والاحصہ زمین کے باہر نظر آئے
کاشت کهیلیوں پر بهی هو سکتی ہے
میرا تجربہ ہے کہ کهیلیوں کے علاوہ کاشت سے پیداوار زیادہ آتی ہے بیج لگانے کے فوری بعد پانی لگا دیں
جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لیئے دو طریقہ کار مباسب ہیں
ایک تو گوڈی جس جڑی بوٹیاں بهی تلف هوتی ہیں اور زمین بهی نرم رہتی ہے جس سے لہسن موٹا هوتا ہے
دوسرا طریقہ اگرچہ لہسن کی کاشت کے حوالے سے پاکستان میں زیادہ مروجہ نہیں مگر دنیا کے بیشتر ممالک میں یہ ہی طریقہ اختیار کیا جاتا ہے یعنی ملچنگ
اس کے لیئے اگرچہ پولیتهین شیٹ مارکیٹ میں دستیاب ہے مگر یہ مہنگا طریقہ ہے
اس ضمن میں چاول کی پرالی بہتریں آپشن ہے
ایک ٹوٹکا. دیہات میں اکثر میں نے دیکها ہے کہ لوگ لکڑی کی راکهه لہسن پر چهٹا کرتے ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ اسطرح لہسن زیادہ موٹا هوتا ہے
تهوڑی سی تحقیق کی تو معلوم هوا کہ لکڑی کی راکهه میں پوٹاش موجود هوتی ہے انجانے میں ہی سہی بہرحال یہ ایک کامیاب ٹوٹکا ہے
بیماریاں
لہسن کے پتوں کا جهلساو
لہسن کے پتوں اور تنوں کا گلاو
چوٹی کا سفید جهلساو
بیماری کی حالت میں پانی کم لگائیں کسی اچهی پهپهوندی کش اسپرے کا استعمال کریں
میں نے اس سلسلے میں ریڈومل گولڈ کو بہترین پایا اور کبهی کبهار اس میں ٹاپسن ایم بهی شامل کر کے استعمال کرتا رہا هوں.
تهرپس کا حملہ بهی هوتا ہے اس کا بهی خیال رکهیں.
مارکیٹنگ
میرے خیال میں یہ ایک منافع بخش سبزی یا مصالحہ ہے پچهلے سال دیسی لہسن کا ریٹ 80 سے 100روپے منڈی میں رها
لہسن کو مارکیٹ کرتے وقت یہ خیال رکهیں کہ کبهی بهی سارا لہسن ایک بار ہی منڈی میں نہ بهیجیں اور منڈی کے حجم کا بهی خیال رکهیں....


MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget