اپریل 2019

زمین کی قدرتی زرخیزی و ساخت ، علاقہ و وقتِ کاشت، اقسام کی نوعیت، سابقہ فصل کی نوعیت ، طریقہ کاشت، تعداد و ذریعہ آبپاشی اور جڑی بوٹیوں کی نوعیت و مقدار جیسے امور کی تغیرات کی مناسبت سے کھادوں کی مقدار میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ کمزور ر یتلی میرازمین میںیا بہاریہ سورج مکھی کے بعد کاشتہ کپاس کو زیادہ کھاد ڈالی جائے لیکن ور۔ یال زمین ، آلو یا بہاریہ مکئی کے بعد کاشتہ فصل کو حسبِ ضرورت کم کھاد ڈالی جائے۔ اگر صحت مند زمین میں وافر مقدار میں موزوں پانی کا انتظام ہو توکھادوں کی مقدارقدرے کم استعمال کی جائے۔ کپاس کو نائٹروجن، پوٹاش، این پی کے زنک اور بوران ڈالنے سے بھر پور پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بیشتر فاسفورس کھاد بجائی کے وقت زمین میں ڈال دی جائے ۔ اگر بجائی کے وقت نہ ڈالی جاسکی ہو تو پہلے ڈیڑھ ماہ کے اندر اندر ڈالی جاسکتی ہے۔ کھادیں استعمال کرنے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

الف - پودے کے مزاج کے مطابق کھادڈالی جائے:
کھاد دڈالنے میں پودے کے مزاج اور نشوونما ئی رویے (Growth behavior) کو پیش نظر رکھنا ضروری ہوتاہے۔ اسی لئے نشوونما ئی مرائل کی مناسبت سے کھادیں ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ مئی جون میں کاشتہ کپاس کا اگاؤ عام طورپر 5تا7 دنوں میں مکمل ہوجاتاہے۔لیکن مارچ کاشتہ کپاس میں اگنے کا عمل دو ہفتے تک جاری رہتا ہے ۔کاشت کے بعد 25تا35 دنوں کے درمیان گڈی (Squiring) کا مرحلہ آتاہے۔ لیکن مارچ کاشتہ کپاس میں یہ عمل 6سے7 ہفتے بعد شروع ہوتاہے۔ انتدائی پھول 55 تا65 دنوں کے دوران کھل جاتے ہیں۔ لیکن مارچ کاشتہ کپاس میں ا بتد ائی پھل کاشت کے 80 تا90 دن بعد کھلتے ہیں۔ اقسام کی مناسبت سے 90 تا105 دنوں کے دوران پہلے ٹینڈے کھلنے لگتے ہیں۔ لیکن مارچ کاشتہ کپاس میں ابتدائی ٹینڈے کھلنے کا عمل 120 دن بعد شروع ہوتاہے۔ 135تا140 دنوں میں کپاس کی پہلی چنائی کی جاسکتی ہے۔ کپاس کی نشوونمائی مراحل کو مندرجہ ذیل تین مراحل میں تقسیم کیا جاسکتاہے:

1 ابتدائی مرحلہ:
کپاس کا پودا اپنی پیداواری صلاحیت کا فیصلہ اگنے کے بعد 3تا4 ہفتے کے دوران جبکہ مارچ کاشت کی صورت میں 5 تا 6 ہفتے میں کرلیتاہے۔ لہذا اس عرصہ کے دوران خوراک اور پانی کی کمی نہیں ہونی چاہئے۔ رس چوسنے والے کیڑوں کے حملے سے بچانا بھی ضروری ہے۔

2 درمیانی مر حلہ:
یہ مرحلہ پھول ظاہر ہونے سے لے کر ابتدائی ٹینڈے کھلنے سے پہلے تک ہوتا ہے۔ یہ مرحلہ 55 سے 90 دنوں پر محیط ہو سکتاہے۔ مارچ کاشتہ کپاس میں یہ مر حلہ 100 دنوں کے بعد شروع ہوتاہے۔ اس عرصے کے دوران کھاد،پانی اور کیڑے مار زہروں کی کمی نہ آنے دی جائے۔

3 آخر ی مرحلہ:
یہ مرحلہ پہلے ٹینڈے کھلنے سے لے کر آخری چنائی تک محیط ہوتاہے۔ اس عرصہ کے دوران نائٹروجن کی آخری قسط پانی کے ساتھ ملا کر دی جائے۔ پانی کی قلت اور کیڑے کا شدید حملہ متاثر کرتاہے۔ اگر کسی بھی مرحلہ پر یکبارگی اکیلی نائٹروجنی کھاد زیادہ مقدار میں ڈال دی جائے تو کپاس کا پودا نباتاتی بڑھوتری کرنے لگتاہے۔ پھول اور ٹینڈے کی طرف اس کا رجحان کم ہوجاتاہے۔ اگر پھول آور ی کے ساتھ تھوڑی تھوڑی کر کے نائٹروجن ڈالی جائے تو درمیانی بڑھوتری کے ساتھ ساتھ پھل آوری کا عمل بھی جاری رکھتاہے۔ اس لئے بجائی کے وقت ڈی اے پی یا اس کے متبادل صورت میں فاسفورسی کھاد ڈالی جائے۔ ابتدائی پھول ظاہر ہونے سے پہلے اسے کھبی بھی زیادہ مقدار میں نائٹروجن نہ ڈالی جائے۔ ا بتد ائی پھول ظاہر ہونے کے مرحلے سے لے کر ابتدائی ٹینڈے کھلنے تک نائٹروجن تھوڑی تھوڑی کر کے ڈالی جائے ۔

ب - کپاس کی اصل خوراکی ضرورت کتنی ہے:
ایک اندازے کے مطابق ایک ٹن کپاس پیداکرنے کے لئے یہ فصل 36 کلو نائٹروجن ، 12 کلو فاسفورس اور 20 کلو پوٹاش حاصل کرتی ہے۔ جس سے اندازہ ہوتاہے کہ کپاس کی بہتر پیداوار کے لئے دیگر کھادوں کے مقابلے میں نا۔ ئٹروجن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ جتنی خوراک زمین میں موجود ہوتی ہے یا اضافی طور پر ڈالی جاتی ہے۔ زمینی مسائل اور دیگر وجوہات کی بنا پر وہ ساری فصل کو نہیں ملتی۔ اس لئے کھاد کی مقدار ہمیشہ مزکورہ مقدار کے مقابلے میں زیادہ میں ڈالی جاتی ہے۔

ج - کتنی کھاد ڈالی جائے:
معتدل حالات میں کپاس کے لئے مزکورہ بالا عوامل کی مناسبت سے نائٹروجن ، فاسفورس اور پوٹاش کو مقدار کم ازکم 25-23-46 اور زیادہ سے زیادہ 25-35-60 کلو گرام فی ایکڑ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ زیادہ سے زیا۔ دہ مقدار کی حد مقر ر نہیں کی جاسکتی۔ فر وری کاشتہ کپاس سے مثالی پیداوار حاصل کرنے کے لئے مزکورہ سفارشات کے مقابلے میں دو تا تین گنا زیادہ کھاد بھی ڈالی جاسکتی ہے ۔ کم دورایے والی اقسام کو اگر ایک تا دو بوری یو ریا ، ایک ڈی اے پی اور ایک ایس او پی جبکہ طویل دورایے والی اقسام کو دوتا تین بوری یوریا، ڈیڑھ بوری ڈی اے پی اور ایک ایس او پی یاان کے متبادل کھادیں ڈالی جائیں۔ تو بھر پور پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔

کھاد کب ڈالی جائے؟
گندم کے بعد ڈرل سے کاشتہ کپاس کو ایک تہائی نائٹروجن ، نصف فاسفورس اور ایک تہائی پوٹا ش بوقتِ کاشت ( لا۔ ئنوں کے ساتھ) ڈالی جائے۔ کپاس خو اہ ڈرل سے کاشت کی گئی ہو یا پٹٹریوں پر دونوں صورتوں میں بقیہ ایک تہائی نائٹروجن ، نصف فاسفورس اور ایک تہائی پوٹاش کاشت کرنے کے بعد 40تا60 دن کے اندر اندر یعنی پھول گڈی ظاہر ہونے پر ڈالی جائے۔ بقیہ ایک تہائی نائٹروجن اور پوٹاش بھر پور ٹینڈے بننے کے دوران ڈالی جائے ۔ تو زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ گویا مئی کے آخر تک کاشتہ کپاس کو سارہ کھاد 15 اگست سے پہلے پہلے ڈال دی جائے ۔

س - نائٹروجن کی افادیت بڑھانا:
کپاس کو ایسی کھاد ڈالی جائے جس سے پودوں کو آہستہ آہستہ لیکن زیادہ عرصہ کے لئے نائٹروجن ملتی ہے۔ اس مقصد کے لئے کیلشیم امونیم نائٹریٹ کو ترجیح دی جائے۔ اس کھاد کو نائٹروجن ملے ترمیم شدہ سلفیورک ایسڈ ( مثلاً دی سی ۔ 10 یا یو لیس۔20) کے ساتھ ملا کر فر ٹیگیشن کے طریقے سے استعمال کیا جائے۔ اس طریقے سے کھاد ڈالی جائے تو کلر اٹھی زمین سے بھی بہتر پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔

ص - چھوٹے خوراکی اجزا:
جد ید تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ عناصر صغیرہ میں سے بوران اور زنگ ڈالنے سے کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہوتاہے زنگ جڑوں کی افزائش کرکے پانی کی کمی برداشت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کرتی ہے۔ بوران کپاس میں کچے ٹینڈے گرنے کا عمل کافی حدتک روکنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر کاشت کے وقت پانچ کلو20 فیصد طاقت والا زنک سلفیٹ اور ساڑھے تین کلوگرام تجارتی بورک ایسڈ دیگر کھادوں کے ساتھ ملاکر ڈال دیاجائے تو ان عناصر کی کمی پوری ہو جاتی ہے۔ زنک او ر بوران اگربجائی کے وقت نہ ڈالی جاسکی ہو تو کاشت کے 60,45 اور90 دن بعد 2 گرام زنک سلفیٹ اور ایک گرام بورک ایسڈ ا فی لٹر پانی میں ملاکر سپرے بھی کی جاسکتی ہیں۔

 ط - نیم گرم کھادوں کا استعمال :
تدریجاً دستیاب ہونے والی نیم گرم (Chillated) کھادیں استعمال کرنے سے بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ کلر اٹھی زمینوں میں عام کھادوں کی دستیابی کے مسائل ہوتے ہیں۔ نیم گرفتہ کھادوں کی کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ اس میں خوراکی عناصر کی بہتر دستیابی کے لیے EDTA یا EDTA یا نامیاتی مرکبات کو بطور نیم گرفتہ کار (Chillating agent) استعمال کیا جاتاہے۔

ع - جدید کھادوں کا استعمال:
پانی میں حل پذیر کھادیں (Water solube NPK) استعمال کی جائیں تو ڈی اے پی اور پوٹاش جیسی مہنگی کھادوں کے اخراجات میں پچاس فیصد تک کمی کی جاسکتی ہے اگر پھول آوری کے دوران فصل کا رنگ ہلکا سبز ہو تو اس پر NPK (45:15:05) ایک کلو گرام فی ایکڑ کے حساب سے 100 لٹر پانی میں ملاکر سپرے کی جاسکتی ہے ۔ کیڑے مار زہریں فولیر کھادوں کے ساتھ ملاکر استعمال کی جاسکتی ہیں۔

ق - تجزیہ اراضی اور کھاد کی مقدار:
اگر زمین میں نامیاتی مادہ0.86 سے1.29 کے درمیان ہو تو نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ فاسفورس کی مقدار 15 سے21 پی پی ایم کے درمیان ہوتو درمیانی مقدار ڈالی جا سکتی ہے۔ اس سے کم ہوتو زیادہ فاسفورس کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح پوٹاش کی درمیانی حد 80 سے 180 پی پی ایم کے درمیان ہوتو درمیانی مقدار ڈالی جائے۔ اس سے زیادہ ہو تو نہ ڈالی جائے۔

کپاس کے لئے کیسی زمین بہتر ہے؟
کپاس میراو بھاری میرا زمین میں بہتر پیداوار دیتی ہے۔ چکنی اور سخت زمینوں میں کپاس کی جڑیں زیادہ گہرائی تک نہیں جاسکتیں جس کے نتیجے میں کپاس کے پودے چوٹے رہ جاتے ہیں اور مجموعی طور پر کم پیداوار حاصل ہوتی ہے۔ ریتلی اور کمزور زمینوں میں کپاس ہوجاتی ہے۔ لیکن اس کی بھر پور پیداوار حاصل نہیں کی جاسکتی ۔ کلر اٹھی وسیم زدہ اور سخت اندورنی تہہ (Hard pan) والی زمین میں اس کی پیداوار بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ سخت تہہ والی زمینوں میں ہر تین سال بعد گہراہل چلایا جائے تو کپاس کی جڑیں زیادہ گہرائی تک جاسکتی ہیں۔

کس حد تک زمین تیار کی جائے؟
زمین کو ہموار اور باریک کر کے کپاس کاشت کی جائے تو بہتر اگاؤ دستیاب ہوتا ہے کپاس کی موٹی جڑ (Taproot) کے گہرائی تک جانے کے لئے گہرائی تک زمین کاشت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ جہاں زمین کم گہرائی تک تیار کی جاتی ہے وہاں کپاس گرنے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔ یکساں اگاؤ کے لئے زمینی ہمواری اور باریک تیاری بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔چنا نچہ لیزسے ہموار کردہ زمینوں میں اگر دوہری رونی کرکے ڈرل سے کاشت کی جائے تو کپاس کا اگاؤ بہتر ہوتاہے۔ میرا ور ہلکی زمینوں میں سنگل رونی یا بارش کے وتر میں ڈرل کی جائے تو اس کا اگاؤ کم ہوتاہے۔ پٹٹریوں میں کاشت کی صورت میں بھی لیزر لیو لنگ کی سفارش کی جاتی ہے۔ اچھی طرح خشک کی گئی زمین میں پٹٹریوں یاکھیلیوں پرکاشت کی جائے تو ا س کا اگاؤ بہتر ہوتاہے۔

کلر اٹھی زمین پر کاشت:
اگرچہ کپاس صحت مند اور کلر تھور سے بچی ہوئی زمین میں بہتر پیداوار دیتی ہے۔ تھور سے متاثرہ زمین میں کپاس اچھی نہیں ہوتی لیکن پنجاب میں کپاس کے خطے (Cotton zone) میں لاکھوں ایکڑ زمین تھور سے متاثرہ ہے اور ہر سال مجبوراً ایسے علاقوں میں بھی کاشت کی جاتی ہے۔ ایسی زمینوں میں کپاس کی بہتر پیداوار حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں:

  1. ڈرل سے کاشت کے بجائے پٹٹریوں یا کھیلیوں پر کاشت کا طریقہ اختیار کیاجائے۔
  2. چوکے لگانے کے دوران ہر سوراخ میں تین چار بیج کاشت کرکے مناسب اگاؤ حاصل کیاجائے۔ پودے سنبھل جانے کے (کاشت کے تین ہفتے) ہر چگہ ایک یا دودو پودے چھوڑ کر فالتو پودے نکال دیے جائیں۔
  3. ایسی ز مینوں میں زیادہ کھادیں استعمال کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ کھادوں کا استعمال تین یا زیادہ مرتبہ قسط وار (Split) کرکے کیاجائے۔
  4. خراب زمین میں تھور برداشت کرنے والی سخت جان قسم مثلاً ایم این ایچ 886 اور الیف ایچ 113 کاشت کی جاسکتی ہیں۔
  5. ایسی زمینوں کے سوراخ (Pore spaces) بند ہوتے ہیں اس لئے پانی جلدی جذب کرتیں۔ زمینی سورا۔ خوں کو کھولنے اور ہواداری (Aeration) کا انتظام بہتر کرنے کے لئے اصلاحی مرکبات استعمال کئے جائیں۔
  6. اس مقصد کے لئے یوایس 20 یا فونڈیشن پنس یا ان کے متنادل اصلاحی مرکبات کاشت کے وقت یا پھول آوری سے پہلے پہلے کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے۔
  7. کاشت سے تین ہفتے پہلے سبز کھاد والی فصل زمین میں دبائی جائے تو جڑوں کی ہواداری کا نظام بہتر ہوجاتا ہے۔
  8. کھالیوں میں جپسم اور گوبر کی کھاد ڈال کر تھور کے مضر اثرات سے بچ کر کپاس کی کامیاب کاشت کی جاسکتی ہے۔
  9. ٹیوب ویل کے کم موزوں یاناموزوں کے پانی کے ساتھ بہری پانی کابندوبست کیاجائے۔ کلر اٹھی زمینوں میں فالتو پانی سے شدید نقصان ہوسکتاہے۔ اس لئے فالتو پانی کے نکاس کا جلد از جلد انتظام کیاجائے۔


دو عشرے قبل بیشتر کپاس ڈرل سے کاشت کی جاتی تھی حالیہ سالوں کے دوران 60 فیصدسے زیادہ رقبے پر پٹٹریوں کے کناروں پر چوکے سے کاشت کی جانے لگی ہے۔ مختلف صورتحال میں کپاس مندرجہ ذیل طریقوں سے کاشت کر۔ نے کی سفارش کی جاتی ہے:

الف - ڈرل سے کاشت:
گندم کے بعد کاشت کی صورت میں کپاس کی زیادہ تر کاشت بذریعہ ڈرل ہی کی جاتی ہے اور فصل بڑی ہونے پر کھیلیاں بنادی جاتی ہیں۔ امریکن اقسام کے پودوں کا باہمی فاصلہ 9-6 انچ اور دیسی کا 12-9 انچ رکھا جائے۔ لائنوں کا فاصلہ دونوں میں 2.5 فٹ برقرار رکھا جائے ۔ کسی بھی طریقہ کاشت کا انتخاب اپنے مخصوص زمینی اور زرعی حالات کے تناظر میں کیا جائے۔ اگر ڈرل کے ساتھ پریس ویل (Press wheel) موجود نہ ہو تو سطح کو خشک ہونے سے بچانے کے لئے کو فوراً بعد ہلکا سہاگہ دینا بہت ضروری ہوتا ہے بہر کیف چھدرائی کا عمل کاشت کے بعد ایک ماہ کے اندر اندر مکمل کرلیاجائے۔ اگر ڈرل سے کاشتہ کپاس کے اگاؤ کے دوران بارش کے نتیجے میں کرنڈ ہونے سے زیادہ نقصان ہوجائے تو ناغے پُر کرنے کے بجائے دوبارہ کاشت کو ترجیح دی جائے ۔ کرنڈ کے سواکسی اور وجہ سے ناغے رہ جائیں تو جلد از جلد (ایک ہفتہ کے اندر اندر) پُر کئے جائیں۔ ہر ناغے میں 4تا5 بیج بوئے جائیں۔ اگاؤ مکمل ہونے کے بعد ان کی بھی چھدرائی کی جائے۔

ب - پٹٹریوں یا کھیلیوں پر کاشت:
دوسرا طریقہ یہ ہے کہ کپاس پٹٹریوں کے کناروں پر چوکے سے کاشت کی جائے۔ پودوں کی یکساں تعداد حاصل کرنے کے لئے پٹٹریوں یا کھیلیوں کے کناروں پر کاشت کا طریقہ اختیار کیاجاسکتا ہے۔ اگر زرعی مزدوروں کی دستیابی ہوتو پٹٹریوں یا کھیلیوں کا طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔ اگر زمین لیزر سے ہموار شدہ ہوتو پٹٹریاں بنانے کے بعد لیکن پانی لگانے سے پہلے چوکے لگائے جائیں۔ اگر زمین نا ہموار ہو تو پانی لگانے کے فوراً بعد پانی سطح سے ایک انچ اوپر چوکے لگائے جائیں۔ پانی لگانے کے بعد چوکے لگانے میں تاخیر نہ کی جائے۔ اگر بیج کا اگاؤ معلوم نہ ہوتو پودوں کی پوری تعداد کو یقینی بنانے کے لئے کاشت کے دوران ہر جگہ دو تین بیج لگائے جائیں۔ اگاؤ مکمل ہونے کے بعد چھدرائی کرکے ہرجگہ ایک ایک پودا کردیا جائے۔ لیکن صحت مند زمین سو فیصد اگاؤ والا (Sinker) بیج ہر چوکے میں ایک ایک بیج لگانا جاہئے۔ اگر زہر کے اثر یا پانی چڑھ جانے کی وجہ سے ناغے رہ جائیں تو جلد از جلد (ایک ہفتے کے اندراندر ) پُر کئے جائیں۔ تاخیر سے لگائے گئے ناغے والے پودے غیر پیداواری رہ جاتے ہیں۔
پٹٹریوں پر کاشت کے فوائد اور نقصان
  • پٹٹریوں پر کاشت کی صورت میں بارش سے کرنڈ وغیرہ کاخطرہ 90 فیصد تک کم ہوجاتاہے۔ فصل دوبارہ کاشت کرنے کی زحمت نہیں کرنی پڑتی ۔ بھر پور اگاؤ کی وجہ سے فصل کی ابتدائی نشوونما بہتر ہوتی ہے فصل کو مضبوط بنیاد ملتی ہے۔
  • مناسب فاصلے پر چوکے لگانے کی وجہ سے پودوں کی مطلوبہ تعداد دستیاب ہوجاتی ہے۔ چورائی کرکے فاصلہ متعین کرنے میں سہولت رہتی ہے۔
  • زیادہ بارشیں ہوجائے تو کھیت سے فالتوپانی آسانی سے باہر نکالا جاسکتاہے۔ 50 فیصد تک بیج کی بچت ہو جاتی ہے۔
  • جگہ نرم ہونے کی وجہ سے جڑوں کی نشوونما بہتر ہونے کی وجہ سے پانی کی کمی پیشی برداشت کرسکتی ہے کپاس جلدی تیار ہوجاتی ہے۔
  • اس طریقے سے کلر اٹھی زمینوں میں بھی کپاس کافی حد تک کامیابی سے اگائی جا سکتی ہے۔ گویا ہر قسم کی زمینوں میں بہتر اگاؤ ممکن ہوتاہے۔
  • کھالیوں میں مناسب نمی موجود ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹی مار زہروں سے بہتر طور پر فائدہ اٹھایا جاسکتاہے۔ زہروں کا محفوظ استعمال ممکن ہو جاتاہے۔
  • بیشتر حالا ت میں بٹٹریوں پر کاشتہ کپاس کی مجموعی پیداوار ڈرل سے کاشت کے مقابلے میں زیادہ حاصل ہوتی ہے۔
  • اس طریقے میں مجموعی طورپر زیادہ مرتبہ پانی لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈرل سے کاشت کی صورت میں کم پانی سے فصل اگائی جاسکتی ہے۔
  • پیداوار معیاری اور زیادہ مقدار میں حاصل ہوتی ہے۔
  •  اس طریقے سے کاشتہ کپاس کا ایک منفی پہلو بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جڑی بوٹیوں کا حملہ زیادہ شدید ہوتاہے اور ان کی تلفی کا عمل مشکل ہوتا ہے۔ جبکہ ڈرل سے کاشت کی صورت میں خشک گوڈی کرنے اور قطاروں کے درمیان میں ٹریکڑ چلانا آنسان ہوتاہے۔

ج - ٹنل میں کاشت:
ٹنل میں خر بوز اور تربوز کے ساتھ بھی کپاس کاشت کی جاسکتی ہے۔ اس کا طریقہ یہ ہے کہ نومبر یا دسمبر میں خربوزہ و تربوز کاشت کیا جائے اور جنوری کے آخر یا فروری کے شروع میں شیٹ اتارنے سے پہلے ہی کپاس بھی کاشت کردی جائے۔ کپاس کا اگاؤ مکمل ہونے کے بعد شیٹ اتاردی جائے ۔ اتنی اگیتی فصل کی پچاس فیصد سے زیادہ پیداوار مونسون کی بارشیں شروع ہونے سے پہلے ہی حاصل ہوجاتی ہے۔
د - کپاس میں مخلوط کاشت:
فروری مارچ کاشتہ کپاس میں کئی فصلیں کامیابی کے ساتھ اگائی جاسکتی ہیں۔ ان میں مونگ، پیاز، دھنیا، ٹینڈا اور ٹماٹر کاشت کیے جاسکتے ہیں۔
1 کپاس پلس مونگ:
گندم کاٹنے کے فوراً بعد تین تین فٹ کے فاصلے پر کپاس کی ایک قطار اور ہر دو قطاروں کے درمیان میں مونگ کی ایک یا دو قطاریں ڈرل کی مدد سے کاشت کی جاسکتی ہیں۔ جولائی میں مونگ کی فصل تیار ہو جاتی ہے۔ مونگی کو جلد از جلد ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ کھیت کو کم سے کم پانی لگایا جائے۔ مونگ کاٹنے کے بعد کپاس کی قطاروں کے درمیان میں ہل چلا کر مٹی چڑھادی جائے تو کپاس کی فصل بھی کامیاب ہوجاتی ہے۔ یہ طریقہ بڑے پیمانے پر کا شت کے لئے بھی اختیار کیاجاسکتاہے۔
2 کپاس پلس ٹینڈے:
مارچ کے شروع میں تین تین فٹ چوڑی پٹٹریوں کے ایک کنارے پر بڑے قد والی کپاس اور دوسرے کنارے پر دوغلی اقسام کے ٹینڈے یا ٹماٹر کاشت کئے جائیں تو زیادہ نفع حاصل کیا جاسکتاہے۔
3 کپاس پلس پیاز:
جنوری کے آخر میں دوبوری ڈی اے پی ڈال کر اڑھائی فٹ کے فاصلے پر کھیلیاں بنائیں، ان کے دونوں طرف پیاز کاشت کرکے پینڈی میتھالین سپرے کردی جائے۔ صاف شدہ کھیلیوں کے ایک کنارے پر فروری کے آخر میں کپاس کے چوکے لگادیے جائیں۔
4 ۔کپاس پلس دھنیا:
نہروں کے ساتھ ساتھ ٹھنڈی زمینوں میں مئی جون کاشتہ کپاس میں بھی سبز دھنیا اگایا جاسکتاہے۔
5 ۔ کپاس پلس گندم یا کینولا:
اگر کپا س کا کھیت جڑی بوٹیوں سے کافی حد تک پاک ہو ، کپاس کا قد زیادہ بڑا نہ ہو ، کپاس زیادہ گھنی نہ ہو، دسمبر کے آخر یا جنوری کے شروع میں کپاس کی جھٹریاں کاٹے جانے کا امکان ہو، کپاس ہموار زمین یا کم اونچی کھیلیوں یا پٹٹریوں پر کاشت کی گئی ہوتو نومبر کے شروع میں کھڑی کپاس میں کینولا یا گندم کی فصلیں کا شت کی جاسکتی ہیں۔
6 ۔ کھڑی گندم میں کپاس کی کاشت:
نومبر میں ربیع ڈرل کا ایک پھیرلگا کر گندم کاشت کرنے کے بعد وٹ بنادی جائے۔ ہر وٹ کے ایک طرف مارچ میں ایک ایک فٹ کے فاصلے پر کپاس کے چوکے لگادیے جائیں۔
7 ۔ بہاریہ مکئی میں کپاس کی کاشت:
چھوٹے پیمانے پر کاشت کی صورت میں یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتاہے۔ جنوری میں کاشتہ اڑھائی فٹ کے فاصلے پر پر بنائی گئی کھیلیوں کے ایک طرف کاشت کی گئی بہاریہ مکئی میں مئی کے شروع میں دوسری طرف کپاس بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ یہ صرف ایسی صورت میں کاشت کی جاسکتی ہے جب مکئی کا کھیت جڑی بوٹیوں سے پاک کیا جاچکاہو اور مکئی کاشت کرنے سے پہلے کھیت لیزر کی مدد سے ہموار کیے جاچکے ہوں۔
8 ۔ پیاز میں لوبیا اور کپاس کی کاشت:
چھوٹے پیمانے پر کاشت کی صورت میں یہ طریقہ اختیار کیاجاسکتاہے۔ جنوری میں پانچ فٹ کے فاصلے پر رجر کھول کر پٹٹریاں بناکر ان کے دونوں کناروں پر پیاز کاشت کردیا جائے ۔ مارچ کے شروع میں گوڈی کرنے کے بعد خشک ہونے پرپٹٹریوں کے ایک طرف لوبیا کاشت کرکے آبپاشی کردی جائے ۔ اپریل کے شروع میں پٹٹریوں دوسری طرف کپاس بھی کاشت کی جاسکتی ہے ۔ یہ صرف ایسی صورت میں ہی ممکن ہے جب لیزر سے ہموار شدہ کھیت جڑی بوٹیوں سے پاک کیا جاچکاہو۔

دالیں انسانی خوراک میں لحمیات (Proteins) کا ایک بہترین ذریعہ ہیں ۔دالوں میں 20 سے 25 فی صد لحمیات ہوتی ہیں۔ مونگ کی دال غذائیت کے اعتبار سے بڑی اہم ہے۔مندرجہ ذیل عوامل پر توجہ دینے سے اس کی فی ایکڑ پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

آب و ہوا
مونگ کی کاشت کے لئے گرم مرطوب آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں عام طور پر مونگ کی فصل موسمِ خریف میں جولائی سے اکتوبر تک کاشت و برداشت کی جاتی ہے، مگر آبپاش علاقوں میں مونگ کی بہاریہ فصل بھی کامیابی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔ صوبہ سندھ میں بہاریہ فصل نسبتاً زیادہ کامیاب ہے۔

کاشت کے علاقے
پنجاب میں مونگ کی کاشت کے بڑے علاقے بھکر، میانوالی اور لیہ کے اضلاع ہیں۔ اس کے علاوہ مونگ کی فصل سرگودھا، خوشاب اور جھنگ میں بھی کاشت ہوتی ہے۔ سندھ میں سانگھڑ، خیرپور، حیدرآباد۔ سرحد میں ہری پور، دیر، کرم ایجنسی اور بلوچستان میں بولان اور گوادر کے اضلاع میں بھی خاصے رقبے پر اس کی کاشت ہوتی ہے۔

وقتِ کاشت اور موزوں اقسام
مونگ کی منظور شدہ اقسام 6601 ‘ -28 نےاب ‘ این ایم 13-1‘ این ایم 20-21 ‘ این ایم 121-25 ‘ این ایم 19-19 ‘ این ایم 51 ‘ این ایم 54‘ این ایم 92 ‘ اے ای ایم 96 ‘ چکوال مونگ 97 اور این ایم 98 ہیں۔

آخری چاروں اقسام (این ایم 92 ‘ اے ای ایم 96 ‘ چکوال مونگ 97 اور این ایم 98 ، باقی منظور شدہ اقسام کی نسبت بہتر پیداواری صلاحیت کی حامل ہیں۔ یہ اقسام بیماریوں کے خلاف بہتر قوتِ مدافعت رکھتی ہیں اور تقریباً ایک ہی وقت میں پَک کر برداشت کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔ ان چار اقسام کے علاوہ باقی اقسام بیج کے دستیاب نہ ہونے اور پیداواری صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے متروک ہو چکی ہیں۔پاکستان میں مونگ کی بڑی فصل موسمِ خریف میں اگائی جاتی ہے جب کہ آبپاش علاقوں میں مونگ کی بہاریہ فصل بھی کامیابی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

بہاریہ فصل
بہار کے موسم میں مونگ کی فصل کامیابی سے کاشت کی جا سکتی ہے۔ موسمِ بہار میں فصل پر کیڑے مکوڑوں کا حملہ بہت کم ہوتا ہے اور فصل کی بے ہنگم بڑھوتری نہ ہونے کی وجہ سے پیداوار متاثر نہیں ہوتی۔ تمام زمیندار بھائی جن کے پاس موسمِ بہار میں خالی رقبہ موجود ہو اور آبپاشی کے لئے پانی بھی میّسر ہو، بہاریہ فصل بہت کامیابی سے کاشت کر سکتے ہیں۔ بہاریہ فصل کے لئے مختلف علاقوں میں وقت کاشت اور سفارش کردہ اقسام مندرجہ ذیل ہیں:

صوبہ علاقہ وقت کاشت سفارش کردہ اقسام
پنجاب کے جنوبی علاقے آخر فروری تا وسط مارچ این ایم 92 ، این ایم 98
پنجاب کے وسطی علاقے شروع مارچ تا آخر مارچ این ایم 92 ، این ایم 98
شمالی علاقے وصوبہ سرحد وسط مارچ تا شروع اپریل چکوال مونگ 97 ،این ایم 92
سندھ وسط فروری تا وسط مارچ اے ای ایم 96 ، این ایم 92 ، این ایم 98
فصلِ خریف
ہمارے ملک میں مونگ کی تقریباً 80 فی صد فصل موسمِ خریف میں کاشت کی جاتی ہے۔ فصلِ خریف بارانی اور آبپاش علاقوں میں یکساں کامیابی کے ساتھ کاشت ہوتی ہے۔ اس فصل کے لئے مختلف علاقوں میں وقت کاشت اور موزوں اقسام مندرجہ ذیل ہیں:

صوبہ علاقے وقت کاشت سفارش کردہ اقسام
پنجاب وسطی و جنوبی علاقے وسط جون تا وسط جولائی این ایم 92 ، این ایم 98
شمالی علاقے آخر جون تا وسط جولائی چکوال مونگ 97 ، این ایم 92
خیبر پختونخواہ جنوبی علاقے (ڈی آئی خان اور بنوں) شروع جولائی تا آخر جولائی این ایم 92 ، این ایم 98 ، چکوال مونگ 97
شمالی علاقے شروع جولائی تا آخر جولائی چکوال مونگ 97 ، این ایم 92
بلوچستان اوتھل، سبّی وسط جولائی تا آخر جولائی این ایم 92 ، اے ای ایم 96
ڈاڈل، لورالائی وسط جولائی تا آخر جولائی این ایم 92 ، اے ای ایم 96
کوئٹہ شروع جولائی تا آخر جولائی این ایم 92 ، اے ای ایم 96
زمین کا انتخاب اور تیاری
مونگ کی فصل آبپاش اور بارانی دونوں علاقوں میں کامیابی سے اُگائی جا سکتی ہے۔ ریتلی میرا سے بھاری میرا زمین مونگ کی کاشت کے لئے موزوں ہے۔ جب کہ سیم زدہ اور کلراٹھی زمین اس کی کاشت کے لئے نامناسب ہے۔ مونگ کی کاشت کے لئے زمین کا ہموار ہونا نہایت ضروری ہے تا کہ آبپاشی یا بارش کا پانی کھیت میں یکساں طور پر تقسیم ہو سکے۔ آبپاش علاقوںمیںراﺅنی کے بعد وتر آنے پر دو دفعہ ہل چلا کر زمین کو تیار کریں جب کہ بارانی علاقوں میں بارش سے پہلے ایک دفعہ مٹی پلٹنے والا ہل اور بارش کے بعد وتر آنے پر دو دفعہ دیسی ہل چلا کر زمین کو اچھی طرح تیار کرنا چاہئیے۔ ہل چلانے کے بعد سہاگہ چلانا ضروری ہے تا کہ زمین اچھی طرح ہموار اور بُھر بُھری ہو جائے۔

شرحِ بیج و طریقہ ءکاشت
چھوٹے بیجوں والی اقسام کے لئے 8 کلو گرام اور موٹے بیجوں والی اقسام کے لئے 10 کلو گرام فی ایکڑ کے حساب سے بیج استعمال کیا جانا چاہئیے۔ بیج صاف سُتھرا، صحت مند اور محکمہ زراعت کی سفارش کردہ اقسام کا ہونا چاہئیے۔ بہاریہ مونگ سے حاصل شدہ بیج اگر خریف میں اور خریف کا بیج آئندہ بہار میں استعمال کیا جائے تو بہتر روئیدگی حاصل ہوتی ہے۔ زیادہ پُرانے بیج سے پودوں کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔ کاشت قطاروں میں کیرا یا پور سے کریں۔ قطاروں کا درمیانی فاصلہ 30 سینٹی میٹر اور پودوں کا درمیانی فاصلہ 10 سینٹی میٹر ہونا چاہئیے۔ اگر کاشت چھّٹے سے کی جائے تو بیج کی مقدار 2 کلوگرام فی ایکڑبڑھا دینی چاہئیے۔

آبپاشی
مونگ کی فصل کو آبپاش اور بارانی علاقوں میں کاشت کیا جاتا ہے۔ وہ علاقے جہاں بارش کم ہوتی ہے وہا ں تین مرتبہ آبپاشی ضروری ہے۔ پہلا پانی کاشت سے تین ہفتے بعد، دوسرا پھول آنے پر اور تیسرا پھلیوں میں دانے بننے کے وقت۔ اگر خریف میں ان اوقات میں بارش ہو جائے تو پانی دینے کی ضرورت نہیں۔

جڑی ُبوٹیوں کی تلفی
جڑی بُوٹیاں فصل کو بہت نقصان پہنچاتی ہیں اور پیداوار کافی حد تک کم ہو جاتی ہے۔ جڑی بُوٹیوںکومندرجہ ذیل طریقوں سے ختم کیا جا سکتا ہے۔

۱۔

بجائی سے پہلے گہرا ہل چلانے سے کافی حد تک جڑی بُوٹیوںکا تدارک کیا جا سکتا ہے۔خصوصی طور پر بارانی علاقوں میں ایسا کرنا زیادہ سُود مند ثابت ہوتا ہے۔

۲۔

فصل پر پھول آنے سے پہلے ایک گوڈی کر کے جڑی بُوٹیوں کوضرور تلف کر دینا چاہئیے۔

کھادوں کا استعمال
مونگ کی فصل کے لئے نائٹروجنی کھاد کی نسبتاً کم ضرورت ہوتی ہے۔ پھلی دار فصل ہونے کے باعث یہ ہَوا میں نائٹروجن سے فائدہ اُٹھاتی ہے۔ تاہم شروع میں فصل کو مطلوب نائٹروجن کی ضرورت پُوری کرنے کے لئے بوقتِ بجائی 8 سے 10 کلو گرام نائٹروجن فی ایکڑ کے حساب سے استعمال کرنا چاہئیے۔ فاسفورس کھاد کا استعمال پیداوار میں اضافے کے ساتھ ساتھ فصل کے جَلد پکنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔لہٰذا 20 سے 25 کلوگرام فاسفورس فی ایکڑ کا استعمال ضروری ہے۔ اس حساب سے نائٹروجن اور فاسفورس دونوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایک بوری ڈی اے پی فی ایکڑ کافی ہو گی۔

بائیو کھاد کا استعمال
بائیو کھاد ایسے جرثوموں پر مشتمل ہے جن کی زمین میں موجودگی اس کی قدرتی زرخیزی کو نہ صرف برقرار رکھتی ہے بلکہ موافق حالات میں اسے بڑھاتی بھی ہے۔ پھلی دار اجناس (دالوں) میں یہ جرثومے Rhizobium bacteria) ) اُن کی جڑوں پر مخصوص قسم کے گھر (Nodules) بنا کر رہتے ہیںجو فضا میں وافر مقدار میں موجود ( 80 فی صد) پودوں کے لئے ناقابل استعمال نائٹروجن کو قابل استعمال بنا کر ان کی نائٹروجنی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔ بعض حالات میں بچ جانے والی نائٹروجن اگلی فصل کے کام آ جاتی ہے۔ اگر یہ جرثومے کھیت میں مناسب تعداد میں موجود ہوں تو دالوں کے لئے کیمیائی نائٹروجن کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن اکثر کھیتوں میں مثلاًدالوں کے زیر کاشت آنے والی نئی زمینوں اور ایسی زمینوں جن پر پچھلے تین چار سال سے دالیں کاشت نہ کی گئی ہوں اِن جرثوموں کی تعداد مطلوبہ حد سے بُہت کم ہوتی ہے۔ تجربات سے ایسے اِشارے ملے ہیں کہ دالوں کے مختلف پیداواری علاقوں میں حیاتیاتی کھاد کے استعمال سے ان کی پیداوار میں 15 سے 25 فی صد تک اضافہ ممکن ہے۔ملک میں زرعی تحقیق کے کئی ادارے تجارتی بُنیادوں پر مختلف دالوں اور دیگر پھلی دار اجناس کے لئے حیاتیاتی کھاد فروخت کر رہے ہیں اور اس کے متعلق دیگر معلومات بھی شائع کر رہے ہیں۔

بیماریا ںاور اُن کا انسداد
سرکو سپورا برگی دھبے
یہ مونگ کا انتہائی مہلک مرض ہے۔ جو سرکوسپورا (کینے سنس) نامی پھپھوند کی وجہ سے پھیلتا ہے۔ اس بیماری کی علامات پتوں پر چھوٹے چھوٹے نیم گول اور بے ہنگم گہرے بھورے رنگ کے دھبوں کی شکل میں ظاہر ہوتی ہیں۔ ان دھبوں کے کنارے گلابی مائل بھورے ہوتے ہیں۔ اس مرض کے تدارک کے لئے متاثرہ پودوں کے خس و خاشاک تلف کر دیئے جائیں اور قوت مدافعت رکھنے والی اقسام کاشت کی جائیں۔

کوڑھ
اس مرض کی علامات پودے کے تمام بالائی حصوں پر ظاہر ہوتی ہیں۔ لیکن زیادہ تر حملہ پتوں اور پھلیوں پر ظاہر ہوتا ہے پھلیوں پر دائرہ نما گہرے سفیدی مائل دھبے بن جاتے ہیں۔ اس مرض کا سبب ایک پھپھوند ہے جسے کال ٹاٹری کم لینڈی میوتھیم کہتے ہیں۔ اس بیماری کی روک تھام کے لئے تندرست اور بیماری سے پاک بیج کاشت کیا جائے۔

 پیلا چتکبری وائرس
مونگ بین ییلو موزیک ایک وائرسی بیماری ہے جو رس چوسنے والے کیڑے سفید مکھی سے پھیلتی ہے۔ اس بیماری کی وجہ سے نوزائیدہ پتوں پر چھوٹے چھوٹے پیلے دھبے نمودار ہوتے ہیں۔سبز اور پیلے دھبے آھستہ آھستہ بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں جو کہ چتری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ شدید حملے کی صورت میں تمام کھیت پیلانظر آتا ہے۔چونکہ یہ مرض سفید مکھی کی وجہ سے پھیلتا ہے اس لئے اس مرض کے تدارک کے لئے سفید مکھی کا خاتمہ ضروری ہے جس کے لئے ڈائی میکران یا میٹا سسٹاکس بحساب 1/4 لیٹر اصل زہر فی ایکڑ پندرہ دن کے وقفے کے بعد کم از کم دو سپرے کریں۔ نیز مونگ کی اس مرض کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی اقسام مثلاً این ایم 98 ، این ایم 92 ، چکوال مونگ 97 کاشت کریں۔

 ضرر رساں کیڑے اور ان کا انسداد
پنجاب میں بہاریہ مونگ میں اکثر کیڑوں کا حملہ نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی تیلا کا حملہ مشاہدے میں آیا ہے۔موسم گرما میں مونگ کی فصل پر اکثر رس چوسنے والی سفید مکھی کا حملہ ہوتا ہے جس سے پودوں پر زرد رنگ کی چتری (Yellow Mosaic) نمودار ہوتی ہے۔ اس کیڑے کا حملہ عموماً اگست میں ہوتا ہے۔ صوبہ سندھ میں اکثر فصل اگنے کے فوراً بعد رس چوسنے والے کیڑوں (تیلا، سفید مکھی اور سست تیلا) کا حملہ ہوتا ہے۔اگرچہ بالدار سنڈی کا حملہ ہر سال باقاعدگی سے نہیں ہوتا بلکہ کبھی کبھار ہوتا ہے۔ اس کیڑے کے حملے کی صورت میں فصل کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔ اس کیڑے کا حملہ اگست میں شروع ہوتا ہے اور ستمبر، اکتوبر تک جاری رہتا ہے۔ مونگ کی فصل کو کیڑوں کے حملے اور نقصانات سے بچانے کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔

(i)        فصل کی بوائی سفارش کردہ وقت پر کرنی چاہیے۔

 (ii)      جو اقسام زرد رنگ کی چتری کے خلاف قوت مدافعت رکھتی ہوں ان کی بجائی کی جائے۔ مثلاً این۔ایم 98 ‘ این۔ایم 92 اور چکوال مونگ 97

(iii)      فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک کیا جائے۔

ان تدابیر کے باوجود فصل پر کیڑوں کا حملہ ہو تو مندرجہ ذیل زرعی کیمیائی ادویات میں سے کوئی ایک دوا علاقہ کے ماہرینِ زراعت کے مشورے سے استعمال کریں۔

زرعی کیڑے مار ادویات اور ان کا استعمال
نام دوا مقدارفی ایکڑ وقت اور طریقہء استعمال
۱۔ کراٹے Karata 2.5 EC۲۔ Fenuelerate 250 ملی ِلٹر250 ملی ِلٹر کیڑوں کے حملے کی صورت میں ان زرعی ادویات میں سے کوئی ایک دوا 80 لیٹر پانی میں ملا کر چھڑکاﺅ (Spray) کیا جائے۔ اور کیڑوں کے حملے کی نوعیت کے لحاظ سے دوا کے چھڑکاﺅ کے عمل کو دس سے پندرہ دن کے بعد دوھرایا جا ئے۔
پولیٹرین سی Polytrin-C 440 EC 500 ملی لٹِر
تھائیوڈان Thiodan 35 EC 1000 ملی ِلٹر
برداشت
جب فصل کی 80 سے 90 فی صد پھلیاں پک جائیں تو فصل کو کاٹ لینا چاہئیے۔ کٹائی صبح کے وقت کی جائے۔ فصل کو کھیت میں چھوٹی چھوٹی ڈھیریوں کی شکل میں 4 سے 5 دن پڑا رہنے دیں۔ جب پودے پوری طرح خشک ہو جائیںتو بیلوں یا تھریشر کی مدد سے گہائی کریں۔ دانوں کو چند روز تک دھوپ میں خشک کر کے سٹور کریں اور گودام کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔

گندم کی کاشت کے چند زریں اصول
1۔ بارانی علاقوں میں مون سون کے شروع میں گہرا ہل چلاکر گند م کی فصل کیلئے نمی محفوظ کریں۔
2۔ گندم کی زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کیلئے بجائی 20 نومبر تک مکمل کریں اور بجائی ڈرل سے کریں ۔
3۔ گندم کی بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت رکھنے والی سفارش کردہ ترقی دادہ اقسام سفارش کردہ شرح بیج کے ساتھ کاشت کریں۔
4۔ کاشت سے قبل بیج کو دوائی ضرور لگائیں تاکہ اُگاﺅ بہتر ہو اور بیماریوں سے بچاﺅ ممکن ہو۔
5۔ کلر اور تھورزدہ زمینوں پر کاشت تروتر میں کریں۔
6۔ نائٹروجنی اور فاسفورسی کھاد 1:1.5 کے تناسب سے استعمال کریں۔
7۔ چاول یا گنے والی زمین ،ریتلی زمین اور ٹیوب ویل سے سیراب ہونے والی زمین میں پوٹاش کا استعمال کریں۔
8۔ گندم کی فصل کو جھاڑ بننے، گوبھ آنے اور دانہ بننے کے مراحل پر پانی کی کمی نہ آنے دیں۔
9۔ ضرورت پڑنے پر جڑی بوٹیوں کی تلفی کے لئے کیمیائی ادویات کا استعمال کریں۔
10۔ کٹائی اور گہائی وقت پر کر کے فصل کو ان مراحل کے دوران ممکنہ نقصانات سے بچائیں۔
گندم ہمارے ملک کی بہت ہی اہم فصل ہے۔اس سے نہ صرف ہماری غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔بلکہ اسکا بھوسہ جانوروں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔گندم پاکستان میں تقریباً 20 ملین ایکڑ سے زائد رقبے پر ہر سال کاشت ہوتی ہے۔اور اسکی پیداوار کا تخمینہ تقریبََا 23 ملین ٹن سالانہ ہے۔اس وقت پاکستان میں گندم کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 28من کے قریب ہے۔گندم کی فی ایکڑ پیداوار میں مزید اضافہ کی گنجائش موجود ہے۔گندم کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لئے زمیندار بھائی ان سفارشات سے مدد حاصل کر سکتے ہیں۔
وقت کاشت
گندم کی بہتر پیداوار حاصل کرنے کے لئے گندم کی کاشت 20نومبر سے پہلے مکمل کرنا بہت ضروری ہے۔20نومبر کے بعد کاشت ہونے والی گندم میں ہر روز تقریبََا 12سے 16کلو گرام فی ایکڑ پیداوار میں کمی ہوتی ہے۔جنوری کے شروع میں کاشت ہونے والی گندم کی پیداوار میں 50فیصد تک کمی واقع ہوتی ہے ۔لہٰذا گندم کی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لئے گندم کی بر وقت کاشت بہت ضروری ہے۔
بیج کا انتخاب
گندم کی اچھی فصل حاصل کرنے کے لئے ترقی دادہ اقسام کا صحت مند اور صاف ستھرا بیج استعمال کرنا بہت ضروری ہے۔ آپ اپنے علاقے کے مطابق گندم کی سفارش کردہ قسم سفارش کردہ شرح بیج اور سفارش کردہ قسم کاشت کریں۔ تصدیق شدہ بیج سیڈ کارپوریشن کے مراکز، محکمہ زراعت اور منظور شدہ ڈیلروں اور ایجنسیوں سے حاصل کیا کاسکتا ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں کیلئے سفارش کردہ اقسام

گندم کی اقسا م اور وقت کاشت
علاقہ
قسم
وقت کاشت
صوبہ پنجاب
بارانی علاقہ جات
چکوال 50، اےن ۔اے ۔ آر۔سی 2009 ،بارس2009 ، دھرابی2011 ، پاکستان 2013
20اکتوبرتا 15نومبر
نہری علاقہ جات
عقاب 2000 ، شفق2006،فرےد 2006،معراج2008، لاثانی2008،فےصل آباد 2008
آس2011، ٓری 2011 اےن ۔ اے۔ آر ۔ سی 2011، ملت 2011، پنجاب2011 ، گلیکسی 2013
یکم نومبر تا 30نومبر
صوبہ خیبر پختونخواہ
بارانی علاقہ جات
پیر سباق 2005، تاتارا، شاہکار 2013، للما2013
20اکتوبر تا 15نومبر
نہری علاقہ جات
پیر سبا ق2004ِ ،پیر سبا ق2008، ہاشم 2008، پےر سبا ق 2013
یکم نومبر تا 30نومبر
صوبہ سندھ
نہری علاقہ جات
ٹی ڈی 1، ا یس کے ڈی1، امداد 2005 ،سسی2006 ، خرمن 2006
نیاامبر2010، نیاسنہری 2010، نیاسندر2011، نیاسارنگ2013، بینظیر2013
یکم نومبر تا 30نومبر
صوبہ بلوچستان
بارانی علاقہ جات
سریاب 92
20اکتوبر تا 15نومبر
نہری علاقہ جات
زرغون79، زرلشتہ99، راسکوہ 2005
یکم نومبرتا 30نومبر
نوٹ: 20نومبر کے بعد کاشت کی صورت میں بیج کی مقدار 60کلو گرام فی ایکڑ رکھیں۔
 بیج کو دوائی لگانا
گندم کی مختلف بیماریوں پر قابو پانے کے لئے ٹاپسن ایم(TOPSON-M)مقدار 2گرام یا ڈیروسل(DEROSIL)مقدار 2ملی لیٹر یا ریکسل(RAXIL 2DS)مقدار1.50گرام فی کلو گرام بیج گندم استعمال کریں۔ بیج کو دوائی لگانے کے لیے مقررہ مقدار میں دوائی اور بیج ڈھکنے والے ڈرم میں یا پلاسٹک کی بوری میں نصف تک ڈال کر اچھی طرح ہلالیںتاکہ بیج کے ہر دانے کو دوائی لگ جائے۔
زمین کی تیاری
پاکستان میں گندم مختلف فصلوں کے بعد کاشت کی جاتی ہے۔آبپاش علاقوں میں گندم کپاس، دھان یا کماد کے بعد کاشت ہوتی ہے۔جبکہ کچھ علاقوں میں وریال زمینوں پر بھی اسکی کاشت ہوتی ہے۔علاوہ ازیں بارانی علاقوں میں بھی وسیع رقبہ پر گندم کی کاشت کی جاتی ہے۔
بارانی علاقے
مون سون کی بارشوں کا بہتر فائدہ حاصل کرنے کے لیے ایک دفعہ گہرا ہل چلائیں تاکہ نمی بہتر طور پر محفوظ کی جاسکے۔ بعد ازاں ہر بارش کے بعد عام ہل چلائیں تاکہ جڑی بوٹیاں تلف ہو جائیں اور نمی محفوظ رہے۔ گندم کی کاشت سے پہلے دو مرتبہ عام ہل چلاکر سہاگہ دیں۔ بجائی بذریعہ ڈرل کریں۔
آبپاش علاقے
وریال یا خالی زمینیں
وہ زمینیں جو گندم کی کاشت سے کافی عرصہ پہلے خالی ہوتی ہیںان میں وقفے سے ہل چلا کر جڑی بوٹیاںختم کریں۔ جہاں ضرورت ہو کھیت کو ہموار کریں۔ کھیت کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم کر کے راﺅنی کر لیں۔ راﺅنی کے بعد وتر آنے پر سہاگہ دیں۔ بعد ازاں ہل چلا کر سہاگہ دیں تقریبََا ایک ہفتہ تک جڑیں بوٹیاں اُگ آئیں گی۔ اب بوائی کے وقت دو بار ہل چلا کر سہاگہ دے دیں۔ اس سے جڑی بوٹیاں ختم ہو جائیں گی۔ گندم کی کاشت بذریعہ ڈرل کریں۔
چاول کی کاشت والے علاقے
دھان کی فصل کو برداشت سے 15روز قبل پانی دینا بند کر دیں۔ دھان کی برداشت کے بعد وتر حالت میں روٹایٹر یاڈسک ہل چلائیں۔ بعد ازاں دو مرتبہ عام ہل چلا کر سہاگہ دے دیںاور ڈرل سے بجائی کریں۔
کپاس مکئی اور کماد کی کاشت والے علاقے
٭           فصل کی برداشت سے تین ہفتے پہلے کھیت کو پانی دے دیں۔ فصل سنبھالنے کے بعد مناسب وتر کی حالت میں فصل کے مڈھ کاٹ کر زمین میں ہل چلائیں اور روٹاویٹر کا استعمال کریں بعد ازاں بجائی بذریعہ ڈرل کریں۔
٭           جن کھیتوں میں پانی فصل سنبھالنے سے پہلے نہ دیا جاسکے ان میں فصل کی برداشت اور مڈھ کاٹنے کے بعد دو مرتبہ ہل چلائیں اور بعد ازاں روٹاویٹر یاڈسک ہل چلاکر زمین تیار کر لیں۔ بجائی بذریعہ ڈرل کریںاور کھیت کو پانی لگادیں۔
٭           کلر اٹھی زمینوں میں فصل کی برداشت اور مڈھ کاٹنے کے بعد ہل چلائیںاور سہاگہ دیں۔ اسکے بعد کھیت کو پانی دیں اور8تا12گھنٹے بھگوئے ہوئے بیج کا چھٹہ دے دیں۔ یہ طریقہ کاشت کلر اٹھی زمینوں کے لیے موزوںہے۔
کیمیائی کھادوں کا استعمال
گندم کی اچھی پہداوار حاصل کر نے کے لیے کیمیائی کھادوں کا بروقت اور بہتر تناسب کے ساتھ استعمال نہایت اہم ہے۔ کیمیائی کھادوں کے استعمال کا انحصار زمین کی زرخیزی ، پانی کی دستیابی اور فصلوں کی کثرت یا ہیر پھیر پر ہوتاہے۔
نائٹروجنی اور فاسفورسی کھادوں کا تناسب 1:1سے لے کر1:1.5تک ہونا چائیے۔
آبپاش علاقوں میں فاسفورسی کھاد کی تمام مقدار نائٹروجنی کھاد کی تصف مقدار اور نائٹروجنی کھاد کی تصف مقدار کاشت کے وقت دی جائے اور باقی ماندہ نائٹروجنی کھاد پہلے یا دوسرے پانی کے ساتھ دینی چاہیے۔ اگر فاسفورسی کھاد کسی وجہ سے نوقت کاشت نہ دی جا سکے تو پہلے پانی کے ساتھ دی جائے۔
بارانی علاقوں میں فاسفورسی اور نائٹروجنی کھاد کی تمام مقدار بوقت کاشت دے دی جائے۔ اگر کسی وجہ سے نائٹروجنی کھاد کاشت کے وقت نہیں دی جاسکی تو پہلی بارش کے ساتھ دی جاسکتی ہے۔
پاکستان کے کئی علاقوں میں پوٹاش کی کمی بھی ہے ۔ ہلکی ریتلی زمینوں ، ٹیوب ویل کے پانی سے سیراب ہونے والی زمینوں اور چاول یا گنے کے بعد کاشت ہونے والی گندم میںپوٹاش کا استعمال بھی بہت ضروری ہے۔پاکستان کے کچھ علاقوں میں زمین کا تعامل 8.2سے تجاوز کر گیا ہے جسکی وجہ سے کیمیائی کھاد ڈالنے کے فوائد کم ہورہے ہیںگندم کی بہتر پیداوار حاصل کر نے کیلئے ان زمینوں میں جپسم کا استعمال بہت ضروری ہے۔
کھادوں کی سفارش کردہ مقدار
بارانی علاقہ
سالانہ اوسط بارش                       کھاد بوقت کاشت
-1کم بارش والے علاقے                            ایک بوری ڈی اے پی+پون بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
)سالانہ 3.5ملی میٹر                                    یا
یا14انچ تک(                                           دو بوری نائٹروفاس+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
                                                                یا
                                                2.75بوری ایس ایس پی 1.75+بوری ایمونیم نائٹریٹ+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
                                                                یا
                                                2.75بوری ایس ایس پی 2.25+بوری ایمونیم سلفیٹ+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
-2اوسط بارش والے علاقے        ایک بوری ڈی اے پی+ایک بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
350)سے500ملی لیٹر                               یا
یا 14سے20انچ تک(                دو بوری نائٹروفاس+نصف بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
                                                                یا
                                                2.75بوری ایس ایس پی 2.5+بوری ایمونیم نائٹریٹ+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
                                                                یا
                                                2.75بوری ایس ایس پی 3.25+بوری ایمونیمسلفیٹ +ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
-3زیادہ بارش والے علاقے        1.5بوری ڈی اے پی+ 1.5 بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
)سالانہ500ملی میٹر                                   یا
یا20انچ سے زیادہ(                    تینبوری نائٹروفاس+آدھی بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
آبپاش رقبہ
زرخیزی زمین
کھاد بوقت کاشت
پہلے یا دوسرے پانی کے ساتھ
-1اوسط درجے کی زرخیز زمین
1.5بوری ڈی اے پی+آدھی بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
یا
تین بوری نائٹروفاس+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
یا
تین بوری نائٹروفاس+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
یا
چاربوری ایس ایس پی+ایک بوری یوریا+ایک پوٹاشیم سلفیٹ
ایک بوری یوریا
آدھی بوری یوریا
1.25بوری ایمونیم نائٹریٹ
ایک بوری یوریا
-2زرخیز زمین
ایک بوری ڈی اے پی+آدھی بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
یا
دو بوری نائٹروفاس+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
یا
2.75بوری ایس ایس پی+پون بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
یا
2.75بوری ایس ایس پی1.25+بوری ایمونیم سلفینائٹریٹ +ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
یا
2.75بوری ایس ایس پی1.75+بوری ایمونیم سلفیٹ+ایک بوری   پوٹاشیم سلفیٹ
آدھی بوری یوریا
آدھی بوری یوریا
پون بوری یوریا
1.25بوری ایمونیم نائٹریٹ
1.5بوری ایمونیم نائٹریٹ
-3کمزور زمین
دو بوری ڈی اے پی +آدھی بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
یا
چاربوری نائٹروفاس+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
یا
چاربوری نائٹروفاس+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
یا
پانچ بوری ایس ایس پی1.25+بوری یوریا+ایک بوری پوٹاشیم سلفیٹ
یا
پانچ بوری ایس ایس پی2.75+بوری ایمونیم نائٹریٹ+ایک بوری پو ٹاشیم سلفیٹ
یا
پانچ بوری ایس ایس پی2.25+بوری ایمونیم سلفیٹ+ایک بوری پو ٹاشیم سلفیٹ
ایک بوری یوریا
آدھی بوری یوریا
ایک بوری ایمونیم سلفیٹ
1.25 بوری یوریا
2.5 بوری ایمونیم سلفیٹ
دو بوری ایمونیم سلفیٹ
آبپاشی
گندم کے پودے کو بڑھوتری کے نازک مراحل میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ان مراحل میں پانی کی کمی پیداوار پر بہت بُرا اثر ڈالتی ہے۔ لہٰذا ان مراحل میں فصل کو پانی کی کمی نہ آنے دیں ۔
گندم کے پودے کو پہلی آبپاشی بجائی سے 20تا 25دن بعد کریں۔ جبکہدھان والے علاقوں میں پہلی آبپاشی30تا 35دن بعد کریں۔ اس موقع پر پانی لگانے سے گندم میں جھاڑ زیادہ بنتا ہے۔ اورفی پودا سٹوں کی تعداد بڑھتی ہے۔
 دوسرا پانی گوبھ )بجائی کے80تا 90دن بعد (کی حالت میں دیں۔ اس وقت سٹہ پودے کے اندر بن رہا ہوتا ہے اور اس مرحلے پر پانی کی کمی سٹے چھوٹے ہونے اور دانے کم بننے کا خدشہ ہوتا ہے۔
تیسرا پانی دانہ بننے )بجائی کے 125تا130دن بعد (پر دینا چاہیے۔ اس مرحلے پر پانی کی کمی سے دانے کا سائز چھوٹا رہ جاتا ہے۔ اور پیداوار میں خاطر خواہ کمی ہو سکتی ہے۔
اگر موسم خشک ہو اور پانی بھی موجود ہوتو ضرورت کے مطابق فصل کو پانی لگایا جاسکتا ہے۔
جڑی بوٹیوں کی تلفی
خودرو جڑی بوٹیاں گندم کی پیداوار میں 12سے 35فیصد تک کمی کا باعث بنتی ہیں۔ گندم کی فصل میں نوکیلے پتوں والی )جنگلی جنی، دمبی سٹی وغیرہ(اور چوڑے پتوں والی )پوہلی، پیازی ، جنگلی پالگ ،رواڑی اور شاہترہ وغیرہ(پائی جاتی ہیں۔ جڑی بوٹیاں کنٹرول کرنے کے مندرجہ ذیل طریقے اختیار کیے جا سکتے ہیں۔
داب کا طریقہ اور گوڈی
راﺅنی کے بعد جب کھیت وتر میں آجائے تو ہل چلانے کے بعد سہاگہ دیں۔ جب جڑی بوٹیوں کی کونپلیں نکل آئیں تو زمین تیار کریں اس سے جڑی بوٹیاں تلف ہو جائیں گی۔
جڑی بوٹیاں تلف کرنے کے لیے گوڈی بھی کی جاسکتی ہے۔ علاوہ ازیں پہلی اور دوسری آبپاشی کے بعد وتر حالت میں بارہیر و چلانے سے بھی جڑی بوٹیاں کنٹرول ہو سکتی ہیں۔
کیمیائی طریقہ
جڑی بوٹیوں کو کیمیائی طریقہ سے بھی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ نو کیلے پتوں والی جڑی بوٹیوں کو کنٹرول کر نے کے لیے مختلف اقسام کی کیمیائی ادویات دستیاب ہیں۔ ان کا استعمال محکمہ زراعت کے عملہ کے مشورے اور لیبل پر درج شدہ ہدایات کے مطابق کریں۔
جڑی بوٹیوں کے موثر کنٹرول کے لیے یہ ادویات پہلے پانی کے بعد زمین وتر آنے پر کریں۔
ادویات کے استعمال میں احتیاطی تدابیر
 -1استعمال سے پہلے لیبل ضرور پڑھیںاور درج شدہ ہدایات کے مطابق دو ا استعمال کریں۔
-2پانی کی مقدار 120تا150لیٹر فی ایکڑ رکھیں۔
-3سپرے کے لیے مخصوص نوزلFLAT-FAN یا T-JETاستعمال کویں۔
-4سپرے کے دوران کھانے پینے اور تمباکو نوشی سے پرہیز کریں۔
-5بارش تیز ہو اور دھند کی صور ت میں سپرے نہ کریں۔
-6دوا کے خالی ڈبے ضائع کر دیںاور زمین میں دبا دیں۔
-7سپرے کے بعد جڑی بوٹیوں کو بطور چارہ استعمال نہ کریں۔
کٹائی گہائی اور ذخیرہ کرنا
٭           کٹائی سے پہلے کھیت کے ایسے حصے جہاں فصل گری نہ ہواور ہر لحاظ سے اچھی ہو بیج کے لیے منتخب کر لیں۔ان کی کٹائی گہائی اور صفائی علیحدہ کی جائے تاکہ بیج محفوظ ہو جائے۔
٭           زیادہ پیداوار دینے والی نئی اقسام کی کٹائی پرانی لمبے قد والی اقسام سے دو تین دن پہلے ہونی چاہیے۔
٭           کٹائی کے بعد چھوٹی بھریاں بنائیں اور کھلیان لگاتے وقت سٹوں کا رخ اوپر کی طرف رکھیں۔
٭           کٹائی کے وقت گندم اچھی طرح پکی ہواور دانوں میں 16تا 17فیصد سے زیادہ نمی نہ ہو۔
٭           گندم کی گہائی اگر تھریشر یا کمبائن سے کی جائے تو وقت کی بچت کے علاوہ دانوں کا نقصان بھی کم ہو تا ہے۔
٭           گہائی کے بعد گندم کی بھرائی صاف ستھری بوریوں میں ہونی چاہیے۔
٭           آئندن فصل کے لیے بیج ، گہائی کے بعد اچھی طرح صاف کر کے اور دوائی لگا کر علیحدہ صاف ستھرے گوداموں میں رکھنا چاہیے۔
٭           گندم ذخیر ہ کر تے وقت خاص طور پر بطور بیج ذخیرہ کرتے وقت دانوں میں نمی 9تا 10فیصد سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
٭           کیڑے مکوڑوں کے حملے کی صورت میں گودام میں محکمہ زراعت کے مشورے سے دھونی کا استعمال کرنا چاہیے۔
٭           بوریاں اور گوداموں کو اچھی طرح خشک کر کے دھونی کے ذریعے کیڑے مکوڑوں سے صاف کرنا چاہیے۔
٭           چوہوں اور کیڑوں کے انسداد کیلیے گودام میں فیومی گیشن کریں۔

کلراٹھی زمین میں گندم کی کاشت:
پنجاب کی بیشتر زمینوں میں تھور کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ وسطی و جنوبی پنجاب کے بیشتر زمینوں میں پہلے دوماہ کے دوران کلر اٹھی پن کے اثرات نچلے پتوں کے جلدی پیلے ہونے کی صورت میں مشاہدہ کیے جاسکتے ہیں۔ اگرچہ گندم کلر اٹھی زمین میں بھی ہوجاتی ہے۔ لیکن زیادہ کلر اٹھی زمینوں میں اگاؤ کے دوران یہ فصل نمکیات سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ اور نچلے پتے بڑی شدت کے ساتھ زرد ہو جاتے ہیں۔ پہلی آبپاشی کرنے پر پیلے پن کی شدت میں مزید اضافہ ہوجاتاہے۔ ایسی زمینوں میں ایک مرتبہ اگاؤ اچھا ہوجائے تو پہلے آبپاشی کے ساتھ یو ایس 20 یا اس کے متبادل تیزابی محلول آبپاشی کے ساتھ استعمال کرنے سے بیماری کی شدت میں کمی کی جاسکتی ہے۔ کلر اٹھی زمینوں میں گندم کی نفع بخش کاشت کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز پر عمل کیا جاسکتا ہے۔

1 خشک طریقے سے کاشت:
ریتلی و کلر اٹھی زمینوں میں خشک طریقے سے تیار کردہ زمین میں بیج کو کم گہرائی پر ڈرل کرنے کے بعد پانی لگاکر بہتر اگاؤ حاصل کیا جائے۔

2 زیر و ٹلج ڈرل سے کاشت:
چاول کے بعد کلر اٹھی اور دیر سے وتر آنے والی زمینوں میں بروقت یعنی وسط نومبر سے پہلے پہلے زیر و ٹلج ڈرل سے گندم کاشت کی جائے۔

3 تھور برداشت کرنے والی اقسام:
تھور برداشت کرنے والی اقسام مثلاً پامبان 90، سحر 2006، شفیق 2006، آری 2011 اور ملت 2011 یا ان کے متبادل اقسام کاشت کی جائیں۔ تھور سے زیادہ متاثر ہونے والی اقسام میں لاثانی 2008 اور اے ایس 2002 شامل ہیں۔


ایک ایکڑ سے 80 من گند م پیدا کرنے لئے 80 کلو نائٹروجن ، 32 کلو فاسفورس اور 91 کلو پوٹاش استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی گندم کی اچھی پیداوار کے لئے فاسفورس کے بجائے نائٹروجن اور پوٹاش کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ در۔ میانی زمینوں میں نائٹروجن، فاسفورس اور پوٹاش بالترتیب 25-35-46 کلوگرا م فی ایکڑ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔کھاد کی یہ مقدار دو بوری یو ریا ، ڈیڑھ بوری ٹی ایس پی اور ایک بوری ایس اوپی سے پوری کی جاسکتی ہے۔ لیکن کمزور زمینوں میں 25-46-64 کلو گرام فی ایکڑ ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ کھاد کی یہ مقدار دو بوری یو ریا، دو بوری ڈی اے پی اور ایک بوری ایس او پی سے پوری کی جاسکتی ہے۔

کھادوں پر اثر انداز ہونے والے عوامل
بہت سے عوامل کھادوں کی مقدار اور کار کر دگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ گندم کے لئے مختلف حالات میں کھادوں کی ضرورت مختلف ہوسکتی ہے۔ زمین کی قدرتی زرخیزی اور آب و ہو ا کے فرق کے علاوہ فصل کی نوعیت ، وقتِ طریقہ کاشت ، فصل کاری کی نوعیت، زمینی ساخت اور گندم کی اقسام جیسے کئی امور ہیں۔ جن کی تغیرات سے کھادوں کی مقدار میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ کھادوں کی مقدار پر اثر انداز ہونے والے عوامل کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

1 زمینی زرخیزی کا فرق:
قدرتی طورپر زیادہ زرخیز زمینوں میں کم کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ کم زرخیز زمینوں میں زیادہ کھادیں ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

2 زمینی بافت (Texture) کا فرق:
ریتلی اور ہلکی میر ا زمینوں میں زیادہ مقدار میں اور بار بار کھاد ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ بھاری میر ا زمینوں میں اس کی ضرورت قدرے کم ہوتی ہے۔

3 زمینی صحت کا فرق:
کلراٹھی زمینوں میں زیادہ مقدار میں اور کئی بار کھاد ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ صحت مند اور معتدل زمینوں میں اس کی ضرورت قدرے کم ہوتی ہے۔

4 وقتِ کاشت کا فرق:
بروقت اور اگیتی گندم کو قدرے کم کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ بیشتر لیٹ کاشتہ فصل کو زیادہ کھادیں ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

5 فصلی پریشر اور ترتیب کا فرق:
اگر یکے بعد دیگر فصلوں کی کاشت جاری رکھی جائے اور زمین کو خالی نہ چھوڑا جائے تو زیادہ کھاد ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

6 طریقہِ استعمال کا فرق:
گندم کی لائینوں کے ساتھ ساتھ ڈالنے سے کھاد کی مقدار کم استعمال ہوتی ہے جبکہ پورے کھیت میں چھٹہ کرنے کی صورت میں زیادہ کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔

7 طریقہ کاشت کا فرق:
ڈرل سے کاشت کی صورت میں کھاد کی کم مقدار کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ بیج کا چھٹہ کرنے کی صورت میں زیادہ کھاد کی ضرورت ہوتی ہے ۔ دھان کے بعد زیر و ٹلج کے طریقے سے کاشتہ گندم کی بیج کے ساتھ ہی کھاد ڈالی جاتی ہے جو فصل کو زیادہ سے زیادہ دستیاب ہوتی ہے۔ اس کے برعکس اگر چھٹہ کرکے تین چار من کھاد ہزاروں من مٹی میں ملا دی جائے تو اس کی افادیت کم ہوجاتی ہے۔

8 بارش اور آب و ہو ا کافرق:
زیادہ گرم اور مرطوب حالات میں عموماً زیادہ کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ معتدل وسر د و خشک آب و ہوا میں اور جہاں مناسب بارش کا یقینی ہو ، کھاد کی مقدارکم استعمال ہوتی ہے۔ اسی طرح کم بارش والے علاقے میں کم جبکہ زیادہ بارش والے علاقے میں قدرے زیادہ مقدار میں کھاد ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

9 پانی کی دستیابی اور توعیت:
اگر نہری پانی وافر مقدار میں دستیاب ہو تو بہت سی فصلوں کے لئے کھاد کی مقدار کم استعمال ہوتی ہے۔ جبکہ کم پانی کی دستیابی کی صورت میں کھاد کی مقدار زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ اگر شہروں کے سیوریج کا پانی زیر استعمال ہو تو بھی کھا۔ دوں کا استعمال کم ہوتاہے۔ مسلسل ٹیوب ویل سے سیراب ہونے والی زمینوں میں اکثر زیادہ کھاد کی ضرور ت ہوتی ہے۔ جبکہ نہری پانی کی صورت میں بعض کھادوں کی کم مقدار استعمال کی جاتی ہے۔

10 جڑی بوٹیا ں اور زہریں:
گندم کچن کھیتوں میں جڑی بوٹیوں کی فراوانی ہو وہاں اگر جڑی بوٹی مار زہر سپرے کرنے کا ارادہ نہ ہو تو مجبوراً زیادہ کھاد استعمال کرنی پڑتی ہے۔ جبکہ صاف کھیتوں میں کھاد کی مقدار کم استعمال ہوتی ہے۔ اسکی بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈالی گئی خوراک کا ایک خاص حصہ تو جڑی بوٹیوں کی نذر ہوجاتاہے۔ بعض زہریں گندم کا قد اور فالتو شگوفے بنانے سے روکتی ہیں۔ چنانچہ جس گندم میں آئیسو پر وٹو ران یا یفینیٹیاستعمال کی گئی ہو وہ زیادہ سے زیادہ کھاد برداشت کر سکتی ہے۔ یہ زہر گندم کو بطورخوراک بھی دستیاب ہوتی ہے۔ اس لئے ایسی صورت میں قدرے کم یو ریا کھاد سے بھی کام چلایا جاسکتاہے۔

11 اقسام کی نوعیت:
گندم کی بعض اقسام کی پیداواری صلاحیت چونکہ زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے وہ زیادہ کھاد طلب کرتی ہیں۔ سحر عقاب ، فیصل آباد 2008 ، پنجاب 2011 زیادہ خوراک طلب کرنے والی اقسام ہیں۔

12 نامیاتی کھادوں کا استعمال:
روڑی یا کمپوسٹ استعمال کرنے کی صورت میں کھادوں خصوصاً یوریا کا استعمال 10تا20 فیصد کم ہوجاتا ہے۔ روڑ۔ ی کی نوعیت اور مقدار کی مناسبت سے کیمیائی کھادوں کی مقدار میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے ۔

13 فصلی ترتیب:
جس فصلی ترتیب میں سبزیات ، کماد، مکئی اور آلو جیسی فصلیں شامل ہوں ، زیادہ کھاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح برسیم اور پھلی دار فصلوں کے بعد والی فصل کو 30 سے 50 فیصدتک کم نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ کماد کے بعد گندم کی کاشت اکثر لیٹ ہوجاتی ہے۔ جن کے نتیجے میں گندم کی پیداوار اکثر کم دستیاب ہو تی ہے۔ بہتر پیداوار کے لئے زیادہ کھاد ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ اس لئے کاشتکاروں کو چاہئے کہ ہماری سفارشات میں حسبِ ضرورت ردوبدل پیدا کر کے اپنے مخصوص حالات کے تنا ظر میں مناسب کھاد کا تعین کریں۔ کھادیں ڈالنے کے وقت اور چھوٹے خوراکی اجزا کے استعمال کے بارے میں مندرجہ ذیل معلومات فراہم کی جاتی ہیں۔

الف - کھاد کس وقت ڈالی جائے؟
درمیانی زمینوں میں ایک تہائی نائٹروجن ، نصف فاسفورس اور نصف پوٹاش بوقتِ کاشت آخر ی سہا گے کے ساتھ ڈالی جائے۔ ایک تہائی نائٹروجن پہلی آبپاشی کے ساتھ ، ایک تہائی نائٹروجن، بقیہ پوٹاش وفاسفورس ملاکر دوسری آبپاشی کے ساتھ ڈالی جائیں۔ اگر کاشت کے وقت فاسفورس نہ ڈالی جاسکی ہو تو پہلی آبپاشی کے ساتھ ڈالی جاسکتی ہے۔ بہترین پیداوار کے لئے N اورP کا تناسب ڈیڑھ اور ایک ہونا چاہئے۔ اس وقت ہمارے بیشتر کاشتکار تین حصے نائٹروجن کے ساتھ صرف ایک حصہ فاسفورس استعمال کرتے ہیں۔ بھاری میرا زمینوں میں اور بارانی علاقوں میں گندم کو جملہ کھاد بوقتِ کاشت ہی ڈالی جائے۔ زیادہ لیٹ (گوبھ کی حالت پر یا اس کے بعد )یوریا کھاد ڈالنے کا فائدہ کم ہوتاہے۔ بلکہ بعض اوقات نقصان بھی ہوسکتا ہے۔ ریتلی زمینوں میں نائٹروجن تین سے زیادہ مرتبہ Split کرکے ڈالنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

ب - اجزا ئے صغیرہ کا استعمال:
حالیہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ کپاس کے 40 فیصد علاقے میں زنگ کی جبکہ 50 فیصد علاقے میں بوران کی کمی پائی جاتی ہے۔زنک کو یوریا کے ساتھ ملاکر استعمال کیا جاسکتاہے۔ لیکن زنک والی کھاد فاسفورس والی کھاد کے ساتھ ملاکر استعمال کی جائے تو اس کاری ایکشن ہو جاتاہے۔ بلکہ ان کو الگ الگ یا ایک آبپاشی کے وقفے سے الگ الگ استعمال کیاجائے ۔ گندم سے ان اجزا کی کمی دور کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔ کہ جڑی بوٹی مارزہر سپرے کرنے کے دوران زنک اور بوران میں سے ہرایک سو گرام فی ایکڑ کے حساب سے زہروں کے ساتھ ملاکر گندم پر سپرے کردی جائے۔ میرا اور ہلکی میرا زمینوں میں گندم کی بھر پور پیداوار حاصل کرنے کے لئے چھوٹے خوراکی اجزا (زنک ، بوران،میٹکا نیز اور آئرن) کا سپرے کے ذریعے استعمال ضروری ہوچکا ہے۔

ج - نئے افق:
اگرچہ زمینی ساخت کی مناسبت سے گندم کی جڑوں کی لمبائی 5 فٹ تک بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن میر ا زمینوں میں فصل کی جڑوں کا افقی پھیلاؤ اکثر و بیشتر تین فٹ تک ہوسکتا ہے۔ بھاری میر ازمینوں میں گندم اپنی خوراک کا اسی فیصد یا زیادہ حصہ 6تا9 انچ کے اندر اندر سے حاصل کرتی ہے ۔ اس میں سے بھی بیشتر خوراک سطح زمین کے قریب سے حاصل کرتی ہیں۔ اس لئے سفارش کی جاتی ہے کہ فاسفورسی کھادیں بھی زمین میں زیادہ گہرائی تک نہ ملائی جائیں۔ حالیہ تجربات سے پتہ چلا ہے کہ گندم کو یوریا کھاد پہلی آبپاشی سے پہلے ڈالنے کی بجائے اس کے گیلے وتر پر ڈالی جائے تو زیادہ فائد ہ پہنچاتی ہے۔ کلر اٹھی زمینوں میں پہلی یا دوسری آبپاشی کرتے وقت ایک بوری امونیم نائٹریٹ کے سا۔ تھ 15 کلو گرام US-20 یا وی سی 10- کا استعمال مفید ثابت ہوتاہے۔ نیز دانہ بننے کے بعد آبپاشی کے ساتھ 5 تا10 کلو گرام پانی میں حل پزیر پوٹاش فرٹیگیشن کے طریقے سے ڈالی جائے تو بھر پور پیداوار حاصل ہوتی ہے ۔

د - کیا کھادیں سپرے کی جاسکتی ہیں؟
مخصوص صورتحال میں سپرے تو کی جاسکتی ہیں۔ سپرے کرنے سے تھوڑی بہت خوراکی کمی دور بھی کی جاسکتی ہے۔ لیکن گندم کی تما م خوراکی ضروریات سپرے کے ذریعے پوری نہیں کی جاسکتیں۔ پودے کا منہ دراصل جڑیں ہی ہوتی ہیں ۔ پتوں کے سوراخوں (Stomata) کے راستے سے پور ی مقدار ای ایک یا دومرتبہ سپرے کرنے سے پوری نہیں ہوسکتی ۔ ایک دو فیصد سے زیادہ کثیف (Concentrated) یو ریا کھاد سپرے کرنے سے گندم جھلس سکتی ہے۔ اس طرح چھوٹے خوراکی اجزا کی حامل بعض کھادیں ترتیب کے بغیر سپر ے کی جائیں تو گندم کو نقصان پہنچ سکتاہے۔ اس لئے گندم کو بیشتر خوراک جڑوں کے راستے سے دینے کی سفارش کی جاتی ہے۔

سٹرابیری ایک نہایت دیدہ زیب اور نفیس پھل ہے۔ جس میں وٹامن سی کی کافی مقدار موجود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نکمیات اور معدنیات پائے جاتے ہیں۔ سٹرابیری کو تازہ پھل کے علاوہ آئس کریم، کیک، جیلی اور دیگر مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے۔

سٹرابیری کا پودا چھوٹا ہوتا ہے جس کی اونچائی تقریباً 35-30 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ یہ دائمی پودا ہے۔ اس کے پتے سبز اور کنارے دانے دار ہوتے ہیں۔ جڑیں زمین میں40-30سینٹی میٹر گہرائی میں چلی جاتی ہیں۔

کاشت کے علاقے
پاکستان میں سٹرابیری کی جنگلی خودرو اقسام مری، ہزارہ، گلگت، کاغان اور باقی شمالی علاقہ جات میں پائی جاتی ہیں۔ یہ پھل ملک کے مختلف علاقوں یعنی لاہور، سیالکوٹ، گجرات، جہلم، راولپنڈی، اسلام آباد، اٹک، ہزارا اور پشاور میں کاشت کیا جاتا ہے۔ وادی سوات اس کی کاشت کے لیے موزوں علاقہ ہے جب کہ بلوچستان کے کئی حصوں میں بھی اس کی کاشت کامیابی سے ہوتی ہے۔

اقسام
یوں تو سٹرابیری کی کئی اقسام ہیں لیکن ہمارے ہاں موسم کی مناسبت سے بہتر پیداوار دینے والی اقسام مندرجہ ذیل ہیں:
چانڈلر
ٹورو
پوکاہونٹس
ٹفٹس
کروز
ڈگلس
پجیرو

ان میں ڈگلس، پجیرو اور چانڈلر اقسام کا پھل سائز کے اعتبار سے دوسری اقسام کی نسبت بڑا ہوتا ہے اور میٹھا بھی زیادہ ہوتا ہے۔

آب و ہوا
معتدل آب و ہوا والے علاقے اس کی کاشت کے لیے بہت موزوں ہیں۔ جب پھول نکل آئیں تو اس کے لیے کہر اور بارش نقصان دہ ہوتے ہیں۔

زمین اور اس کی تیاری
یہ پودا تقریباً ہر قسم کی زرخیز اور قابل کاشت زمین میں اگایا جا سکتا ہے۔ نرسری کی افزائش کے لیے زمین اگر ریتلی ہو تو زیر بچے زیادہ مقدار میں حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اچھی زرخیز اور تیزابی اثر رکھنے والی زمین اس کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔

کاشت سے قبل زمین کو اچھی طرح تیار کر لینا چاہیے۔25-15ٹن فی ایکڑ گوبر کی اچھی طرح گلی سڑی کھاد ملا کر کئی بار ہل چلانا چاہیے۔ کمزور زمینوں میں امونیم سلفیٹ 400کلو گرام فی ایکڑ، سپر فاسفیٹ 240کلو گرام فی ایکڑ اور پوٹاشیم سلفیٹ120کلو گرام فی ایکڑ استعمال کر کے زیادہ پیداوار لی جا سکتی ہے۔ نیز زمین کو تیار کرتے وقت اس کی ڈھلوان کا خیال رکھنا چاہیے تا کہ بارشوں میں پانی کھڑا نہ ہو سکے۔

کھاد کا استعمال
جب پودے بڑھوتری کے دنوں میں ہوں تو ان کو ایک گرام یوریا کھاد فی لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کرنے سے بڑھوتری پر اچھے اثرات پڑتے ہیں۔ سپرے سے پودا مکمل طور پر بھیگ جانا چاہیے۔

طریقہ کاشت و موسم
سٹرابیری کو مختلف طریقوں سے کاشت کیا جاتا ہے۔ اس کے پودے گملوں میں بھی لگائے جاتے ہیں لیکن تجارتی پیمانے پر اس کی کاشت کے لیے پٹریاں بنائی جاتی ہیں جن کی اونچائی30سینٹی میٹر اور چوڑائی70-60سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ پٹری سے پٹری کا فاصلہ35-30 سینٹی میٹر اور پودوںکی قطار سے قطار کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہونا چاہیے۔ پودے ایک دوسرے کے سامنے نہیں لگانے چاہئیں بلکہ متبادل کاشت کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ انفرادی قطاروں میں بھی اس کی کاشت کی جا سکتی ہے۔ نرسری میں پودوں کا درمیانی فاصلہ زیادہ رکھنا چاہیے تا کہ زیربچوں کو پھلنے پھولنے ک لیے زیادہ جگہ مل سکے۔ پاکستان میں آب و ہوا اور حالات کے لحاظ سے موسم سرما کی کاشت موزوں ہے۔ نرسری سے اکتوبر، نومبر میں پودے اکھاڑ کر انہیں نومبر، دسمبر میں تیار شدہ زمین میں لگانا چاہیے۔ پودوں کو منتخب کرتے وقت صحت مند ساق روں رنرز (Runners) کا چناؤ کرنا چاہیے۔پودا لگانے سے پہلے اس کے فالتو پتے اور جڑیں کاٹ دینی چاہئیں۔ کاشت سے پہلے ساق روں کو کولڈ سٹوریج میں6-2سینٹی گریڈ پر20-15دن تک رکھنے سے پودوں کی مطلوبہ ٹھنڈک کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ کولڈ سٹوریج میں رکھنے سے پہلے پودوں کو پھپھوندی کش دوا لگانی چاہیے۔ اس کے لیےBenlate، Dithane وغیرہ موزوں ہیں۔

نرسری اور پودوں کا حصول
صحت مند اور تندرست زیر بچے حاصل کرنے کے لیے پہاڑی علاقوں میں نرسری لگانی چاہیے۔ پہاڑی علاقوں میں افزائش نسل کے لیے موسم سازگار ہوتا ہے اور پودے کی ٹھنڈک کی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے۔ زیر بچے سوات میں واقع نرسریوں یا کاشتکاروں سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

آبپاشی
پودوں کو لگاتے وقت پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ کاشت کے وقت پودوں کو کسی ٹھنڈی جگہ یا گیلی بوری یا پانی میں رکھنا چاہیے تا کہ جڑی سوکھ نہ جائیں۔پودے لگانے کے فوراً بعد ان کو پانی دینا چاہیے۔ بڑھوتری کے دوران پانی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ پہلے15-10دنوں تک اگر موسم گرم ہو تو روزانہ مناسب پانی لگانا چاہیے۔پھل کے موسم میں پھل اتارنے کے بعد پانی دینے سے پھل کا سائز بڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آبپاشی ضرورت کے مطابق کرنی چاہیے۔ اگر موسم گرم ہو تو آبپاشی کے دوران وقفہ کم کر دینا چاہیے۔ بالیدگی کے لیے10-7دن بعد کھلا پانی لگانا چاہیے۔ بہت گرم دنوں میں ہر دوسرے دن پانی لگانے پودے جھلساؤ سے محفوظ رہتے ہیں۔

جڑی بوٹیوں کا انسداد
جڑی بوٹیوں سے سٹرابیری کے پودے کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذا پودوں کے اردگرد گوڈی کر کے جڑی بوٹیوں کو صاف کرتے رہنا چاہیے۔ گوڈی سے نہ صرف پودے کے اردگرد کی زمین صاف ہو جاتی ہے بلکہ زمین کیAeration بھی ہو جاتی ہے۔ جڑی بوٹیوں کے انسداد کے لیے بوٹی مار ادویات کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

کیڑے مکوڑے، بیماریاں اور ان کا تدارک
پاکستان میں اس وقت سٹرابیری محدود علاقوں پر کاشت ہورہی ہے جس کی وجہ سے ان پر کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ بہت کم ہوتا ہے۔سٹرابیری کے پودوں پر رس چوسنے والے کیڑوں (تیلا اور جوئیں) کا حملہ ہوتا ہے جس سے پودے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔کیڑوں کے علاوہ سفید پھپھوندی اور پھل کا گلنا سڑنا اس کی عام بیماری ہے۔ اس سے پھل کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔ ان سے بچاؤکے لیے میلا تھیان اور بینلیٹ کا سپرے ضروری ہے۔تنے کی سنڈیوں کے تدارک کے لیے کونفیڈور اور بینلیٹ کا استعمال کریں۔

پرندوں سے حفاظت
بعض اوقات سٹرابیری کی فصل کو پرندے خاص طور پر کوے اور طوطے بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔اس صورت میں کھیت کے قریب ڈھول یا پوٹاش کی دھماکہ خیز آوازیں پیدا کریں تا کہ پرندے ڈر کر اڑ جائیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں پرندوں کے تدارک کے لیے تمام کھیت پر جال لگایا جاتا ہے۔ جس سے تمام فصل پرندوں کے حملے سے محفوظ رہتی ہے۔ ایک بار خریدا ہوا جال چار پانچ سال تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔

فصل کی برداشت
اگر موسم موزوں رہے تو میدانی علاقوں میں سٹرابیری کے پودے فروری کے آخر یا مارچ کے پہلے ہفتے میں پھول دینا شروع کر دیتے ہیں۔ پھولوں کی بارآوری ہوا اور کیڑوں سے ہوتی ہے۔ لہذا تجارتی پیمانے پر بارآوری کے لیے شہد کی مکھیوں کے چھتے رکھ دئیے جاتے ہیں۔ پھول سے پھل بننے تک تقریباً30 دن لگتے ہیں لیکن اس کا انحصار موسمی حالات پر ہے۔ پھول کھلنے کے دنوں میں بارش اور خصوصاً ژالہ باری بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے پلاسٹک کی ٹنل(Tunnel )استعمال کی جا سکتی ہے۔

پھل جب اپنا اصلی رنگ پوری طرح پکڑ لے تو اس کو برداشت کر لینا چاہیے۔ پھل اتارنے کے دنوں میں آبپاشی سے مناسب سائز کا پھل حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن زیادہ پانی دینے اور پانی کھڑا رہنے سے پھل گل سڑ جاتے ہیں۔ پھل کے آس پاس پانی کھڑا نہیں رہنا چاہیے۔

پھل اتارنے کی احتیاطی تدابیر
٭  پھل ہاتھوں سے توڑنا چاہیے۔ پھل کے ساتھ تقریباً ایک انچ سے زیادہ ڈنڈی نہیں ہونی چاہیے۔

٭ پھل صبح سویرے توڑ کر چھاؤں میں رکھ دینا چاہیے اور گل سڑ جانے والے پھل توڑ کر علیحدہ رکھ دینے چاہئیں۔

٭ پھل اتارتے وقت پودے کے چاروں طرف دیکھنا چاہیے کہ کوئی پکا ہوا پھل اتارنے سے رہ نہ جائے۔

٭ پھل کو پلاسٹ یا کسی دوسری ٹوکری میں احتیاط سے منڈی تک پہنچانا چاہیے۔ ایک ٹوکرے یا کریٹ میں زیادہ پھل نہیں ڈالنا چاہیے۔ اس سے نچلے پھل دب جانے سے زخمی ہو جاتے ہیں۔

انگورکا حیاتیاتی تام Vitis vinifera ہے ۔یہ سخت سرد یا سخت گرم اور مرطوب آب و ہوا والے علاقہ جات کے علاوہ دنیا کے تمام حصوں میں کاشت ہوتا ہے۔ یعنی سطح سمندر سے لے کر 10,000 فٹ تک کی بلندی تک اگایا جا سکتا ہے لیکن پہاڑی اور نیم پہاڑی علاقہ جات تقریباً 6000 فٹ کی بلندی تک اس کی کاشت کے لیے نہایت موزوں ہیں۔ پاکستان میں تقریباً 37000 ایکڑ اراضی پر اس کی کاشت ہو رہی ہے اور اس کی پیداوار تقریباً 75000 ٹن سالانہ ہے۔

انگور کی زیادہ تر کاشت پاکستان میں صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ اور قلات کے علاقوں میں کی جاتی ہے۔ اس کی کچھ اقسام آج کل میدانی علاقوں میں بھی کامیابی سے کاشت کی جا رہی ہیں۔

انگور تجارتی پیمانے پر باغ کی صورت میں لگایا جاتا ہے جسے وائن یارڈ (vineyard) کہتے ہیں۔ انگور کی کاشت پودے سے پودا 8فٹ اور قطار سے قطار 10 فٹ فاصلے کے مطابق کی جاتی ہے اس طرح ایک ایکڑ میں پودوں کی تعداد 550 بنتی ہے۔ یہ پودا ایک بیل کی صورت میں اگتا ہے اور اس کا پھل گچھوں کی صورت میں ہوتا ہے۔

آب و ہوا
یہ سرد اور معتدل علاقوں کا پھل ہے اور38°C سے 42°C درجہ حرارت تک بخوبی بڑھتا ہے۔ انگور کی بیل زیادہ اور کم درجہ حرارت کو کافی حد تک برداشت کر لیتی ہے۔ خشک اور نیم گرم درجہ حرارت اس کی مناسب افزائش اور پھل کی نشونما کے لیے بہت ہی مفید ہے۔ موسم گرما کی بارش اس کے پھل پکنے کے لیے ایک شدید خطرہ ہے۔اس وقت زیادہ رطوبت کے باعث پھل پھٹ جاتا ہے اور اس میں پھپھوندی پیدا ہو جاتی ہے اور پھل گلنے سڑنے لگتا ہے۔یہی وجہ ہے کے عمدہ اقسام کو زیادہ برسات کے باعث کاشت نہیں کیا جا سکتا اس لیے ایسی اقسام جو مون سون کی بارشوں سے پہلے پک جاتی ہیں ان کی قومی زرعی ترقیاتی مرکز اسلام آباد میںمنتخب کی گئی ہیں اور کاشت کے لیے باغبانوں میں متعارف کرا دی گئی ہیں۔

اقسام
 میدانی علاقوں کی اقسام
                  ۱۔              فلیم سیڈلیس (سرخ)

                  ۲۔              کارڈینال (سرخ ، بیج والا)

                  ۳۔              کنگز روبی (سرخ ، بغیر بیج)

                  ۴۔              پرلیٹ (سبز، بغیر بیج)

                  ۵۔              این۔ اے۔ آر۔ سی بلیک (کالا، بیج والا)

مندرجہ ذیل اقسام عام طور پر صوبہ بلوچستان میں کاشت کی جاتی ہیں ۔

                  ۱۔              سفید کشمش                                 ۲۔              شنڈوخانی

                  ۳۔              سرخ کشمش                                 ۴۔              ہیتھا

                  ۵۔              صاحبی وغیرہ

زمین
 انگور کی کاشت کے لیے مختلف قسم کی زمین مثلاً ہلکی زمین سے لے کر چکنی زمین اور پتھریلی زمین تک موزوں ہے لیکن اچھی نکاس والی ہلکی چکنی زمین انگور کی کاشت کے لیے بے حد موزوں ہے۔ جب انگور کی بیل ریتلی اور کنکریلی زمینوں پر کاشت کی جائے تو اسے دیگر پت جھڑ والے پودوں کی طرح کھاد دینے کے لیے خاص خیال رکھا جائے۔ کنکریلی زمین میں کاشت شدہ انگور کا پھل بہ نسبت چکنی زمینوں کے جلد پک جاتا ہے جو کہ باغبانوں کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔

افزائش نسل
 انگور کی کاشت عام طور پر بذریعہ قلم کی جاتی ہے کیونکہ بذریعہ تخم اس کی کاشت قطعاً موزوں نہیں ہے۔ پتے جھڑ جانے کے بعد جب پودے خوابیدہ حالت میں ہوں اس کی قلمیں تیار کی جاتی ہیں۔ قلمیں عموماً ایک سال کی شاخوں سے تیار کی جاتی ہیں۔ قلم کی لمبائی تقریباً 9 انچ ہونی چاہیے جس پر 3-4 چشمے ہوں۔ قلم کو تیار کرتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ قلم کے نچلے سرے والا کٹ گانٹھ کے قریب ہو تاکہ جڑیں نکلنے میں آسانی رہے۔دسمبر کے آخر میں شاخ تراشی کے بعد کٹی ہوئی ٹہنیوں کی قلمیں تیار کر کے انہیں گیلی ریت میں دبا دیا جاتا ہے جسے کیلسنگ (Callusing) کہتے ہیں۔

وسط فروری میں قلموں کو ریت سے نکال کر پولی ٹیوبز (Polytubes) میں لگا دیا جاتا ہے۔ قلمیں سیدھی کھیت میں بھی لگائی جا سکتی ہیں اور اگر آپ چاہیں تو پہلے نرسری میں اور اس کے بعد کھیت میں تبدیل کی جا سکتی ہیں۔ قلم لگانے کے لیے قلم کی 2 یا 3 آنکھیں زمین سے باہر اور باقی حصہ زمین کے اندر دبا دیں۔ قلموں کو ایک سال نرسری میں رکھنے کے بعد اگلے سال فروری میں کھیت میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ اگر سیدھا کھیت میں قلمیں لگانا مقصود ہو تو 2 یا 3 قلمیں ایک ہی گڑھے میں لگا دیں تا کہ ناکامی کا خدشہ کم ہو۔اگر ساری قلمیں جڑ پکڑ لیں تو ایک قلم چھوڑ کر باقی قلمیں دوسری جگہ منتقل کی جا سکتی ہیں۔

پودے لگانا
پودے لگانے سے بیشتر ہل اور سہاگہ چلا کر زمین تیار کر لی جائے۔ پھر 8 فٹ ×10 فٹ کے حساب سے مستعطیل طریقہ کے مطابق داغ بیل کر کے نشان لگائے جائیں۔ پودے کے نشان والی جگہ پر 1.5 ×1.5 فٹ کا گڑھا بنائیں ۔ دس تا پندرہ دنوں تک گڑھا کھلا رکھنے کے بعد اوپر کی ایک فٹ مٹی میں ایک حصہ گوبر کی گلی سڑی کھاد اور ایک حصہ بھل یا آدھ حصہ ریت ملا کر گڑھے کو زمین کی سطح سے تقریباً8 انچ اوپر تک بھر دیں۔ پودے کی جڑوں کی گاچی کے مطابق درمیان میں گڑھا بنائیں اور پودا لگا کر اردرگرد کی مٹی ڈال کر اچھی طرح سے دبائیں اور کیاری بنا کر کھلا پانی دے دیں۔ پودا لگانے کے تین دن بعد تک ہر شام ہلکا پانی لگا دیں۔خشک ہونے پر کیاری میں دراڑیں پڑ جائیں تو ہلکی گوڈی کر دیں۔ جب پودا جڑ پکڑ جائے تو پانی کا وقفہ بڑھا کر 3 تا 4 دن کر دیں۔

آبپاشی اور کھاد کا استعمال
انگور کے پودوں کی آبپاشی کا انحصار اس علاقے کی زمیں اور آب و ہوا پر ہوتا ہے۔اگر موسم گرما میں بارش مناسب وقفوں سے ہوتی رہے تو آبپاشی کی ضرورت نہیں رہتی لیکن گرم موسم میں پھل کی مناسب بڑھوتری ،پیداوار اور کوالٹی کے لیے آبپاشی ضروری ہو جاتی ہے۔

کھادوں کا استعمال زمین کی قسم کے مطابق کرنا چاہیے ۔ اگر زمین کو گوبر کی کھاد ہر سال دی جائے تو پھر کیمیائی کھادوں کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ عام طور پر150 گرام اےن پی کے (زرخیز) فی پودا وسط مارچ میں استعمال سے پیداوار میں خاطر خواہ اثر پڑتا ہے۔ دانے بننے کے بعد 100 گرام سلفیٹ آف پوٹاش (SOP) فی پودا ڈالنے سے پھل کی کوالٹی پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔

نظام تربیت
انگور کی تربیت بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ پودوں کی مخصوص شکل گچھوں کو مناسب سہارا دینے ، ان کی پختگی اور گلنے سڑنے سے محفوظ رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ انگور کی تربیت کے کئی طریقے ہیں جن میں خندق والا طریقہ، ہیڈ سسٹم اور کین سسٹم شامل ہیں۔ بلوچستان میں کم بارش کی وجہ سے خندق والا طریقہ زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ انگور کے جدید طریقہ کاشت میں بیلوں کو کین سسٹم کے تحت تاروں پر تربیت دی جاتی ہے۔ اس طریقے سے گچھے گلنے سڑنے سے محفوظ رہتے ہیں۔

شاخ تراشی
انگور کی شاخ تراشی ایک اہم عمل ہے اس کے لیے بہت مہارت کی ضرورت ہے۔ شاخ تراشی ہر سال زیادہ پھل اور بیلوں کو تربیتی نظام پر قائم رکھنے کے لیے کی جاتی ہے۔ شاخ تراشی ماہ دسمبر کے آخر میں جب پودے خوابیدہ حالت میں ہوں کی جاتی ہے۔ لیکن اگر شاخیں زیادہ بڑھ رہی ہوں اور زمین کو چھونے لگیں تو موسم گرما میں بھی تھوڑی بہت شاخ تراشی کی جا سکتی ہے۔شاخ تراشی کے دوران کئی باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے مثلاً اقسام کی پھل دینے کی عادت اور پچھلے سال کی پیداوار کی مقدار وغیرہ ۔ جن اقسام میں پھل شاخوں کے پچھلے حصے پر لگتا ہے شاخ تراشی کرتے وقت ان کو چھوٹا رکھا جا سکتا ہے ۔ اور جن اقسام کا پھل شاخوں کے اوپر والے حصے پر لگتا ہے ان کی لمبائی زیادہ رکھی جاتی ہے تا کہ بیل والے شگوفے زیادہ نہ کٹ جائیںجو بعد میں پیداوار میں کمی کا باعث بنیں شا خ تراشی کے دوران شاخوں کو زخمی ہونے سے بچائیں نیز شاخ تراشی کے آلات تیز ہونے چاہئیں۔

پھل کی چھدرائی
 پودے لگانے کے 4 سال بعد جب پودا پوری پیداوار کو پہنچتا ہے عام طور پر انگور کی بیل میں تقریباً 80 سے زائد گچھے نکل آتے ہیں جن سے اعلٰی کوالٹی کا پھل حاصل نہیں ہو سکتا۔ لہذا گچھوں پر بور آتے وقت ان کی چھدرائی بہت ضروری ہوتی ہے ۔ہر نئی کونپل پر عموماً دو گچھے نکلتے ہیں نیچے والا گچھا چھوڑ دیا جائے اور ہر کونپل کا اوپر والا گچھا کاٹ دیا جائے ۔ اس کے باوجود 30تا 35 گچھے باقی رہ جاتے ہیں ۔ اب ہر چھوٹا گچھا اور جہاں گچھے زیادہ گھنے ہوں وہاں سے کاٹ لیے جائیںحتاکہ ایک بیل پر زیادہ سے زیادہ تعداد 20 رہ جائے ۔ اس طرح اچھی خوراک لے کر دانہ بڑا بنے گا اور گچھے کا سائز بھی کافی بڑا ہو گاجسے مارکیٹ میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔

برداشت
انگور کی بیل عموماً 4-3 سال میں پورا پھل دینا شروع کر دیتی ہے۔ پھل کی برداشت اس وقت کی جائے جب دانے اپنا پورا سائزحاصل کر لیں اور میٹھے ہو جائیں۔ گچھے قینچی سے کاٹنے چاہیے اور ان کو گتے کے کاٹن میں اس طرح رکھیں کہ دانے زخمی نہ ہونے پائیں۔ پیک کرتے وقت خراب دانے نکال دیں ورنہ یہ دوسرے دانوں کو بھی خراب کر دیں گے۔ اس کہ جلد منڈی تک پہنچانا چاہیے ۔ کچھ دنوں کے لیے اس کو کولڈ سٹور میں بھی رکھا جا سکتا ہے۔

کیڑے اور بیماریاں
دوسرے پودوں کی طرح انگور پر بھی کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ ہوتا ہے۔ کیڑوں میں بھڑ، سکیل ، بھونڈی وغیرہ شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ مِلی بگ بھی انگور کو نقصان پہنچاتی ہے ۔ بیماریوں میں پھپھوندی ، بوٹ رائٹس پتوں اور کونپلوں کا مرجھاؤ شامل ہیں۔ ان کے خلاف محکمہ کی سفارش کردہ ادویات کا مناسب وقت پر استعمال بہت ضروری ہے۔ پھپھوندی یعنی Downy Mildew کے خلاف ٹاپسن ایم بحساب 2.5 گرام فی لیٹر پانی کا سپرے بے حد موثر ہے۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget