جنوری 2018

موسم گرما کی سبزیوں میں بھنڈی، سبز مرچ، شملہ مرچ اور کریلہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ شملہ مرچ موسم گرما
کی اہم سبزیوں میں شمار ہوتی ہے جس کی کاشت کیلئے معتدل اور مرطوب آب و ہوا موزوں رہتی ہے۔ پھل لگنے کے دوران اگر درجہ حرارت ۳۲ سینٹی گریڈ سے بڑھ جائے اور ہوا میں رطوبت بھی کم ہو تو شملہ مرچ کا پودا پھل دینا بند کردیتا ہے اور اگر دن کا درجہ حرارت ۱۶ درجہ سینٹی گریڈ سے کم ہو تو بھی پھل نہیں آتا۔ کم درجہ حرارت کی صورت میں شملہ مرچ کے پودے پر آنے والا پھل بہت چھوٹاا ور بیج کے بغیر ہوتا ہے جبکہ زیادہ درجہ حرارت کی صورت میں بھی بیج اچھا نہیں بنتا۔ پنجاب کے میدانی علاقوں میں شملہ مرچ کا بیج بطور پنیری اکتوبر کے وسط سے آخر تک بویا جاتا ہے اور اسے فروری کے وسط میں، جب کہر کا خطرہ نہ ہو، کھیت میں لگا دیا جاتا ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور زراعت و لائیو اسٹاک نہ صرف ہمارے ملک سے غربت کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں بلکہ یہ مستقبل کے اہم کاروبار بھی ثابت ہونگے۔ بڑی تعداد میں بزنس مین اور صنعتکار اب زراعت اور لائیو اسٹاک کی طرف منتقل ہو رہے ہیں، جسے خوش آئند قرار دیا جارہا ہے۔ زمیندار، فارمر، تاجر اور صنعتکار کا ملاپ اور مشترکہ مقاصد کیلئے جدوجہد پاکستان میں ایک بہت بڑے انقلاب کا باعث بنے گا۔ ان طبقات کی طرف سے شتر مرغ فارمنگ کی زبردست پذیرائی پاکستان کو اوسٹرچ فارمنگ کے شعبے میں دنیا بھر میں سر فہرست بنا دے گی۔

رب کائنات نے اس پرندے میں گوشت پیدا کرنے کی اتنی صلاحیت رکھی ہے کہ یہ اکیسویں صدی کے انسان کی غذائی ضروریات پوری کرسکتا ہے۔ شترمرغ کا گوشت آجکل کے بے شمار امراض میں بے حد فائدہ مند ہے۔ ابتدء میں صرف ڈیڑھ کلو خوراک کھا کر شترمرغ کے وزن میں ایک کلو کا اضافہ ہوجاتا ہے جبکہ بعد میں یہ تناسب ۳:۱ ہو جاتا ہے۔ شترمرغ دنیا کا سب سے بڑا پرندہ ہے جس کا وزن ابتدائی ۱۰ ماہ میں ۱۰۰ کلوگرام تک پہنچ جاتا ہے۔ شترمرغ کا قد ۸ سے ۹ فٹ ہوتا ہے جبکہ اس کی اوسط عمر ۶۰ سے ۷۰ سال ہے۔ اس کی مادہ اوسطاً ۴۰ سال کی عمر تک ہر سال ۷۰ سے ۱۰۰ انڈے دیتی ہے اور اگر اسے مناسب اور درست خوراک دی جائے تو یہ ۲ سال کی عمر میں ہی انڈے دینا شروع کر دیتی ہے۔ شتر مرغ أ۶ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے اور ہر موسم کی سختی برداشت کر سکتا ہے۔ ابتداء میں ۵ ماہ کی عمر تک شتر مرغ کو سردی و گرمی سے بچانا پڑتا ہے جس کے بعد یہ سخت سے سخت سردی اور گرمی بھی باآسانی برداشت کر لیتا ہے۔
شتر مرغ کی فارمنگ دنیا کے ۱۰۰ سے زائد ممالک میں شروع ہو چکی ہے اور اس کا شمار بہت زیادہ منافع دینے والی فارمنگ میں ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں پاکستان اوسٹرچ کمپنی کی محنت اور راہنمائی سے یہ کاروبار باآسانی شروع کیا جا سکتا ہے۔ شتر مرغ کو گوشت کی پیداور کیلئے بہترین ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور اس کا گوشت بکرے یا ہرن کے گوشت سے ملتا جلتا ہے جس میں کولیسٹرول اور چکنائی کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے۔ بیشتر یورپی ممالک کے علاوہ امریکہ، جرمنی، جاپان اور مشرق بعید کے بیشتر ممالک میں اسکے گوشت کی بہت زیادہ مانگ ہے۔
شترمرغ کی فارمنگ میں ویکسی نیشن اور ادویات کا استعمال نہ ہونے کے برابر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسے نامیاتی غذاء کے طور پر متعارف کروانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شتر مرغ کی فارمنگ کرنے والے ممالک میں متعدد افریقی ممالک کے علاوہ آسٹریلیا، چین، ایران، سعودی عرب، اردن، مصر، ترکی اور دیگر کئی ممالک شامل ہیں، لیکن بدقسمتی سے ایک زرعی ملک ہونے کی باوجود اور حکومتوں کی عدم توجہ کے باعث ہمارا ملک آج بھی اس فارمنگ میں بہت پیچھے ہے۔
پاکستان میں شترمرغ کی فارمنگ متعارف کروانے والی پاکستان اوسٹرچ کمپنی نے ۱۰ سال کی انتھک کوششوں اور لاتعداد رکاوٹوں کے باوجود اوسٹرچ فارمنگ کو پاکستان میں کامیاب بنا دیا ہے، جبکہ پی او سی کے منتظمین کا کہنا ہے کہ وہ عوام کے تعاون سے آئندہ ۵ برسوں میں پاکستان کو دنیا میں اوسٹرچ فارمنگ کے شعبے میں سر فہرست ممالک کی صف میں لے آئیں گے۔
پاکستان کی آب وہوا اور ماحول اوسٹرچ فارمنگ کیلئے انتہائی موضوع ہے۔ شترمرغ کی اہم خوراک لوسن ہے اور یہ چارہ ہمارے یہاں انتہائی سستا اور عام ہے۔ اس کے ساتھ شترمرغ کو عام پولٹری فیڈ سے ملتی جلتی فیڈ بھی دی جاتی ہے جس کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے۔ شترمرغ سال بھر میں صرف ۸ سے ۱۰ ہزار روپے کے اخراجات سے ۱۰۰ کلو تک وزنی ہوجاتا ہے جس میں سے تقریباً ۶۰ کلو تک صاف گوشت حاصل ہوتا ہے۔
یوں تو پاکستان میں اوسٹرچ فارمنگ کیلئے گذشتہ ۲۰ سال سے کوششیں کی جارہی تھیں لیکن کامیابی کا سہرا پاکستان اوسٹرچ کمپنی کے سر ہے، جس کا مشن آنے والے وقت میں شترمرغ کا گوشت گلی محلوں میں قصاب کی دوکانوں تک عام کرنا ہے۔ شتر مرغ کا جو بچہ بھارت میں ۶۵ ہزار روپے کا ہے وہ پاکستان اوسٹرچ کمپنی کی طرف سے صرف ۱۸ ہزار روپے میں فروخت کیا جارہا ہے، جبکہ دنیا بھر میں شترمرغ کے چوزوں کی قیمت کا اندازہ انٹر نیٹ پر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کو شترمرغ کی فارمنگ میں کامیاب بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اس اس وقت زیادہ سے زیادہ بریڈنگ فارمز بنائے جائیں تاکہ مقامی طور پر چوزوں کی پیداوار شروع ہو سکے اور ان چوزوں کی قیمت بھی کم ہو سکے۔ پاکستان میں خصوصاً پنجاب کے فارمرز کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں بریڈنگ فارمز بنانے کا مطلو بہ ٹارگٹ حاصل کر لیا جائے گا۔
شتر مرغ کے بریڈنگ فارم شروع کرنے کیلئے چار چیزیں ضروری ہیں، جن میں ذاتی سرمایہ، ذاتی جگہ، شوق اور صبر شامل ہے۔ گھروں، فارم ہاؤسز، ڈیروں یا شوقیہ شترمرغ کی فارمنگ کے خواہشمند افراد کیلئے ضروری ہے کہ وہ زیادہ عمر کے شتر مرغ جوڑوں کی صورت میں خریدیں۔
شترمرغ کی فارمنگ تجرباتی بنیادوں پر شروع کرنے والے افراد کم از کم ۳ یا ۴ ماہ کی عمر کے ۲۰ عدد شتر مرغ خریدیں، جبکہ چھوٹے فارمرز کیلئے ضروری ہے کہ وہ بریڈنگ کیلئے کم ازکم ۲ یا ۳ ماہ کی عمر کے ۵۰ پرندے خریدیں۔ ۵۰ پرندوں کے بریڈنگ فارم کے لئے ابتداء میں ایک کنال، جبکہ ۵ ماہ کے بعد ۳ سے ۴ کنال اور ۲ سال کے بعد ۳ ایکٹر جگہ درکار ہوتی ہے۔ گوشت کیلئے پرندوں کی خریداری اس طرح سے کریں کہ ۱۰ ماہ کے بعد ہر ماہ ۱۰، ۲۰ یا ۵۰ پرندے ذبح کر کے مارکیٹ میں فراہم کئے جا سکیں۔ گوشت کیلئے ایک ایکڑ جگہ پر ۲۰۰ تک پرندے رکھے جاسکتے ہیں۔
نئے فارمرز کیلئے ضروری ہے کہ وہ ۲ ماہ سے کم عمر کے بچے ہر گز نہ خریدیں، کیونکہ ۲ ماہ سے کم عمر کے بچوں میں شرحِ اموات زیادہ ہوتی ہے۔ ۲ ماہ کی عمر کے ۵۰ بچوں کیلئے ابتدائی چند ہفتوں تک ۳۰ فٹ چوڑائی اور ۱۲ فٹ لمبائی کا کمرہ اوردرجہ حرارت ۲۵ سینٹی گریڈ تک رکھا جائے، جبکہ کمرے کا فرش کھردرا، خشک یا اینٹوں سے بھی بنایا جاسکتا ہے۔ صحن کی چوڑائی کم اور لمبائی زیادہ ہونا ضروری ہے۔
شتر مرغ کیلئے پاکستان اوسٹرچ کمپنی کی تجویز کردہ خوراک یا عام پولٹری فیڈ میں پی او سی کے فراہم کردہ مخصوص اجزاء ملا کر دیئے جاسکتے ہیں، جبکہ سبز چارہ میں شترمرغ کیلئے سب سے بہتر لوسن ہے۔ ابتداء میں لوسن کی کم مقدار دی جائے اور بڑا ہونے کے بعد یہ مقدار بتدریج بڑھا دی جائے۔ شتر مرغ کو خوراک کے مقابلے میں دو گنی مقدار میں پینے کا صاف پانی درکار ہوتا ہے۔
شتر مرغ بہت زیادہ قوت مدافعت رکھنے والا پرندہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ بہت کم بیمار ہوتا ہے، تاہم صحت کے زیادہ تر مسائل چھوٹی عمر میں ہوتے ہیں۔ ابتدا میں یہ مسائل کھانے پینے یا معدے سے متعلق ہوتے ہیں جو بہتر فیڈ، صاف ستھری جگہ اور بہتر دیکھ بھال سے حل ہو جاتے ہیں۔ شتر مرغ کیلئے بالعموم ادویات اور ویکسین کی ضرورت نہیں ہوتی، تاہم ضرورت کے وقت پولٹری اور جانوروں کے استعمال کی عام ادویات ڈاکٹر کے مشورے سے دی جاسکتی ہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی شوقیہ اور بریڈنگ کیلئے بڑے پرندے خریدنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ پاکستان سے اس وقت صرف زندہ شترمرغ برآمد کئے جارہے ہیں، جبکہ مقامی طور پر پیداوار بڑھنے سے اس کا گوشت اور چمڑا بھی برآمد کیا جاسکے گا۔

 پاکستان اوسٹرچ کمپنی اور ایک مقامی اخبار کے کلچرل ونگ کے اشتراک سے گزشتہ دنوں شتر مرغ کی فارمنگ کے حوالے سے ’’شتر مرغ فارمنگ، بڑا پرندہ، بڑا منافع‘‘ کے عنوان سے ایک اہم آگاہی پروگرام منعقد کیا گیا۔ الحمرا ہال میں منعقدہ اس پروگرام کی صدارت بریگیڈیئر (ر) زمرد علی خان نے کی۔
تقریب سے اپنے خطاب میں پاکستان میں کمرشل اوسٹرچ فارمنگ کے بانی راجہ طاہر لطیف نے شتر مرغ کی فارمنگ کے حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ شترمرغ کا گوشت انتہائی صحت بخش ہے جس میں ہائی بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کے علاوہ ہیپا ٹائیٹس کے مریضوں کیلئے بھی شفاء ہے۔ شترمرغ کے انڈے کی سفیدی ہیپا ٹائیٹس کے مریضوں کے لئے تریاق سمجھی جاتی ہے، جبکہ ہمارے حکماء، ڈاکٹر اور سائنسدان اکیسویں صدی کے انسان کے لئے رب کائنات کی اس مخلوق پر مختلف حوالوں سے تحقیق کر کے بے شمار رازوں سے پردہ اٹھا سکتے ہیں۔ پاکستان اوسٹرچ کمپنی اس سلسلے میں ہر طرح کا تعاون کرنے کیلئے تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ شتر مرغ بلاشبہ ایک ایسا پرندہ ہے جس کا گوشت آج کے انسان کے لئے بے شمار فوائد کا حامل ہے، جبکہ کم سے کم خوراک کھا کر زیادہ سے زیادہ وزن حاصل کرنے کی صلاحیت میں شتر مرغ اپنا ثانی نہیں رکھتا۔
اوسٹرچ فارمنگ کے ماہر راجہ طاہر لطیف کے مطابق پاکستان کی آب وہوا اور ماحول شترمرغ کیلئے انتہائی موزوں تصور کی جاتی ہے جبکہ اس پرندے کی اہم خوراک بھی لوسن ہے اور یہ چارہ ہمارے یہاں انتہائی سستا اور عام ہے۔ اس کے ساتھ شترمرغ کو عام پولٹری فیڈ سے ملتی جلتی خوراک بھی دی جاتی ہے جس کی مقدار انتہائی کم ہوتی ہے۔ سال بھر میں ۸ سے ۰۱ ہزار روپے کے اخراجات سے شترمرغ کا وزن ۱۰۰ کلوگرام تک پہنچ جاتا ہے جس میں سے صاف گوشت کی مقدار تقریباً ۶۰ کلوگرام ہوتی ہے۔
پاکستان میں شترمرغ کی نسل کشی کیلئے مقامی طور پر انکیوبیٹرز کی تیاری کا بھی اہتمام کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں ابتدائی طور پر ا نکیوبیٹر ضلع جہلم اور کراچی میں لگا ئے جا رہے ہیں جبکہ توقع ہے کہ آئندہ ۲۰ ماہ کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں مزید ۱۰ انکیوبیٹرز لگائے جائیں گے۔
شترمرغ کا قد ۸ سے ۹ فٹ ہوتا ہے جبکہ اس کی اوسط عمر ۶۰ سے ۷۰ سال ہے۔ اس کی مادہ اوسطاً ۴۰ سال کی عمر تک ہر سال ۷۰ سے ۱۰۰ انڈے دیتی ہے اور اگر اسے مناسب اور درست خوراک دی جائے تو یہ ۲ سال کی عمر میں ہی انڈے دینا شروع کر دیتی ہے۔ شتر مرغ ۶۰ کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتا ہے اور ہر موسم کی سختی برداشت کر سکتا ہے۔ ابتداء میں ۵ ماہ کی عمر تک شتر مرغ کو سردی و گرمی سے بچانا پڑتا ہے جس کے بعد یہ سخت سے سخت سردی اور گرمی بھی باآسانی برداشت کر لیتا ہے۔
شتر مرغ کی فارمنگ میں ویکسینیشن اور ادویات کا استعمال تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے، اسی لئے اسے نامیاتی غذاء کے طور پر متعارف کروانے کی بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ شترمرغ کی فارمنگ کرنے والے ممالک میں متعدد افریقی ریاستوں کے علاوہ آسٹریلیا، چین، ایران، اسرائیل، سعودی عرب، اردن، مصر اور ترکی وغیرہ شامل ہیں لیکن بدقسمتی سے ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود حکومتوں کی عدم توجہ کے باعث ہمارا ملک آج بھی اس منافع بخش فارمنگ میں بہت پیچھے ہیں۔
اس کا شمار بیف، مٹن اور چکن میں نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ اس کی قیمت بھی کہیں زیادہ ہے۔ ٹان شپ میں شروع ہونے والی پہلی دکان پر شترمرغ کا کلیجی خریدیں، لیگ پیس یا پھر مکس گوشت، ہڈی سمیت 1,500 روپے فی کلو ادا کرنا ہوں گے اور جو لوگ یہ گوشت ہڈی کے بغیر کھانے کا شوق رکھتے ہیں تو انہیں ایک کلو کیلئے 2,000 روپے خرچ کرنا ہوں گے۔  پنجاب حکومت صوبے میں شترمرغ کی بریڈنگ اور گوت کی فراہمی پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اور فارمر کو ایک پرندے پر پانچ سے دس ہزار روپے سبسڈی دی جا رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے ہی لوگوں میں شترمرغ کی بریڈنگ میں دلچسپی بڑھے گی تو گوشت کی قیمت میں بھی 40 سے 50 فیصد تک کمی ہو گی :-

شترمرغ کی فارمنگ ایک منافع بخش کاروبار
ب کائنات نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ جنت کے مکینوں کی تواضع پرندوں کے گوشت سے کی جائے گی۔ یقیناً
پرندوں کے گوشت میں ایسی خصوصیات موجود ہیں جن کی وجہ سے انہیں جنتیوں کیلئے منتخب فرمایا گیا ہے اور غذائی ماہرین کے مطابق شتر مرغ بلاشبہ ایک ایسا پرندہ ہے جس کا گوشت آج کے انسان کے لئے بے شمار فوائد کا حامل ہے۔
کم سے کم خوراک کھا کر زیادہ سے زیادہ وزن کرنے کی صلاحیت میں شتر مرغ اپنا ثانی نہیں رکھتا جبکہ پاکستان میں شتر مرغ فارمنگ کے بانی راجہ طاہر لطیف کا کام، علم اور خدمات بے مثال ہیں۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں زراعت اور لائیو اسٹاک نہ صرف ہمارے ملک سے غربت کے خاتمہ میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں بلکہ یہ مستقبل کے اہم کاروبار بھی ہونگے۔ کاروباری شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد اور صنعتکار بڑی تعداد میں زراعت اور لائیو اسٹاک کی طرف منتقل ہو رہے ہیں جوکہ خوش آئند بات ہے اور زمیندار، فارمر، تاجر و صنعتکار کا ملاپ اور مشترکہ مقاصد کیلئے ان کی جدوجہد پاکستان میں ایک بہت بڑے انقلاب کا باعث بنے گی، جبکہ ان طبقات کی طرف سے شتر مرغ فارمنگ کی زبردست پذیرائی پاکستان کو آسٹرچ فارمنگ کے شعبے میں دنیا بھر میں سر فہرست بنا دے گی۔


مشروم کی کاشتکاری اور پیدا واری ٹیکنالوجی


ہم آپ کو آج مشروم کی کاشت کے بارے معلومات مہیا کریں گے۔ مشروم ایک منافع بخش کاروبار کے ساتھ غذایت سے بھرپور فصل ہے۔ مشروم کی فصل چند ہفتوں میں تیار ہوجاتی ہے۔ اور اس کے لیے زیادہ جگہ بھی درکار نہیں ہوتی۔ مشروم میڈیکل لحاظ سے بلڈ پریشر ، کولسٹرول کو کم کرنے میں اکسیر ہے اور آئرن، پوٹاشیم اور پروٹین مہیا کرنے کا زیعہ بھی ہے۔ مشروم کو گوشت کا نعم البدل بھی کہا جاتا ہے۔ مشروم کا مستقل استعمال وزن کم کرنے اور جلد کی سطح نرم و ملائم کرتا ہے۔ مشروم آنکھوں کی بیماریوں کے لیے بھی مفید ہے۔

بیج سے اسٹرابیری کی کاشت

اسٹرابیری کی کاشت بیج سے بھی کی جا سکتی 
ہے۔ بیج سے اسٹرابیری کی کاشت کرنا تھوڑا ٹیکنیکل کام ہے۔ پر ذیل میں دیے گیے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے آپ اسٹرابیری با آسانی گھر میں اگا سکتے ہیں۔
گھروں میں اسٹرابیری کھانے اور باغیچہ میں خوبصورتی کے لیے لگائی جاتی ہے۔ اگر گھر میں بچے ہیں تو بھر تو یہ بچوں کا پسندیدہ پھل ہے۔ گھر میں انڈور اور باغیچہ امیں اسٹرابیری اگائی جا سکتی ہے، بعد میں موسم کی مناسبت سے انڈور پودوں کو باہر باغیچہ میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔
پلاسٹک کے کنٹینر میں مندرجہ زیل طریقہ سے آپ بیج سے اسٹرابیری اگا سکتے ہیں۔
سب سے پہلے کنٹینر کومٹی سے بھر لیں۔اور اس پر پانی کا چھڑکاو کر لیں۔ اسٹرابیری کے لیے ایسی

مزدوروں کے چہروں پر غربت تھی‘ بھوک نہیں‘ میں سڑک کے ایک کونے سے دوسرے کونے

تک گیا‘ فٹ پاتھ پر ان کے اوزار پڑے تھے‘ ٹول باکس بھی تھے‘ کُھرپے بھی‘ گینتیاں بھی‘ ہتھوڑے بھی اور کسّیاں بھی‘ یہ لوگ سڑک کی تین فٹ اونچی دیوار پر بیٹھے تھے‘ یہ جینز اور شرٹس میں ملبوس تھے‘ وہ قہوہ اور سگریٹ پی رہے تھے اور چند مزدور تاش‘ شطرنج اور کیرم بورڈ کھیل رہے تھے‘ یہ جارجیا کے مزدور تھے اور یہ تبلیسی شہر کی ایک سڑک کا منظر تھا‘ یہ ہمارے مزدوروں کی طرح فٹ پاتھ پر بیٹھ جاتے ہیں‘ لوگ گاڑیوں میں آتے ہیں۔

پھولوں میں گلاب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ گلاب اپنی خوبصورتی اور خوشبو کی وجہ سے ہر دلعزیز پھول ہے اسی وجہ سے اسے کوئین آف فلاورز کہا جاتا ہے۔ دنیا میں گلاب کی 20 ہزار سے زائد اقسام پائی جاتی ہیں۔ گلاب بطور کٹ فلاور بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہالینڈ دنیا میں سب سے زیادہ گلاب اور دوسرے پھول پیدا کرنے والا ملک ہے۔ گلاب کے پھول کی درآمد کے لحاظ سے جرمنی پہلے نمبر ہے۔ پاکستان میں بھی کٹ فلاور کا کاروبار تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کی بدولت گلاب کی کاشت و اہمیت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ 

گلاب لگانے کے لیے بھر بھری ، زرخیز اوراچھے نکاس والی زمین کا انتخاب اہم ہے۔ زمین کا تعامل pH) )6سے 6.5تک ہونا چاہیے ۔ گلاب کی کاشت کے لیے زمین کی تیاری اچھی طرح کریں ۔ پودا لگانے کی جگہ پر زمین اڑھائی فٹ گہرائی تک کھود کر تیار کریں۔ پودے لگانے کے لیے 2فٹ x 2فٹ x 2 فٹ سائز کے گڑھے کھودیں۔ پودے اگانے سے کم ازکم ایک ہفتہ پہلے گڑھے کھودیں۔ گڑھوں کو کھلا چھوڑ دیں تاکہ روشنی اور ہوا سے زمین کی زرخیزی بڑھے۔ اس کے بعد گڑھا بھرنے کے لیے اوپر والی 1فٹ مٹی 50فیصد ،گوبر کی کھاد 20فیصد ، پتوں کی کھاد20فیصد اور بھل 10فیصد کا آمیزہ تیار کریں اور اس کو پودے لگانے کے لیے گڑھوں میں استعمال کریں۔

زعفران ایک چھوٹا سا پودہ ہے جس کی  اونچا‏ئی 10 سے 30 سانتی­متر تک ہوتی ہے اور اس کا سا‏ئنٹفک نام  crocus sativus  ہے۔زعفران کے  کچھ  باریک پتے ہیں، پتوں کے بیچ میں زعفران کا تنہ ہے جس پر پھول بن جاتا ہے ، اور ہر تنے کے اوپر ایک سے تین تک پھول بن جاتے ہیں۔ زعفران کے پھول وایلیٹ ہیں اور ہر پھول کی چھ پھول کی پتیوں کی ہیں۔ زعفران کے پھولوں کے عمر کی لمبائی 3 یا 4 دن ہوتی ہے۔دنیا میں زعفران کی کھیتی کی ایشیا کے مختلف علاقوں میں ہوتی ہے ، خاص طور پر ایشیا کے جنوبی حصے  میں اور یورپ اورسپین کے جنوبی حصے۔

زعفران کی کاشت نگہداشت اور پیدا وارسے متعلق مکمل معلومات

زعفران کا بیج ایک پیاز کی گٹھی کے برابر ہوتا ہے۔ یاد رکھیے زعفران کے بیج دانے دار یا کسی اورشکل میں نہیں ہوتے۔ جب درجہ حرارت 15-20 سنٹی گریڈ سے کم آتا ہے تو پھول آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہر علاقے میں پھول نکلنے کا موسم مختلف پایا گیا ہے۔ یاد رہے کہ پھول آنے کے لیے بلب دسمبر اور کچھ علاقوں میں جنوری تک لگائے جا سکتے ہیں۔ جبکہ پودوں پودوں کو مارچ تک مذید بیج  بنانے کے لیے لگائے جا سکتے ہیں۔
 زعفران کے بلب اگست سے لے کر دسمبر تک کسی بھی موسم میں لگائے جا سکتے ہیں۔ زعفران کے بلب لگاتے وقت مندرجہ زیل باتوں کا خیال رکھا جائے زعفران کے لئے معتدل موسم والے علاقے بہترین ہیں۔زعفران کا بلب 40 سینٹی گریڈ سےمنفی20 سینٹی گریڈ تک کے موسم میں ٹھیک حالت میں رہتا ہے۔
چونکہ گرم موسم میں زعفران کا بلب سو جاتا ہے۔ اور جونہی ٹھنڈا موسم شروع ہوتا ہے پھول نکلناشروع ہو جاتے ہیں۔ سردی میں زعفران کا بلب بڑھنا شروع ہو جاتا ہے, زعفران کا بلب بہت تیزی سے زمین میں بڑھتا ہے۔ یہ 2 سے 4، 4 سے 8 اور 8 سے 16 اور فر 32 ھو جاتا ہے۔ ہر 2 یا 3 سال بعد ان کو نکال کر اور جگہ پر لگانا پڑتا ہے۔ یاد رکھیں اگر مناسب حفاظت کی جائے تو زعفران کا بیج 20 سال تک چلتا ہے۔ اور اس کے اگے ہزاروں بلب پیدا کرتا ہے۔
سارگول زعفران ساخت کے اعتبار سے سرخ اور دنیا میں سب سے قیمتی زعفران ہے۔ ایک گرام زعفران کی قیمت آٹھ سے دس ہزار ہے۔ ادویہ سازی اور کھانوں میں اس کی بکثرت ڈیمانڈ ہے۔
گھر کے لان میں یا چھت پر 50 یا 100 زعفران کے بلب سے سال میں پچاس ہزار تا ایک لاکھ  روپے تک اضافی آمدنی کمائی جا سکتی ہے۔گھروں یا چھوٹے لیول پر کاشت کا طریقہ تصاویر کے ساتھ نیچے بیان کیا گیا ہے۔


زعفران کی فصل

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget