2020

  پنجاب کے ایک کاشتکار نے دریافت کیا کہ وہ کیوی کے پودے لگانے میں دلچسپی رکھتا ہے لہذا اس سلسلے میں اس کی رہنمائی کی جائے۔ اسی اثنا میں مجھے (ڈاکٹر شوکت علی) لاہور کے ایک سپر سٹو ر میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں میں نے کیوی کے فروٹ برائے فروخت دیکھے۔ کیوی کا یہ پھل دراصل ایران سے درآمد کیا گیا تھا اور سپر سٹور اسے 320 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کر رہا تھا۔

کیا یہ پھل پاکستان میں پیدا نہیں ہو سکتا؟

کاشتکار کے سوال سے پیدا ہونے والے تجسس نے مجھے کیوی کی کھوج پر لگا دیا اور جلد ہی میرا رابطہ جناب ڈاکٹر نوراللہ خان سے ہو گیا جنہوں نے شنکیاری مانسہرہ کے زرعی تحقیقاتی ادارے میں کیوی کے پودے کامیابی سے اگائے ہیں جو پچھلے سال سے پھل پھول دے رہے ہیں۔



جناب ڈاکٹر نوراللہ خان سے کیوی پودوں کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو ہوئی۔

ڈاکٹر نوراللہ خان کے مطابق کیوی بنیادی طور پر چائنہ کا مقامی پودا ہے۔ 1930 کے درمیان نیوزی لینڈ کے زرعی ماہرین نے کیوی کے پودے پر تجربات کئے جو انتہائی کامیاب رہے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ پودا نیوزی لینڈ میں کامیابی سے کاشت ہونے لگا۔ 1940تک ک نیوزی لینڈ میں کیوی کی کاشت تجارتی بنیادوں پرہو رہی تھی۔

آج نیوزی لینڈ کیوی پھل برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔

نیوزی لینڈ کے علاوہ کیوی کے باغات کءی دوسرے ممالک جیسا کہ اٹلی،چاینا، کیلیفورنیا، فرانس، بیلجییم، مصر، چلی، سپین، جا پان، ایران اورنیپال میں کامیابی سے کاشت کئے جا رہے ہیں۔

اکتوبر 2013 کو نیشنل ایگری کلچرل ریسرچ سنٹر اسلام آباد پاکستان ، نے نیپال سے درخواست کی کہ کیوی کے باغات کی داغ بیل ڈالنے کے لئے پاکستان کی معاونت کی جائے۔

لہذا 2014 میں نیپال سے کیوی ماہرین پاکستان آئے اور انہوں نے 16 فروری سے 4 دن کے تربیتی پروگرام کا آغاز کیا جس میں انہوں نے این اے آر سی اسلام آباد،زرعی تحقیقاتی ادارہ شنکیاری مانسہرہ اور بارانی زرعی تحقیقاتی ادارہ چکوال کے 5 افسران کو کیوی کے باغات لگانے سے متعلق جامع معلومات اور ٹیکنالوجی فراہم کی۔

معلومات اور ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ نیپالی ماہرین نے پاکستان کو کیوی کے 200 پودے اور ایک کلو بیج بھی فراہم کیا۔

یہ پودے اسلام آباد، شنکیاری مانسہرہ اور چکوال میں تجرباتی طور پر لگائے گئے۔

اسلام آباد اور چکوال میں تو کیوی کے پودے کامیابی سے نشوونما نہ پا سکے البتہ شنکیاری مانسہرہ میں یہ پودے کامیاب ہو گئے جہاں یہ 2017 سے پھل پھول دے رہے ہیں جنہیں نیچے تصویر میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔


تحقیقی ادارے میں لگے ہوے کیوی کے پودے پر پھل لگا ہوا ہے

نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے ” کیوی فروٹ کی فروغ مانسہرہ کے علاقے میں” کے نام سے ایک پراجیکٹ پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے تحت شروع کر رکھا ہے۔ چونکہ کیوی فروٹ ایک نیا پھل ہے اور پہلی بار پاکستان میں متعارف ہوا ہے اس لیئے اس پراجیکٹ کے تحت کیوی فروٹ تحقیقی ادارے کے علاوہ مانسہرہ کی مختلف یونین کونسلوں میں 10 جگہوں پر آزمایا جا رہا ہے۔ ابھی تک جو نتائج حاصل ہوئے ہیں وہ نہاءیت حوصلہ افزاء ہیں اور بہت سارے کاشتکار اپنی زمینوں پرکیوی فروٹ کاشت کرنے میں دلچسپی لے رہے ہیں۔


کیوی کا پودا پاکستان میں کہاں کہاں لگایا جا سکتا ہے؟

جیسا کہ ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ نیپال سے درآمد کئے گئے کیوی کے پودے اسلام آباد اور چکوال میں کامیاب نہیں ہو سکےجبکہ مانسہرہ میں یہ پودے کامیاب رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابتدائی تجربات کی روشنی میں کیوی کے پودے ہزارہ ڈویژن کے 5 اضلاع ایبٹ آباد، ، بٹ گرام، کوہستان، مانسہرہ اور تورغر میں کامیابی سے کاشت کیا جا سکتا ہے۔ ہزارہ ڈویژن کی آب وہوا کو مد نظر رکھتے ہوے یہ اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ کیوی کے پودے آزاد کشمیر، مری، سوات، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں بھی کامیابی سے کاشت کیے جا سکیں گے۔

اس کے علاوہ کیوی کے پودے ضلع صوابی میں بھی کامیاب ہو رہے ہیں۔ صوابی میں کاشت شدہ پودوں کی دو سالہ کارکردگی خاصی حوصلہ افزا ہے امید ہے اگلے سال یہ پودے پھل پھول بھی کامیابی سے شروع کردیں گے۔

لیکن پنجاب میں کیوی کے پودوں کی کامیابی فی الحال مشکل ہے۔ کیونکہ جس ورائٹی پر تجربات ہوئے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ 36 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کو برداشت کر سکتی ہے۔ یہ تو آ پ جانتے ہی ہیں کہ پنجاب میں درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔ مستقبل میں اگر زیادہ درجہ حرارت کو برداشت کرنے والی ورائٹی وجود میں آ گئی تو پھر پنجاب میں بھی کیوی کے باغات کی کاشت ممکن ہو جائے گی ۔


کیوی کے پودوں کے لئے کس طرح کی زمین چاہئے؟

کیوی کے پودے تیزابی مزاج کی زمینوں میں زیادہ کامیاب ہیں۔ معتدل زمین میں بھی کیوی کا پودا کسی حد تک کامیاب ہے۔ لیکن اساسی مزاج کی زمینوں کی کیوی کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔

اگر دیکھا جائے تو پاکستان میں مانسہرہ اور اس کے ملحقہ علاقوں میں زمین کا مزاج تیزابی ہے۔ لیکن پنجاب میں زیادہ تر زمینیں اساسی مزاج رکھتی ہیں۔ اس لئے کیوی کی موجودہ ورائٹی کا پنجاب کی زمینوں میں کامیابی سے کاشت ہونا ذرا مشکل ہے۔

زمین کے مزاج کے علاوہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ کیوی کے لئے زمین اچھے نکاس والی ہونے چاہئے۔ ایسی زمینیں جہاں پانی زیادہ دیر تک کھڑا رہے کیوی کے پودوں کے لئے موزوں نہیں ہیں۔


کیوی کے پودے کب اور کس طرح لگائے جا سکتے ہیں؟

پاکستان میں کیوی کے پودے لگانے کا بہترین وقت فروری کا پہلا ہفتہ ہے۔

پودے قطاروں میں اٹھارہ اٹھارہ فٹ کے فاصلے پر لگائے جاتے ہیں۔ اور قطاروں کے درمیان فاصلہ 12سے 15 فٹ رکھا جا تا ہے- اس طرح ایک ایکڑ میں کل 120 پودے لگ سکتے ہیں۔

کیوی کے پودوں میں کھجور کی طرح نر اور مادہ پودے الگ الگ ہوتے ہیں۔ لہذا ایک ایکڑ میں 104 مادہ پودے اور 16 نر پودے لگائے جانے ضروری ہیں۔ اس طرح پھل دینے والے مادہ پودوں کی فی ایکڑ تعدا 104 بنتی ہے۔


کیوی کے باغ سے فی ایکڑ کتنی پیداوار اور آمدن ہو سکتی ہے؟

بین لاقوامی طور پر کیوی کا ایک پودا اوسطا38 کلوگرام پیداوار دیتا ہے۔

اس طرح ایک ایکڑ میں موجود 104 پودوں کی کل پیداوار کا حساب تقریباِ98 من ہے۔

ویسے تو مارکیٹ میں اچھی کوالٹی کا کیوی پھل 500 روپے تک بھی بک رہا ہے۔ لیکن ایرانی کیوی کا ریٹ تقریبا 300 روپے فی کلوتک ہے۔

اگر ہم 150 روپے فی کلو کے حساب سے بھی جمع تفریق کریں تو پھر بھی یہ رقم تقریبا 6لاکھ روپے بنتی ہے۔


کیوی کے پودے کیسے تیار کئے جا سکتے ہیں؟

کیوی کے پودے عام طور پر پیوند کاری اور قلمیں لگا نےکے طریقے سے تیار کیےجا تے ہیں


پیوند کاری سے کیوی کے پودے تیار کرنے کا طریقہ

اس طریقے میں کیوی کے پھل لے کر اس سے بیج حاصل کر لیا جاتا ہے۔ اور اس بیج کو جرمینِشن ٹرے میں جو نرم مٹی،ریت اور گلے سڑے گو برکے مرکب سے بھری ہویا زمین میں جو خا ص طریقے سے تیار ہوی ہو بو دیا جاتا ہے۔جب پودا تین چا ر انچ بڑ ا ہو جاتا ہے پھر اس کو پلاسٹک کی چھوٹی تھیلیوں یا گملوں میں منتقل کر دیا جاتا ہے.

گملوں میں منتقل شدہ کیوی کے پودے جن پر پیوند کاری کی گی ہے

اگلے سال جب پودا تین چارفٹ بڑا ہو جاتاہے تو اس پر مطلوبہ ورائٹی کو پیوند کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح سے آپ کا نیا پودا تیا ر جاتا ہے۔


قلمیں لگانے کے ذریعے کیوی کے پو دے تیار کرنا

اسں طریقے میں کیوی کے پودیے سے ایک سال پرانی شا خیں لی جاتی ہیں-ان شاخوں سے قلمیں تیار کر لی جاتی ہیں۔ خیال رہے کہ ایک قلم پر کم از کم تین سے چار آنکھیں ہونا ضروری ہیں۔ ان قلموں کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں لگا دیا جات ہے۔ اس طریقے سے کیوی کے پودے تیار کرنے کا فایدہ یہ ہے کہ اس طریقے سے پیدا ہونے والے پودے صحیح النسل ہوتے ہیں۔


قلموں کے ذریعے کیوی کے پودے تیار کے کا رہے ہیں

اس طریقے سے کیوی کے پودے ایک سال میں تیار ہوجاتے ہیں مزید یہ کہ یہ یہ طریقہ کسانوں کیلیے آسان بھی ہے۔


کیوی پھل کی اہمیت

کیوی پھل کو اس کے خا ص کھٹے میٹھے ذائقے ، بڑی مقدار میں موجود وٹا من سی، امینو ایسیڈ، منرل، غذائی فائبراور مختلف دوسرے مفید اجزا کی وجہ سے پھلوں کا باد شاہ کہا جا تا ہے.کیوی کا پھل اسکاربیک ایسیڈ، و ٹامن ای، کِروٹینایڈ، پولیفینولیک اجزا، فِنولیک، فلِوونایڈ اور کلوروفیل جیسے اجزاء سے بھر پور ہے. انہی اجزا کی وجہ سے کیوی کا پھل صحت کیلیے نہائیت مفید ہے. خاص کر کینسر اور دل کے دورے کی روک تھام میں کیوی ک پھل انتہائی کارآمد ثابت ہوتا ہے.

اگر آپ کیوی کے پودے لگانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو شنکیاری مانسہرہ میں واقع زرعی تحقیقاتی ادارہ آپ کو چند پودے فراہم کر سکتا ہے.


تحریر

1۔ ڈاکٹر نوراللہ خان

ماہر زراعت،نیشنل ٹی اینڈ ہائی ویلیو کراپ ریسرچ انسٹیٹیوٹ، شنکیاری، مانسہرہ، خیبر پختونخواہ

2۔ ڈاکٹر شوکت علی

ماہر توسیع زراعت، زرعی یونیورسٹی فیصل ٓباد، پنجاب

اس مضمون کے تمام مندرجات ڈاکٹر نوراللہ خان کے ذاتی تجربات کا نتیجہ ہیں۔

In Khyber Pakhtunkhwa "Mushrooms Span" can be obtained from NTFP Department, Shami Road Peshawar or from KP Agricultural Univeristy Peshawar's Pathology Department.

"ماہ اکتوبر" پاکستان میں مشروم کی کاشت کے سیزن کا آغاز
مشروم کی کاشت کے چھ بنیادی مراحل
                                مشروم جسے اردو میں کھمبی اور پنجابی میں کھمب کہتے ہیں فنجائی کی ایک خاص قسم ہے جسے عام طور پر سورج کی غیر موجودگی میں خاص صاف ستھرے ماحول میں فصلوں کی باقیات مثلاً گندم کا بھوسہ وغیرہ اور مختلف نامیاتی مادوں مثلاً مرغیوں کی گھاد وغیرہ  ملے ہوئے کمپوسٹ میں اگایا جاتا ہے۔
                                یوں تو آج کے دور میں مشروم کی بہت سی اقسام تیار کر لی گئی ہیں جو سال کے مختلف حصوں میں مختلف درجہ حرارت پر اگائی جا سکتی ہیں۔ تا ہم وطن عزیز پاکستان میں عام طور پر اگائی جانے والی مشرومز یعنی بٹن مشروم اور آئسٹر مشروم کی کاشت ماہ اکتوبر سے شروع ہو جاتی ہے۔
                                مشروم کی کاشت کے لیے  چار بنیادی اصول ہیں جن کو مد نظر رکھنا نہایت اہم سمجھا جاتا ہے ان کی تفصیل درج ذیل ہے
1.      خاص درجہ حرارت  (25-15) سینٹی گریڈ
2.      ہوا میں موجود نمی کا تناسب(٪95-٪70)
3.      تازہ ہوا کی فراہمی
4.      روشنی
                                پاکستان کے میدانی علاقوں میں ماہ اکتوبر سے مارچ تک ضروری درجہ حرارت قدرتی طور پر میسر رہتا ہے اس لیے اس سیزن میں مشروم اگانا انتہائی آسان خیال کیا جاتا ہے۔ اب ہم مشروم کی کاشت کے لیے جن چھ مراحل سے گذرنا پڑتا ہے ان کا ذکر کرتے ہیں۔
1.   کمپوسٹ کی تیاری
2.   کمپوسٹ کو پاسچرائز کرنا
3.   بیج ملانا(Spawning)
4.   مٹی کی تہ چڑھانا (Casing)
5.      پن ہیڈز کا بننا
6.      فصل کا حصول
1۔ کمپوسٹ کی تیاری
                                مصنوعی کمپوسٹ فصلوں کے بیکار مادوں یعنی بھوسہ وغیرہ میں کچھ نامیاتی اجرا شامل کرنے سے تیار کیا جاتا ہے۔ کمپوسٹ مشروم کی کاشت میں ضروری غذائی اجزا فراہم کرتا ہے۔ مختلف اقسام کی مشرومز کے لیے مختلف طریقوں سے کمپوسٹ تیار کیا جاتا ہے۔
1.1آئسٹر مشروم کے کمپوسٹ کی تیاری
                                آئسٹر مشروم کے کمپوسٹ بنانے کا طریقہ انتہائی آسان اور سادہ ہے۔ اس کے لیے 100 کلو گرام گندم کے بھوسہ میں 2 کلو چونا اور 5 کلو چوکر ملا کر سارے مواد کو اچھی طرح گیلا کر کے ڈھیر بنا دیا جاتا ہے۔ کمپوسٹ میں  پانی کی مقدار ہاتھ میں دبانے کے طریقہ سے ٹیسٹ کی جا سکتی ہے۔ بھوسے کو مُٹھی میں لے کر زور سے دبانے پر ایک یا دو قطرے ہی نکلنے چاہیں۔ اگر پانی کے قطرےزیادہ نکلیں تو کمپوسٹ کو کھلی جگہ پر پھیلا کر خشک کر لیا جاتا ہے ا ور پانی کم ہونے پر مزید ملا دیا جاتا ہے۔
                                تین دن کے بعد بنائے گئے ڈھیر کو کھولا جاتا ہے اگر کہیں پانی کی مقدار کم لگے تو وہا ں اور پانی چھڑک کر پانی کا تناسب 70-60 فیصد تک کر دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کمپوسٹ کو پولی تھین کے  تھیلوں جنہیں شیشہ پلاسٹک بھی کہتے ہیں میں بھر لیا جاتا ہے۔
1.2بٹن مشروم کے کمپوسٹ کی تیاری
                                بٹن مشروم کے کمپوسٹ بنانے کا طریقہ تھوڑا پیچیدہ  اور وقت طلب ہے ۔ اس کے لیے درکار اجرا درج ذیل ہیں۔
                                گندم کا بھوسہـــــــــــــــــــــ1000 کلو گرام
                                مرغیوں کی کھادــــــــــــ600-500 کلو گرام
                                جپسمــــــــــــــــــــــــ70-60کلو گرام
                                یوریاــــــــــــــــــــــــ10-7 کلو گرام
                                سب سے پہلے گندم کے بھوسہ کو فرش پر بچھا لیں اور 2،3 روز کے لیے پانی کا چھڑکاؤ کرتے رہیں جب وہ بھوسہ اچھی طرح نرم اور گیلا ہو جائے تو اس میں مرغیوں کی کھاد اور یوریا ملا کر ایک میٹر چوڑا اور اتنا ہی اونچا ڈھیر بنا دیں۔ڈھیر بنانے کے چھ روز بعد اس کو الٹ پلٹ کیا جاتا ہے۔ ڈھیر کے چاروں طرف سے ایک فٹ گہری کمپوسٹ الگ کریں اگر الگ کی گئی کمپوسٹ خشت ہو گئی ہو تو اس میں اِس قدر پانی ملائیں کہ نمی کا تناسب 60 سے 70 فیصد تک ہو جائے۔بقیہ ڈھیر میں نصف اسیِ طرح اطراف سے علیحدہ کر کے اکٹھا کر لیں۔ تیسرا حصہ خود بخود بچ جائے گا۔ اب تینوں تہوں کا دوبارہ ڈھیر اس طرح بنائیں کہ درمیان والا حصہ سب سے نیچے، اوپر والا درمیان میں اور نیچے والا سب سے اوپر آ جائے۔ بعد ازاں ہر تین روز بعد یہ عمل دہرایا جاتا ہے۔ دورانِ عمل تیرہویں روز اس میں جپسم ملا دیا جاتا ہے اس طرح 28 روز بعد کمپوسٹ مکمل تیار ہو جاتا ہے۔
                                کمپوسٹ کی تیاری پر یہ سیاہی مائل   ہو  ، اس میں نمی کا تناسب 70 فیصد اور اس کی پی ایچ 7 سے 5.7 ہونی چاہیے۔ کمپوسٹ میں امونیا گیس کی بو بالکل نہیں ہونی چاہیے اور نائٹروجن کی مقدار 7.1 ہونی چاہیے۔
2۔ پاسچرائزیشن
                                کمپوسٹ تیار کرنے کے بعد اسے شیشہ پلاسٹک کے تھیلوں میں بھر کر بھاپ دی جاتی ہے۔ اس عمل کے لیے لوہے کے خالی ڈرم کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈرم میں 6 انچ تک پانی بھر دیا جاتا ہے۔ پانی کے اوپر ایک سٹینڈ پر کمپوسٹ سے بھرے تھیلے رکھ کر ڈرم کا منہ اوپر سے بند کر دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے2سے 3 ڈرم کے نیچے آگ جلانے سے جراثیم سے پاک کرنے کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔
3۔سپان یا بیج ملانا
                                سپان یا مشروم کا بیج لیبارٹریز میں تیار ہوتا ہے۔ کمپوسٹ کے ٹھنڈا ہونے پر بحساب وزن 7-5 فیصد سپان اس میں ملا دیا جاتا ہے۔ سپان ملانے کے بعدکمپوسٹ کو کمروں میں رکھ  دیا جاتا ہے اور درجہ حرارت 25-20 سینٹی گریڈ برقرار رکھا جاتا ہے جبکہ نمی کا تناست 75-70 فیصد رکھا جاتا ہے۔ تقریباً 21 دنوں کے بعد سپان کے پھیلنے کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔


4۔ مٹی کی تہہ چڑہانا(کیسنگ)
                                سپان ملانے کے 21 دن بعد جب بیج پھیلنے کا عمل مکمل ہو جاتا ہے تو کمپوسٹ پر مٹی کی ایک تہہ چڑھا دی جاتی ہے۔ اس عمل کو کیسنگ کہتے ہیں۔ ایک خاص قسم کی مٹی جسے پِیٹ (Peat) کہتے ہیں میں نمی کا تناسب 60 سے 70 فیصد تک بنا کر اس کی 1.5انچ موٹی ایک تہہ کمپوسٹ پر جما دی جاتی ہے۔ اس عمل سے پہلے  پِیٹ کو جراثیم سے پاک کر لیا جاتا ہے۔
5۔ پن ہیڈز کا بننا
                                کیسنگ کے بعد 8 سے 10 روز تک کمپوسٹ کا درجہ حرارت 22 سینٹی گریڈ برقرار رکھا جاتا ہے۔ ٹھیک 10 روز بعد درجہ حرارت 16 سینٹی گریڈ تک کم کر دیا جاتا ہے اور تازہ ہوا کی آمدورفت یقینی بنائی جاتی ہے۔ اس وقت ہوا میں نمی کا تناسب 90 سے 95 فیصد تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجہ میں پِیٹ کی سطح پر چھوٹے چھوٹے پن ہیڈز بن جاتے ہیں جو اگلے چند ہی روز میں بڑے ہو کر مشروم کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
6۔ فصل کا حصول
                                ایک دفعہ مشروم کا بیج ڈالنے کے بعد  4 سے 5 مرتبہ فصل نکلتی ہے۔ ہر فصل کے بعد 8 سے 10 روز کا وقفہ آتا ہے۔ مشروم جب مناسب سائز اختیار کر جائے تو اسے ہاتھ سے مروڑ کر الگ کر لیا جاتا ہے۔ مشروم حاصل کرنے کے بعد اگر کہیں گڑھے بن جائیں تو انہیں دوبارہ پیٹ سے بھر دیا جاتا ہے اور پانی کا مناسب چھڑکاؤ کر دیا جاتا ہے۔
تازہ مشروم کو پیک کرنے کے بعد 5-3 سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر کچھ دیر کے لیےٹھنڈا کیا جاتا ہے جو اس کی شیلف لائف کو بڑھا دیتا ہے۔
یہ مضمون پی ڈی ایف فارمیٹ میں بھی دستیاب ہے ، یہاں کلک کرنے پر آپ اس کو ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔
تحریر و تحقیق
محمد عدنان
ایم ایس  سی (آنرز) ہارٹیکلچر
Consultant at Healthy Mashrooms
0300-7749169
E-Mail: madnan1990@gmail.com

مشروم (کھمبی) اگانے کا طریقہ اور افادیت

مشروم کو اردو میں کھمبی کہتے ہیں یہ ایک پھپھوند ہے جو راتوں رات اُگتی ہے۔ اس کی تعریف عظیم ماہر نباتات تھیوفراسیٹین نے کچھ اس طرح سے کی ہے۔” کھمبی ایک عجیب پودا ہے جس کی جڑ تنا شاخیں ، پتے اور پھول نظر نہیں آتے مگر پھل پھر بھی دیتاہے” ۔

اس کا بیج بالکل باریک ہوتاہے جو پک کر گر جاتاہے۔ اور یوں سازگار موسم اور نمی میں پھوٹتاہے اور یوں کھمبی راتوں رات نکل آتی ہے۔ ہمارے علاقوں میں اس کی جنگلی اقسام خاص کر مارچ، اپریل میں نکلتے ہیں اور اس جنگلی قسم کو Morels کہتے ہیں اور ہزاروں لوگوں کے روزگار اور ملک کیلئے کروڑوں روپے کا زرمبادلہ کمانے کا ذریعہ ہے۔ اس کی دو اقسام ہیں ایک قسم بغیر کسی بیرونی مدد کے صف انسانی آنکھ سے نظر آتی ہے ۔اور ان کو میکروفجی کہتے ہیں اور دوسری جو خوردبین سے نظر آتی ہے اس کو مائیکروفجی کہتے ہیں۔ اس کی خوردہ اقسام ایک لاکھ کے لگ بھگ ہیں۔ ان میں سے صرف 150 کھانے کے قابل ہیں ان میں 50 کے قریب بے حد لذیز اور ذائقہ داراور 50 کم لذت والی ہیں۔

کھمبی کی ابتداء۔

مشروم کی کاشت ازمنہ قدیم سے ہورہی ہے۔ جس کے بارے میں آج سے 13000 سال قبل بھی بتایا گیا ہے۔ مشروم کے آثار قدیم زمانے میں چلی کے کھنڈرات سے بھی ملے ہیں۔ چینی سب سے پہلے لوگ ہیں جو مشروم کو بطور غذا استعمال کرتے تھے اور اس کو لمبی عمر کا راز کہتے تھے۔ زمانہ قدیم میں ایک اعلی ڈش کے طور پر بادشاہوں اور جرنیلوں کے دربار کی زینت رہی ہے۔ پرانے زمانے میں یونانی اور رومی اس کو اچھی خوراک سمجھتے تھے۔ رومی بادشاہ سیزیر اس کا دل دادہ تھا۔

مشروم کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنی بنی نوع انسانی کی اپنی تاریخ ہے۔ کہ مشروم کی ابتداء آغاز کائنات سے منسلک ہے اور انسانی قدموں نے مشروم کے ظہور کے بعد ہی زمین کو چھوا ور ہر سہولت سے محروم آتش شکم کی پیاس سے مجبور یہ انسان سیرابی شکم کیلئے کوشاں تھا۔ انسان نے جب پہلی بار اس کو چکھا تو اس کے ذائقہ اور خوشبو پر دل دادہ ہوگیا۔ مشروم پہلی مرتبہ اتفاقیہ غذائی استعمال میں شامل ہوئی اور انسان کوایسی نعمت غیر متروقیہ ملی کہ اسے مستقل غذا میں شامل کرلیا گیا۔ اُس وقت انسان اس کے فوائد اور خواص سے لاعلم تھا۔ مگر اس کے لذیذ خوش ذائقہ اور لطیف خوشبو سے مجبور ہوکر ہر قسم کی مشرومز کو آزماتا گیا۔

مشرومز اور انسان کا گٹھ جوڑ ازمانہ قدیم سے ہی نظر آتا ہے اور یہ ساتھ اتنا پرانہ ہے کہ تاریخ بھی اس مسئلے میں مہر بلب ہے اور قدیم دور میں جب پتھروں کے اوزار استعمال ہوتے تھے۔ شکار پر گزارہ تھا اور فصلوں کی کاشت کا تصور بھی نہیں تھا۔ اس وقت بھی یہی مشروم کسی نہ کسی حیثیت میں ضرورت انسانی کی تکمیل کرتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ یونانی رومی، چینی، اسلامی اور سنسکرت لٹریچر میں اس کے استعمال کا تذکرہ ملتاہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ مشرومز کی اہمیت مزید واضع ہوگئی۔ مشروم کبھی خوراک کے طور پر کبھی ادویات کے طور پر کہیں رومانی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی تھی۔ لیکن نئے سائنسی تجربات، تحقیقی حقائق کے بعد اس کی قدرتی بالیدگی اور دیگر اسرار جو سربستہ تھے۔ منظر عام پر آگئے جس کا نتیجہ یہ ہواکہ اب اس کی مقبولیت کی انتہا ہوچکی ہے اور تمام دنیا میں اس کی دھوم ہے۔ مشروم دنیا کے کئی ممالک میں بہت بڑا کاروبار اور لاکھوں لوگوں کا روزگار اس صنعت سے وابستہ ہے۔ ہمارے ہاں بھی یہ گھریلو صنعت کے طور پر اُبھررہی ہے۔

مصر کا فرعون اس کو درازی عمر کیلئے راز سمجھتاتھا اور اس کو شاہی دسترخواں تک محدود کررکھا تھا اور اس زمانے میں عام لوگ اس کے استعمال کی جسارت بھی نہ کرسکتے تھے۔ اہل روم نے بھی اس کو اعلیٰ شخصیات اور صرف رومی شہنشاہوں اور افواج کیلئے مخصوص کردیا۔ کیونکہ اس وقت بھی ان کا خیال تھا کہ یہ غیر معمولی قوت عطا کرتی ہے۔ امریکہ میں 18 ویں صدی عیسوی میں مشروم کی کاشت شروع ہوں اور اس کے لئے بیج میکسیکو سے لیا تھا۔

مشروم بلحاظ مذھب ۔

مشروم کوجنتی سبزی یا جنتی غذا بھی کہا جاتاہے کیونکہ من و سلویٰ نامی غذا جو ر ب کریم کی طرف سے بنی اسرائیل کیلئے اتاری گئی تھی۔ اس میں مشروم کی شمولیت مشکواۃ شریف سے واضع ہے اس لحاظ سے ایک منفرد غذا ہے۔ جو جدید تحقیقی حقائق ثابت کرتے ہیں وہ انمول مشروم جو من و سلویٰ کا ایک جزو تھی آج بھی کسی نہ کسی شکل میں اس دنیا میں قدرتی طور پر اگتی ہے۔ بہت سے ملکوں جیسا کہ وسطی امریکہ، میکسیکو، چین، سائبریا، یونان ، روس اور ہندوستان وغیرہ کی تہذیبوں میں بھی کھمبی کو مذہبی رسومات میں اہم مقام دیا گیا ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ مشرومز کے استعمال سے ایسی عجیب اعجازی قوت عطا ہوتی ہے۔ جس سے گمشدہ اشیاء دستیاب ہونے کے علاوہ انسان عالم بالا تک سیر کرلیتاہے۔

یورپین لوگ خود مشرومز کو زمانہ قدیم سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں یہی وجہ ہے کہ سولہویں صدی کے انگریز شاعرہرمن نے بھی شاعری میں مشروم کی تعریف کی ہے اور آج بھی اہل یورپ چھٹی کے روز ٹوکریاں تھامے جنگلوں اور کھیتوں میں سارا سارا اون مشروم کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں جسے وہ مشروم ہنٹنگ کا نام دیتے ہیں۔

پاکستان میں مشروم کی تاریخ۔

زیر زمین۔ ہمارے ملک میں خودرو مشرومز ہر فلز نامی ایک انمول مشروم زیر زمین پائی جاتی ہے۔ اگر اسے پہاڑی علاقوں کا انمول و فینہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ پیشہ ور متلاشی بڑی کاوش کے بعد اسے حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ زیر زمین خزانوں کی طرح ہی مدفون نہیں یہ مشروم دنیا میں مختلف جگہوں میں پائی جاتی ہے۔ مگر اب پاکستان میں بازیاب نہ ہوسکی مگر تحقیق سے اس کے ملنے کے امکانات قوی ہیں۔
زمین کے اوپر۔ زمین کے اوپر پائے جانے والی مشرومز میں گچھی نامی قیمتی و کمیاب مشروم دستیاب ہے لوگ اس کو بڑی لگن سے جمع کرتے ہیں اور باقاہدہ تجارت کے ذریعے کثیر زرمبادلہ حاصل کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کو مختلف علاقوں میں مختلف نام دئیے گئے ہیں۔ بلوچستان میں خمیری یا گھبا، بلتستان میں شمو، پنجاب اورسندھ میں کھمبی پشتو میں خریزی ہند کو میں گچھی۔

پاکستان میں موجودگی۔ ہمارے ہاں پہاڑی علاقوں میں برف پگھلنے کے بعد اور مون سون کی بارشوں اور جنگلوں، چراگاہوں اور جڑی بوٹیوں میں قدرتی طور پر اگتی ہیں۔ یہ ہمارے ہاں پہاڑی علاقوں میں 1000 سے 2000 میٹر کی بلندی پر مخصوص قسم کی سخت لکڑی والے درختوں، کانیفرز کے جنگلات میں اگتی ہیں اور آزاد کشمیر میں بھی اس کی کافی اقسام پائی جاتی ہیں۔

مشروم کو کیسے سکھایا جاتاہے؟

علاقائی لوگ اس کو جم کرکے دھاگے میں پروکردھوپ میں خشک کرنے کے بعد خاصے مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں انہیں بخوبی اندازہ ہے کہ یہ کس طرح مل سکتی ہے ان علاقوں میں اس کے شائقین اور متلاشی اس کے اگنے کے موسم میں اس کی تلاش میں سرگردان نظر آتے ہیں۔ علاقائی لوگ اس مشروم کو سکھا لیتے ہیں جیسے اور سبزیوں کو سکھایا جاتاہے اور دیگر اشیاء کی مانند چھوٹے چھوٹے دکانداروں کے ہاتھ مہنگے داموں بیچ دیتے ہیں۔ آڑھتی لوگ اس قیمتی کھمبی کو چھوٹے چھوٹے دکانداروں سے خرید کر بڑے بڑے برآمد کنندگان کے ہاتھوں معقول رقم کے عوض فروخت کرتے ہیں جو بالاآخر اسے دنیا کے مختلف ممالک میں برآمد کرتے ہیں ہمارے ہاں اس کی قیمت 3000 روپے سے لیکر 4000 روپے تک فی کلو ملتی ہے جبکہ عالمی منڈی میں اس کی قیمت مزید دگنی ہوجاتی ہے۔

قدرتی کھمبی کی پہچان۔

یہ شکل و شباہت میں چھو ہارے سے ملتی جلتی ہے اس کا رنگ ہلکا اور گہرا خاکستری یاہلکا بھورا ہوتاہے۔ ان کی بعض اقسام ہلکے رنگ کی بھی ہوتی ہیں۔ بعض گہرے رنگ کی جنگلی علاقوں وہ حصہ جہاں پریہ اگتی ہے وہ بھی اسی رنگ کا ہوتاہے۔لہٰذا اس کی تلاش مشکل ہوتی ہے اس مقصد کیلئے بعض علاقوں میں مخصوص قسم کا کاجل بنایا جاتاہے۔ تاکہ بینائی تیز ہو اور اس کی پہچان آسانی سے ہوجائے یہ کوئی سائنسی طریقہ نہیں بلکہ ایک روایت ہے ان علاقوں میں اس کی تلاش کیلئے بعض مخصوص لوگوں کی خدمات بھی حاصل ہوجاتی ہیں مخصوص لوگ وہ ہیں جن کی بینائی اس مخصوص رنگ کیلئے زیادہ حساس ہوتی ہے اور اس طرح ان کی خدمات سے کم وقت میں زیادہ مشروم اکٹھی ہوسکتی ہے۔

زہریلی مشروم اور دنیا۔

برطانیہ میں وزارت زراعت نے مشروم کی 19 اقسام کو زہریلا گردانا ہے لیکن برطانیہ کے قدرتی عجائب گھر کی جان ریمس نامی اہم رہبر شخصیت نے 25 اقسام کی لسٹ دی ہے جوکہ فنجائی کا ایک یا دو فیصد ہے۔ بک نے مشرقی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی 53 زہریلی اقسا م کے بارے میں بتایا ہے جن میں زیادہ تر برطانیہ میں پائی جاتی ہیں لیکن اگر تمام دنیا کی زہریلی مشرومز کو مدنظر رکھا جائے تو اس زمرے میں تقریباً 300 اقسام آتی ہیں۔

زہریلی مشروم کیا ہے؟

زہریلی مشروم انسانی صحت کیلئے غیر موزوں ہے اردو ادب میں زہریلی مشروم کی اقسام کو ” سانپ کی چھتری” اور انگریزی ادب میں ” مینڈک کا فضلا” کہا جاتاہے۔ اس میں زیادہ زہریلی اقسام کو تباہی کا فرشتہ، موت کی ٹوپی اور موت کا فرشتہ جیسے ناموں سے موسوم کیا جاتاہے۔

زہریلی مشروم کی خوبصورتی۔

یہ عموماً خوبصورت اور دلکش رنگوں میں ہوتی ہے بعض تو اتنی خوبصورت ہوتی ہیں کہ دیکھنے والے کی نظر اٹک جاتی ہے اور قدرت کی اس اضافی خوبصورتی کو بے اختیار داد دینے کو جی چاہتاہے۔ یہ قدرتی امر ہے کہ زہریلی مشرومز زیادہ خوبصورت اور جاذب نظر وہتی ہیں کہ لوگ ان کی طرف لپٹ پڑتے ہیں اور بغیر کسی حیل وجحت کے ان کو نوش کر جاتے ہیں۔ ایک زہریلی مشروم Fly Agaric جس پر اگر مکھیا ں بیٹھ جائیں تو مر جاتی ہیں اس طرح انسان بھی کھمبیوں کا شکار ہوجاتاہے۔

زہریلی مشروم کی پہچان۔

زہریلی مشروم میں چھتری کا نچلا حصہ اس کے نوزائیدہ حالت اور نشوونما مکمل ہونے کے بعد سفید رہتاہے۔ اس کے تنے پر ایک چھلا ہمیشہ موجود رہتاہے اور تنے کے اختتام پر ایک تھیلا نما چیز ہوتی ہے جسے تھیلا ہی کہتے ہیں۔ تمام زہریلی مشرومز مہلک نہیں ہوتی ہیں اور نہ ہی ان میں موجود انتہائی زہریلی مشرومز کے AMANITA گروپ میں موجود انتہائی زہریلی مشرومز کھانے سے مہلک نتائج سامنے آتے ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں جاننا ضروری ہے ان میں موجود مشرومز کی چھتری کا تنا کافی بڑا ہوتاہے۔ اگر تنے کا کچھ حصہ زمین میں رہ جائے تو تھیلا نظر نہیں آتا لہٰذا اس بارے میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

زہریلی مشروم کی اقسام۔

موت کا فرشتہ۔

اس کو انگریزی میں AMANITA MUSCARIA کہتے ہیں۔ فلائی مشروم اور سائنسی اصطلاح میں اس کو ڈیتھ اینجل کہتے ہیں۔ اس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں اور مر جاتی ہیں۔ اس کو مختلف اقسام میں چھتری مختلف رنگوں میں کی ہوتی ہے۔ بعض میں یہ چھتری سفید ہوتی ہے بعض کھمبیوں میں پیلی بعض میں مالٹے رنگ اور بعض میں بلڈریڈ کی ہوتی ہیں سفید تنے پر رنگیں اور حسین چھتری جو عموماً سفید نشانات سے سجی ہوتی ہیں بہت ہی بھلی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ قسم موسم گرما اور خزاں کے دنوں میں امریکہ میں پائی جاتی ہیں۔ دنیا کے مختلف مقامات پر بھی ملتی ہیں اور نشوونما کے مکمل ہوجانے کے بعد بڑ ی آسانی سے پہچانی جاتی ہیں۔ اس میں قدرت نے جزام کا علاج رکھا ہے اس کے الکلد بڈ سے مرگی کے علاج کیلئے دوا تیار کی جاتی ہے۔ جو شفا کا درجہ رکھتی ہے۔ اعصابی امراض میں علاج کے طورپر استعمال ہوتی ہے۔

دیگر زہریلی مشرومز۔

مختلف زہریلی مشرومز سے مختلف امراض کیلئے ادویات تیار کی جاتی ہیں۔ جو اکثر امراض میں تیر بعدف نہیں یوں زہریلی مشرومز بے شمار ادویات میں شامل ہو کر تریاق کا اثر رکھتی ہیں اور فرشتہ اجل کی سچائی کو ثابت بھی کرتی ہیں۔ دیگرزہریلی مشرومز میں اردوں میں نام (1) انکی کیپ (2) انٹی لو مالویڈیم (3) فالز موریل (4) لیپوٹیاکارگوتی۔

تاریخ کے اوراق سے فرشتہ اجل کی ستم ظریفی۔

ماضی کی اہم شخصیات بھی زہریلی مشرومز کی بنا پر موت کا شکار ہوچکی ہیں۔ ابتدائی ادوار کی پہلی تحریروں میں EURIPIVES480-406BC اور ہوکریٹس HIPOCRATES 406-337BC سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی کے کئی لوگ اس کی وجہ سے لقمہ اجل ہوگئے۔ روسی شہنشاہ EMPIRORCLAHUS CAESAR فرانسیسی شہنشاہ چارلس ششم اور یورپ کمنٹ ہفتم کی زہریلی مشرومز کی بنا پر اموات کی تاریخی حوالے موجود ہیں۔ زہریلی مشرومز کو ماضی میں بطور ہتھیار مثل بھی استعمال کیا جاتاہے ایک مثال AGRIPPINA نامی ایک خاتون کی ہے جس نے اس کی ابتداء کی اس نے اپنے شوہر RONANCLADIUS NOBCHSH کو کھانے میں زہریلی مشروم دے کر اس کی موت کی گھاٹ اتارا رومن بادشاہ مشروم کا شائق تھا اور امیر ترین آدمی تھا ایگرلینا اس کی چوتھی بیوی تھی جس نے تباہی کا فرشتہ نامی زہریلی مشرومز کی ڈش بطور ہتھیار استعمال کرکے اس کو موت کے گھاٹ اتارا۔ مشرومز کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے اٹلی کی حکومت نے 1937 میں قوانین نافذ کئے اور سختی سے عمل کردیا اسی طرح فرانس کی حکومت نے 1876 ء میں قانون فانذ کئے مگر جو انسپکٹر اس ڈیوٹی پر معمور تھا وہ خود غلطی سے زہریلی مشرومز کا شکار ہوگیا ایک رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں ہر سال ایک دو حادثات ہوتے ہیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں 50 اور 1984ء میں جرمن میں 1200 اموات ہوئیں۔

مشروم کی غذائی اہمیت۔

کھمبی کی دیگر اقسام کی طرح یہ بھی بہت سی غذائی اہمیت کی حامل ہے۔ پروٹین35-30 فیصد کے علاوہ وٹامن بی دو تھائیامیں، نائیسن، رائیبو فلوین، وٹامن جی اور وٹامن ای پائی جاتی ہے۔یہ وٹامن پکانے، جمانے یا کین کرنے سے ضائع ہوجاتی ہے۔ کیلشیم، فافسفورس اور دیگر نمکیات کی موجودگی کی وجہ سے یہ جسمانی ساخت کیلئے مفید ہے۔ اس میں نشاستہ اور روغنیات بہت کم مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ جس بنا پر شوگر اور دل کے امراض اور غریب لوگوں کیئے مثالی غذا ہے اور وہ خواتین جو اپنے آپ کو سمارٹ رکھنا چاہتی ہیں بغیر ڈائٹنگ کئے مشروم استعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرسکتی ہیں۔ ان گوناگوں خاصیتوں کے علاوہ یہ ذائقہ اور خوشبو کی بنا پر شمار کی جاتی ہے اور یوں یورپین ہر سالن میں مشروم ڈال کر پکاتے ہیں اور میزبان اپنی مہمان نوازی سے مرغوب کرنے کیلئے مشروم کا سالن کھانے کی میز پر ضرور چنتے ہیں۔

مشروم کی اہمیت۔

کھمبی ایک انتہائی نفع بخش فصل ہے جیسے سورج کی روشنی کی غیر موجودگی میں مخصوص درجہ حرارت اور نمی کی موجودگی میں تیار کیا جاتاہے۔ یوں تو پاکستان میں مصنوعی طریقہ کاشت کیلئے یورپی کھمبی، صدف نما کھمبی پرائی کی کھمبی اور شاہ بلوط کی کھمبی اہم کھمبی جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے اپنے ملک میں کھمبی کا استعمال پیداوار بڑھانے کے ساتھ ساتھ عالمی منڈی کیلئے مصنوعی طریقہ سے پوری کھمبی اور شاہ بلوط کی کھمبی تیز قدرتی ذرائع سے حاصل ہونے والی کھمبی مشروم کی پیداوار میں استعداد بڑھائی کی جائے تاکہ وطن عزیز کیلئے اس فصل سے زرمبادلہ کا حصول بھی ممکن ہوسکے۔

مشروم کی معاشی اہمیت۔

کھمبی کی غذائی افادیت جاننے کے بعد آپ بخوبی یہ اجذ کرسکتے ہیں۔ کہ اس کی معاشی اہمیت ڈھکی چھپی نہیں ہے ہمارے ہاں پروٹین کی کمی ہے اور ان حالات میں کھمبی پر ہی ہماری نظر جاتی ہیں اور اگر کھمبی کی کاشت ہماری خواتین گھروں میں کریں تو نہ صرف وہ تازہ کھمبی حاصل کرسکتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کو سکھا کر فروخت بھی کرسکتی ہیں یوں اپنے بچت کرسکتی ہیں۔ اس کیلئے بہت بڑ جگہ کی ضرورت بھی نہیں اس ضمن میں زرعی ریسرچ ڈھوڈیال نے خواتین کو تربیت بھی دی ہے اور بیج بھی فراہم کیا اور اس طرح خواتین مشروم کی کاشت گھریلو پیمانے پر رواج دے رہی ہیں۔ زرعی ماہرین نے یہ بات ثابت کردی ہے۔ کہ ایک قیمتی فصل کے طور پر کھمبی ہمارے ہاں جانی پہچانی جاتی ہیں۔ ایک مربع میٹر کی جگہ سے تقریباً آٹھ کلو تازہ مشروم میسر آتی ہے اور اگر نئی ٹیکنالوجی اپنائی جائے تو سال میں اس کی پانچ فصلیں میسر آتی ہیں اور سب سے بڑ ی بات یہ ہے کہ کچرے کا استعمال ہوتاہے اور یوں ماحولیاتی آلودگی پر بھی اس کا اثر پڑتاہے معاشی ترقی کیلئے ہمیں چائیے کہ مشروم کی کاشت کریں اور منافع کائیں اپنے لیے بھی استعمال کریں اور باہر کے ممالک کو بھی بھیجوائیں اس ضمن میں ایکسپورٹ پروموشن بیورو تعاون کئے ہوا ہے۔

مشروم کے ادویاتی فوائد۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کھمبی میں روغنیات اور نشائستہ بہت کم مقدار میں موجود ہوتاہے جس کی وجہ سے امراض قلب، ذیابیطس، بلڈ پریشر اور فربہ پن کا بہترین علاج ہے۔
مشروم کیوں اُگائیں۔
٭یہ ایک اعلیٰ غذا ہے جو بہت اعلیٰ خواص کی حامل ہے۔
٭یہ کاشت کیلئے زمین سے بے نیاز ہے بلکہ بیکار اشیاء کو بطور ذریعہ کاشت کاری استعمال کرتے ہیں۔
ؐؐؔ٭اچھی پیداوار دینے کی خاصیت کی حامل ہے لہٰذا چند کمروں میں کئی ایکڑ پیداوار کے برابر پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے۔
ؐ٭یہ ایک جلد اگنے والی فصل ہے جو بیج ڈالنے کے بیس تا ستر دن میں برداشت کے قابل ہوجاتی ہے جبکہ اور کوئی فصل اتنی جلدی تیار نہیں ہوتی ہے۔
٭یہ گھر کے اندر کاشت ہونے والی فصل ہے موسمی تغیر و تبدل کا شکار نہیں ہوتی۔
٭پروٹین اور وٹامن نمکیات کی حاصل ہے لہٰذا ایک اچھی قدرتی غذا ہے۔
٭اس کے استعمال سے کئی بیماریوں قابل علاج ہوتی ہے مثلاً کینسر، بلڈ پریشر، ذیابیطس وغیرہ ۔
٭اس کی مارکیٹنگ تازہ خشک یا ڈبوں میں بند کرکے ممکن ہے لہٰذا کسان اور کاشتکار کیلئے اس کا استعمال اور فروخت آسان ہے۔
٭گھر میں کاشت کی وجہ سے گھریلو خواتین کیلئے ایک معقول آمدنی کا ذریعہ ہے۔

مشروم کی کاشت کے مروجہ اندازہ۔

مشروم کی کاشت اب دنیا میں صنعت کا درجہ اختیار کرچکی ہے۔ اور مختلف ممالک میں مختلف پیمانہ پر کاشت کی جارہی ہے اس کو گھریلو پیمانے Kitchen Gardening پر بطور گھریلو صنعت اور تجارتی پیمانے پر کمرشل کاشت کیا جاسکتاہے۔

کھمبی کی قابل کاشت اقسام۔

یوں تو قابل خوراک مشروم کی 100 سے زائدہ اقسام خوردہ ہیں جن میں سے تقریباً دو درجن کے قریب قابل کاشت ہیں جو مختلف ملکوں میں مختلف موسموں میں کاشت شدہ اقسام پیداواری صلاحیت کیلئے اور کھیت کے لحاظ سے زیادہ نفع بخش ہیں۔ چند مشہور اقسام درج ذیل ہیں۔

سردیوں کے موسم میں اُگنے والی اقسام۔
۱۔ صدف نما کھمبی یا سیپ نما کھمبی۔
۲۔ بٹن مشروم یا یورپی کھمبی۔
۳۔ شیٹاقی مشروم یا شاہ بلوط کی کھمبی۔
گرمیوں کے موسم میں اُگنے والی اقسام۔
۱۔ چینی مشروم۔
۲۔ لکڑی کے کان نما مشروم
۱۔ صدف مشروم Oyster
نباتاتی نام Pleurotus Yterilatus
آرڈ رAgaricales
خاندان Agaricaceae

کمرے کے اندر اگانا۔

یہ فصل ایسی جگہوں پر کاشت ہوتی ہے جہاں سورج کی روشنی نہ پڑھتی ہو ۔امریکہ اور یورپ میں اس کی کاشت گرین ہاؤس میں ہوتی ہے فرانس میں غاروں میں تائیوان میں بانس اور چاول کی پرالی سے بنی ہوئی جگہوں پر استعما ہوتی ہیں اور چھوٹے پیمانے پر یہ کسی بھی شیڈ یا خالی کمروں میں اُگائی جتی ہے دیہاتوں میں سرکنڈے کی بنی ہوئی جگہوں میں اس کی کاشت ہوسکتی ہے۔ درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے کیلئے ان کی جھگیوں کے اندر پولی تھین لگائی جاتی ہے۔

موزوں مصنوعی کھیت کا انتخاب۔

۱۔چاول کی پرالی پر کاشت۔

ایک کلو گرام تازہ پرالی اور ایک کلو گرام خشک پرالی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ پہلے پرالی کو باریک کاٹ لیا جائے اور پھر اس کو پندرہ سے بیس منٹ تک گرم ابلتے پانی میں رکھنے سے جراثیم کو ختم کریں اور اس کے بعد پرالی نکال کر کسی ڈھلوان جگہ پر پھر ہموار جگہ پر ہی کچھ دیر کیلئے چھوڑ دیا جائے تاکہ زاید پانی بہہ جائے جب نمی کا تناسب ۶۵ سے ۰۷ فیصد ہوجائے تو پھر ہر ایک کلو گرام پرالی کیلئے ۱۰۰ گرام سپان ملا دیں پھر اس آمیزے کو ٹرے یا پلاسٹک کے ٹرے میں بچھادیں۔

۲۔گندم کا بھوسہ۔

تھریشر سے نکلا ہوا بھوسہ استعمال ہوسکتاہے ایک کلو گرام بھوسے سے ¾ کلو گرام تازہ کھمبی حاصل کی جاسکتی ہے۔بھوسے کو پندرہ منٹ سے بیس منٹ تک گرم پانی میں رہنے دیا جائے اور پھر نکال کر ۶۵ سے ۷۰ فیصد نمی تک خشک کرلیں اور ہر ایک کلو گرام بھوسے کیلئے ۱۰۰ گرام سیان یا بیج ڈالیں اور ٹرے میں لگا کر کمرے کے اندر لگائیں۔

۳۔لکڑی کا برادہ مصنوعی کھیت۔

ایک کلو گرام برادے سے ¾ کلو گرام تازہ کھمبی حاصل کی جاسکتی ہے اور برادہ میں گرم پانی ڈالیں تاکہ نمی 65 سے 70 فیصد ہوجائے پھر بیج ڈالیں اور ٹرے میں رکھ دیں۔

۴۔لکڑی کا براد ہ اور چھان بورہ۔

1:9 نسبت سے ملا کر استعمال ہوسکتاہے اس آمیزہ کو لیں اور اس میں گرم پانی ملا دیں تاکہ نمی نقریباً 25 فیصد ہو اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتاہے اگر آمیزہ کو مٹھی میں دبائیں تو پانی ٹپکنا شروع ہوجائے۔

۵۔روئی کا کاشت کھیت۔

ایک کلو گرام بے کا رکپاس کی روئی سے ڈیڑھ کلو گرام تازہ مشروک حاصل ہوتی ہے روئی کو گیلا کیا جائے تاکہ نمی 65 سے 70فیصد رہے اور پھر اس میں بیج ڈال دیں اور ٹرے میں رکھیں۔

۶۔روئی کا کچرا۔

یہ بھی مشروم اُگائے جانے کیلئے بہترین ہے ایک کلو کچرے سے دو کلو سے زیادہ فصل حاصل کی جاسکتی ہے۔ کچرے کو کسی ڈرم یا ٹب میں اچھی طرح بھگودیں پھر باہر نکال کر صاف کردیں تاکہ 70 فیصد نمی رہ جائے۔

۷۔مکئی کے تکو پر کاشت۔

مکئی کی فصل پیدا کرنے والے علاقوں میں تکے کافی تعداد میں میسر آتے ہیں۔ ان تکو کو جمع کرکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیا جاتاہے اس کے بعد تکوں کو دو دن تک ٹب میں پانی میں بھگوکر رکھا جاتاہے۔ تاکہ پانی اچھی طرح جذب ہوجائے اس کے بعد پانی سے نکال دیں اور تکون کو پندرہ منٹ تک گرم پانی میں رکھیں تاکہ جراثیم کا خاتمہ ہوجائے اس کے بعد فرش پر پھیلا دیں سپاں ملائیں اور پھر تھیلیوں میں بھر دیں۔

صدف مشروم کی گھریلو طور پر کاشت کا طریقہ۔

صدف نما مشروم کی کاشت اگر چہ آسان ہے لیکن فی الوقت اس کی مارکیٹنگ دووجوہات کی بناء پر مشکلہے۔
۱۔یہ ایک نئی چیز ہے اس لئے ا س کی مارکیٹ مستحکم نہیں۔
۲۔فریج میں نہ رکھنے کی صورت میں یہ کاٹنے کے بعد چند دنوں میں خراب ہوجاتی ہے اس لئے اس کی جلد فروخت ضروری ہے۔لہٰذا مشروم کی کاشت میں دلچسپی رکھنے والوں کو مارکیٹنگ کا مسئلہ مدنظر رکھنا پڑیگا۔کھمبی کی کاشت کیلئے ضروری اشیاء۔
٭12X18 انچ سائز کے شفاف پولی تھی کے تھیلے بمع ربڑ رنگ۔پولی تھین کے ہر تھیلے سے تقریباً نصف کلو گرام مشروم حاصل کی جاسکتی ہے۔
٭گندم کا بھوسہ یا دیگر فصلات کا کچرا۔ہر تھیلے کیلئے تقریباً نصف کلو گرام خشک مواد کی ضرورت ہوتی ہے۔
٭بیج Spawn ۔ بیج کا تھیلا مواد کی 20 تھیلیاں بھرنے کیلئے کافی ہوتاہے۔
٭صاف پانی۔
٭پانی ابالنے کیلئے بڑے برتن۔
٭جلانے کی لکڑی۔
٭پلاسٹک شیٹ۔
٭تھیلیاں رکھنے کیلئے صاف ستھری جگہ اور اگر مٹی سے بنا ہوا کمرہ ہو تو زیادہ بہتر ہے۔

صدف نما کھمبی کی کاشت کے مختلف مراحل۔

مرحلہ نمبر1 ۔مواد کا انتخاب اور تیاری۔

اس کی کاشت عام سبزیوں کی طرح زمین پر نہیں ہوتی بلکہ اس کی کاشت کیلئے مختلف فصلات کے کچرے سے تھیلیاں بھر کر مصنوعی کھیت تیار کئے جاتے ہیں۔ اس کیلئے گندم کا بھوسہ ، چاول کی پرالی، کپاس کے فالتو اجزاء، سویابین اور سرسوں کے تنکے وغیرہ استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ ملاکنڈ ڈویژن میں گندم کے فالتو اجزء آسانی سپھوسے کی شکل میں دستیاب ہے لیکن چاول کی پرالی کو پہلے بھوسے کی شکل میں کاٹنا پڑے گا۔

مرحلہ نمبر2۔مواد کو ابلنے پانی میں سے گزارنا اور تھیلیاں بھرنا۔

مواد کی تھیلیوں میں بھرنے سے پہلے جراثیم اور گندگی سے پاک کرنے کیلئے ابلتے پانی میں گزارا جاتاہے۔
٭ایک کھلے برتن میں پانی ابالیں۔
٭چھوٹے او ر باریک کاٹے گئے بھوسے کو ابلتے پانی میں ڈالیں اور 15-10 منٹ تک اس میں رکھیں ۔
٭کسی ترچھی جگہ پر پلاسٹک بچھا دیں تاکہ پانی اچھی طرح بہہ جائے۔
٭پھر ان مواد سے پولی تھین کے تھیلیاں بھر دیں ایک تھیل میں ڈیڑھ کلو گرام کے حساب سے پانی سے ترمواد ڈال دیں۔
٭تھیلیاں بند کردیں اور ٹھنڈا ہونے کیلئے تقریباً آدھا دن رہنے دیں۔
مرحلہ نمبر3 ۔تھیلے میں بیج ڈالنا۔
٭ٹھنڈا ہونے کے بعد تھیلیاں کھول دیں۔
٭ہر تھیلے میں بیج کے دو بڑے چمچ تھیلا کھولنے کے بعد تین اطراف سے دبائیں۔
٭تھیلیاں دوبارہ اچھی طرح سے بند کردیں۔

مرحلہ نمبر4 ۔بیج کی نشوونما۔

ان تھیلوں کو تاریک سرد اور ہوادار کمرے میں چار سے چھ ہفتوں کیلئے رکھیں۔ اس دوران بھوسے سے سفید دھاگے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں آہستہ آہستہ پھلتے جاتے ہیں یہاں تک کہ سارا مواد سفید نظر آنے لگتاہے۔ اس کیلئے درکار وقت کا دارومدار درجہ حرارت پر ہوتاہے۔ مناسب درجہ حرارت یعنی 20 سنٹی گریڈ پر یہ تقریباً ہفتے لیتاہے۔ جب موسم زیادہ سرد ہو تو پھر تقریباً دس ہفتے لیتاہے۔ لیکن زیادہ گرم موسم کی صورت میں مشروم کے دھاگے نہیں بڑھتے اور خراب ہوجاتے ہیں۔

مرحلہ نمبر5 ۔تھیلیاں کھولنا۔

٭جب سارا مواد ہوجائے تو یہ تھیلیاں کھول دی جاتی ہیں تاکہ مشروم کو بڑھنے میں آسانی ہو۔
٭تھیلے کا سامنے والا حصہ کاٹ دیں۔
٭سارا تھیلا نہ ہٹائیں کیونکہ اس سے سارا مواد خشک اور خراب ہوجاتاہے۔

مرحلہ نمبر6 ۔مشروم کی نشوونما۔

بڑھتے ہوئے مشروم اور مواد پر صبح وشام پانی کا چھڑکاؤ کریں خیال رکھیں کہ مواد اور مشروم کسی وقت بھی خشک نہ ہو جائے لیکن ساتھ ہی بہت زیادہ پانی بھی نہ دیں۔ مشروم کیلئے مطلوبہ پانی کی صحیح مقدار معلوم کرنے کیلئے تھوڑے بہت تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ خود ہوجاتاہے۔
فصل کی تیاری میں دس پندرہ دن لگ سکتے ہیں جس کا انحصار درجہ حرارت پر ہوتاہے۔ مشروم کی کاشت کیلئے عموماً20-14 ڈگری سنٹی گریڈ درجہ حرارت معیاری ہوتی ہے۔

مرحلہ نمبر7 ۔مشروم کی کٹائی۔

جب مشروم 4-3 انچ کے برابر ہوجائے تو یہ کاٹنے کیلئے تیار ہوتی ہے۔مشروم کی آخری حصے کے قریب کسی تیز دھارا قویا انگلیوں کی مدد سے مروڑ کر کاٹ دیں مشروم کاٹتے وقت احتیاط کرنی چائیے تاکہ مواد سے چیک ہوجائے بعض اوقات کٹائی کا دورانیہ چند ہفتوں پر محیط ہوتاہے لیکن بعض حالات میں دوہفتے کے وقفے سے تین باریک کٹائی کی جاسکتی ہے۔
مشروم کی کٹائی کاٹنے کے بعد مشروم کو تھیلیوں میں ڈالنا۔

مرحلہ نمبر8۔ پیکیجنگ (Packaging) ۔

مشروم کی مارکیٹنگ ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اگر مشروم مناسب اور دیرپا مواد میں پیک نہ کئے جائیں تو مارکیٹ تک پہنچتے پہنچتے اس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہوتاہے۔ جس سے نہ صرف مشروم کی کوالٹی پر اثر پڑتاہے بلکہ اچھی قیمت نہ ملنے پر زمیندار کی ساری محنت بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ اس لئے مشروم کی پیکنگ ایسی ہونی چائیے جو تمام موسمی حالات کا اچھے طریقہ سے مقابلہ کرسکے اور مشروم کی تازگی کو تین چار دن تک برقرار رکھے۔

ان تمام امور کو مدنظر رکھتے ہوئے مشروم کی مختلف پیکنگ کی تیاری کیلئے پولی تھین پیکنگ گتے کی پیکنگ اور تھرمولو پور پیکنگ پر تجربات کئے گئے تقریباً تین سال کی جدوجہد کے بعد یہ بات ثابت ہوئی کہ پوتھین اور گتے کی پیکنگ مشروم کیلئے مناسب نہیں ہیں جس کی بڑ وجہ ان مواد کا نمی کے مقابلے میں ناپائیداری ہے جب مشروم کو پولی تھین یا گتے کی پیکجنگ میں پیک کیا جاتاہے تو مشروم کی سانس لینے کے دوران نمی پیدا ہوجاتی ہے۔ جس کا ان پیکجنگ مواد میں پڑے رہنے سے نہ صرف مال کی کوالٹی متاثر ہوتی ہے بلکہ پیکجنگ میٹریل پر بھی اثر پڑتاہے۔

تھرموپور پیکجنگ۔

اس پیکجنگ کی سب سے بڑ ی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مشروم کے درجہ حرارت کو اسی درجے پر برقرار رکھتاہے جس پر اسے پیک کیا گیا ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نہ تو مشروم کے د رجہ کو بڑھاتا ہے اور نہ ہی گھٹاتاہے چائیے باہر کے موسمی حالات جیسے بھی ہو اس پیکجنگ کی دوسری خصوصیت مشروم کی تازگی کو برقرار رکھنا ہے سردیوں میں مشروم کی تازگی چھ سے سات اور گرمیوں میں تین سے چار روز تک برقرار رہتی ہے۔

تھرموپور پیکجنگ میں مال رکھنے کی گنجائش۔

اس پیکجنگ کو عام طور پر اسمبلی تھر موپور پیکنجگ کہا جاتاہے جس میں تقریباً تین کلو گرام مال با آسانی پیک کرکے مارکیٹ کیا جاسکتاہے۔ چونکہ ابھی تک پرچون ابھی تک پرچون پیکجنگ پر کام شروع نہیں ہوا اس لئے فی الحال اسی اسمبلی پیکجنگ پر انحصار کیا جاتاہے۔

.2 یورپی کھمبی یا بٹن نما مشروم

نباتاتی نام Agaricus Bisporus ۔
یہ کھمبی گھر کے اندر ہی کاشت ہوتی ہے یورپ کے بیشتر ممالک میں اور امریکہ میں اس کو گرین ہاؤسز میں کاشت کیا جاتاہے رفانس میں اس کی کاشت غاروں میں اور خالی کانوں میں ہوتی ہے۔ تائیوان میں اس کی کاشت انتہائی سستے طریقے سے کی جاتی ہے ۔ وہاں کے کاشت کار بانس کے ڈنڈے کے ڈھانچے بنا کر اس کے اوپر پرالی وغیرہ سے کمرہ نما جگہ بنا کر کاشت کرتے ہیں۔ ہمارے ملک میں سرکنڈے کی جھونپڑیاں بناکر اس کی کاشت کی جاسکتی ہے۔ اس کی کامیاب کاشت کیلئے درجہ حرارت دس سے بارہ سنٹی گریڈ ہے اس بنا پر یہ میدانی علاقوں میں اکتوبر تا مارچ او پہاڑی علاقوں میں سارا سال کاشت ہوسکتی ہے یہ کمپوسٹ پر کاشت ہوتی ہے۔

کمپوسٹ کی اقسام۔

فارمولاکمپوسٹ نمبر1- ۔

گھوڑے کی لید۔ 350 کلو گرام
پرالی یا بھوسہ۔ 75 کلو گرام
ایمونیم سلفیٹ۔ 1.7 کلو گرام
چونا۔ 6.5 کلو گرام
سپرفاسفیٹ۔ 1.7 کلو گرام
جپسم۔ 6.5 کلو گرام

فارمولاکمپوسٹ نمبر2- ۔

چاول کی پرالی اور بھوسہ۔ 300 کلو گرام۔
ایمونیم سلفیٹ۔ 9 کلو گرام۔
یوریا۔ 3.6 کلو گرام۔
پوٹاشیم سلفیٹ۔ 3 کلو گرام۔
سپرفاسفیٹ۔ 3 کلو گرام۔
چھان بورا 30 کلو گرام۔
جپسم۔ 30 کلو گرام۔
فارمولا کمپوسٹ نمبر3-
پرالی یا بھوسہ۔ 300 کلو گرام۔
پوٹاشیم سلفیٹ۔ 7.5 کلو گرام۔
جپسم۔ 15 کلو گرام۔
یوریا۔ 4.5 کلو گرام۔

کمپوسٹ کی تیاری۔

اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کۃ جس جگہ کمپوسٹ تیار کرنا ہو وہ جگہ اور فرش پختہ ہوتاکہ کمپوسٹ کے مختلف اجزا زمین میں جزب نہ ہوں یہ جگہ بارش وغیرہ سے محفوظ ہو اس مقصد کو حل کرنے کیلئے شیڈ یا صرف مومی کاغڈ کا کور بھی استعمال کیا جاسکتاہے۔ اگر چاول کی پرالی استعمال کرنی ہو تو خیال رکھیں کہ یہ خشک او ر پرالی نہ ہو اسے کسی چیز سے کاش کر بھوسہ بنایا جاسکتاہے۔ اگر چاول کی حالت میں استعمال کیا جاتاہے پہلے بھوسے کو فرش پر بیچھا کر فوارے سے پانی چھڑک کر خوب گیلا کیا جاتاہے تاکہ تمام مذکورہ اجزاء اچھی طرح مل سکیں تھوڑے کمپوسٹ کیلئے لکڑی کا فریم استعمال کیا جاتاہے۔ مکپوسٹ کا مکمل تیار کرنا مندرجہ ذیل مراحل سے ہوگا۔
پہلا دن ڈھیر بنانا۔
دوسرے دن پہلا پرت۔
چوتھے دن۔ دوسرا پرٹ۔
چھٹے دن۔ تیسری پرٹ۔
آٹھواں دن۔ ڈبے یا لفافہ میں بھرنا۔

پاسچرائزیشن۔

اس عمل کے ذریعے کمپوسٹ میں موجود کیڑوں قطروں اور فرمنٹیشن کو ختم کرتاہے۔ یہ عمل ہیٹر۔ گیس یا لکڑی جلا کر کیا جاتاہے۔ یا پھر کسی زہریلی گیس کے استعمال سے یہ مقصد پورا ہوتاہے۔ اس مقصد کیلئے کمرے کا ہوا بند ہونا ضروری ہے۔ اگر مومی لفافے استعمال کرنے ہوں تو انہیں پاسپجچرائزیشن کے بعد بھر نا ہوگا ساتھ فیصد نمی ضروری ہے ۔اس کیلئے کمپوسٹ کو گرم پانی سیتر کیا جاتاہے اس عمل کیلئے کمرے کی درجہ حرارت کو تقریباً ساٹھ سنٹی گریڈ تک آہستہ آہستہ لے جایا جاتاہے۔ اس کے بعد کمپوسٹ تیار ہوجاتاہے پھر اس پر بیج کی جائے۔

سپان ڈالنا اور سپان پھیلانا۔

بیج لفافے یا ٹرے میں اوپری تہہ پر تقریباً چار سم گہرے اور تقریباً پندہ سم کے فاصلے پر برابر لگائے جاتے ہیں بیج کے پھیلنے کیلئے کمرہ کا درجہ حرارت پچیس سنٹی گریڈ رہنا چائیے تو دو یا تین ہفتے میں مشروم کے دھاگے سارے کمپوسٹ میں پھیل جائیں گے اور پھر یہ عمل مکمل ہوجائے تو مٹی کی تہہ بچھانے کا عمل کریں۔

مٹی کی تہہ بچھانی۔

اس مقصد کیلئے یورپی ممالک میں Peat استعمال کی جاتی ہے مگر ہم چکنی مٹی 1:4 کی نسبت سے ریت ملا کر گوبر کی گلی وہئی کھاد میں برابر مٹی ملا کر استعمال کرسکتے ہیں۔ مشروم اگانے کے بعد کمپوسٹ بیج رہے 3:1 کی نسبت مٹی میں ملا کر بھی اس مقصد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ تہہ جمانے والی مٹی کو بھی پاسچرائز کرنا ہوگا۔

جیسے بھاپ گرمی یا ھر کے بخارات سے بھی یہ عمل کیا جاسکتاہے Casing کیلئے دائے یا لفافے پر مٹی کی 2.5 سنٹی میٹر موٹی تہہ چڑھائی جائیگی اور اس کی pH سات سے ساڑھے سات ہونی چائیے اگر پی ایچ زیادہ ہو تو مٹی میں مزید ریت ملا ئیں اور پی ایچ کو مزید بجھاہوا چونا ڈالنا پڑے گا۔

فصل لینا۔

مٹی کی تہہ بچھانے کیلئے بعد ٹرے یا لفافے اگانے کے کمرے میں منتقل کریں ٹرے کمرہ میں ایک دوسرے کے اوپر یا تہوں میں رکھ سکتے ہیں۔ ٹرے یا لفافے پر ایک دو دفعہ پانی چھڑکاؤ سے دیں اور فرش پر تین چار بار پانی گرانے سے مطلوبہ 90 فیصد نمی برقرار رہے گی مٹی کی تہہ بچھانے کے دس پندرہ دن کے بعد ٹرے یا لفافہ مشروم کی فصل سے بھر چائیں گے اور ہفتہ ہفتہ کے وقفہ سے دو ماہ تک فصل نکلتی ہے ایک اچھی فصل پندرہ کلو فی مربع میٹر کے حساب سے حاصل ہوگی۔

اس طرح اگر ہم سال میں پانچ فصلیں لیں تو 75 کلو فی مربع میٹر پیداوار حاصل کرسکتے ہیں اتنی زیادہ پیداوار کا کسی اور فصل سے سوچ بھی نہیں سکتے۔

فصل کا کاٹنا۔

ہر روز صبح سویرے کاٹیں کاٹنے کیلئے ہم صرف ہاتھ سے مروڑ کر اسے ہیڈ سے علیْحدہ کرسکتے ہیں۔ یہ خیال رہے کہ کاٹنے سے وقت کے ساتھ اُگنے والی چھوٹی مشروم کو نقصان نہ پہنچنے اور ساتھ ٹوٹا وہا کوئی حصہ بھی ہیڈ پر نہ رہ جائے ورنہ یہ کیڑے اور بیماریوں کا ذخیرہ ہوگا۔ اگر تازہ فروخت کرنے وہ تو سوراخ والے پولی تھین کے لفافے یا گتے کے بنے ہوئے ڈبے میں 250 گرام اور 500 گرام کے پیکٹ میں بند کرکے مطلوبہ جگہ بھیج دیں۔

فصل کی حفاظت۔

فصل کاٹتے وقت ہیڈ پر جو گڑھے بنیں وہ مٹی سے بند کردے جائیں اور اگانے کے کمرے اور فرش صاف رہنے چائیے یا کیڑے اور بیماریاں نہ پھیلیں کیڑے او ر بیماریوں کیلئے محکمہ زراعت کے عملہ سے رجوع کریں۔

.3 شاہ بلوط کی کھمبی۔

شاہ بلوط کی کھمبی جسے جاپانی شیٹا فی مشروم اور چینی کو کہتے ہیں کھانے کے قابل کھمبیوں کی تمام اقسام سے مختلف اورذائقہ کے لحاظ سے عمدہ ہے پاکستان میں اسے میزبان درخت شاہ بلوط کی وجہ سے ہم شاہ بلوط کی کھمبی کہتے ہیں۔ یہ چین او جاپان کو ریا جیسے مشرق بعید کے ممالک میں ایک اعلی قسم خوراک شمار کی جاتی ہے اس کی کاشت کا سہرا چینی کسانوں کے سر ہے۔

تاریخ میں شاہ بلوط کی کھمبی کا ذکر آج سے تقریباً 300 سال قبل تک ملتاہے۔ مگر اس کی مصنوعی کاشت 1844 میں جاپان میں اور 1905 میں کوریا میں شروع ہوئی جوکہ اس وقت جاپان کی زراعت اور جنگئلات سے حاصل ہونے والی پیداوار کی برآمدات میں سرفہرست ہے۔ ہمارے ہاں شاہ بلوط کی کھمبی پہاڑی جنگلات میں کاشت ہوسکتی ہے۔

کاشت کا طریقہ۔

یہ کھمبی شاہ بلوط کے درختوں کے کٹے ہوئے ٹکڑوں میں بیج بھرنے اُگائی جاتی ہے جوکہ پانچ سے سات سال تک فصل دیتے رہتے ہیں ۔

بیڈ کیلئے لکڑی کا انتخاب۔

شاہ بلوط کے درختوں کو موسم خزاں میں کاٹ لینا چائیے کیونکہ اس وقت درخت میں کاروبوہاڈریٹ کافی مقدار میں ہوتی ہے جوکہ کھمبی کی خوراک ہے۔

لکڑی کے ٹکڑوں کے بیڈبنانا۔

شاہ بلوط کے ٹکڑے فروری یا مارچ یا ستمبر اکتوبر میں کاٹ لیے جاتے ہیں۔ ہر ٹکڑے کی لمبائی 3.5 فٹ اور موٹائی پانچ سے پندرہ سم ہونی چائیے یہ ٹکڑے دو تین ہفتے تک پڑے رہنے دیں تاکہ نمی گھٹ کر چالیس پچاس فیصد رہ جائے۔

ٹکڑوں میں بیچ بھرنا۔

دو تین ہفتوں تک لکڑی کے ان ٹکڑوں کے درمیان میں دراڑ پیدا ہوجائیں ی جب ان دراڑوں کی پیمائش ایک یا دو سم ہوجائے تو یہ ٹکڑے بیج بھرنے کے قابل ہیں۔ اب ان ٹکڑوں میں ہاٹت یا بجلی کی ڈرل سے تین سے پنچ سم گہرے سوراخ کئے جاتے ہیں۔ پھر ان سوراخوں میں سپان بھر دیں اس مقصد کیلئے موزوں ترین موسم بہار ہے۔ مگر خزاں کے دنوں میں بھی کیا جاسکتاہے۔ ایک میٹر لمبائی کے ٹکڑے میں پندرہ بیس سوراخ ہونے چائیں۔

ٹکڑوں کے ڈھیر لگانا۔

بیج بھرنے کے بعد ٹکڑے تہہ در تہہ ترتیب وار سایہ دار درختوں کے نیچے رکھ دئیے جاتے ہیں او ر ان پر گھاس پھوس یا پولی تھین کی چادر پھیلا دی جاتی ہے تاکہ نمی برقرار رہ سکے۔ درختوں کے نیچے زیادہ نمی بھی نہیں ہونی چائیے کیونکہ اس سے مقابلے میں دوسرے فطرات بھی اگنا شروع ہوجائیں گے اگر موسم خشک ہو تو ان ٹکڑوں پر ہفتے میں دو تین مرتبہ ہلکا سا پانی بھی چھڑک دینا چائیے۔

ٹکڑوں کا کھڑا کرنا۔

لکڑی کے ان بیج بھرے ٹکڑوں کے اندر کھمبی کے سفید ریشوں کو پھیلنے میں نویا اٹارہ ماہ لگ جاتے ہیں ان کو کھڑا کرنے کا عمل فروری مارچ اور ستمبر اکتوبر میں کیا جاسکتاہے۔ تمام ٹکڑوں میں جب سفید ریشے نظر آنا شروع ہو جائیں تو انہیں لکڑی کے بنے ہوئے فریم یا درختوں کے تنوں کے ساتھ کھڑا کردیا جاتاہے کھمبی نکلنے کیلئے 20-12 سینٹی گریڈ اور 80 فیصد نمی کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ فروری مارچ اور ستمبر اکتوبر میں قدرتی طور پر میسر ہے۔

فصل کی تیاری۔

شاہ بلوط کی کھمبیاں موسم بہار اور موسم خزاں کے قدرتی موسمی حالات میں نکلنا شروع ہوجاتی ہے۔ پس جن ٹکڑوں میں بیج مارچ کے مہینے میں بھرا گیا ہو تھا وہ ستمبر اکتوبر یا اگلے موسم بہار میں تھوڑی سی فصل دیں گے اور جب کھمبیاں لگنا شروع ہوجائیں تو پھر پانچ سات سال تک فصل دیتے رہتے ہیں۔

کمرے کے اندر۔

یہ کھمبی کمرے کے اندر بھی اگائی جاسکتی ہے۔
مارکیٹنگ۔
تازہ کھمبیاں کاٹ کر گھر میں پکائی جاسکتی ہیں۔ جو بہت لذیز بنتی ہیں ضرورت سے زاہد فصل کو دھوپ میں سکھالیں اور پھر لفافوں میں بند کرکے فروخت کریں۔
.3چینی مشروم Chinese Mushroom
نباتاتی نام Valvarella Vuleacea
خاندان Putin Ceae
جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے یہ گرم مرطوب علاقے میں کاشت ہونے والی کھمبی ہے اس کی باقاعدہ کاشت کا سہرا چینی کسانوں کے سر ہے انہوں نے اسے تمام دنیا میں متعارف کروایا اس لئے چینی کھمبی کہتے ہیں ایشیا کے بیشتر ممالک میں اس کی کاشت ہوتی ہے جہاں پر برسات کا موسم چار ماہ تک ہو وہاں پر یہ کھمبی باہر کاشت ہوسکتی ہے۔ اور ہمارے ہاں اس کی کاشت درختوں کے سائے میں ممکن ہے اس میں تیس سے چالیس فیصد تک پروتین پائی جاتی ہیں اس میں وٹامنز اور نمکیات خاص کر وٹامنز سی اور نیا سین کافی مقدار میں ہوتی ہے کھمبی کو اکیلا پکا کریاپھر سبزی یا چاول کے ساتھ ملا کر کھایا جاتاہے۔ ہوٹلوں میں اس کا سوپ بھی استعمال کیا جاتاہے۔

چینی کھمبی کی کاشت کا مروجہ طریقہ۔

اس کی کاشت کیلئے کیاریوں میں بنائی جاتی ہیں۔ جو تین فٹ چوڑی آدھا فٹ اونچی اور بارہ فٹ لمبی ہوتی ہیں اس کی لمبائی میں کمی و بیشی حالات کے مطابق کی جاتی ہے۔ یا د رکھیں کہ روشنی کی شعائیں کیاری میں صبح طلوع آفتاب کے وقت اور غروب آفتاب کے وقت ضرور پڑیں۔

چاول کے بنڈل کی تیاری۔

چاول کی پرالی کے بنڈل کی تیاری اس طرح کریں کہ تنے والے تمام حصے ایک طرف ہوں اور موٹائی تقریباً آٹھ انچ ہو اب بنڈلوں کو گیلی کی ہوئی پرالی سے ہی بانڈھیں۔

کمرے کے اندر کاشت۔

جس میں اس کی کاشت جھونپڑیاں بنا کر کی جاتی ہے۔ کمروں میں درج حرارت کو قابو میں رکھا جاتاہے۔
چاول کی پرالی کے علاوہ، مکئی کے تکے‘ مکئی کے ٹانڈے‘ گندم ‘ جو چنے کے تنے اورکپاس بھی اس مصنوعی کھیت کیلئے موزوں ہیں۔ اس کے لئے ایک قسم کا کمپوسٹ جس کا بتایا گیا ہے اس کے اجزاء ملاحظہ کریں۔

کمپوسٹ برائے چینی کھمبی۔

بے کارکپاس۔ 40 کلو گرام۔
گندم کا بھوسہ۔ 100 کلو گرام۔
گندم کا چاول کا بورا۔ 4 کلو گرام۔
چونا۔ 2 کلو گرام۔

ان چیزوں کا استعمال اس طرح کریں کہ ان کو پانی سے خوب تر کیا جائے پھر ڈھیر لئایں تقریباً سات دن تک اس کو گلنے سڑنے دیں پھر مکس کر بیڈ بنائیں۔

فصل کی تیاری۔

بیج ڈالنے کے دو ہفتے بعد کھمبی نکلنا شروع ہوجاتی ہے جو ایک دو دن میں انڈے کی شکل اختیار کرتی ہیں اس کے بعد تقریباً تیسرے دن کھل جاتی ہے۔ اگر کھمبی کو سکھانا ہو تو جب چھتری کل جائے تو اس کی کٹائی کریں اور ان کو دھوپ میں سکھائیں دو تین دن میں دھوپ میں سکھائیں دو تین دن میں دھوپ میں خشک ہوجائی گی۔ چینی کھمبی کو خشک کرنے کے بعد پیسا بھی ہوئی کھمبی کا پوڈر بڑے بڑے ہوٹلوں میں سوپ بنانے میں استعمال ہوتاہے اور جب پکائی ہو تو خشک کھمبی کو آدھا گھنٹہ پانی میں بھگوئیں۔پیداوار اگر چینی کھمبی کی کاشت کے دوران مطلوبہ درجہ حرارت مہیا کیا جائے تو اس کی پیداوار خشک پرالی کے وزن کا تیس فیصد ہوتی ہے۔

.6 لکڑی کی کان نما مشروم۔

یہ بھی قدرتی طور پر اگتی ہے اور انسانی کان سے مشابہ شکل کی ہوتی لکڑی لکڑی کابر ادہ اور کئی بیکار اشیاء مثلاً پکار کپاس بھوسہ مکئیکے تنکے وغیرہ پر کامیابی سے اگائی جاسکتی ہے یہ موسم گرما کی کھمبی ہے اس لئے گرمی کے موسم میں کاشت کریں۔

مشروم کی ناکامی کی وجوہات۔

اس ضمن میں احتیاط ملحوظ خاطر رکھیں اور مندرجہ باتوں کا خیال رکھیں۔
۱۔مشروم اگنے کی جگہ کو صاف ستھرا اور جراثیم سے پاک ہونے چائیں۔
۲۔آلات استعمال اور ہاتھ بھی جراثیم سے پاک ہونے چائیے۔
۳۔اشیاء نمو جراثیم سے بالکل پاک ہونا چائیے۔
۴۔تھیلوں میں اشیاء نمو میں پانی کی صحیح مقدار ضروری ہے کمی اورزیادہ فصل کی ناکامی ہے۔
۵۔مشروم کی جائے کاشت کے آس پاس مویشیوں کی موجودگی نقصان دہ ہوتی ہے۔۶۔سورج کی بلاواسطہ روشن بھی ناکامی کا باعث ہوتی ہے۔
۷۔فصل کاٹتے وقت کھمبی کا سبب ہوتے ہیں لہْذا احتیاط سے کھمبی کر مروڑ کا نکالیں۔
کھمبی کا بیج۔
صدف نما کھمبی کا بیج زرعی تحقیقاتی مرکز ڈھوڈیال اور دوسری کھمبیوں کا بیج ایچ آر سی اسلام آباد اور زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے مل سکتاہے۔

زمین کی زرخیزی بڑھانے کے لیے مختلف قسم کی کھاد کا  استعمال ضروری ہوتا ہے۔کھاد میں دیگر کار آمد اشیا کے علاوہ نائٹروجن کے مرکبات بھی موجود ہوتے ہیں۔ جب پودوں کو پانی دیا جاتا ہے تو یہ مرکبات پانی میں حل ہو جاتے ہیں اور پھر پودے کی جڑیں اُن کو چوس کر تنے، شاخوں اور پتوں وغیرہ تک پہنچا دیتی ہیں۔ جانوروں کے فضلے سے جو کھاد خود بخود بن جاتی ہے اُس کی مقدار محدود ہے اور تمام ضروریات کو پورا نہیں کر سکتی ۔ لہٰذا بعض کیمیائی مرکبات مصنوعی کھاد کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں  جن کے ذیلی اثرات انسانی جسم پر مضر ردعمل  پیدا کرسکتے ہیں۔ البتہ نامیاتی کھاد  کی تیاری سے اس خرابی سے محفوظ رہا جاسکتا ہے جس میں قدرتی طور پر  نائٹروجن کے مرکبات حل ہوجاتے ہیں اور پودوں کو غذائیت فراہم کرتے ہیں۔


گھریلو باغبانی کے لیے  کھاد اپنے گھر میں  خودہی  تیار کریں

ہمارے گھروں میں روزانہ ہی مختلف قسم کا کچرا جمع ہوجاتا ہے اس کچرے کی ایک بڑی مقدار کچن سے نکلنے والا  کچرا ہے اگر ہم اس کچرے کو ضائع کرنے کی بجائے اس سے اپنے گھر میں ہی  اپنے پودوں کے لئے کھاد تیار کریں تو یہ کھاد مارکیٹ میں ملنے والی کھاد کے مقابلے میں زیادہ مفید اور بہترین ہوگی ۔اس طرح سے جو کھاد تیار کی جاتی ہے اسے آرگینک کمپوسٹ  کا  نام دیا گیا ہے ۔

آرگینک کمپوسٹ یا  نامیاتی کھاد بنانے کے لئے دو طرح کا کچرا استعمال ہو سکتا ہے

1۔تازہ یا ہرا
2۔سوکھا ہوا یا براؤن

1۔تازہ یا ہرے کچرے میں گلی سڑی سبزیاں یا پھل ،سبزیوں کے پتے اور ڈنٹھل،چائے کی استعمال شدہ پتی، کافی ، باسی بوائل چاول ،بچے ہوئے کھانے ،خراب دودھ دہی ،گارڈن سے نکلنے والی گھاس پھونس ،پتے ،پرانے مصالحے ، جلے ہوئے کھانے ،شامل ہیں۔
2۔سوکھے ہوئے اور براؤن اشیاء میں گھاس پھونس سوکھے ہوئے پتے ،لکڑی کا برادہ ،اخبار کا کاغذ ،گتہ ،بھٹے کے چھلکے  اور خالی خول ،سوکھے ہوئے پھل اور سبزیاں ،مونگ پھلی کے چھلکے ، انڈے کے چھلکے،پودوں کی جڑیں ،بے کار روئی، پالتو پرندوں کے دڑبوں سے نکلنے والا کچرا ،ٹشوپیپر ، ناقابل استعمال ادویات ،شامل ہیں۔

کوئلہ اور اسکی راکھ ،رنگین کاغذ ،بیمار اور فنگس لگے ہوئے پودے،کتے اور بلی کی گندگی گھریلو نامیاتی کھاد کی تیاری میں  استعمال نہ کی جائے ۔ان چیزوں سے کھاد کی کوالٹی خراب ہوسکتی ہے اور وہ پودوں کے لئے بھی نقصان دہ ہیں۔

نامیاتی کھاد کی تیاری

گھریلو نامیاتی کھاد  بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے گھر میں زمین کے کسی کونے میں دو سے تین فٹ گہرا گڑھا کھود کر پتوں، سبزیوں ،پھلوں کے چھلکے جمع کرتے جائیں جب گڑھا بھر جائے تومٹی کی موٹی تہ لگادیں اور اوپر سے گیلا کرنے کے لئے پانی ڈال دیں تین سے چار مہینے میں کھاد تیار ہوجائے گی ۔

آج کل ہر  گھر میں کچی زمین میسر نہیں ہوتی ہے اس لیے نامیاتی کھاد تیار کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے۔  
کوئی بڑا مٹی یا پلاسٹک کا برتن  لے لیں اس مقصد کے لئے ناقابل استعمال پانی کا کولر  یا  پرانی ٹنکی بھی لے سکتے ہیں اگر یہ بھی نہیں ہے تو بڑی پلاسٹک کی بوری تو ہر جگہ مل سکتی ہے اس میں باریک سوراخ بھی ہوتے ہیں جو کہ کھاد کی تیاری کے لئے اہم ہیں اگر کوئی بڑا برتن لیا ہے تو اس میں ڈرل مشین سے سوراخ کرنا ہونگے۔ سوراخوں کے باعث  برتن کے   اندر آکسیجن کی کمی نہیں  ہوگی  جس سے کھاد سڑنے اور کیڑے پڑنے سے محفوظ رہے گی۔ اب اس برتن یا بوری جس میں کھاد بنائی جا رہی ہے کےاندر  تین حصہ براؤن چیزوں کا اور ایک حصہ ہری چیزوں کا ڈالیں گے اوپر سے مٹی کی تہ لگاکر پانی ڈال کر ڈھک دیں گے پانی ڈالنے سے بیکٹریا اپنا کام شروع کردیتے ہیں اور ان اجزأ کو توڑ کر نائٹروجن  کے مرکبات میں تبدیل کردیتے ہیں اب اس کو دھوپ میں رکھا جا ئے گا اگر بارش ہوجائے اور ان اجزأ کے اندر بارش کا پانی پہنچ جائے تو یہ اس کے لئے بہت مفید ہے کیوں کہ جب بارش ہوتی ہے اور بجلی کڑکتی ہے تو بجلی کی کڑک سے ہوا میں موجود نائٹروجن کے ذرات ٹوٹ کر پانی کے ساتھ نیچے آجاتے ہیں اور جب یہ پانی اس کھاد کے اندر جاتا ہے تو دیگر اجزأ کے ساتھ مل کر نائٹروجن کے ذیادہ مؤثر مرکبات بنالیتا ہے جو کہ قدرتی نامیاتی کھاد کا اہم جز ہے لیکن یہ خیال رہے  کہ پانی اتنا نہ جائے کہ کھاد کے اجزأگل جا ئیں ضروری ہے کہ ان کو ڈھانپ دیا جائے  ہر پندرہ دن بعد اس کو ہلا دیا جائے تقریباً  تین سے چار ماہ میں اعلٰی کوالٹی کی کھاد تیار ہوجائے گی۔اگر اس کی رنگت کالی یا براؤن ہو جائے بھربھری ہو کسی قسم کی بو نہ ہو تو یہ تیار ہے ۔اگر کھاد کے تمام اجزا  کو کوٹ کر یا پیس کر ڈالا جائے تو ایک ہفتہ میں ہی کھاد استعمال کے قابل ہوجائے گی۔

کھاد کی تیاری کے لئے ہومیو پیتھک دواؤں کا استعمال

بعض اوقات کھاد کی تیاری میں  اجزأ  کا توازن صحیح نہیں رہتا کسی بھی جز کی کمی یا زیادتی ہو سکتی ہے اس کمی کو پورا کرنےکے لئے بعض ہو میو پیتھک دواؤں کو اس میں استعمال کیا جائےتو اس سے  بہت زیادہ حیران کن نتائج سامنے آتے  ہیں۔

تربوز کی فصل کتنے دنوں میں تیار ہوتی ہے ؟
تربوز کی فصل کیلئے کورا انتہائی نقصاندہ ہوتا ہے۔ اسلئے تربوز کی فصل اُس وقت کاشت کرنی چاہیئے جب کورے کا خطرہ نہ رہے۔ تربوز کے بیج کے اُگاؤ کیلئے 24 سے 30 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت موزوں ہوتا ہے (1)۔ جبکہ پودے کی اچھی نشوونما کیلئے درجہ حرارت 20 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہونا چاہیئے۔


تربوز کیسی زمین میں کاشت کریں ؟

تربوز کی فصل کیلئے اچھے نکاس والی ریتلی زرخیز زمین موزوں ہوتی ہے۔ 

تربوز کی فصل کے لئے کھادوں کا استمعال کیسے کریں ؟

تربوز کی فصل کیلئے اچھے نکاس والی ریتلی زرخیز زمین موزوں ہوتی ہے۔ کاشت سے ایک ماہ پہلے کھیت میں گوبر کی کھاد ڈالیں۔ پھر ہل چلا کر کھیت کو پانی لگائیں۔ جب زمین وتر حالت میں آجائے تو کھیت میں دوبارہ ہل چلائیں۔ بوقت کاشت دوبارہ ہل اور سہاگہ چلائیں۔ تاکہ زمین نرم، ہموار اور جڑی بوٹیوں سے پاک ہو جائے۔

تربوز کی کاشت کب کی جائے؟

تربوز کی فصل کیلئے کورا انتہائی نقصاندہ ہوتا ہے۔ اسلئے تربوز کی فصل اُس وقت کاشت کرنی چاہیئے جب کورے کا خطرہ نہ رہے۔ تربوز کے بیج کے اُگاؤ کیلئے 24 سے 30 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت موزوں ہوتا ہے (1)۔ جبکہ پودے کی اچھی نشوونما کیلئے درجہ حرارت 20 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ ہونا چاہیئے۔




گرمیوں میں ہر کوئی درختوں کی چھاؤں میں بیٹھنا اور سبزہ زار میں وقت گزارنا پسند کرتا ہےکیونکہ ہرے بھرے پودے گرمی کی شدت کو کم کرتے ہیں۔ آپ کے گھر میں اگر درخت یا سبزہ زار ہے تو آپ کی شامیں ٹھنڈی گزر سکتی ہیں اور اگر آپ کو باغبانی کا شوق ہے تو گرمیوں کے موسم میں آپ نہ صرف سبزیاں ، پھول اور پودے لگا سکتی ہیں بلکہ باغبانی سے حاصل ہونے والی سبزیاں بھی استعمال کرسکتی ہیں۔ ان کا ذائقہ لاجواب ہوتا ہے اور اپنے ہاتھ سے اُگائی ہوئی سبزیوں کی خوشی سے مزہ دوبالا ہو جاتاہے۔
garmion mai thandak k liay bagbani

موسم گرما کی سبزیاں

موسم گرمامیں ٹماٹر، بینگن، کریلا، شملہ مرچ، ہری مرچ، توری، اروی، بھنڈی، ہلدی، کدو، آلو وغیرہ اُگائی جاتی ہیں۔ ان کی کاشت فروری مارچ سے شروع ہوتی ہے اور ستمبر اکتوبر تک جاری رہتی ہے۔

بیج سے کاشت

موسم گرما میں کھیرا، بھنڈی، خربوزہ اور تربوز براہ راست بیج سے کاشت کیے جاتے ہیں۔

پنیری سے اُگنے والی سبزیاں

اس موسم میں شملہ مرچ، ہری مرچ ، بینگن ، ٹماٹر اور بیلوں والی سبزیاں پنیری کے ذریعے ٹرے یا پلاسٹک کی تھیلیوں میں اُگائی جاسکتی ہیں۔

پودوں سے اُگنے والی سبزیاں

پودینہ ، اروی، شکر قندی، آلو، ادرک اور ہلدی ایسی سبزیاں ہیں ، جن کے کسی بھی حصے کو آپ کاشت کرسکتی ہیں۔

گھر میں باغبانی کیسے کی جائے ؟

گھر میں باغبانی کیلئے ذیل میں درج باتوں کا دھیان رکھیں۔
٭ ایسے مقام کا انتخاب کریں، جہاں کم سے کم 5گھنٹے دھوپ آتی ہو۔
٭ وافر مقدار میں پانی دستیاب ہو۔
٭زمین اچھی ہو ورنہ کھاد استعمال کرکے زمین کو زرخیز بنایا جاسکتاہے ۔
٭ موسم کی مناسبت سے بیج اور پنیری دستیاب ہو ۔
٭ پودوں کیلئے حفاظتی اقدامات ہو ں۔

باغبانی کیلئے درکار اوزار

کچن گارڈننگ کیلئے آپ کے پاس درانتی، کدال، ریک، کھرپی اور پانی دینے کیلئے پائپ یا ڈول ہونا چاہئے۔

زمین کی تیاری

زمین کا بالائی حصہ اہم ہوتا ہے کیونکہ اسی حصے سے پودا پانی اورخوراک حاصل کرتاہے۔ اس لیے تقریباً ایک فٹ گہرائی تک زمین کو نرم اور بھربھرا کرلیں ۔ پتھر، پلاسٹک ،کنکر وغیرہ نکال کر اچھی طرح صفائی کرلیں اور اس میں اچھی طرح کھاد ملا دیں۔

اہم مشورے

٭سب سے پہلے خاکہ بنا کر نشاندہی کرلیں کہ کس جگہ کونسی سبزی لگانی ہے ۔
٭باغیچے کے گرد حفاظتی باڑ لگائیںتاکہ پرندے وغیرہ پودوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
٭بیج یا پنیری ہمیشہ معیاری استعمال کریں۔
٭پودے لگانے سے پہلے ان کے فاصلے کا خیال رکھیں۔
٭سبزی چنتے وقت ہاتھ کے بجائے قینچی سے کاٹیں تاکہ پودا خراب نہ ہو ۔
٭چنی ہوئی سبزی فوراً پکالیں تاکہ تازہ سبزی کا ذائقہ برقرار رہے۔
٭کیڑوںسے بچانے کیلے اسپرے بوتل میں پانی لے کر اس میں ایک چمچ کوکنگ آئل اور ایک چمچ سرف ملالیں۔ پودوں پر چھڑکائو کرنے سے پودے کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رہیں گے۔

گرمیوں کے پھول

گرمیوں کے پھولوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہے، لیکن ہم ان پھولوںکی بات کریں گے جوبآسانی اُگائے جاسکتےہیں۔

فوٹولاکا

گملوں اور کیاریوں کے کناروں کیلئے سب سے سستا پھول فوٹولاکاہے، جسے گلِ دوپہری بھی کہا جاتاہے ۔ اسے جتنی زیادہ دھوپ لگتی ہے، اتنا زیادہ یہ کھِلتا ہے۔ بہت سارے رنگوں میں کھلنے والے پھو ل پنیری سے لگائے جاتے ہیں لیکن انھیں بہت زیادہ پانی دینے سے گریز کریں ۔

عمودی باغبانی

کچن گارڈننگ کے علاوہ آپ پھول اور پودے چھت پر بھی لگا سکتےہیں، تاہم اگر چھت پر بھی جگہ نہ ہوتو اس کاحل عمودی باغبانی یعنی ورٹیکل گارڈننگ میں ہے۔ عمودی باغبانی میں زمین کے بجائے دیواروں پرمختلف فاصلوں پر سہاروں کے ذریعے پودے لگائے جاتے ہیں، جو نشوونما پاتے ہیں تو پوری دیوار کو ڈھک دیتے ہیں۔

کنیر

موریطانیہ یا پرتگال سے آیا گہرے سبز پتوںاور ٹہنیوں کے سروں پر گلابی سرخ یا سفید خوشنما یہ پھول کنیر کہلاتاہے۔ کم پانی اور تیز دھوپ میں کنیر کا پودا ساری گرمیاں پھول دیتا ہے۔

رات کی رانی

رات کی رانی مسحور کن خوشبو سے بھرپور پودا ہے، جو پورے گھر کو مہکا سکتا ہے۔ جھاڑی نما اسے پودے کو گملے میں بھی اُگایا جاسکتا ہے لیکن زمین پر اُگانےسے آپ کو زیادہ پھول ملیں گے۔

مرچ عام طور پر دو اقسام کی ہوتی ہے۔ ایک میٹھی مرچ جس کو شملہ مرچ بھی کہا جاتا ہے اور دوسری تم  کڑوی ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس کی کاشت چاروں صوبوں میں کی جاتی ہے۔ آب و ہوا  مرچ معتدل آب و ہوا کو پسند کرتی ہے اس کے پودے سردی کے مہلک اثرات کو برداشت نہیں کر سکتے۔ 

وقت کاشت 

میدانی علاقوں میں جہاں کورا پڑنے کا خطرہ ہے مرچ کی پنیری اکتوبر اور نومبر میں کاشت کی جاتی ہے جبکہ پودوں کو کھیت میں وسط فروری یا پھر مارچ کے شروع میں جب کورے کا خطرہ جاتا ہے تقل کیا جاتا ہے۔ پہاڑی علاقوں میں پنیری کی کاشت دمبر، جنوری اور فروری کے مہینے میں کی جاتی ہے اور پھر کھیت میں منتقلی اپریل، مئی میں کی جاتی ہے۔ 
250 گرام سے 300 گرام تک صحت مند نے ایک ایکڑ کی پنیری تیار کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ 
الوگی ، کیلا مرچ، تلہار، دولی اقسام پی۔ اور پی ۔ ۲۱۰ قابل ذکر ہیں۔ 

زمین اور زمین کی تیاری 

مرچ ہو تم کی زمین پر کاشت کی جاسکتی ہے۔ مرچ کی کامیاب کاشت کے لیے زمین کا نرم اور ہموار ہونا ضروری ہے۔ ایک دفعہ زمین پلنے والا ہل چلائیں گوبر کی گلی سڑی کھاد بحساب 8 سے 10 ٹن فی ایکڑ اور ڈی اے پی کھاد ایک بوری ڈال کر تین دفعہ ہل چلائیں اور سہاگہ پھیر کر زمین کو چھوڑ دیں۔ 

طریقہ کاشت 

پہلے سے تیار کھیت میں 60 سے 75 سینٹی میٹر کے فاصلے پراٹھیاں بنائیں۔ ان ٹھوں پر دونوں اطراف میں 30 سینٹی میٹر سے 45 سینٹی میٹر کے فاصلے پر پیری کھیت میں منتقل کریں۔ پنیری اگر شام کے وقت لگائی جائے تو ان کی نشوونما بہتر طور پر ہوگی ۔ پیری منتقل کرنے کے بعد کھیت کو پانی دیں۔ مرچ کے پودے کھڑے پانی میں لگانے سے پودوں کو جڑ کی پیاری لگنے کا خطرہ رہتا ہے اس لیے پانی میں پودے لگائیں۔ 

کھاد کا استعمال 

پودوں کو کھیت میں منتقل کرنے کے تقریبا 45 دن بعد جب پودے اچھی طرح جڑ پکڑ لیں اور پھول آنے شروع ہو جائیں تو اس وقت مٹی چڑھانے کے ساتھ آ دھی بوری یوریا کھیت میں ڈالی جائے۔ بعد میں تقریبا ہر چنائی کے بعد یمل دہرایا جائے۔ 

آبپاشی 

پودوں کے اچھی طرح جڑ پکڑنے تک ہفتہ وار پانی دینا چاہیئے بعد میں موسی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے 6 سے 8 دن یا پھر بہت ہی زیادہ گرم موسم میں 4 سے 5 دن وقفہ کر دیا جائے۔ گوڑی اچھی پیداوار حاصل کرنے کے لیے فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھنا ضروری ہے۔ پودوں پر گوڈی کر کے اتنی مٹی چڑھادینی چاہئے کہ پانی پودوں تک براہ راست نہ سکے بلکہ صرف وتریانم پہنچے۔ وقت برداشت جب پھل کا سائز مناسب ہو جائے تو چنائی کریں۔ پھل توڑ کر اس کو کسی سایہ دار جگہ پر رکھ کر کسی گیلے کپڑے یا کی بوری سے ڈھانپ دیں تا کہ اس کی تازگی برقرار رہے۔ سرخ مرچوں کے لیے گہرے سرخ رنگ کی مرچیں توڑ کر سائے میں خشک ہونے کے لیے رکھ دیں۔ 

قرضہ فنی مشاورت: 

زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کسان بھائیوں کو مری کی کاشت کے لئے قرضہ فراہم کرتا ہے۔ اس سلسلہ میں اپنے حلقہ کے موبائل کریڈٹ آفیسر سے رابط قائم کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ شعبہ زری نگین و بی زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ ہیڈ آفس اسلام آباد کسانوں کوفی و نیکی ہواست بھی فراہم کرتا ہے۔ مرچ کی کاشت کیلئے ہمارے زرعی ماہرین سے بذریہ خط درج ذیل پتہ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ترقی پسند کاشتکار جو اپنے تجربات سے دوسرے کسان بھائیوں کو مستفید کرنا چاہتے ہوں ۔ میں اپنے تجربات سے تحریری طور پر آگاہ کریں تا کہ ان کے تجربات سے دوسرے کسان بھائیوں کو بھی آگاہ کیا جا سکے۔

پلیز اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو اس زہر سے بچائیں شکریہ....
Pesticide Percentage (%) in cold drinks released from PMA (Pakistan Medical Association) recently.
1     Nestle  juice  7.2%
2     Coke              9.4%
3     7 up              12.5%
4     Mirinda         20.7%
5     Pepsi            10.9%
6     Fanta              29.1%
7.    Sprite.            5.3%
8.    Frooti.           24.5%
9     Maza.            19.3%

It's very dangerous to the Human Liver.....

Results in Cancer !

------------------------

1. کیا کبھی کسی میڈیا نے یہ بتایا کہ نیسٹلے﴿Nestle﴾ کمپنی خود مانتی ہے کہ وہ اپنی چاکلیٹ کٹ کیٹ ﴿Kit Kat﴾ میں گاےٴ کے گوشت کا رس ملاتی ہے.

2. کیا میڈیا نے کبھی بتلایا کہ مدراس ہائی کورٹ میں فیر اینڈ لولی Fair&Lovelyکمپنی پر جب مقدمہ کیا گیا تھا تب کمپنی نے خود مانا تھا کہ ہم کریم میں سور کی چربی کا تیل ملاتے ہیں.

3. میڈیا نے کبھی یہ بتلایا کہ کولگیٹ ﴿Colgate﴾ کمپنی جب اپنے ملک امریکہ یا یورپ میں Colgate بیچتی ہے تو اس پر وارننگ لکھی ہوتی ہے

پہلی تنبیہ Please keep out this Colgate from the reach of the children below 6 years

یعنی چھ سال سے کم بچوں کی پہونچ سے اس کولگیٹ کو دور رکھیں/بچوں کو نہ دیجیے۔ کیوں ؟؟؟ کیوں کہ بچے اس کو چاٹ لیتے ہیں اور اس میں کینسر پیدا کرنے والا کیمیکل ہے اس لیے وہ کہتے ہیں کہ اسے بچوں کو نہ دیا جاےٴ۔

دوسری تنبیہ

In case of accidental ingestion, please contact nearest poison control center immediately

مطلب اگر بچے نے غلطی سے چاٹ لیا تو جلدی سے ڈاکٹر کے پاس لے جائیے کیوں کہ یہ بہت خطرناک زہر ہے

تیسری بات اس میں یہ بھی لکھی ہوتی ہے

If you are an adult then take this paste on your brush in pea size

مطلب یہ کہ اگر آپ عمر میں بڑے ہیں تو اس پیسٹ کو اپنے برش پر صرف ایک مٹر کے دانہ کے برابر ہی لیجیے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے یہاں جو اشتہار ٹیلی ویژن پر آتا ہے اس میں برش بھر کے استعمال کرتے ہوےٴ دکھا تے ہیں۔ ہمارے ملک والے پیسٹ پر اس طرح کی کوئی تنبیہ ﴿Warning﴾ نہیں ہوتی۔

4. میڈیا نے کبھی بتلایا کہ ویکس ﴿Vicks) نام کی دوا پر یورپ کے کتنے ممالک میں پابندی ﴿Ban﴾ ہے؟

وہاں اسے زہر ڈکلیر کیا گیا ہے۔

5. میڈیا نے کبھی بتلایا کہ لایف بواےٴ ﴿Life Bouy﴾ نہ نہانے کا صابن ﴿Bath Soap﴾ ہے نہ حمام کا صابن ﴿Toilet Soap﴾ ہے۔ یہ جانوروں کو نہلانے والا Carbolic Soap ہے؟ یوروپ میں لایف بواےٴ صابن سے کتے نہاتے ہیں اور پاکستان میں کروڑوں لوگ اس سے رگڑ رگڑ کر نہاتے ہیں!!

6. میڈیا نے کبھی بتلایاکہ Coke Pepsi کے بارے میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اس میں 21 طرح کے الگ الگ زہر ہیں۔

اور تو اور ہندوستانی پارلیمنٹ کی کینٹین میں کوک پیپسی بیچنے پر پابندی ﴿Ban﴾ ہے مگر پورے ہمارے ملک میں بک رہی ہے!

7. میڈیا نے کبھی بتایا کہ ہیلتھ ٹانک بیچنے والی غیر ملکی کمپنیاں Boost , Complan, Horlics, Maltova, Protinx

ان سب کا دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ ﴿جہاں بھارت کی سب سے بڑی لیب ہے﴾ وہاں ان سب کا ٹیسٹ کیا گیا اور پتہ لگایا کہ یہ صرف مونگ پھلی کی کھلی سے بنتے ہیں ۔ مطلب مونگ پھلی کا تیل نکالنے کے بعد جو اس کا waste بچتا ہے جسے گاوٴں میں جانور کھاتے ہیں اس سے یہ Health Tonic بناےٴ جاتے ہیں!!

8. میڈیانے کبھی بتلایا کہ محققین کی ریسرچ کے مطابق Cock Pepsi پینے والے کی آنتیں سڑ جاتی ہیں

.

9. آج کل بہت سارے لوگ pizza کھانےکا بڑا شوق رکھتے ہیں چلیے پزا پر ایک نظر ڈال لیجیے۔۔۔۔ پزا بیچنے والی کمپنیاں ۔۔ پزا ہٹ، ڈومنسن ، کے ایف سی ، میکڈونالڈز ، پزا کورنر ، پاپا جونز پزا ، کالیفورنیا پزا، کچن سیلز پزا

Pizza Hut, Dominos, KFC , McDonalds, Pizza Corner , Papa John’s pizza, California pizza kitchen, Sal’s pizza.

وغیرہ ۔ یہ سب کمپنیاں امریکا کی ہیں آپ چاہیں تو ویکی پیڈیا پر دیکھ سکتے ہیں۔

پزا Pizza میں ٹیسٹ لانے کے لیے E-631 flavor Enhancer نام کا ایک عنصرPaste ملایا جاتا ہے۔ اور یہ عنصر کیا ہوتا ہے ؟ اس میں سور کا گوشت ملایا جاتا ہے جس کو ڈال کر لوگ اس پزے کا ٹیسٹ بڑھاتے ہیں۔ آپ چاہیں تو گوگل پر دیکھ سکتے ہیں۔

براہ کرم بغیر کسی انتظار کے اس میسیج کو زیادہ سے زیادہ ہر مسلمان تک پھیلائیے۔

ہوشیار رہیے ۔۔۔ اگر کھانے پینے کی چیزوں کے پیکیٹ پر مندرجہ ذیل کوڈ لکھے ہوں تو جان لیجیے اس میں یہ چیزیں ملی ہوئی ہیں۔

عناصر/اجزاء کوڈ نوٹ :

یہ سبھی کوڈCode آپ کو زیادہ تر باہری کمپنیوں پر لکھے ملیں گے جیسے چیپس ، بسکٹ ، چیونگم ، ٹافیاں اور میگی وغیرہ۔

میگی کے پیکیٹ پر Ingredient ﴿اجزاء﴾ میں دیکھیں گے E 635 لکھا ملیگا

آپ چاہیں تو Google پر ان سارے نمبرات کو دیکھ سکتے ہیں۔

گاےٴ کا گوشت E 322

الکحل ﴿شراب﴾ E 422

الکحل اور دوسرے کیمیکلز E 442

گاےٴ کا گوشت اور الکحل کا عنصر E 471

الکحل E 476

گاےٴ اور سور کے گوشت کا میکسچر E 481

جان لیوا اور خطرناک کیمیکل E 627

گاےٴ، سور ، بکری کے گوشت کا میکسچر E 472

سور کی چربی کا تیل E 631

آپ چاہیں تو Google پر ان سارے نمبرات کو بھی دیکھ سکتے ہیں۔

E100, E110, E120, E140, E141, E153, E210, E213, E214, E216, E234, E252, E270, E280, E325, E326, E327, E334, E335, E336, E337, E422, E430, E431, E432, E433, E434, E435, E436, E440, E470, E471, E472, E473, E474, E475, E476, E477, E478, E481, E482, E483, E491, E492, E493, E494, E495, E542, E570, E572, E631, E635, E904.

آپ سب سے ایک بار پھر گذارش ہے کہ چٹکلے بھیجنے کے ساتھ ساتھ اس کو بھیجنا اور زیادہ سے زیاد شئیرکرنا نہ بھولیں
یہ پیغام ہر مسلمان تک پہنچائیے ۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget