دسمبر 2019

 امرود کا ھائی ڈینسٹی پر فرٹیلائزر پلان۔  سردی کے پھل کے لئے

امرود کا ہائی ڈینسٹی پانچ سالہ پروگرام جس میں آپ کو مکمل پلان ترتیب دیا گیا ہے ۔ 

پہلا سال فی پودا ھائی ڈینسٹی 2000 پلانٹ فی ایکڑ

کمپوسٹ یا گوبر کھاد 25۔1 کلو گرام 
امونیئم سلفیٹ 35 گرام
سنگل سپر فاسفیٹ 25 گرام
ایس او پی 5 گرام
میگنیشیئم سلفیٹ 2 گرام
high density guva farming in pakistan

دوسرا سال

کمپوسٹ یا گوبر کھاد 5۔2 کلو گرام
امونیئم سلفیٹ 70 گرام
سنگل سپر فاسفیٹ 50 گرام
ایس او پی 12 گرام
میگنیشیئم سلفیٹ 3 گرام

تیسرا سال

کمپوسٹ یا گوبر کھاد 75۔3 کلو گرام
امونیئم سلفیٹ 105 گرام
سنگل سپر فاسفیٹ 75 گرام 
ایس او پی 18 گرام
میگنیشیئم سلفیٹ 4 گرام

چوتھا سال

کمپوسٹ یا گوبر کھاد 5 کلو گرام 
امونیئم سلفیٹ 140 گرام
سنگل سپر فاسفیٹ 100 گرام
ایس او پی 23 گرام 
میگنیشیئم سلفیٹ  5 گرام

پانچواں سال

کمپوسٹ یا گوبر کھاد 7 کلوگرام
امونیئم سلفیٹ 175 گرام
سنگل سپر فاسفیٹ 125 گرام
ایس او پی 28 گرام 
میگنیشیئم سلفیٹ 6 گرام  

گوبر کھاد جولائی کے پہلے ہفتے مکمل کریں۔  سنگل سپر فاسفیٹ اور نصف باقی کھادیں اگست کے پہلے ہفتے۔
باقی نصف کھادیں ستمبر کے پہلے ہفتے میں فرٹیگیٹ کر دیں ۔
ستمبر کے چوتھے ہفتے میں 8 کلو گرام ھیومک ایسڈ کرسٹل یا 20 لیٹر ھیومک ایسڈ مائع بھی فلڈ کردیں۔

اوپر والی کھادوں سے باغ کو درج ذیل اجزاء مکمل طور پر مل جائیں گے۔ 

نائٹروجن 
فاسفورس 
پوٹاش 
کیلشیئم 
میگنیشیئم 
سلفر
ھیومک ایسڈ
فلوک ایسڈ

پھول نکلنے سے پہلے درج ذیل دو فولئر  ھی کریں۔ 

پہلا سپرے

2 کلو گرام پوٹاشیئم نائٹریٹ 100 لیٹر پانی میں۔  

دوسرا سپرے۔ 100 لیٹر پانی میں۔ 
100 گرام بورک ایسڈ
200 گرام فیرس سلفیٹ
200 گرام کا پر سلفیٹ
100 گرام مینگانیز سلفیٹ 
400 گرام زنک سلفیٹ 

درج بالا فولئر سپرے پھل  بننے  کے فورا بعد الٹی ترتیب میں پھر کریں۔ یعنی اب کے پوٹاشیئم نائٹریٹ  آخر میں۔ 
پوٹاشیئم نائٹریٹ کا ایک مزید  سپرے پھل 50 فیصد سائز ھونے  پر پھر کریں۔ 

فولئر سپرے کے ساتھ فنجیسائیڈ کو مکس بھی کر سکتے ھیں۔ 

نوٹ۔
اگر گرمی کا پھل بھی لینا ھے تو درج بالا مکمل۔پروگرام دو بار کرنا ھو گا۔ 
گرمی کے پھل کے لئے مارچ سے اور سردی کے پھل کے لیے جولائی سے۔

انار عموماََ دو وجوہات کی بنیاد پر پھٹتا ہے.
نمبر 1. بیکٹیریا سے لگنےوالی بیماری بیکٹیریل بلائٹ کی وجہ سے
نمبر 2. کھادوں اور پانی کی کمی بیشی کی وجہ سے
لیکن آپ نے جو حقیقت بتائی ہے اور تصویریں بھیجی ہیں ان کے مطابق یہ بیکٹیریا سے لگنے والی بیماری بیکٹیریل بلائٹ ہے.
لہذا ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس بیماری کو اچھی طرح سے پہچان لیا جائے.
ہوتا یہ ہے کہ بیکٹیریا سب سے پہلے انار کے پتوں پر حملہ آور ہوتا ہے جس کے نتیجے میں پتوں پر بھورے اور کالے رنگ کے دھبے ظاہر ہوتے ہیں.
پتوں پر بھورے اور کالے رنگ کے دھبے نظر آ رہے ہیں
اس کے بعد یہ دھبے شاخوں پر بھی نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں. اور شاخیں کہیں کہیں سے کالی کالی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں.
دھبے شاخوں پر بھی نظر آ رہے ہیں
اگر حملہ زیادہ تو شاخیں پھٹنا بھی شروع ہو جاتی ہیں
زیادہ حملے کی صورت میں شاخ پھٹ جاتی ہے
اس کے بعد پھل پر تکونی شکل کے کالے رنگ کے نشان سے ظاہر ہوتے ہیں

اور شدید حملے کی صورت میں انار پھٹ جاتا ہے.

بیکٹیریل بلائٹ کا حل کیا ہے؟
اگر آپ کے انار پھٹ رہے ہوں تو فوری طور پر تین کام کریں

نمبر 1. اینٹی بائیوٹک کا سپرے کریں

اس بیماری میں جب بیکٹیریا پودے پر حملہ کرتا ہے تو اس کے فوراََ بعد پھپھوندی بھی حملہ آور ہو جاتی ہے. لہذا اس بیماری کو کنٹرول کرنے کے لئے سب پر پہلے اینٹی بائیوٹک اور اس کے بعد پھپھوندی کش زہر کا سپرے کرنا ضروری ہے.

لہذا سب سے پہلے آپ انار پر ایک اینٹی بائیوٹک سٹر یپٹو مائی سین سلفیٹ سپرے کر دیں.
سٹر یپٹو مائی سین سلفیٹ کی ایک گرام پیکنگ آپ کو کسی بھی میڈیکل سٹور سے 10 یا 12 روپے میں مل جائے گی.
اینٹی بائیوٹک کی ایک گرام کی پیکنگ
20 لیٹر پانی والی ٹینکی میں دو گرام (یعنی دو شیشیاں) ڈال کر اچھی طرح حل کریں اور انار کے پودوں پر سپرے کر دیں.

نمبر 2. پھپھوندی کش سپرے کریں

اس سپرے کے 2 دن بعد بائر کی ایک پھپھوندی کش زہر جو مارکیٹ میں نٹیوو کے نام سے دستیاب ہے پودے پر سپرے کر دیں.

نمبر 3. کھادیں پوری کریں

واضع رہے کہ پودے کو مناسب خوراک نہ دی گئی ہو تو اس کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے اور وہ بیماریوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا. پودے کی قوت مدافعت بڑھانے کے لئے 1 کلو نائٹروفاس اور آدھا کلو پوٹاشیم سلفیٹ کی کھادیں ڈالیں.
اصولاََ یہ کھادیں جنوری میں ڈالنی چاہئیں تھیں. اگر آپ نے جنوری میں کوئی کھاد ڈال رکھی ہے تو اسی حساب سے جمع تفریق کر کے پودے کی کھاد پوری کر دیں.

بوران کا سپرے کریں. دو گرام فی لیٹر پانی کے حساب سے سپرے کریں.

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اینٹی بائیوٹک اور پھوندی کش زہروں کے بیماری آنے سے پہلے حفاظتی سپرے کریں.
پانی یا کھادوں کی کمی بیشی کی وجہ سے پھل کا پھٹنا بعض اوقات انار کے پھل کو بیکٹیریل بلائٹ بیماری نہیں ہوتی جبکہ پھل پھر بھی پھٹ رہے ہوتے ہیں.

ماہرین بتاتے ہیں کہ اس طرح سے اناروں کا پھٹنا پانی اور کھادوں کی کمی بیشی کی وجہ سے ہوتا ہے.
بوران، کیلشیم اور پوٹاش کی کمی کا انار پھٹنے سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے البتہ ان تینوں اجزاء کی کمی کی وجہ سے پودے میں پانی کی کمی بیشی کو برداشت کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے. اس طرح سے بوران، کیلشیم اور پوٹاش کی کمی بھی پھل پھٹنے کا سبب بن جاتی ہے.
 ماہرین کے مطابق
 1. پانی کی کمی بیشی
2. کیلشیم و بوران کی کمی کے ساتھ نائٹروجن کھاد کا ضرورت سے زائد استعمال اور
3. ہارمون کا بے جا استعمال پھل پھٹنے کی وجہ ہے.

انار کی کچھ ورائٹیاں ایسی ہیں جن میں پھل کم پھٹتا ہے جبکہ دوسری ورائٹیوں میں پھل پھٹنے کا رجحان زیادہ ہے. بھارت میں تحقیق یہ بتاتی ہے کہ امبی بہار اور ہستا ورائٹیوں میں پھل سب سے زیادہ جبکہ مریگ بہار ورائٹی میں سب سے کم پھٹے ہیں. امید ہے پاکستان میں بھی اس طرح کی کوئی تحقیق جلد سامنے آ جائے گی.

اگر انار کھادوں اور پانی کی کمی بیشی کی وجہ سے پھٹ رہے ہوں تو اس کاحل کیا ہے؟
انار کو مناسب وقفے سے پانی لگائیں اور پانی کی کمی بیشی نہ ہونے دیں. خاص طور پر پھل لگنے سے لیکر پھل پکنے تک پانی لگانے میں محطاط رویہ اختیار کریں. بتایا جاتا ہے جہاں اناروں کو ڈرپ آبپاشی کے ذریعے پانی لگایا جاتا ہے وہاں انار کے پھل کم پھٹتے ہیں.

جب پھل تھوڑا بڑا ہو جائے تو یکے بعد دیگرے بوران کے دو سپرے کریں. سپرے کرنے کے لئے 2 گرام بوران فی لیٹر پانی کے حساب سے محلول بنا کر سپرے کریں.

زمینی تجزیے کے مطابق کیلشیم اور پوٹاش کھادیں ڈالیں. یہ کھادیں پانی کی کمی کی صورت میں پھل کو پھٹنے سے بچاتی ہیں.

پوسٹ کی زیادہ تر معلومات ایگری اخبار سے لی گئی ھیں.
ترتیب،چھانگاسرکار
پوسٹ دیگر احباب کی معلومات کے لئے شیئر کریں ۔۔شکریہ

آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے کروا رہے جو دنیا میں قدرتی کاشتکاری کے ایک ابھرتے ہوئے مبلغ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے قدرتی نظام کاشتکاری کے 4 بنیادی اصول دریافت کئے اور پھر ان اصولوں کی بنیاد پر کاشتکاری کا ایک جامع نظام وضع کیا۔ آصف شریف کے قدرتی کاشتکاری نظام میں نہ تو کیمیائی کھاد استعمال کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی طرح کا کوئی زہرسپرے کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ آصف شریف زمین میں ہل چلانے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس ںظام کاشتکاری میں آپ کی پیداوار کم ہوجاتی ہے۔ بلکہ بعض صورتوں میں پیداوار پہلے سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک آصف شریف کے وضع کردہ نظام کاشتکاری سے استفادہ کر رہے ہیں۔ آصف شریف کئی ملکوں میں ہزاروں ایکڑ پر براہ راست کاشتکاری سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی ممالک کے زرعی ماہرین کو تربتی لیکچر بھی دیتے ہیں۔

آصف شریف کون ہیں، انہوں نے قدرتی نظام کاشتکاری کے اصول کیسے دریافت کئے؟ قدرتی نظام کاشتکاری کی تفصیلات کیا ہیں؟ اور ایک عام کاشتکاراس نظام کو کیسے اپنا سکتا ہے؟ موجودہ اور آنے والے کئی مضامین میں یہ تمام تفصیلات پیش کرنی کی کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون پیش خدمت ہے جس میں آصف شریف کا پس منظر اور ان کی زرعی خدمات پر بات کی گئی ہے۔

آصف شریف گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کرنے کے بعد امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے مارکیٹنگ کے مضمون میں نارتھ کیرولائنا سٹیٹ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجوایشن مکمل کی۔

تعلیم کے آخری سال، فورڈ موٹر کمپنی نے انہیں ملازمت کی پیش کش کی۔ اس وقت فورڈ موٹر کمپنی کے دو بڑے شعبے تھے۔ ایک شعبہ آٹو موٹر ڈویژن جو کہ ٹرک اور کاروں سے متعلق تھا اور دوسرا شعبہ ٹریکٹر ڈویژن کا تھا جو کہ ظاہر ہے زراعت سے متعلق تھا۔

آصف شریف چونکہ زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے زراعت سے متعلق شعبے ٹریکٹر ڈویژن میں ملازمت اختیار کر لی۔

بنیادی ٹریننگ دینے کے بعد فورڈ کمپنی نے آصف شریف کو امریکہ کی نارتھ کیرولائنا ریاست کا سیلز منیجر مقرر کر دیا۔

نارتھ کیرولائنا ریاست کی آب و ہوا اور زراعت بڑی حد تک پنجاب سے مماثلت رکھتی ہے۔ آصف شریف کی ذمہ داریوں میں اہم ذمہ داری کاشتکاروں کو جدید زرعی آلات اور فصلوں کی پیداواری ٹیکنالوجی کے رموز و اوقاف سے آگاہ کرنا تھا۔

اس مقصد کے لئے وہ کاشتکاروں کی بڑی بڑی مجلسیں منعقد کرتے جہاں جدید زرعی علوم کے حوالے سے بات چیت کی جاتی۔

امریکہ میں آصف شریف یہ کام بڑی لگن اور دل جمعی سے کر رہے تھے کہ کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر انہیں وطن واپس آنا پڑ گیا۔

پاکستان میں واپس آ کر انہوں نے اپنی آبائی زمین پر کاشتکاری کا فیصلہ کیا۔

آصف شریف کی آبائی زمین ضلع پاکپتن میں، پاکپتن شہر سے 5 کلو میٹر دور بر لب سڑک واقع تھی جہاں انہوں نے سن 1972میں کاشتکاری کا آغاز کیا۔

انہوں نے امریکہ میں اپنی ملازمت کے دوران جو کچھ بھی زراعت سے متعلق علم سیکھا تھا اسے اپنے ہاں عملی طور پر اپلائی کیا۔

مثلاََ لمبے کھیت، پرسئین لیولنگ، سائفن ٹیوٹ فرو اریگیشن سسٹم، پرسیئن سیڈ پلانٹنگ، ٹریکٹر ماؤنٹڈ سپرے مشین، فولئر اپپلیکیشن گویا اس زمانے میں جتنے بھی جدید طریقہ زراعت تھے وہ سب کے سب آصف شریف نے کاشتکاری میں اپنائے۔

امریکہ کے علاوہ آصف شریف آسٹریلیا بھی گئے جہاں انہوں نے کئی ہفتے قیام کر کے کاشتکاروں اور ماہرین سے گنا و دیگر فصلیں اگانے کے طریقے سیکھے۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ سورج مکھی اور ہائبرڈ بہاریہ مکئی آصف شریف نے 1975 میں کاشت کی۔ ہائبرڈ بیج انہوں نے امریکہ کی کارگل کمپنی سے درآمد کرنا شروع کئے۔
اگر یہ کہا جائے کہ کارگل کمپنی پاکستان میں آصف شریف کی وجہ سے آئی تو یہ بے جا نہ ہو گا۔

ہائبرڈ بیجوں کی بدولت آصف شریف فارم پر مکئی کی پیداوار 90 من تک جا پہنچی۔ جبکہ آس پاس کے اچھے کاشتکار 25-30 من سے زیادہ پیداوار نہیں لیتے تھے۔ اسی طرح آصف شریف نے امریکہ سے ڈیلٹا پائن کپاس کے بیج منگوا کر پاکستان میں کامیابی سے اگائے جس کی وجہ سے 1976 میں ان کی پیداوار 50 من فی ایکڑ تک جا پہنچی۔ واضح رہے کہ ان دنوں کپاس کے اچھے کاشتکار 15-20 من فی ایکڑ سے زیادہ پیداوار نہیں لے پاتے تھے۔

آلو کی بات کریں تو پاکستان میں آلو کی مشینی کاشت بھی پہلی مرتبہ آصف شریف نے اپنائی۔ اس سے پہلے جندرے کے ساتھ وٹیں بنا کر آلو کاشت کئے جاتے تھے اور پیداوار بھی 30 بوری سے زیادہ نہیں آتی تھی۔ لیکن آصف شریف کے مشینی اور جدید طریقہ کاشت سے آلو کی پیداوار 135 بوری تک چلی گئی۔

کارگل کمپنی کو دیکھ کر پائنیر کمپنی نے بھی پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ ساہیوال میں سن 1992 میں پائنئر سیڈ کمپنی کا پلانٹ آصف شریف کا ہی انسٹال کیا ہوا ہے۔

پاکپتن، اوکاڑہ، ساہیوال، دیپالپور، عارف والا کے علاقوں کی زرعی ترقی کے پیچھے بھی آصف شریف کے زرعی فارم کا بڑا ہاتھ ہے۔ بر لب سڑک ہونے کی وجہ سے آصف شریف فارم، ہر آنے جانے والے کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ کاشتکار ازراہ شوق آصف شریف کے فارم پر آتے وہ تجسس بھرے سوالات پوچھتے جن کا وہ تسلی بخش جوابات دیتے۔ لہذا آصف شریف کے فارم نے ایک طرح سے نمائشی فارم کا کام کیا جسے دیکھ کر کسانوں نے اپنی کاشتکاری کو بہتر بنانے کی کوششیں کیں۔ اس طرح دیکھا دیکھی چند سالوں میں ہی پاکپتن کے آس پاس کے علاقوں کی زراعت میں جدت آنا شروع ہو گئی۔

آلو اور مکئی کی فصلیں کاشت کرنے والے جوڑ کا آغاز بھی آصف شریف کے فارم سے ہی شروع ہوا تھا۔ جو کاشتکاروں میں اس قدر مقبول ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ سارا خطہ آلو اور مکئی کا علاقہ بن گیا۔

رفحان میظ 1975 کے آس پاس بند ہونے کے قریب تھی جب انہوں نے آصف شریف کی مشاورت سے بہاریہ مکئی کا پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام کی بدولت رفحان میظ کے دن بدل گئے اور وہ تیزی سے ترقی کرنے والی کمپنیوں میں شامل ہو گئی۔

اسی طرح سن 1977 میں حکومت پنجاب کے محکمہ اصلاح آبپاشی کا تصور بھی آصف شریف فارم سے ہی ابھرا ۔ بلکہ اس محکمے کا نام On-Farm Water Management بھی آصف شریف کا ہی تجویز کردہ ہے۔ سن 1984 میں پہلا لیزر لینڈ لیولر بھی پاکستان میں آصف شریف ہی لے کر آئے تھے۔ بعد ازاں آصف شریف نے حکومت پنجاب کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا جس کے تحت کاشتکاروں کو سبسڈی پر لیزر لینڈ لیولر دئیے گئے جو اب پنجاب کے ہر کاشتکار کی دسترس میں ہیں۔

اصلاح آبپاشی کا محکمہ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ کاشتکاروں کو آب پاشی کے درست طریقہ جات سے آگاہ کیا جائے۔ لیکن محکمہ اصلاح آبپاشی نے کسانوں کی تعلیم و تربیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ کھال پکے کرنے کی طرف مرکوز کر دی۔ یہ محکمہ اس کام کی طرف کیوں مائل ہوا اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔

آصف شریف فارم 10 سال تک خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس وقت کی تمام بڑی بڑی سرکاری غیر سرکاری شخصیات نے ان کے فارم کا دورہ کیا۔

انہی شخصیات میں سے ایک جمیل نشتر بھی شامل تھے۔ جمیل نشتر، قائد اعظم محمد علی جناع کے قریبی ساتھی اور سابق گورنر پنجاب سردارعبدالرب نشتر کے بیٹے تھے۔ انہوں نے نیشنل بنک کے ایک سینئر عہدیدار کی حیثیت سے آصف شریف فارم کا سن 1977 میں دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران آصف شریف نے چھوٹے کاشتکاروں کو زرعی قرضہ جات کی سہولت دینے کے لئے موبائل کریڈٹ آفیسر (ایم سی او) کا پروگرام پیش کیا جسے جمیل نشتر کی وساطت سے نیشنل بنک نے اپنا لیا۔

اس طرح تاریخی حوالے سے بھی یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں موبائل کریڈٹ افسروں کا پہلا پُور نیشنل بنک کے تعینات کیا۔ اور پھر ان افسروں کو بنیادی تربیت بھی آصف شریف فارم پر ہی دی گئی۔

موبائل کریڈٹ آفیسرتعینات ہونے سے ایک طرف کو زرعی گریجوایٹ کے لئے روزگار کا دروازہ کھل گیا اور دوسری طرف کاشتکاروں کو بھی قرضہ جات حاصل کرنے کی سہولت ہو گئی۔

آج کے پاکستان میں جتنے بھی ترقی پسند کاشتکار جدید سے جدید تر کاشتکاری کر رہے ہیں 1981 تک وہ ساری جدت آصف شریف کے فارم پر ظہور پذیر ہو چکی تھی۔

کاشتکاری کے انتہائی مدارج کو چھونے کے بعد جب یہ عمل یکسانیت کا شکار ہونے لگا تو آصف شریف کی دلچسپی میں کمی آنا شروع ہو گئی۔ کیونکہ اس مرحلے پر وہ سمجھتے تھے کہ کاشتکاری میں وہ جو کچھ کرنا چاہتے تھے، کر چکے ہیں اور اب ان کی متجسس طبیعت کچھ نیا کرنا چاہتی تھی۔

سن 1981 میں آصف شریف نے ایک دفعہ پھر فورڈ موٹر کمپنی سے رابطہ کیا کہ انہیں کوئی نئی اسائنمنٹ دی جائے۔

جواب میں فورڈ موٹر کمپنی نے انہیں امریکہ میں ملازمت کی پیشکش کی لیکن اب وہ پاکستان میں رہ کر ہی کوئی زرعی سرگرمی اختیار کرنا چاہتے تھے۔

اسی دوران جمیل نشتر جو اس سے قبل نیشنل بنک میں سینئر افسر تھے انہیں زرعی ترقیاتی بنک کا چئرمین مقرر کر دیا گیا۔

زرعی بنک کا چئرمین بننے کے بعد جمیل نشتر نے آصف شریف کو اسلام آباد مشاورت کے لئے مدعو کیا جہاں ایگرو رینٹل سروسز کا منصوبہ ترتیب دیا گیا۔ اس منصوبے نے پاکستان میں جدید زرعی مشینری کی داغ بیل ڈالنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں سن 1984 میں گندم کاٹنے کے لئےپیلے رنگ کے نیو ہالینڈ کمبائنڈ ہارویسٹر پاکستان آنا شروع ہوئے جس سے گندم و دیگر فصلات کی کٹائی و گہائی میں بڑی سہولت اور تیزی پیدا ہوئی۔ یہ تمام مشینیں فورڈ کمپنی نے پاکستان کو فروخت کیں۔
اسی منصوبے کے تحت سن 1985 میں شوگر کین ہارویسٹر (گنا کاٹنے والی مشین) اور کاٹن پکر (کپاس چننے والی مشین) بھی درآمد کئے گئے ۔

منصوبے کے دوسرے مرحلے میں کاشتکاروں کو فصلیں کاشت کرنے کے لئے پلانٹر دئیے جانے تھے لیکن 1985 میں جمیل نشتر کا بے وقت انتقال ہو گیا جس کے بعد یہ منصوبہ بینک کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ٹھپ ہو گیا۔ جمیل نشتر صاحب کی زرعی میدان میں قابل قدر خدمات ہیں جن پر پھر کبھی بات ہو

یہ بات بھی آپ کو بتانا ضروری ہے کہ آصف شریف زرعی مشینیں ڈیزائن کرنے کے بھی ماہر ہیں۔ مشینیں بنانا یا بیچنا ان کا کاروبار نہیں ہے یہ محض ان کا شوق ہے۔ انہوں نے پاکستان میں درجن بھر سے زائد مشینیں ایجاد کر کے متعارف کروائی ہیں۔


آصف شریف کی بنائی ہوئی بعض مشینیں تو ایسی ہیں جو دنیا میں پہلی مرتبہ ڈیزائن یوئی ہیں۔ ان مشینوں کے ڈیزائن پر کسی بھی طرح کے کوئی کاپی رائٹ نہیں ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو یہ ڈیزائن بالکل مفت حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں چند ایک کاریگر ہیں جو آصف شریف سے یہ ڈیزائن حاصل کر کے مشینیں بنا رہے ہیں۔

اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں اجناس کو سٹور کرنے کے لئے بلک سائیلوز اور بٹلر وائڈ سپین بلڈنگ ٹیکنالوجی بھی آصف شریف نے ہی سن 1988 میں متعارف کروائی تھی۔


سن 1993 میں ملک میں بے نظیر بھٹو کی حکومت آ گئی۔ بے نظیر بھٹو نے زرعی ترقی کے لئے ایک سپیشل کمیٹی بنائی جس کے کنوینئر یا چئرمین کی ذمہ داری آصف شریف کے حوالے کی گئی۔

اس کمیٹی نے پاکستان میں زرعی ترقی کے لئے کئی ایک اقدامات کئے۔ ان اقدامات کا تذکرہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس حوالے سے ڈاکٹر ظفر الطاف مرحوم،فاروق احمد خان لغاری مرحوم، نواب یوسف تالپور کا ذکر کیا جائے جنہوں نے اس کمیٹی کی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انتھک محنت کی۔

اس کمیٹی نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ زرعی زہروں کو ان کے اصلی ناموں سے بیچنے کی اجازت دے دی۔واضح رہے کہ اس سے قبل یہ کام غیر قانونی تھا۔ اس قدم سے یہ ہوا کہ زرعی ادویات کی قیمتیں کئی گنا سستی ہو گئیں۔ مثال کے طور پر پولیٹرین سی زہر جو اس وقت 600 روپے میں بک رہی تھی، ایک آدھ ماہ میں ہی کمپنی کو اس کی قیمت 100 روپے لیٹر کرنا پڑ گئی۔

اسی طرح کاشتکاروں کی اجناس کوڑیوں کے داموں دھر لی جاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں زرعی اجناس کی قیمتیں عالمی منڈی کے مطابق نہیں تھیں۔ عام طور پر کاشتکار کو عالمی قیمتوں کے مقابلے میں آدھی قیمت ملتی تھی۔ کمیٹی نے تجویز دی کہ ملک میں زرعی اجناس کی قیمتیں عالمی منڈی کی قیمتوں سے منسلک کر دی جائیں۔ اس تجویز پر عمل درآمد ہوتے ہی پھٹی کا ریٹ جو کہ 400 روپے فی من تھا دیکھتے ہی دیکھتے 1600 روپے من تک چلا گیا۔ اور یہی معاملہ باقی اجناس کے ساتھ بھی ہوا۔

اس کے علاوہ اس کمیٹی نے عوامی ٹریکٹر سکیم کی تجویز دی جس کی بنیاد پر پاکستان میں پہلی مرتبہ کاشتکاروں کو آدھی سے بھی کم قیمت پر 30 ہزار ٹریکٹر دئیے گئے۔ یہ ٹریکٹر پولینڈ اور بیلاروس سے درآمد کئے گئے۔ پولینڈ سے ارسس ٹریکٹر اور بیلاروس سے بیلارس ٹریکٹر درآمد کر کے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ میں دئیے گئے۔ واضح رہے کہ اس وقت میسی فرگوسن کی قیمت ساڑھے تین لاکھ کے قریب تھی۔

اسی دوران آصف شریف نے فورڈ کمپنی سے ٹریکٹر بنانے کا لائسنس حاصل کیا اور لاہور میں ٹریکٹر بنانے کی فیکٹری لگا لی۔

پاکستان میں نظر آنے والے نیلے رنگ کے تمام فورڈ ٹریکٹر آصف شریف کی اسی فیکٹری کے بنے ہوئے ہیں۔ بعد ازاں فورڈ کمپنی نے اپنا ٹریکٹر ڈویژن ختم کر کے فیئٹ کمپنی کو بیچ دیا اور آصف شریف نے بوجوہ ٹریکڑ سازی کا کام چھوڑ دیا۔

سن 2007 میں آصف شریف کی ملاقات امریکہ کی کارنیل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر نارمن تھامس اپ ہاف سے ہوئی۔ کارنیل یونیورسٹی کا شمار زراعت کے حوالے سے دنیا کی چند بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نارمن تھامس، کارنیل یونیورسٹی میں شعبہ زراعت کے سربراہ ہیں جنہیں 2 مرتبہ نوبل انعام کے لئے نامزد کیا جا چکا ہے۔

آصف شریف نے کارنیل یونیورسٹی اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے ساتھ مل کر چاول کاشت کرنے کا ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا جس کی بدولت چاول کی فی ایکڑ پیداوار 4 گنا بڑھ جاتی ہے اور خرچہ بھی 70 فیصد تک کم ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس طریقہ کو وضع کرنے کے لئے تمام تجربات آصف شریف کے اپنے ہی فارم پر یہاں پاکستان میں ہوئے ہیں۔ آصف شریف نے اس طریقے کو System of Rice Intensification (SRI) کا نام دیا ہے۔

امریکہ میں یہ طریقہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ یہ طریقہ کیا ہے؟ اس پر ہم اس سلسلے کے اگلے مضامین میں بات کریں گے۔

ڈاکٹر نارمن تھامس، آصف شریف کو اپنا مینٹر (گُرو) کہتے ہیں۔ اسی طرح آصف شریف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر تھامس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ دونوں شخصیات ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کر رہی ہیں اور ایک دوسرے کے زرعی تجربات سے استفادہ کرتی ہیں تاکہ ترقی کے ذریعے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کا کوئی راستہ تلاش کیا جا سکے۔

پاکستان میں آصف شریف کچھ عرصہ زرعی ترقیاتی بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چئرمین بھی رہے۔ آصف شریف کے بقول ان کی کوشش کے باوجود زرعی بنک کے معاملات بوجوہ اس طرف نہیں جا ر ہے تھے جس طرف وہ انہیں لے کر جانا چاہتے تھے جس وجہ سے محض 7 مہینے بعد ہی انہوں نے اس عہدے سے استعفی دے دیا۔

آصف شریف، اقوام متحدہ اور ورلڈ بنک کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں جہاں ان سے پاکستان اور دنیا میں زرعی ترقی کے حوالے سے تجاویز لی جاتی ہیں۔

لیکن ایسا نہیں تھا کہ ان ساری مصروفیات کے دوران آصف شریف نے کاشتکاری چھوڑ دی ہو۔ اس سارے عرصے میں وہ مستقل کاشتکاری کے ساتھ وابسطہ رہے۔ سن 2007تک وہ کاشتکاری کے لئے مسلسل کھاد اور زرعی زہروں کا استعمال کرتے چلے آ رہے تھے۔ لیکن سن 2007 میں کچھ ایسا ہوا کہ آصف شریف پر قدرتی نظام کاشتکاری کے چند بنیادی اصول منکشف ہوئے۔ وہ بنادی اصول جنہیں اپنا کر آصف شریف نے ہر طرح کی کھادوں اور زرعی زہروں کو خیر باد کہ دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں زمین میں ہل چلانے سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا۔

ایسا نہیں ہے کہ کھادیں اور زرعی زہروں کا استعمال ترک کرنے کے بعد ان کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ بلکہ ان کی فی ایکڑ پیداوار بعض صورتوں میں زیادہ ہوئی ہے۔

قدرتی نظام کاشتکاری کو اپنانے سے ان کی پیداواری لاگت میں کئی گنا کمی آئی ہے۔ مثال کے طور پر ایک عام کاشتکار جب گندم اگاتا ہے تو اس کی فی من پیداواری لاگت کم و بیش 600 روپے تک ہوتی ہے۔ جبکہ آصف شریف کے ہاں یہ پیداواری لاگت 100 روپے سے بھی کم ہے۔

دنیا میں آصف شریف، پائیدار قدرتی نظام کاشتکاری (پقنک) کے ایک بہت بڑے مبلغ کے طور پر ابھرے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک ان سے یہ اصول سیکھ رہے ہیں۔ امریکہ، جنوبی افریقہ، ایتھوپیا، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، فلپائن، حتی کہ بھارت جیسے ممالک میں آصف شریف کا دیا گیا قدرتی نظام کاشتکاری تیزی سے جڑ پکڑ رہا ہے۔ بھارت کی ریاست بہار کوآصف شریف نے سن 2010 میں قدرتی نظام کاشتکاری کا ماڈل بنا کر دیا تھا۔ جس کو آگے بڑھا کر وہ ریاست زراعت میں بہت آگے نکل گئی ہے۔

آجکل آصف شریف دنیا کے مختلف ممالک میں کاشتکاری کرنے والی بڑی بڑی کمپنیوں کو ہر طرح کی تکنیکی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ بعض ممالک میں آصف شریف کی کمپنی پیداور معاہدے کے تحت کاشتکاری بھی کررہی ہے۔ اس طرح وہ کئی ممالک میں ہزاروں ایکڑ رقبہ جات پر براہ راست کاشتکاری سے منسلک ہیں۔
اس کے علاوہ وہ دنیا میں بڑے پیمانے پر کاشتکاری کرنے والی کمپنیوں کے سٹاف کو زرعی امور پر ٹریننگ بھی دیتے رہتے ہیں۔ آصف شریف اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مختلف ممالک کے زرعی ماہرین کو گھنٹوں زراعت پر لیکچر دیتے ہیں۔ وہ ایک ایک لیکچر کے کئی کئی ہزار ڈالر وصول کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ان کی تمام سروسز مفت ہیں۔

وہ یہ دعوی نہیں کرتے کہ انہوں نے کوئی نئی چیز ایجاد کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف وہی بات بیان کر رہے ہیں جو کارخانہ قدرت میں پہلے سے ظہور پذیر ہے۔ انہوں نے بس قدرتی طور پر ہونے والی زراعت کے بنیادی اصولوں کو دریافت کیا ہے۔ اور پھر ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے پائیدار قدرتی کاشتکاری کا ایک نظام وضع کیا ہے جسے وہ Paradoxical Agriculture System کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔

آصف شریف نے قدرتی نظام کاشتکاری کے یہ اصول کیسے دریافت کئے؟ وہ اصول کون کون سے ہیں؟ اور انہیں ایک عام کاشتکار کیسے اپنا سکتا ہے؟ اس پر آئندہ بات ہو گی انشاءاللہ۔

تحریر
ڈاکٹر شوکت علی
ماہر توسیع زراعت، فیصل آباد
بشکریہ: آصف شریف
اگر آپ اس مضمون کے کسی حصے سے متفق نہیں ہیں تو نقد و نظر کے لئے دعوت عام ہے۔

کٹیاں 15 ماہ میں گھبن اور کٹا سال میں

400 کلو سے زیادہ کرنے کا فارمولہ یہ کتابی کہانی نہیں حقیقت ھے میرے عام فارمولہ کے رزلٹ آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں. ھزاروں فارمرز میرے اس فارمولے سے منافع بخش فارمنگ کر رھے ہیں یہ فارمولہ اس کی گھبن ماں کو ونڈہ کے فارمولہ سے شروع ھوتا ھے
گھبن بھینس یا گائے بچے کی پیدائش سے 3 ماہ پہلے
میرا مندرجہ ذیل سادہ فارمولہ دیں
مکئی دلیہ 1 +چوکر گندم 1 + کھل بنولہ 1 کلو
یا (1 کلو میظ گلوٹن جوکہ کھل سے بہت سستا ھے )
100گرام بائی پاس فیٹ روزانہ
آخری ماہ ڈبل ونڈہ کر دیں 3+3 صبح شام

نوٹ.(کھل بنولہ کا مہنگی ھے فارمولہ سستا کرنے کے کھل بہتر مگر 30 روپے کلو میظ گلوٹن رفحان استعمال کریں)
اس سے بھینس کا
پہلے سوائے سے 5/6 کلو دودھ بھی زیادہ ھو گا
پیدا بچے کا وزن عام بچے سے 6/7 کلو زیادہ ھو گا
(اس کے بعد پیدائش کے بعد بوھلی بار بار پینے دیں بلکہ اس کو کھلا چھوڑ دیں اپنی مرضی سے بار بار پینے دیں یہ وہم ھے کہ اس سے اس کو پیچش لگ جاتے ایسا کوئی مسلہ نہیں )
اس کو 4/5 کلو دودھ پینے کے لیے 2.تھن دودھ دیں
4/5.دن تک اس کو سادہ چوکر اس کے منہ میں 3/4.دفعہ ڈالیں اور اس کے سامنے کھرلی میں موجود ھو یہ خود ھی کھانا شروع کر دے گا
2 ماہ تک کھل بنولہ کاف سٹارٹر میں ڈالیں اس کے بعد کھل کا خرچہ کم کرنے کے لیے کھل کی جگہ آپ میظ گلوٹن بھی استعمال کر سکتے ہیں

کاف سٹارٹر فارمولہ
مکئی دلیہ.. 20 کلو
چوکر........ 10 کلو
سویابین.... 10 کلو یا (کھل بنولہ)

کاف سٹارٹر پانی کے برتن کے ساتھ اس کے سامنے کھرلی میں ھر وقت موجود رھے اور اس کو 2 ماہ تک رسی کھول کر علیحدہ عارضی باڑے میں رکھیں۔ اس طرح نوزائیدہ بچہ خوشں رھتا ھے اوراپنی مرضی سے کاف سٹارٹر بہتر طریقے سے کھاتا ھے

پیدائش کے وقت وزن اگر 45 کلو ھو تو
وزن دوگنا 90 کلو ھونے پر
(جوکہ 2/3 ماہ کے بعد ھو جاتا ھے)

اس کے بعد اس کا دودھ آہستہ آہستہ بند کر دیں اور اس کو دودھ نکالنے کے لیے دودھ دیں۔ 

اب اس کی کی پرورش

کاف سٹارٹر اور خشک برسیم یا لوسن پر پرورش کریں 4/5 کلو خشک برسیم / لوسن /روڈ گراس
یا سبز چارہ دیں
6 ماہ کے بعد یہ فارمولہ استعمال کریں
.مکئی.......... 40 کلو
چوکر ........40 کلو
سویابین میل 20 کلو
پوڈر DCP 2 kg
L. S Mineral mixture100 grms
By Pass Fats 5 kg
سب کو مکس کر کے ھر وقت کھانے کے لیے دستیاب ھو

اس طرح سے جس نوزائیدہ کٹے کٹی جس کا وزن پیدائش کے وقت 45 کلو تھا
ایک سال میں 400 کلو ھو جائے تو یہ گرم بھی ھوتو
اس کو گھبن مت کروایں
اس سے پہلے اگر گرم ھو تو ملائی مت کروایں
اور جب وزن کلو 450 کلو ھو جائے تو کروائی جائے
یہ کتابی کہانی نہیں
ثابت شدہ عملی رزلٹ ہیں

سائنسی کلیہ کے تحت
گھبن ھونے کا تعلق وزن سے ھے
پیدائش کے وقت وزن 45 کلو تو
ملائی کے وقت وزن 450 کلو ھونا چاہیے

نوٹ * وزن کرنے کا گھریلو طریقہ آسان ھے. اب وزن کی پیمائش کا فیتہ بڑے شہروں میں بازار سے دستیاب ھے اور
گوندل برادرز سے فون 03006986918 سے ھوم ڈلیوری پر دستیاب ھے .اس کے علاوہ سویابین اور میظ گلوٹن گروپ ممبران کو ٹرک بلٹی سے اپنے شہر منگوانے کی سہولت مہیا کی گئی ھے

تحریر ڈاکٹر خالد پرویز 03231492130 (واٹس ایپ)
سابقہ / ایڈیشنل ڈائریکٹر لائیو سٹاک


جانوروں کے چیچڑوں کا مکمل خاتمہ

علاج نمبر 1:

اکثر جانوروں پر چیچڑ لگ جاتے ہیں، جو جانور کا خون چوستے ہیں اور ان سے جانور کمزور بھی ہوتا ہے۔ چیچڑوں کے خاتمے کے لیئے انجکشن آئیورمیکٹن کھال میں صرف ایک ڈوز لگائیں، آئیور میکٹن حاملہ جانوروں میں استعمال نہ کریں، ان کی لیئے نیچے بتائی گئی دوسری دوا استعمال کریں ۔

Inj. Ivermectin 1%
(Dose: 1ml per 40kg)

علاج نمبر 2:

ایکٹوفون پائوڈر چیچڑوں کے لیئے بہترین دوا ہے۔ یہ پاؤڈر ایک کلو پانی میں 10گرام حل کیا جاتا ہے اور کسی کپڑے وغیرہ سے جانور کے جسم پر لگایا جاتا ہے۔ یہ دوا حاملہ جانور کیلئے محفوظ ہے، اسکے علاوه جانور کے چاٹنے کی صورت میں بھی اس کا کوئی نقصان نہیں۔

Ectofon Powder 10gm
(Prix Pharmaceutical)

علاج نمبر 3:

سائیپر میٹ دوا لیکوئیڈ کی صورت میں ہوتی ہے، اس دوا کا 10ml ایک لیٹر پانی میں حل کرکے جانور کے جسم پر لگایا جاتا ہے۔ چیچڑوں کے خاتمے کیلئے یہ سب سے موئثر دوا ہے، لیکن جانور اس دوا کو ہرگز چاٹ نہیں سکتا۔ حاملہ جانوروں کیلئے بھی محفوظ دوا ہے۔

Cypermit (Eterna)
10ml per 1 liter water

سائیپر میٹ اور ایکٹوفون، دونوں دواؤں کو جانوروں کے رکھنے کی جگہ پر اسپرے کی صورت میں بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
چیچڑوں کے خاتمے کیلئے اوپر دی گئی کوئی بھی دوا استعمال کرنے کے 21دن بعد دوبارہ ضرور استعمال کریں، تاکہ انڈوں سے نکلنے والے نئے چیچڑوں کا خاتمہ بھی ہو سکے، ورنہ وہ دوبارہ آپ کے جانور کی تباہی کا سبب بنیں گے۔

ﻓﺶ ﻓﺎﺭﻡ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﮧ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﮩﺎﮞ ﻣﭩﯽ ﭼﮑﻨﯽ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﺭﻭﮐﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﮨﻮ۔
ﻓﺶ ﻓﺎﺭﻡ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺭﯾﺘﯿﻠﯽ ﯾﺎ ﭘﮩﺎﮌﯼ ﺯﻣﯿﻦ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﮨﻢ کچھ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﮐﺮﮐﮯ ﺍﺳﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ، ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﭘﻼﺳﭩﮏ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﺮ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﯾﺎ ﺗﺎﻻﺏ ﮐﮯ ﻓﺮﺵ ﺍﻭﺭ ﮐﻨﺎﺭﻭﮞ ﭘﮧ ﭼﮑﻨﯽ ﻣﭩﯽ ﮐﯽ ﻣﻮﭨﯽ ﺗﮩﮧ ﭼﮍﮬﺎ ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﭘﺎﻟﯽ ﺟﺎﺳﮑﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﺿﺎﻓﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﺿﺎﻓﯽ ﺳﺮﻣﺎﯾﮧ ﮐﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﻮﮔﯽ۔

ﺗﺎﻻﺏ ﺍﮔﺮ ﻏﯿﺮﺁﺑﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﻗﺪﺭﮮ ﮔﮩﺮﯼ ﺯﻣﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺧﺮﭼﮧ ﺑﮭﯽ ﮐﻢ ﺁﺋﮯ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻄﺮﺡ ﺑﯿﮑﺎﺭ ﺯﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺟﺎﺳﮑﮯ ﮔﯽ۔

ﺗﺎﻻﺏ کا ﺳﺎﺋﯿﺰ اتنا ہونا ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮐﮧ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺍﻟﭩﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﻭ ﺻﺤﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﺁﺳﺎﻧﯽ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎﺳﮑﮯ۔ ﺗﺎﻻﺏ ﭼﻨﺪ ﻓﭧ ﺳﮯ ﻟﯿﮑﺮ ﮐﺌﯽ ﺍﯾﮑﮍ ﮐﺎ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﺎﮨﻢ ﺩﻭ ﺍﯾﮑﮍ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮔﺮﯾﺰ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺗﺎﻻﺏ ﺟﺘﻨﺎ ﺑﮍﺍ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﺍﺗﻨﯽ ﮨﯽ ﻣﺸﮑﻞ ﮨﻮﮔﯽ۔


ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﮯ داخل ﻭ ﺍﺧﺮﺍﺝ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﺳﺎﺋﯿﺰ ﮐﯽ ﺟﺎﻟﯽ ﻟﮕﺎﻧﯽ ﭼﺎﮨﺌﮯ، ﺍﮔﺮ ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺮﯼ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮨﻮﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺩﺍﺧﻠﯽ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ 60 ﺳﻮﺭﺍﺥ ﻓﯽ ﺍﻧﭻ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﺎﻟﯽ ﻟﮕﺎﻧﯽ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﭨﯿﻮﺏ ﻭﯾﻞ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﺎﮨﻢ ﺍﺧﺮﺍﺝ ﮐﮯ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺳﺎﺋﯿﺰ ﮐﮯ ﻣﻄﺎﺑﻖ ﺟﺎﻟﯽ ﻟﮕﺎﻧﯽ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﺳﻮﺭﺍﺥ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﺎﻟﯽ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻓﺎﻟﺘﻮ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﺍﻧﮉﮮ ﺍﻭﺭ ﺑﭽﮯ ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﺳﮑﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﺳﻄﺮﺡ ﺁﭖ ﮐﯽ ﭘﺎﻟﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﺑﮩﺘﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﮬﺘﯽ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ۔

ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺟﺘﻨﺎ ﺁﭖ ﺍﺳﮑﮯ ﻟﺌﮯ ﮔﻮﺑﺮ ﯾﺎ ﮐﮭﺎﺩ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﮐﺮﺳﮑﺘﮯ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﯾﮏ ﮨﺰﺍﺭ ﻓﯽ ﺍﯾﮑﮍ ﺳﮯ ﮐﻢ ﺍﻭﺭ 5000 ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﭽﮧ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﻓﺎﺋﺪﮦ ﻣﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ۔
ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﺎ ﺑﭽﮧ ﺧﺎﻟﺺ، ﺻﺤﺘﻤﻨﺪ ﺍﻭﺭ ﻣﻌﯿﺎﺭﯼ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﻓﺶ ﮨﯿﭽﺮﯼ ﺳﮯ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔ ﺍﮔﺮ ﺑﭽﮧ ﺧﺎﻟﺺ ﻧﮧ ﮨﻮﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻓﺎﻟﺘﻮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﻣﭽﮭﻠﯿﻮﮞ کی ﺍﻗﺴﺎﻡ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﻧﮕﯽ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺁﭘﮑﮯ ﭘﺎﻟﮯ ﮔﺌﮯ ﺑﯿﺞ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﻏﺬﺍﺋﯽ ﻣﻘﺎﺑﻠﮯ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﯿﮟ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻄﺮﺡ ﺁﭘﮑﯽ ﭘﺎﻟﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺍﻓﺰﺍﺋﺶ ﻧﮧ ﮨﻮﺳﮑﮯ ﮔﯽ۔

ﺑﭽﮧ ﻓﯿﺒﺮﻭﺭﯼ ﯾﺎ ﻣﺎﺭﭺ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻟﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﮔﺮﻡ ﻣﮩﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﺍﭼﮭﯽ ﺍﻓﺰﺍﺋﺶ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭘﮑﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﻓﺼﻞ ﺳﺮﺩﯼ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﯿﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﮯ۔

ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﻣﺨﺘﻠﻒ ﺍﻗﺴﺎﻡ ﻋﻠﯿﺤﺪﮦ ﯾﺎ ایک ساتھ ﺑﮭﯽ ﭘﺎﻟﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ، ﻟﯿﮑﻦ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﯿﮟ ساتھ ﭘﺎﻻ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﮐﻮ ﻣﮑﻤﻞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ۔

ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﺗﺎﻻﺏ ﮐﻮ ﺯﺭﺧﯿﺰ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﮔﻮﺑﺮ ﯾﺎ ﺯﺭﻋﯽ ﮐﮭﺎﺩ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺍﺳﻄﺮﺡ ﮐﻢ ﺧﺮﭼﮯ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﭘﯿﺪﺍﻭﺍﺭ ﻟﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﮔﻮﺑﺮ ﮐﻮ ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﺑﮍﯼ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯾﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔


ﺗﺎﻻﺏ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﺎﻗﺎﺋﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﭼﯿﮏ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺗﺎﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮐﻮﺍﻟﭩﯽ ﺑﺮﻗﺮﺍﺭ ﺭﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺎﺋﮯ، ﻧﻘﺼﺎﻧﺪﮦ ﮔﯿﺴﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺩﮦ ﺟﺎﺕ ﮐﺎ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﻧﮧ ﮨﻮ۔ ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﺁﮐﺴﯿﺠﻦ ﮐﯽ ﮐﻢ ﺍﺯ ﮐﻢ ﻣﻘﺪﺍﺭ 5 ﭘﯽ ﭘﯽ ﺍﯾﻢ ‏( ﯾﺎ ﻣﻠﯽ ﮔﺮﺍﻡ ﻓﯽ ﻟﭩﺮ ‏) ﮨﻮﻧﯽ ﭼﺎﮨﺌﮯ۔
ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺭﻧﮓ ﺳﺒﺰ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ 5 ﺳﮯ 7 ﻓﭧ ﺭﮨﻨﯽ ﭼﺎﮨﺌﮯ
ﺍﮔﺮ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﺎﮌﮦ ﯾﺎ ﻣﺮﻏﯿﻮﮞ ﮐﺎ ﻓﺎﺭﻡ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﮯ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻓﺶ ﻓﺎﺭﻡ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﮐﻢ ﺧﺮﭺ ﻣﯿﮟ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﭘﺎﻝ ﮐﺮ ﺍﺿﺎﻓﯽ ﺁﻣﺪﻧﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺟﺎﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﮔﻮﺑﺮ ﺍﻭﺭ ﻣﺮﻏﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﭧ ﻣﭽﮭﻠﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺑﮭﺘﺮﯾﻦ ﺫﺭﯾﻌﮧ ﮨﯿﮟ۔
ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﺗﺎﻻﺏ ﺳﮯ ﮔﮭﺎﺱ ﭘﮭﻮﺱ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﺩﮮ ﻧﮑﺎﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﺍﻓﺰﺍﺋﺶ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﯿﺪﺍﻭﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔

ﺑﮩﺘﺮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﭘﻮﺩﻭﮞ ﮐﻮ ﺑﮍﮬﻨﮯ ﺳﮯ ﺭﻭﮐﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮧ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﻣﯿﮟ ﮐﻤﯽ ﮐﺎ ﺳﺒﺐ ﺑﻨﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺳﺎﻥ ﺣﻞ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺳﺮﺩﯾﻮﮞ ﮐﮯ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺟﺐ ﭘﻮﺩﮮ ﺑﮍﮬﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﺯﺭﻋﯽ ﮐﮭﺎﺩ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ ﺍﺳﻄﺮﺡ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﻗﺪﺭﺗﯽ ﺧﻮﺭﺍﮎ، ﺟﻮ ﮐﮧ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺑﺎﺭﯾﮏ ﺧﻮﺭﺩﺑﯿﻨﯽ ﭘﻮﺩﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﻮﺭﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ، ﺑﮍﯼ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﻣﯿﮟ ﭘﯿﺪﺍ ﮨﻮﮐﺮ ﺗﺎﻻﺏ ﮐﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﺒﺰ ﺗﮩﮧ ﺳﯽ ﺑﻨﺎ ﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﻄﺮﺡ ﺑﮍﮮ ﭘﻮﺩﮮ ﺟﮍ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﭘﺎﺗﮯ۔

ﺍﮔﺮ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﻮ ﺗﻮ ﺗﺎﻻﺏ ﮐﻮ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮﮐﮯ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺳﮑﮭﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺩﺭﺍﮌﯾﮟ ﭘﮍ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ ﺍﺳﻄﺮﺡ ﺯﻣﯿﻦ ﺁﮐﺴﯿﮉﺍﺋﯿﺰ ﮨﻮﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻓﺎﺳﻔﻮﺭﺱ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺍﺟﺰﺍ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﻗﺎﺑﻞ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﺁﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﻘﺼﺎﻧﺪﮦ ﺟﺮﺍﺛﯿﻢ ﺑﮭﯽ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ۔

ﭼﻨﺪ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﺎ ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﮯ ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﺹ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ :
ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﮑﯿﺎﺕ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﻮﮞ ﯾﻌﻨﯽ ﭘﺎﻧﯽ ﺍﻧﺴﺎﻧﯽ ﭘﯿﻨﮯ ﮐﮯ ﻗﺎﺑﻞ ﮨﻮ
ﭘﯽ ﺍﯾﭻ 6.5 ﺳﮯ 8.5 ﺗﮏ ﮨﻮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺌﮯ
ﻧﻘﺼﺎﻧﺪﮦ ﮔﯿﺲ ﺟﯿﺴﺎ ﮐﮧ ﺍﻣﻮﻧﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﮨﺎﺋﮉﺭﻭﺟﻦ ﺳﻠﻔﺎﺋﯿﮉ ﻭﻏﯿﺮﮦ ﮐﮯ ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ ﺟﺎﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﺍﻭﺭ ﮔﻮﺑﺮ ﮐﻮ ﺗﺎﻻﺏ ﮐﮯ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ﺟﻤﻊ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔ ﻋﻤﻮﻣﺎً ﺍﻣﻮﻧﯿﺎ ﺗﺎﻻﺏ ﻣﯿﮟ ﮐﻢ ﻣﻘﺪﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﯽ ﮐﻮﺍﻟﭩﯽ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮ ﯾﺎ ﭘﯽ ﺍﯾﭻ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﻮ ﺗﻮ ﯾﮧ ﻣﭽﮭﻠﯿﻮﮞ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻧﻘﺼﺎﻧﺪﮦ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ۔

ﻣﭽﮭﻠﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺭﯼ ﺑﮭﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﮨﻢ ﻣﺴﺌﻠﮧ ﮨﮯ ﺍﺳﻠﺌﮯ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﮯ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﺑﮭﯽ ﺍﻗﺪﺍﻣﺎﺕ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﭼﺎﮨﺌﯿﮟ۔

جانور کی اصل دشمن توڑی // نا قابل ھضم
( 50% سے زیادہ گوبر میں ضالع اور ھاضمے کی خرابی
اور بدضمی کا سبب ھے
اس کو آسان طریقہ سے براون توڑی بنا کر قابل ھضم بنائیں اور غذائیت دوگنا کر کے جانوروں کی صحت بڑھائیں اور 
پھکیوں اور چورن سے نجات پائیں.

 اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم صبح کے وقت اٹھتے ہیں تو جسم میں شدید کمزوری محسوس کرنے کے ساتھ تھکاوٹ بھی ہوتی ہے۔ایسی صورت میں دن کا آغاز انتہائی مشکل ہوجاتا ہے اور ہم سارا دن نیند اور بے چینی کاشکار رہتے ہیں،آئیے آپ کو لیموں اور زیتون کے تیل کو ملاکر بنائے جانے والا ایسا جادوئی نسخہ بتاتے ہیں جس کو ایک بار استعمال کرنے کے بعد آپ ساری عمر ایسا کرتے رہیں گے۔یہ نسخہ صدیوں سے استعمال کیا جارہا ہے اور ہر کسی نے اسے بہت ہی مفید پایا ہے۔ایک لیموں لے کر اس کا رس نکالیں اور اس میں ایک کھانے کا چمچ خالص زیتون کے تیل کا ڈالیں۔اب اس آمیزے کو ہر صبح استعمال کرنے سے آپ کے متعدد صحت کے مسائل حل ہوجائیں گے۔یہ آمیزہ ناشتے سے کم از کم ایک گھنٹہ پہلے استعمال کرنے سے آپ کے جسم میں تبدیلی آئے گی۔اس کی وجہ سے آپ کی قبض ٹھیک ہوگی، دل کی بیماریاں دور رہیں گی اور ساتھ ہی جگر،پِتا اور لبلبہ بہتر طریقے سے کام کرنے لگیں گے،گردے اور مثانے کے مسائل بھی حل ہوں گے اور ساتھ ہی جگر بھی صاف ہوجائے گا۔
زیتون کا تیل
زمانہ قدیم ہی سے رومن اور یونانی اقوام اس کی افادیت کو مانتی آئی ہیں اور اسے ’مائع سونے‘کا نام بھی دیا گیا ہے۔اس میں موجود فیٹی ایسڈکی وجہ سے برے کولیسٹرول کو کم کیاجاسکتا ہے اور اس کی وجہ سے جسم سے زہریلے مادے بھی نکالے جاسکتے ہیں۔
لیموں
وٹامن سی ،پوٹاشیم،فاسفورس، پروٹین، وٹامن بی اور کاربوہائیڈریٹس سے بھرپور اس پھل میں کئی بیماریوں کا علاج موجود ہے۔لیموں اور زیتون کے تیل کوملاکر استعمال کرنے سے آپ کا معدہ بہتر طریقے سے کام کرسکے گااور معدے سے زہریلے مادے فضلہ کی صورت میں نکل جائیں گے۔

بھوسہ کی غذائیت 100% بڑھا کر سبز چارے کے برابر کریں بھوسے ناقص خوراک ھے اور اس کی غذائیت نہ ھونے کے برابر ھے
25 کلو توڑی پر 10 کلو پانی میں۔۔۔۔ 1 کلو یوریا کھاد
50 کلو توڑی تہہ ۔۔۔۔20 کلو پانی . ۔۔۔۔ 2 کلو یوریاعام کھاد
100 کلو توڑی ۔۔۔۔۔۔۔40 کلو پانی ۔۔۔۔۔۔۔ 4 کلو یوریا کھاد

ضرورت کے مطابق بھوسہ کی ھموار تہہ پلاسٹک شیٹ پر بچا کر نرسری کے پھُوارے یا سپرے مشین کھلی نوزل سے
محلول سپرے کرئیں۔ اور ایک یا دو آدمی ساتھ ساتھ اس توڑی کو مکس کرتے جائیں تاکہ یہ محلول اچھی طرح ساری توڑی کے ساتھ مکس ھو جائے۔ اس کو اب پلاسٹک شیٹ یا بڑے پلاسٹک شاپر لفافہ میں میں اس طرح پیک کریں کہ اس میں ھوا داخل نہ ھو سکے۔

*ایک ماہ تک ائیر ٹائیٹ رکھ کر کھول دیں اس کے بعد بند رکھنے کی ضرورت نہیں

اب یہ توڑی تیار ھے اس کو اب آپ کھول کر عام توڑی کی طرح بھی رکھ سکتے ہیں یا اس شاپر کے اندر سے نکل کر استعمال کر سکتے ہیں

کیمیائی عمل

*یہ یوریا کھاد کچھ دن بعد امونیا گیس میں بدل جاتی ھے اور یہ خیال کہ یوریا کھاد کا اثر دودھ میں آتا ھے جوکہ انسانوں کے لیے خطرہ ھے یہ تو امونیا گیس کا کمال ھے جوکہ توڑی کے اوپر سخت تہہ Lignin پر اثر کرکے اس کو ختم کر دتیی ھے جو کہ عام توڑی کو ناقابل ھضم بناتی ھے

ایک ماہ بعد توڑی کا رنگ براون ھو گا اور توڑی کو سونگھنے پر آپ کو امونیا گیس تیز چُھبتی بُو محسوس ھو گی جوکہ عارضی ھے
توڑی کو استعمال سے پہلے کھلی ھوا پر رکھنے سے وہ ختم ھو جاتی ھے
اس توڑی کو ونڈے میں استعمال کریں
جس سے %16 Cp پروٹین ونڈے کی Cp پروٹین بڑھ کر 20% ھو جائے گی
اگر 1% یوریا شیرہ مکس کریں گے تو اس کی غذائیت مزید بڑھ جائے گی % Cp بڑھ کر 22 تک ھو جائے گی

یوریا محلول چھڑکاو کرکے ایک ماہ تک پلاسٹک شیٹ میں آئیر ٹائیٹ بند رکھنا ھے
** پبلک سروس میسج از ڈاکٹر خالد پرویز


دودھیل جانوروں کا کیمیکلز سے پاک سستا خالص صحت افزاء اور  وٹامنز/منرلز سے بھوپور ونڈہ گھر بنائیں

چاول دانہ بیس کلو (ٹوٹہ)
جو/گندم ایک من
مکئی ایک من
کالا چنا پانچ کلو
گڑ پانچ کلو
تارہ میرا دس کلو
سونف ایک کلو
آیوڈین نمک تین کلو
کھل بنولہ ایک بوری

نمک، سونف اور گڑ کے علاوہ سب کو موٹا پسوا لیں (گریڈ چار کی چکی کی پسوائی بہتر رہے گی۔
بعد ازاں اس میں نمک، گڑ اور سونف ڈال کرٹاٹ بچھا کر سب اجزاء کو اچھی طرح مکس کریں اور مکس شدہ ونڈہ کو پولی تھین بوری (پلاسٹک کا توڑا) میں محفوظ کرلیں۔
اس ونڈے کو روزانہ چارے یا توڑی میں ملا کر دیں، اس سے نہ صرف جانور کی قوتِ مدافعت بڑے گی بلکہ دودھ بھی بڑے گا۔
مارکیٹ میں دلکش پیکنگ دیکھ کر کھاد اور ٹاکسن ملا زہر مت خریدیں گھر ونڈہ تیار کرنے میں  تھوڑی محنت درکار ہے، ان شاء الله بہترین نتائج ملیں گے۔

ونڈہ آدھا کلو صبح/شام بھگو کر شروع کرنا ہے۔
جانور کو پسند آئے اور پانچویں دن تک آپکو مثبت نتائج نظر آئیں تو ہر ہفتے مقدار آدھا کلو بڑھاتے رہیں اور ڈھائی کلو صبح شام تک دیں،

اس ونڈے میں جانور کو ملیں گے وٹامنز اور منرلز۔ یعنی پروٹین، میگنیشیم، پوٹاشیم، کیلشیم، کاربز، آئرن، سوڈیم، شوگر،فائبر، وٹامن اے، بی چھے، سی، وغیرہ۔


دوسرا طریقہ 


اسان اور سستی فارمنگ
ونڈہ اور متوازن غذا
یاد رکھنا ونڈہ خود بناٶ ورنہ نقصان اٹھاٶ ۔
جدید ڈیری فارمنگ میں ساری اہمیت متوازن غذا کی ہے کچھ لوگ بہت اچھی نسل کے جانور مہنگے داموں لیتے ہیں پر جب ان کے گھر اتا ہے تو دودھ کم کرتا چلا جاتا ہے اور پھر کچھ لوگوں کو کہتٕے سنا ہے کہ ہماری قسمت ہی خراب ہے۔ایسا نہی ہے اسکی بنیادی وجہ متوازن خوراک نہی دی جاتی ۔جسکی وجہ سے جانور دودھ کم کرتا چلا جاتا ہے ۔میں نے دوغلی نسل کو اچھا دودھ دیتے دیکھا ہے کیونکہ انکو متوازن غذا دی گی اسلیے انکی دودھ کی پیداوار زیادہ رہی ۔متوازن غذا ہے کیا ۔
ہم متوازن غذا اسکو کہتے ہیں جسمیں کاربوہاٸیڈریڈ ۔پروٹین۔ویٹامن ۔کیلشیم۔فیٹ۔فاٸبر ۔اٸیرن (فولاد)۔شوگر۔سوڈیم اور منرل وغیرہ ہوں ۔کیونکہ یہ سب اجزا دودھ میں ہوتے ہیں اور اگر جسم میں انکی مقدار کم ہو گی تو دودھ بھی کم ہوتا چلا جاتا ہے ۔ایک حد تک تو جانور اپنے جسم سے یہ سب پوری کرتا ہے ۔پھر جانور دودھ کم کر دیتاہے۔دودھ دینے والے جانور کو بہت خوراک کی ضرورت نہی ہوتی بلکہ متوان خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔
اسکی مثلا ایسے ہی ہے جیسے ایک ادمی چار روٹیاں کھاے اور دوسرا ادمی ایک روٹی ایک انڈا ایک بوٹی اور ایک گلاس دودھ پیے ۔پہلے ادمی نے خوراک تو زیادہ کھاٸی پر غزاٸی اعتبار سے دوسرے ادمی کی خوراک بہتر تھی ۔
یہی چیز اب جدید ڈٸیری میں چاہیے دودھ والے جانوروں کو بہت سارا چارہ نہی چاہیے بلکہ متوازن چارہ اور غزاٸی اجزا چاہیے اسمیں کچھ تو ہم سبز چارہ ۔ساٸلیج۔براٶن توڑی یا توڑی سے لیتے ہیں۔اور کچھ ہم اجناس سے اورکچھ معدنیات سے حاصل کرتے ہیں ۔
اجناس اور معدنیات کاجو مرکب ہم بناتے ہیں اسکو ہم ونڈا کہتے ہیں ۔زیادہ فارمر پریشان رہتے ہیں کہ اسکو بنایا کیسے جاتا ہے ۔
فارمر حضرات میری ایک بات یاد رکھنا ونڈا خود بناٶ ورنا نقصان آٹھاو۔
ونڈا بنانے کیلیے ہم اسکو چار گروپ میں تقسیم کرتے ہیں ۔
فرض کریں ہم نے سو کلو ونڈا بنانا ہے تو ہم اسکو یوں بناٸیں گے۔اسکو میں اپکو گروپوں میں سمجھاتا ہوں ۔ان گروپوں میں سے جو جوچیز اپکوسستی اور اسانی سے میسر ہو وہ اپ لیں ۔

گروپ 1

کھل بنولہ ۔کھل توریا ( سرسوں)
دونوں میں سے کوٸی 30 کلو لیں

گروپ 2

چوکر ۔میز گلوٹن۔دالوں کا برادا ۔چنے کا برادا۔
ان میں سے کوٸی دو 15 +15 کلو لیں ۔کل 30 کلو

گروپ 3

مکٸی کا باریک دلیہ ۔راٸس پالش ۔ جو ۔گندم کاباریک دلیہ۔چنے کا بریک دلیہ۔شیرہ راب۔
شیرہ دس کلو باقی انمیں سے کوٸی دو 12 12 کلو لیں ۔
اگر میسر نہی تو پھر مکٸی ہی 24 کلو لیں ۔
گروپ 4
منرل مکسچر دو کلو
باٸی پاس فیٹ دوکلو
نمک ایک کلو
کیلشیم(DCP ۔انڈا کاچھلکا۔چونے کاپانی۔ہڈیوں کا کاچورہ) ایک کلو
بجھا چونا ایک کلو

تمام گروپ میں سے مقررہ مقدار لیں اور سبکو باریک پیس کر سب کو ملا لیں ۔گروپ 4 میں سے سب اجزا کولینا ہے۔باقی تین میں سے جو جواپکو سستا ملے وہ وہ لے لیں۔
اب ونڈا اور چارہ کس جانورکو دینا کتنا ہے ۔دودھ والی دیسی گاۓ کو 8 کلو ساٸلیج 10 کلو سبز چارہ۔اور براٶن توڑی تین کلو۔اگر ساٸلیج میسر نہی توپھر چارہ 18 کلو ۔ اگر فریزین گاۓ یا بھینس ہے ہےتو پھر 10 کلو ساٸلیج۔دس کلو سبز چارہ ۔چار کلو براٶن توڑی ۔
اب دودھ والے جانور کو ونڈہ کس حساب سے دینا ہے ۔
تین کلو دودھ پر ایک کلو ونڈا دینا ہے اگر دودھ 24 گھنٹے میں 15 کلو ہے تو 5 کلو ونڈہ دینا ہے ۔اگر 17 یا 18 کلو دودھ ہے تو 6کلو ونڈا دینا ہوگا ۔بہتر نتاٸج کیلے ادھاونڈا صبح اورادھا شام کو کودیں۔
اگر جانور بچہ دینے کےبعد 13 کلو دودھ ہے تو اسکو 5 کلو ونڈا دیں دس پندرہ دن میں اگر دودھ 15 کلو کرگیا تو پھر اسکو6کلو ونڈا دیں اور پھر اگر دس دن بعد دودھ 16 یا 17 کلو ہوجاے تو 7 کلو ونڈا دیں جب جانور کادودھ ایک مقدار پر رک جاۓ پھر اسے تین کلو دودھ پرایک کلو ونڈا ہی دیتے جاٸیں ۔
یہاں ایک بات نوٹ کریں کہ فریزین کو نمک کیلشیم اور شیرہ زیادہ دیں۔اگر اپ نہی دیں گے تو فریزین چواٸی کےبعد بلڈ پریشر یا شوگر کم ہونے سے مر بھی جاتا ہے یا پھر گر جاتا ہے۔یا پھر اس سے صحیح سے اٹھا نہی جاتا۔
کوشش کریں فی کلو ونڈہ 35 سے 40روپے سے کم میں ہی پڑے ۔
جانور 20 % دودھ بروقت اور صاف پانی پینے سے بڑھاتا ہے ۔دودھ والے جانور کے پاس ہر وقت پانی موجود ہو خاص طور پر فریزین کیلیے ۔
گبن اور دچھے وچھیوں کو یہ ہی ونڈا دینا ہے سب کو صرف فربا جانوروں کیلیے براٶن توڑی اور ونڈا دینا ہے اور شیرہ ونڈہ میں مکس نہی کرنا ۔ایک کلو
شیرہ کو گیارہ کلو پانی میں مکس کر کے وہ پانی ہر وقت دینا ہے ۔اسطرح وچھے چھ ماہ اور بکرے سو سے ایک سو دس دن میں فربا ہو جاتے ہیں ۔
ونڈا میں جو چیزیں پانی والی ہیں اسکو ونڈا میں اسوقت شامل کریں جب ونڈا جانور کو دینا ہو ۔
جانور کسان کا زیور ہے اسکی حفاظت کریں ۔
خوشحال کسان مضببوط پاکستان ۔

تیسرا طریقہ

جانور کو 6 ماہ کاف سٹاٹر ونڈہ کے بعد اس فارمولے پر پالیں فربہ کرنے کا ونڈہ


چوتھا طریقہ


پانچواں طریقہ


اس سے پہلے ہم قدرتی کاشتکاری کا پہلا اصول تفصیلاََ بیان کر چکے ہیں جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ مستقل بیڈ یا پٹڑیاں بنا کر فصل کاشت کرنے کے پیچھے کون کون سی حکمتیں پوشیدہ ہیں اور اس سے آپ کو کون کون سی بچتیں حاصل ہو سکتی ہیں۔


آج ہم قدرتی کاشتکاری کے نہائیت اہم اور دوسرے اصول پر بات کریں گے۔

قدرتی کاشتکاری کا دوسرا اصول یہ ہے کہ آپ نے زمین کو کبھی بھی ننگا نہیں رہنے دینا۔ بلکہ اسے فصلوں کی باقیات یا گھاس پھوس وغیرہ سے ڈھانپ کر رکھنا ہے۔

آئیے اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ زمین کو ڈھانپ کر رکھنے کے کیا کیا فوائد ہیں اور بظاہر معمولی نظر آنے والا یہ عمل کس قدر غیر معمولی ہے۔

سب سے پہلے آپ اس بات کو سمجھیں کہ مٹی، جس میں ہم بیج بوتے ہیں، بنیادی طور پر پانچ چیزوں کا مجموعہ ہے۔

نمبر 1۔ ہوا

نمبر 2 پانی

نمبر 3 ٹھوس ذرات

نمبر 4 فصلوں کی گلی سڑی باقیات یا گوبر وغیرہ (جسے ہم نامیاتی مادہ کہتے ہیں)

نمبر5 عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے مفید جراثیم


کھیت کی صحت مند مٹی پانی، ہوا، نامیاتی مادے، جراثیم اور مٹی کے ذرات پر مشتمل ہوتی ہے
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ مٹی کے اندر ہوا کیسے اور کہاں سے داخل ہو جاتی ہے؟ تو آئیے سب سے پہلے اسی پر بات کر لیتے ہیں۔

کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب آپ کھیت کو پانی لگاتے ہیں تو چند ہی گھنٹوں میں وہ پانی کہاں غائب ہو جاتا ہے؟ اس کا سادہ سا جواب تو یہ ہے کہ وہ مٹی میں جذب ہو جاتا ہے۔ لیکن اگلا سوال یہ ہے کہ اگر مٹی میں پانی جذب ہو جاتا ہے تو پھر پتھر میں یہ پانی جذب کیوں نہیں ہو پاتا۔

دراصل بات یہ ہے کہ کھیت کی مٹی کے اندر باقائدہ رستے بنے ہوتے ہیں جن کے ذریعے پانی مٹی کے اندر اترتا ہے اور ہوا بھی انہی رستوں میں سے ہوتی ہوئی مٹی میں داخل ہوتی ہے۔


ان راستوں کے اندر نہ صرف ہوا اور پانی موجود ہوتا ہے بلکہ عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے جراثیم بھی انہیں راستوں میں گھر بنا کر رہتے ہیں۔

البتہ پتھر کے ذرات ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح جڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ ان کے درمیان راستے نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ پتھر میں نہ تو پانی جذب ہوتا ہے، اورنہ ہی اس میں ہوا داخل ہوتی ہے۔ ظاہر جہاں نہ پانی ہو گا اور نہ ہی ہوا، تو پھر وہاں جراثیم کیسے پائے جا سکتے ہیں۔

پانی، ہوا اور مفید جراثیم پر بات کرنے کے بعد آئیے اب مٹی کے ٹھوس ذرات پر بات کرتے ہیں۔

مٹی کے یہ ٹھوس ذرات 3 طرح کے ہوتے ہیں۔

نمبر 1۔ ریت کے ذرات

،نمبر 2۔ بھل کے ذرات

نمبر 3۔ چکنے ذرات

ریت کے ذرات جسامت میں سب سے بڑے جبکہ چکنے ذرات سب سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اسی طرح بھل کے ذرات قدرے درمیانی جسامت کے ہوتے ہیں۔

لہذا آپ کے کھیت کی مٹی میں اگر ریت کے ذرات زیادہ ہوں گے تو زمین ریتلی نظر آئے گی۔ اسی طرح اگر بھل کے ذرات زیادہ ہوں گے تو زمین چکنی اور ریتلی کے درمیان درمیان محسوس ہو گی۔ اور اگر چکنے ذرات زیادہ ہوں گے تو زمین چکنی ہو گی۔

فصلیں اگانے کے لئے ایسی زمین بہترین سمجھی جاتی ہے جس میں 40 فیصد ذرات ریت کے، 40 فیصد ہی بھل کے اور 20 فیصد چکنے ذرات کے ساتھ ساتھ فصلوں کی گلی سڑی باقیات یا گلے سڑے گوبر وغیرہ کی مناسب مقدار موجود ہو۔ ایسی زمین کو ہم مَیرا زمین کہتے ہیں۔

اب لگے ہاتھ یہ بات بھی سمجھ لیں کہ ریت کے ذرات چونکہ بڑے ہوتے ہیں اس لئے ان میں راستے بھی کھلے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریتلی زمین میں جیسے ہی آپ پانی لگاتے ہیں وہ پانی دیکھتے ہی دیکھتے اِن کھلے کھلے راستوں سے زمین میں اتر جاتا ہے۔


لیکن چکنے ذرات چونکہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے ان کے درمیان بننے والے راستے بہت تنگ ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چکنی مٹی والے کھیت کو لگایا گیا پانی زمین میں گھنٹوں کھڑا رہتا ہے۔

زمین کے متعلق چند بنیادی باتیں سمجھنے کے بعد اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ قدرتی کاشتکاری میں زمین کو ڈھانپنا کیوں ضروری ہے۔

ڈھانپ کر رکھنے سے زمین کا درجہ حرارت مناسب رہتا ہے جس سے پانی کی بچت ہوتی ہے

گرمیوں میں دوپہر کے وقت زمین کس قدر گرم ہو جاتی ہے اس کا اندازہ آپ کو تب ہوتا ہے جب آپ دوپہر کو ننگے پاؤں زمین پر چل کر دیکھیں۔ تپتی ہوئی زمین پر دو چار قدم چلنے سے ہی انسان کے پاؤں جلنے لگتے ہیں۔ تو ذرا سوچئے کہ وہ پودا جو سارا دن اسی تپتی ہوئی زمین پر کھڑا رہتا ہے اس کا کیا حشر ہوتا ہو گا۔

زمین کا درجہ حرارت ہمیشہ ہوا کے درجہ حرارت سے زیادہ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہوا کا درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ ہے تو ننگی زمین جس میں نامیاتی مادے کی بھی قدرے کمی ہو اس کا درجہ حرارت 60 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے۔

جب زمین اس قدر گرم ہو جائے تو پھر پودے کی ساری توجہ نشوونما کی بجائے اپنے آپ کو ٹھنڈا کرنے پر مرکوز ہو جاتی ہے۔ پودا اپنے آپ کو مسلسل ٹھنڈا کرنے کے لئے پتوں کے ذریعے پانی بخارات کی صورت ہوا میں اڑاتا رہتا ہے اور اس عمل میں بہت سا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔

خیال رہے کہ جب بھی پانی، بخارات میں تبدیل ہوتا ہے تو ٹھنڈک پیدا ہوتی ہے۔ انسان کو پسینے کا آنا بھی بالکل یہی عمل ہے۔ جب انسان کو گرمی لگتی ہے تو اس کی جلد کے مساموں سے پسینے کی شکل میں پانی نکل آتا ہے۔ جب یہ پانی، بخارات کی صورت ہوا میں اڑتا ہے تو جلد پر ٹھنڈک کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ فریج اور اے سی وغیرہ بھی اسی اصول کے تحت کام کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ اگر زمین کا درجہ حرارت 21 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتو پودے کو دیا جانے والا سارا پانی پودا اپنی نشوونما کے لئے استعمال کرتا ہے۔

لیکن اگر زمین کا درجہ حرارت 38 ڈگری سینٹی گریڈ ہو جائے تو پودے کو دئیے جانے والے پانی کا صرف 15 فیصد حصہ ہی پودا اپنی نشوونما کے لئے استعمال کرتا ہے۔ باقی 85 فیصد پانی کا ایک بڑا حصہ پودا اپنے آپ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے ہوا میں اڑا دیتا ہے۔

اسی طرح جب زمین کا درجہ حرارت 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچتا ہے تو پانی کے ضیاع کے ساتھ ساتھ زمین میں موجود نامیاتی مادہ بھی گرمی کی وجہ سے جل کر ضائع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ جب زمین کا درجہ حرارت 54 ڈگری سینٹی گریڈ ہو جائے تو پودے کو دیا جانے والا سارا پانی پودا اپنے آپ کو ٹھنڈا کرنے کے چکر میں ضائع کر دیتا ہے اور ایک فیصد پانی بھی پودا اپنی نشوونما کے لئے استعمال نہیں کر پاتا۔

جب زمین کا درجہ حرارت 60 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچتا ہے تو شدید گرمی کی وجہ سے زمین کے اندر موجود ہر طرح کی حیات اور مفید جراثیم وغیرہ مر جاتے ہیں جس سے ہماری زمین بانجھ ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ پنجاب اور سندھ وغیرہ جہاں زمین کا درجہ حرات 60 ڈگری سینڈی گریڈ سے بھی بڑھ جاتا ہے وہاں زمین کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے کیا کچھ کیا جا سکتا ہے؟

تو اس کا بہترین حل یہ ہے کہ ہم اپنی زمینوں کو گھاس پھوس اور فصلوں کی باقیات وغیرہ سے ڈھانپ کر رکھیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ ہماری زمینیں گرمیوں میں ٹھنڈی رہیں گی بلکہ شدید سردی میں بھی زمین کا درجہ حرارت معتدل رہے گا جس کا پیداوار پر منفی اثر نہیں پڑے گا۔


اب اگلی بات یہ ہے کہ زمین کو فصلوں کی باقیات اور گھاس پھوس وغیرہ سے ڈھانپ کر رکھنے سے زمین کتنی ٹھنڈی رہے گی؟

تو ظاہر ہے اس بات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ زمین پر گھاس پھوس وغیرہ کی تہہ کتنی موٹی ہے؟ اگر تہہ زیادہ موٹی ہوگی تو زمین زیادہ ٹھنڈی رہے گی لیکن اگر یہ تہہ پتلی ہو گی تو پھر زمین چند ڈگری سینٹی گریڈ ہی ٹھنڈی ہو پائے گی۔

یہاں آپ کے ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ اتنی موٹی تہہ بچھانے کے لئے آپ فصلوں کی باقیات یا گھاس پھوس وغیرہ کہاں سے اکٹھا کریں گے؟

تو جناب بات یہ ہے کہ گھاس پھوس وغیرہ آپ نے کہیں سے بھی اکٹھا نہیں کرنا۔ بس آپ نے زمین میں ہل نہیں چلانا۔ یہ تہہ خود بخود بنتی چلی جائے گی۔ اور دو تین سال کے اندر اندر دو تین انچ موٹی تہہ آپ کی زمین پر بن جائے گی۔ پچھلے مضمون میں بھی بہت سے کاشتکاروں نے سوال کیا تھا کہ اگر ہل نہیں چلائیں گے تو فصل کیسے کاشت کریں گے؟ اس بات کا تفصیلی جواب اس سے اگلے آرٹیکل میں قدرتی کاشت کاری کے تیسرے اصول کے تحت تفصیل سے دیا جائے گا۔

زمین کو ڈھانپنے کی بدولت ایک تو زمین ٹھنڈی رہے گی اور دوسرے کھیت کی سطح سے براہ راست پانی ہوا میں اڑ کر بھی ضائع نہیں ہو گا۔ اگر ہم بیڈ یا پٹڑیاں بنا کرفصل کاشت کریں اور پھر ان پٹڑیوں کو فصلوں کی باقیات وغیرہ سے ڈھانپ دیں تو ایک اندازے کے مطابق پانی کی 80 فیصد تک بچت ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ پانی کہ یہ بچت ڈرپ آبپاشی کے مقابلے میں دوگنی ہے۔ اور اس کام پر خرچہ ڈرپ کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہے۔

زمین کو ڈھانپ کر رکھنے سے جڑی بوٹیوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے ۔

بیج کو اگنے کے لئے تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک گرمائش اور دوسرا نمی اور تیسرا ہوا۔ جب تک یہ تینوں چیزیں بیج کی طلب کے مطابق اسے نہیں ملیں گی بیج کا اگاؤ نہیں ہوگا چاہے وہ سالہا سال تک ہی کیوں نہ پڑا رہے۔

اگر ہم درجہ حرارت کے حوالے سے گندم کی مثال لیں تو گندم کے بیج کو اگنے کے لئے 4 ڈگری سے 37 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان گرمائش چاہئے ہوتی ہے۔ اگر بیج کو 4 ڈگری سے کم یا 37 ڈگری سے زیادہ گرمائش مل رہی ہو تو گندم کے بیج کا اگاؤ نہیں ہو گا۔

دوسری چیز جو بیج کو اگنے کے لئے چاہئے وہ نمی ہے۔ نمی کے بغیر بیج نہیں اگ سکتا۔ بعض بیجوں کو اگاؤ کے لئے اپنے وزن سے چار پانچ گنا زیادہ پانی درکار ہوتا ہے۔ گندم کی بات کریں تو بیج کو اگنے کے لئے اپنے وزن سے ڈیڑھ تا دو گنا زیادہ پانی جذب کرنا پڑتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ بیج یہ نمی یا پانی کہاں سے حاصل کرتا ہے؟

بیج نمی حاصل کرنے کے لئے زمین کا محتاج ہے۔ اگر گندم کی مثال لیں تو بیج مسلسل دو دن تک پانی جذب کرتا رہتا ہے تب جا کر اس کا اگاؤ یقینی بنتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم یا تو بیج کو وتر زمین میں بوتے ہیں یا پھر خشک زمین میں بو کر اوپر سے پانی لگا دیتے ہیں تاکہ بیج مطلوبہ نمی حاصل کر کے کامیابی سے اگاؤ کر لے۔

اب اگر بیج کو زمین کے اندر دبا دیا جائے تو بیج زمین سے باآسانی پانی جذب کر کے اپنا اگاؤ مکمل کرسکتا ہے۔ لیکن اگر بیج کو مٹی میں دبایا نہ جائے اور وہ زمین کے اوپر ہی پڑا رہے تو ایسی صورت میں بیج زمین سے مطلوبہ نمی جذب نہیں کر سکے گا اور اس کا اگاؤ خطرے میں پڑ جائے گا۔

ایک بات ذہن میں رہے کہ قدرتی کاشتکاری میں بار بار ہل نہیں چلایا جاتا۔ ہل نہ چلانے کی وجہ سے جڑی بوٹیوں کے بیج زمین کے اوپر ہی پڑے رہتے ہیں اور مطلوبہ نمی نہ ملنے کی وجہ سے زیادہ تر بیجوں کا اگاؤ ہی نہیں ہوتا۔

یہاں آپ کو ایک بات سمجھ لینی چاہئے کہ بیج دیکھنے کو تو ایک چھوٹا سا دانہ ہے لیکن حقیقیت میں یہ قدرت کا ایک بہت بڑا شاہکار ہے۔

بیج کی کوکھ میں پودے کا بچہ زندہ حالت میں پڑا ہوتا ہے۔ اللہ رب العزت نے اس بچے کی خوراک بھی اس کےساتھ ہی باندھی ہوئے ہے کہ جب بھی اس بچے کو مطلوبہ گرمائش، نمی اور ہوا میسر آئے تووہ قدرت کی طرف سے عطیہ کردہ خوراک کو استعمال کر کے اپنی ابتدائی نشوونما کر سکے۔

اس بچے اوربچے کی خوراک کو گرم و سرد حالات سے بچانے کے لئے اللہ تعالی بیج کے باہر ایک خول یا سخت سی تہہ چڑھا دیتا ہے تاکہ وہ ہر طرح کے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ الٹ پلٹ کے دوران بھی محفوظ رہ سکے۔

بیج کے متعلق بنیادی بات سمجھنے کے بعد اب میں آپ کو اگلی بات بتاتا ہوں۔

بیج جب اگتا ہے تو ابتدائی نشوونما کے لئے وہ اپنے ساتھ بندھی ہوئی خوراک استعمال کرتا ہے۔ اس خوراک کو استعمال کر کے بیج سب سے پہلے اپنی جڑیں نکالتا ہے جو زمین میں داخل ہو کر وہاں سے پانی اور خوراک وغیرہ جذب کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ اس کے بعد بیج اپنے ابتدائی سبز رنگ کے پتے نکالتا ہے۔ پتوں کی مدد سے پودا اپنی خوراک ازخود تیار کرنا شروع کر دیتا ہے۔


لیکن یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ پودے کو خوراک بنانے کے لئے سورج کی روشنی کی ہر حال میں ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پودے کے پتوں پر سورج کی براہ راست روشنی نہیں پڑے گی تو پودا اپنی مطلوبہ خوراک تیار نہیں کر سکے گا اور خوراک کی کمی کا شکار ہو کر پودا اپنی نشوونما جاری نہیں رکھ سکے گا اور اس قدر لاغر و کمزور ہو جائے گا کہ اس کا ہونا یا نہ ہونا برابر ہو جائے گا۔

لہذا جب ہم زمین کو گھاس پھوس سے ڈھانپ دیتے ہیں تو جڑی بوٹیوں کے وہ بیج جن کا اگاؤ ہو جاتا ہے، اگاؤ کے بعد گھاس پھوس کے نیچے پڑے ہونے کی وجہ سے انہیں مناسب روشنی نہیں ملتی۔ لہذا جڑی بوٹیوں کے یہ ننھے منھے پودے سورج کی روشنی نہ ملنے کی وجہ سے مطلوبہ خوراک تیار نہیں کرپاتے اورخوراک کمی کا شکار ہو اپنی موت آپ مر جاتے ہیں۔

ہو سکتا ہے آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا ہو کہ ان حالات میں اگر جڑی بوٹیوں کے پودے مر جاتے ہیں تو فصل کے پودے کیسے بچ جاتے ہیں؟ اس پر ہم قدرتی کاشتکاری کے تیسرے اصول میں بات کریں گے۔

زمین کو ڈھانپ کر رکھنے سے مفید جراثیموں کی آبادی انتہائی تیزی سے بڑھتی ہے۔

اگر آپ کے کھیت کی مٹی صحت مند ہے تو صحت مند مٹی کے ایک چمچ میں 7 ارب سے زیادہ مفید جراثیم پائے جاتے ہیں۔ ہے ناں حیران کن بات۔ یعنی کرہ ارض پر جتنے انسان بستے ہیں ان کی کل آبادی سے زیادہ حیات صحت مند مٹی کے ایک چمچ میں پائی جاتی ہے۔ دراصل یہی وہ جراثیم ہیں جو زمین کی زرخیزی کی ضمانت ہیں۔ اگر ہماری زمینوں میں یہ جراثیم پرورش پانا شروع کر دیں تو ہمیں اپنی فصلوں کو کسی طرح کی کھاد ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔


اگرصحت مند مٹی کو طاقتور خوردبین کے نیچے رکھ کر دیکھیں تو اس میں اس طرح کے مفید جراثیم نظر آتے ہیں

اگرصحت مند مٹی کو طاقتور خوردبین کے نیچے رکھ کر دیکھیں تو اس میں اس طرح کے مفید جراثیم نظر آتے ہیں
اب اگلا سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی زرعی زمینوں میں بھی یہ مفید جراثیم اتنی ہی تعدا میں پائے جاتے ہیں؟ تو اس کا جواب بدقسمتی سے ہاں میں نہیں ہے۔ ہمارے ہاں 90 فیصد سے زیادہ زمینوں کو ہم نے اس قدر غیر قدرتی طریقے سے استعمال کیا ہے کہ ان فائدہ مند جراثیموں کا ایک بڑا حصہ اپنی زندگی کی بازی ہار چکا ہے۔

لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ قدرت نے ان جراثیموں کا نظام کچھ اس طرح سے بنایا ہے کہ جب بھی انہیں سازگار ماحول میسر آئے گا یہ دو تین سال میں ہی نشوونما پا کر اپنی تعداد پوری کر لیں گے۔

اس بات کی مثال کچھ یوں ہے کہ جیسے ہم نے کسی جگہ سے درختوں کا جھنڈ کاٹ دیا ہو اور وہاں پر بسنے والے ہزاروں پرندے غائب ہو چکے ہوں۔ اب جیسے ہی ہم وہاں نئے درخت لگائیں گے تو ان درختوں کے بڑے ہوتے ہی پرندے پھر سے لوٹ آئیں گے۔

سوال یہ ہے کہ ایسا کیا کیا جائے کہ یہ انتہائی مفید جراثیم ہماری زمینوں میں واپس لوٹ آئیں۔

اس کے لئے ہمیں قدرتی طریقہ کاشتکاری کی طرف لوٹنا پڑے گا۔ جس میں سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم مستقل بیڈ بنا کر فصلیں کاشت کریں (یہ بات ہم قدرتی کاشکاری کے پہلے اصول میں تفصلا بیان کر چکے ہیں)۔ اور دوسرا کام یہ کرنا ہو گا کہ ہمیں اپنی زمینوں کو گھاس پھوس یا فصلوں کی باقیات وغیرہ سے ڈھانک کر رکھنا ہو گا۔ جب ہم زمین کو ڈھانک دیں گے تو ہماری زمین ٹھنڈی رہے گی۔ اور پھر ٹھنڈی زمین میں وہ ماحول میسر آ سکے گا جس میں یہ مفید جراثیم اپنی افزائش نسل اور نشوونما کرکے اپنی آبادی بڑھا سکیں گے۔

جس طرح ایک حد سے زیادہ گرمی یا ایک حد سے زیادہ سردی انسان برداشت نہیں کر سکتا ان جراثیموں کا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ گرمی لگے تو انسان سائے میں جا بیٹھتا ہے سردی ہو تو چادر اوڑھ لیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ شدید سردی یا شدید گرمی میں یہ جراثیم بے جاری کیا کریں؟ اگر ہم زمین کو ڈھانپ کر نہیں رکھیں گے تو ان کی موت واقع ہو جائے گی۔ اور ان مفید جراثیموں کی موت کا مطلب ہے کہ آپ نے اپنی زمین کو زرخیز رکھنے والی مضلوق کا خاتمہ کر دیا ہے۔

زمین کو ڈھانپ کر رکھنے سے فصلوں کو کھادیں وغیرہ ڈالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی

اس سے پہلے ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ زمین کو ڈھانپنے سے اربوں جراثیم مٹی میں پیدا ہو جاتے ہیں جو زمین کی زرخیزی کو یقینی بناتے ہیں۔

دراصل قدرت نے زمین کے اندر ہر وہ چیز رکھ دی ہے جس کی پودے کو ضرورت ہے۔ مثلاََ نائٹروجن، فاسفورس، پوٹاش، زنک، بوران اور نہ جانے کون کون سے غذائی اجزاء جو کسی بھی پودے کو درکار ہوتے ہیں وہ سب کے سب وافر مقدار میں کروڑوں سالوں سے زمین میں موجود ہیں۔

اگلے کروڑوں سالوں میں بھی ان غذائی اجزاء میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ کیونکہ غذائی اجزاء کی جتنی مقدار پودے استعمال کرتے ہیں، قدرت کے ایک خود کار نظام کے تحت یہ غذائی اجزاء خود بخود بحال ہو جا تے ہیں۔ اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کروڑوں سالوں سے سورج اس کرہ ارض کو روشنی دے رہا ہے اور سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگلے کروڑوں سالوں تک بھی یہ سورج ٹھنڈا نہیں ہو گا۔ یہی معاملہ زمین کا ہے۔ دنیا میں کئی ایسے جنگل موجود ہیں جہاں کروڑوں سالوں سے سبزہ پیدا ہو رہا ہے لیکن زمین کی زرخیزی کم نہیں ہوئی ہے۔

یہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ زمین کے اندر جو غذائی اجزاء پڑے ہوئے ہیں وہ ایسی حالت میں موجود ہیں کہ پودا انہیں براہ راست استعمال نہیں کر سکتا۔ جراثیم ان غذائی اجزاء کو اس قابل بناتے ہیں کہ پودا انہیں استعمال کر سکے۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے کسی بھوکے شخص کے پاس کئی من کچا گوشت رکھ دیا جائے۔ ظاہر ہے اس کچے گوشت سے انسان اپنی بھوک تو نہیں مٹا سکتا۔ ضروری ہے کہ کوئی باورچی اس گوشت میں مناسب مرچ مصالحہ ڈال کر اسے ہنڈیا پر چڑھائے تاکہ وہ اس قابل ہو سکے کہ حضرتِ انسان اس گوشت کو کھا سکے۔

دراصل زمین میں موجود یہ ارب ہا جراثیم پودے کے لئے باورچی کا کام کرتے ہیں۔ وہ زمین میں موجود غذائی اجزاء کو اس قابل بناتے ہیں کہ پودا انہیں استعمال کر سکے۔ اور یہ جراثیم پودے کی ضرورت کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر کام کر رہے ہوتے ہیں اور پودے کو خوراک مہیا کر رہے ہوتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ اگر یہ جراثیم زمین میں نہیں ہوں گے تو پھر پودا خوراک کی کمی کا شکار ہو جائے گا۔ جسے پورا کرنے کے لئے ہمیں بار بار اپنی زمینوں میں کھادیں ڈالنا پڑیں گی۔ آج کل ہمارے کاشتکاروں کے ساتھ بس یہی کچھ ہو رہا ہے۔

اگر آپ اپنی زمین کو فصلوں کی باقیات وغیرہ سے ڈھانک دیں تو دو تین سال میں ہی آپ کی زمین میں اربوں جراثیم پیدا ہو جائیں گے جو آپ کی فصل کو غذائی اجزاء مہیا کریں گے۔ شروع والے ایک دو سال آپ کو فی ایکڑ چار چار پانچ پانچ کلو کھاد ڈالنا پڑ سکتی ہے۔ لیکن جب یہ جراثیم اپنی تعداد بڑھا لیں گے تو پھر آپ کو کھاد کا ایک دانہ بھی اپنے کھیتوں میں نہیں ڈالنا پڑے گا۔ موجودہ سلسلے کے آخری مضامین میں ہم آپ کو ان کسانوں سے ملوائیں گے جنہوں نے گزشتہ سال گندم کے کھیت میں چار پانچ کلو فی ایکڑ کھاد استعمال کر کے 60 من فی ایکڑ سے زیادہ پیداوارحاصل کی ہے۔

فصلوں کی باقیات کو زمین پر رہنے دینے سے زمین کے نامیادتی مادے میں اضافہ ہوتا ہے۔

ہمارے ہاں مختلف فصلوں خاص کر دھان اور کماد کی باقیات کو آگ لگانا ایک عام بات ہے۔ جب ہم فصلوں کو آگ لگاتے ہیں تو زمین کی سطح کے آس پاس مفید جراثیم ہلاک ہو جاتے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ وہ جراثیم جو 60 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا درجہ حرارت برداشت نہیں کر سکتے وہ آگ کی وجہ سے پیدا ہونے والےکم و بیش 500 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت میں کیسے زندہ رہ سکتے ہیں۔ لہذا آگ لگانے سے دو نقصانات ہوئے۔ ایک تو یہ کہ فصلوں کی وہ باقیات جنہیں گل سڑ کر زمین میں نامیاتی مادے کی صورت میں شامل ہونا تھا اس کو ضائع کر دیا گیا۔ اور دوسرے وہ مفید جراثیم جنہوں نے فصلوں کی باقیات کو گلا سڑا کر نامیاتی مادے میں بدلنا تھا انہیں بھی مار دیا گیا۔ یعنی آپ نے نہ صرف پرندے کو مار دیا بلکہ اس درخت کو بھی کاٹ دیا جس پر پرندے نے گھونسلا بنا کر انڈے بچے دینے تھے۔ اس طرح آگ لگا کر آپ نے اپنے ہاتھوں اپنی زمین کو برباد کر دیا۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم آگ لگانے کی بجائے فصلوں کی باقیات کو زمین پر ہی پڑا رہنے دیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ آپ کی زمین میں مفید جراثیم محفوظ رہیں گے بلکہ زمین کے نامیاتی مادے میں بھی اضافہ ہوگا۔

زمین کو ڈھانپ کر رکھنے سے پودوں پر کیڑوں مکوڑوں کا بہت کم حملہ ہوتا ہے۔

عام طور پر کیڑے مکوڑے پودوں پر دو صورتوں میں حملہ کرتے ہیں۔

پہلی صورت

پہلی صورت وہ کہ جب پودا اس قدر لاغر اور کمزور ہو جائے کہ اس کے دفاعی نظام میں کیڑے مکوڑوں کو روکنے کی سکت نہ رہے۔

اگر آپ کسی سنڈی کو ادھ موا کر کے زمین پر پھینک دیں تو دیکھتے ہی دیکھتے چیونٹیاں سنڈی پر حملہ آور ہو جائیں گی اور سنڈی کے مسلسل تڑپتے رہنے کے باوجود اسے گھسیٹتے ہوئے اپنی بل میں لے جائیں گی۔ لیکن وہی سنڈی اگر صحت مند اور چوکس ہو تو کوئی چیونٹی اس کے پاس بھی نہیں پھٹکے گی۔

اسی طرح آپ نے دیکھا ہو گا کہ سینکڑوں گدھ آسمان پر اڑتے رہتے ہیں لیکن ہمیشہ وہ اسی جانور پر گرتے ہیں جو مر چکا ہوتا ہے۔ کیا اس بات کا تصور کیا جا سکتا ہے کہ گدھ کسی صحت مند اور زندہ جانور کو نوچنے کے لئے زمین پر اتر آئیں۔

بالکل یہی حال پودوں کا ہے۔ جب پودے کا کوئی حصہ لاغر یا کمزوریا بے جان ہو جاتا ہے تو کیڑے مکوڑے اس پودے پر حملہ کر دیتے ہیں۔ اس بات کا بہت کم امکان ہوتا ہے کہ ہر لحاظ سے صحت مند پودے پر کیڑے حملہ آور ہو جائیں۔

اب سوال یہ ہے کہ پودے کی صحت کو کیسے یقینی بنایا جا سکتا ہے؟

صرف اور صرف صحت مند زمین ہی پودوں کی صحت کی ضمانت دے سکتی ہے۔ اورفصلوں کی باقیات وغیرہ سے ڈھانپے بغیر زمین کی صحت کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔

لہذا زمین کو ڈھانکنے سے فصل کو کیڑے مکوڑوں کے حملے سے بلاواسطہ بچایا جا سکتا ہے۔

دوسری صورت

دوسری صورت میں کیڑے مکوڑے فصل پر اس وقت حملہ کرتے ہیں جب پودوں کے پتے اور شاخیں بہت زیادہ نازک اور رسیلے ہو جائیں۔ اور یہ صورت حال اس وقت پیدا ہوتی ہے جب فصل پر کھادوں خاص طور پر یوریا کھاد کا استعمال کیا جائے۔

جی ہاں! آپ بالکل درست سمجھے ہیں کہ یوریا کھاد کا استعمال فصل پر کیڑے مکوڑوں کے حملے کا سبب ہے۔

لہذا اگر ہم یوریا کھاد کا استعمال بالکل ترک کر دیں تو فصل پر کیڑے مکوڑوں کے حملوں کا امکان بہت کم رہ جائے گا۔

تو یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کھادوں کے بغیر فصل کی بہتر پیداوار کیسے حاصل ہو گی؟ اس سے پہلے ہم اسی مضمون میں بیان کر چکے ہیں کہ زمین کو ڈھانپنے سے آپ کے کھیت میں مفید جراثیم پیدا ہو جائیں گے تو آپ کی زمین کو زرخیز رکھنے میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔ اور اس طرح کھادوں کے بغیر ہی آپ بہتر پیداوار حاصل کر سکیں گے۔ اور جب آپ کھادیں استعمال نہیں کریں گے تو آپ کی فصل پر کیڑوں مکوڑوں کے حملہ کرنے کے امکانات بھی بہت کم رہ جائیں گے۔

زمین کو ڈھانپ کر رکھنے سے پودوں پر بیماریوں کا بہت کم حملہ ہوتا ہے۔

پودوں پر بیماری دو صورتوں میں آتی ہے۔

پہلی صورت

قدرت نے زمین کے اندر جو مفید جراثیم پیدا کئے ہیں وہ دوسرے بہت سے کاموں کے ساتھ ساتھ بیماریاں پھیلانے والے جراثیموں کو شکار بھی کرتے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے فصل میں بہت سے شکاری کیڑے، نقصان دہ کیڑوں کو کھا جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرائی سوپا یا ریڈ بیٹل وغیرہ ایسے کیڑے ہیں جو خود فصل کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے جبکہ فصل کو نقصان پہنچانے والے رس چوسنے والے کیڑوں کو شکار کر کے کھاتے رہتے ہیں۔

لیکن مفید جراثیموں کی غیر موجودگی میں بیماریاں پھیلانے والے جراثیم زمین کے اندر اپنا اثرورسوخ پیدا کر لیتے ہیں اور جیسے ہی پودا بیج سے نکل کر زمین میں اپنا پاؤں رکھتا ہے تو بیماریاں پھیلانے والے یہ جراثیم پودے پر حملہ آور ہو جاتے ہیں۔

لہذا فصل کو بیماریوں سے بچانے کے لئے ایک تو ضروری ہے کہ زمین میں مفید یا شکاری جراثیموں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس حوالے سے اسی آرٹیکل میں ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ زمین کو ڈھانک کر رکھنے سے مفید جراثیم خوب نشوونما پاتے ہیں جو بیماریاں پھیلانے والے جراثیموں کو شکار کرنے کے ساتھ ساتھ زمین کی زرخیزی کو بھی یقینی بناتے ہیں۔

دوسری صورت


بیماریاں پھیلانے کا دوسرا سبب فصل پر حملہ کرنے والے کیڑے مکوڑے ہیں۔ کپاس کے زیادہ تر کاشتکار یہ بات جانتے ہیں کہ سفید مکھی پودوں میں وائرس پھیلانے کا سب سے بڑا سبب ہے۔ اسی طرح رس چوسنے والے کیڑے پتوں کو زخم لگا کر رس چوستے ہیں اور بعد میں یہ زخم مختلف بیماریوں کے جراثیموں کو پروان چڑھانے کا سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح رس چوسنے والے کیڑے شربتی مادہ خارج کرتے ہیں جن پر کئی طرح کی پھپھوندیاں نشوونما پا کر فصل کی پیداوار اور معیار میں کمی واقع کر دیتی ہیں۔

لہذا کیڑے مکوڑوں کو فصل پر حملہ کرنے کا موقع نہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی فصل کو بیماریوں سے بچا رہے ہیں۔ اور زمین کو ڈھانپنے سے مفید جراثیموں کی بھر پور نشوونما ہو گی۔ مفید جراثیم ہوں گے تو زمین صحت مند اور اس کی زرخیزی بحال رہے گی۔ زمین زرخیز اور صحت مند ہو گی تو اس سے دو باتیں ہوں گی۔ ایک تو پودوں کا دفاعی نظام مضبوط رہے گا اور دوسرا فصل کو کھادیں بھی نہیں ڈالنا پڑیں گی۔ اور ایسی فصل جس کا دفاعی نظام مظبوط ہو گا اس پر کیڑے مکوڑے حملہ آور نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ کھادوں کا عدم استعمال بھی کیڑوں کے حملے کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہو گا۔ اور جب فصل پر کیڑے نہیں آئیں گے تو بیماریاں بھی کم سے کم ہوں گی۔

زمین کو ڈھانک کر رکھنے کے جو فوائد ہم نے بتائے ہیں پاکستان میں بہت سے کاشتکار اس پر عمل پیرا ہو کر یہ تمام فوائد سمیٹ رہے ہیں۔ قدرتی کاشتکاری کے آخری مضامین میں ہم ان کاشتکاروں سے آپ کی براہ راست ملاقات کروائیں گے۔

تحریر
ڈاکٹر شوکت علی
ماہر توسیع زراعت، فیصل آباد

یہ مضمون لکھنے کے لئے محترم آصف شریف کے افکارو تجربات سے خوشہ چینی کی گئی ہے۔

اس کے علاوہ سائنسی جرائد میں شائع ہونے والے تحقیقی مضامین سے بھی استفادہ کیا گیا ہے۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget