آصف شریف: دنیا میں قدرتی نظام کاشتکاری کے ابھرتے ہوئے مبلغ

آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے کروا رہے جو دنیا میں قدرتی کاشتکاری کے ایک ابھرتے ہوئے مبلغ کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے قدرتی نظام کاشتکاری کے 4 بنیادی اصول دریافت کئے اور پھر ان اصولوں کی بنیاد پر کاشتکاری کا ایک جامع نظام وضع کیا۔ آصف شریف کے قدرتی کاشتکاری نظام میں نہ تو کیمیائی کھاد استعمال کی جاتی ہے اور نہ ہی کسی طرح کا کوئی زہرسپرے کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ آصف شریف زمین میں ہل چلانے کے بھی قائل نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ اس ںظام کاشتکاری میں آپ کی پیداوار کم ہوجاتی ہے۔ بلکہ بعض صورتوں میں پیداوار پہلے سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک آصف شریف کے وضع کردہ نظام کاشتکاری سے استفادہ کر رہے ہیں۔ آصف شریف کئی ملکوں میں ہزاروں ایکڑ پر براہ راست کاشتکاری سے منسلک ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کئی ممالک کے زرعی ماہرین کو تربتی لیکچر بھی دیتے ہیں۔

آصف شریف کون ہیں، انہوں نے قدرتی نظام کاشتکاری کے اصول کیسے دریافت کئے؟ قدرتی نظام کاشتکاری کی تفصیلات کیا ہیں؟ اور ایک عام کاشتکاراس نظام کو کیسے اپنا سکتا ہے؟ موجودہ اور آنے والے کئی مضامین میں یہ تمام تفصیلات پیش کرنی کی کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے کا پہلا مضمون پیش خدمت ہے جس میں آصف شریف کا پس منظر اور ان کی زرعی خدمات پر بات کی گئی ہے۔

آصف شریف گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کرنے کے بعد امریکہ چلے گئے جہاں انہوں نے مارکیٹنگ کے مضمون میں نارتھ کیرولائنا سٹیٹ یونیورسٹی سے پوسٹ گریجوایشن مکمل کی۔

تعلیم کے آخری سال، فورڈ موٹر کمپنی نے انہیں ملازمت کی پیش کش کی۔ اس وقت فورڈ موٹر کمپنی کے دو بڑے شعبے تھے۔ ایک شعبہ آٹو موٹر ڈویژن جو کہ ٹرک اور کاروں سے متعلق تھا اور دوسرا شعبہ ٹریکٹر ڈویژن کا تھا جو کہ ظاہر ہے زراعت سے متعلق تھا۔

آصف شریف چونکہ زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اس لئے انہوں نے زراعت سے متعلق شعبے ٹریکٹر ڈویژن میں ملازمت اختیار کر لی۔

بنیادی ٹریننگ دینے کے بعد فورڈ کمپنی نے آصف شریف کو امریکہ کی نارتھ کیرولائنا ریاست کا سیلز منیجر مقرر کر دیا۔

نارتھ کیرولائنا ریاست کی آب و ہوا اور زراعت بڑی حد تک پنجاب سے مماثلت رکھتی ہے۔ آصف شریف کی ذمہ داریوں میں اہم ذمہ داری کاشتکاروں کو جدید زرعی آلات اور فصلوں کی پیداواری ٹیکنالوجی کے رموز و اوقاف سے آگاہ کرنا تھا۔

اس مقصد کے لئے وہ کاشتکاروں کی بڑی بڑی مجلسیں منعقد کرتے جہاں جدید زرعی علوم کے حوالے سے بات چیت کی جاتی۔

امریکہ میں آصف شریف یہ کام بڑی لگن اور دل جمعی سے کر رہے تھے کہ کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر انہیں وطن واپس آنا پڑ گیا۔

پاکستان میں واپس آ کر انہوں نے اپنی آبائی زمین پر کاشتکاری کا فیصلہ کیا۔

آصف شریف کی آبائی زمین ضلع پاکپتن میں، پاکپتن شہر سے 5 کلو میٹر دور بر لب سڑک واقع تھی جہاں انہوں نے سن 1972میں کاشتکاری کا آغاز کیا۔

انہوں نے امریکہ میں اپنی ملازمت کے دوران جو کچھ بھی زراعت سے متعلق علم سیکھا تھا اسے اپنے ہاں عملی طور پر اپلائی کیا۔

مثلاََ لمبے کھیت، پرسئین لیولنگ، سائفن ٹیوٹ فرو اریگیشن سسٹم، پرسیئن سیڈ پلانٹنگ، ٹریکٹر ماؤنٹڈ سپرے مشین، فولئر اپپلیکیشن گویا اس زمانے میں جتنے بھی جدید طریقہ زراعت تھے وہ سب کے سب آصف شریف نے کاشتکاری میں اپنائے۔

امریکہ کے علاوہ آصف شریف آسٹریلیا بھی گئے جہاں انہوں نے کئی ہفتے قیام کر کے کاشتکاروں اور ماہرین سے گنا و دیگر فصلیں اگانے کے طریقے سیکھے۔

پاکستان میں پہلی مرتبہ سورج مکھی اور ہائبرڈ بہاریہ مکئی آصف شریف نے 1975 میں کاشت کی۔ ہائبرڈ بیج انہوں نے امریکہ کی کارگل کمپنی سے درآمد کرنا شروع کئے۔
اگر یہ کہا جائے کہ کارگل کمپنی پاکستان میں آصف شریف کی وجہ سے آئی تو یہ بے جا نہ ہو گا۔

ہائبرڈ بیجوں کی بدولت آصف شریف فارم پر مکئی کی پیداوار 90 من تک جا پہنچی۔ جبکہ آس پاس کے اچھے کاشتکار 25-30 من سے زیادہ پیداوار نہیں لیتے تھے۔ اسی طرح آصف شریف نے امریکہ سے ڈیلٹا پائن کپاس کے بیج منگوا کر پاکستان میں کامیابی سے اگائے جس کی وجہ سے 1976 میں ان کی پیداوار 50 من فی ایکڑ تک جا پہنچی۔ واضح رہے کہ ان دنوں کپاس کے اچھے کاشتکار 15-20 من فی ایکڑ سے زیادہ پیداوار نہیں لے پاتے تھے۔

آلو کی بات کریں تو پاکستان میں آلو کی مشینی کاشت بھی پہلی مرتبہ آصف شریف نے اپنائی۔ اس سے پہلے جندرے کے ساتھ وٹیں بنا کر آلو کاشت کئے جاتے تھے اور پیداوار بھی 30 بوری سے زیادہ نہیں آتی تھی۔ لیکن آصف شریف کے مشینی اور جدید طریقہ کاشت سے آلو کی پیداوار 135 بوری تک چلی گئی۔

کارگل کمپنی کو دیکھ کر پائنیر کمپنی نے بھی پاکستان میں اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ ساہیوال میں سن 1992 میں پائنئر سیڈ کمپنی کا پلانٹ آصف شریف کا ہی انسٹال کیا ہوا ہے۔

پاکپتن، اوکاڑہ، ساہیوال، دیپالپور، عارف والا کے علاقوں کی زرعی ترقی کے پیچھے بھی آصف شریف کے زرعی فارم کا بڑا ہاتھ ہے۔ بر لب سڑک ہونے کی وجہ سے آصف شریف فارم، ہر آنے جانے والے کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ کاشتکار ازراہ شوق آصف شریف کے فارم پر آتے وہ تجسس بھرے سوالات پوچھتے جن کا وہ تسلی بخش جوابات دیتے۔ لہذا آصف شریف کے فارم نے ایک طرح سے نمائشی فارم کا کام کیا جسے دیکھ کر کسانوں نے اپنی کاشتکاری کو بہتر بنانے کی کوششیں کیں۔ اس طرح دیکھا دیکھی چند سالوں میں ہی پاکپتن کے آس پاس کے علاقوں کی زراعت میں جدت آنا شروع ہو گئی۔

آلو اور مکئی کی فصلیں کاشت کرنے والے جوڑ کا آغاز بھی آصف شریف کے فارم سے ہی شروع ہوا تھا۔ جو کاشتکاروں میں اس قدر مقبول ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے یہ سارا خطہ آلو اور مکئی کا علاقہ بن گیا۔

رفحان میظ 1975 کے آس پاس بند ہونے کے قریب تھی جب انہوں نے آصف شریف کی مشاورت سے بہاریہ مکئی کا پروگرام شروع کیا۔ اس پروگرام کی بدولت رفحان میظ کے دن بدل گئے اور وہ تیزی سے ترقی کرنے والی کمپنیوں میں شامل ہو گئی۔

اسی طرح سن 1977 میں حکومت پنجاب کے محکمہ اصلاح آبپاشی کا تصور بھی آصف شریف فارم سے ہی ابھرا ۔ بلکہ اس محکمے کا نام On-Farm Water Management بھی آصف شریف کا ہی تجویز کردہ ہے۔ سن 1984 میں پہلا لیزر لینڈ لیولر بھی پاکستان میں آصف شریف ہی لے کر آئے تھے۔ بعد ازاں آصف شریف نے حکومت پنجاب کے ساتھ مل کر ایک منصوبہ بنایا جس کے تحت کاشتکاروں کو سبسڈی پر لیزر لینڈ لیولر دئیے گئے جو اب پنجاب کے ہر کاشتکار کی دسترس میں ہیں۔

اصلاح آبپاشی کا محکمہ بنانے کا مقصد یہ تھا کہ کاشتکاروں کو آب پاشی کے درست طریقہ جات سے آگاہ کیا جائے۔ لیکن محکمہ اصلاح آبپاشی نے کسانوں کی تعلیم و تربیت سے صرف نظر کرتے ہوئے اپنی تمام تر توجہ کھال پکے کرنے کی طرف مرکوز کر دی۔ یہ محکمہ اس کام کی طرف کیوں مائل ہوا اس پر پھر کبھی بات ہو گی۔

آصف شریف فارم 10 سال تک خاص و عام کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ اس وقت کی تمام بڑی بڑی سرکاری غیر سرکاری شخصیات نے ان کے فارم کا دورہ کیا۔

انہی شخصیات میں سے ایک جمیل نشتر بھی شامل تھے۔ جمیل نشتر، قائد اعظم محمد علی جناع کے قریبی ساتھی اور سابق گورنر پنجاب سردارعبدالرب نشتر کے بیٹے تھے۔ انہوں نے نیشنل بنک کے ایک سینئر عہدیدار کی حیثیت سے آصف شریف فارم کا سن 1977 میں دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران آصف شریف نے چھوٹے کاشتکاروں کو زرعی قرضہ جات کی سہولت دینے کے لئے موبائل کریڈٹ آفیسر (ایم سی او) کا پروگرام پیش کیا جسے جمیل نشتر کی وساطت سے نیشنل بنک نے اپنا لیا۔

اس طرح تاریخی حوالے سے بھی یہ بات اہم ہے کہ پاکستان میں موبائل کریڈٹ افسروں کا پہلا پُور نیشنل بنک کے تعینات کیا۔ اور پھر ان افسروں کو بنیادی تربیت بھی آصف شریف فارم پر ہی دی گئی۔

موبائل کریڈٹ آفیسرتعینات ہونے سے ایک طرف کو زرعی گریجوایٹ کے لئے روزگار کا دروازہ کھل گیا اور دوسری طرف کاشتکاروں کو بھی قرضہ جات حاصل کرنے کی سہولت ہو گئی۔

آج کے پاکستان میں جتنے بھی ترقی پسند کاشتکار جدید سے جدید تر کاشتکاری کر رہے ہیں 1981 تک وہ ساری جدت آصف شریف کے فارم پر ظہور پذیر ہو چکی تھی۔

کاشتکاری کے انتہائی مدارج کو چھونے کے بعد جب یہ عمل یکسانیت کا شکار ہونے لگا تو آصف شریف کی دلچسپی میں کمی آنا شروع ہو گئی۔ کیونکہ اس مرحلے پر وہ سمجھتے تھے کہ کاشتکاری میں وہ جو کچھ کرنا چاہتے تھے، کر چکے ہیں اور اب ان کی متجسس طبیعت کچھ نیا کرنا چاہتی تھی۔

سن 1981 میں آصف شریف نے ایک دفعہ پھر فورڈ موٹر کمپنی سے رابطہ کیا کہ انہیں کوئی نئی اسائنمنٹ دی جائے۔

جواب میں فورڈ موٹر کمپنی نے انہیں امریکہ میں ملازمت کی پیشکش کی لیکن اب وہ پاکستان میں رہ کر ہی کوئی زرعی سرگرمی اختیار کرنا چاہتے تھے۔

اسی دوران جمیل نشتر جو اس سے قبل نیشنل بنک میں سینئر افسر تھے انہیں زرعی ترقیاتی بنک کا چئرمین مقرر کر دیا گیا۔

زرعی بنک کا چئرمین بننے کے بعد جمیل نشتر نے آصف شریف کو اسلام آباد مشاورت کے لئے مدعو کیا جہاں ایگرو رینٹل سروسز کا منصوبہ ترتیب دیا گیا۔ اس منصوبے نے پاکستان میں جدید زرعی مشینری کی داغ بیل ڈالنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا۔

اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں سن 1984 میں گندم کاٹنے کے لئےپیلے رنگ کے نیو ہالینڈ کمبائنڈ ہارویسٹر پاکستان آنا شروع ہوئے جس سے گندم و دیگر فصلات کی کٹائی و گہائی میں بڑی سہولت اور تیزی پیدا ہوئی۔ یہ تمام مشینیں فورڈ کمپنی نے پاکستان کو فروخت کیں۔
اسی منصوبے کے تحت سن 1985 میں شوگر کین ہارویسٹر (گنا کاٹنے والی مشین) اور کاٹن پکر (کپاس چننے والی مشین) بھی درآمد کئے گئے ۔

منصوبے کے دوسرے مرحلے میں کاشتکاروں کو فصلیں کاشت کرنے کے لئے پلانٹر دئیے جانے تھے لیکن 1985 میں جمیل نشتر کا بے وقت انتقال ہو گیا جس کے بعد یہ منصوبہ بینک کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ٹھپ ہو گیا۔ جمیل نشتر صاحب کی زرعی میدان میں قابل قدر خدمات ہیں جن پر پھر کبھی بات ہو

یہ بات بھی آپ کو بتانا ضروری ہے کہ آصف شریف زرعی مشینیں ڈیزائن کرنے کے بھی ماہر ہیں۔ مشینیں بنانا یا بیچنا ان کا کاروبار نہیں ہے یہ محض ان کا شوق ہے۔ انہوں نے پاکستان میں درجن بھر سے زائد مشینیں ایجاد کر کے متعارف کروائی ہیں۔


آصف شریف کی بنائی ہوئی بعض مشینیں تو ایسی ہیں جو دنیا میں پہلی مرتبہ ڈیزائن یوئی ہیں۔ ان مشینوں کے ڈیزائن پر کسی بھی طرح کے کوئی کاپی رائٹ نہیں ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو یہ ڈیزائن بالکل مفت حاصل کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں چند ایک کاریگر ہیں جو آصف شریف سے یہ ڈیزائن حاصل کر کے مشینیں بنا رہے ہیں۔

اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں اجناس کو سٹور کرنے کے لئے بلک سائیلوز اور بٹلر وائڈ سپین بلڈنگ ٹیکنالوجی بھی آصف شریف نے ہی سن 1988 میں متعارف کروائی تھی۔


سن 1993 میں ملک میں بے نظیر بھٹو کی حکومت آ گئی۔ بے نظیر بھٹو نے زرعی ترقی کے لئے ایک سپیشل کمیٹی بنائی جس کے کنوینئر یا چئرمین کی ذمہ داری آصف شریف کے حوالے کی گئی۔

اس کمیٹی نے پاکستان میں زرعی ترقی کے لئے کئی ایک اقدامات کئے۔ ان اقدامات کا تذکرہ کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ اس حوالے سے ڈاکٹر ظفر الطاف مرحوم،فاروق احمد خان لغاری مرحوم، نواب یوسف تالپور کا ذکر کیا جائے جنہوں نے اس کمیٹی کی تجاویز کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انتھک محنت کی۔

اس کمیٹی نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ زرعی زہروں کو ان کے اصلی ناموں سے بیچنے کی اجازت دے دی۔واضح رہے کہ اس سے قبل یہ کام غیر قانونی تھا۔ اس قدم سے یہ ہوا کہ زرعی ادویات کی قیمتیں کئی گنا سستی ہو گئیں۔ مثال کے طور پر پولیٹرین سی زہر جو اس وقت 600 روپے میں بک رہی تھی، ایک آدھ ماہ میں ہی کمپنی کو اس کی قیمت 100 روپے لیٹر کرنا پڑ گئی۔

اسی طرح کاشتکاروں کی اجناس کوڑیوں کے داموں دھر لی جاتی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں زرعی اجناس کی قیمتیں عالمی منڈی کے مطابق نہیں تھیں۔ عام طور پر کاشتکار کو عالمی قیمتوں کے مقابلے میں آدھی قیمت ملتی تھی۔ کمیٹی نے تجویز دی کہ ملک میں زرعی اجناس کی قیمتیں عالمی منڈی کی قیمتوں سے منسلک کر دی جائیں۔ اس تجویز پر عمل درآمد ہوتے ہی پھٹی کا ریٹ جو کہ 400 روپے فی من تھا دیکھتے ہی دیکھتے 1600 روپے من تک چلا گیا۔ اور یہی معاملہ باقی اجناس کے ساتھ بھی ہوا۔

اس کے علاوہ اس کمیٹی نے عوامی ٹریکٹر سکیم کی تجویز دی جس کی بنیاد پر پاکستان میں پہلی مرتبہ کاشتکاروں کو آدھی سے بھی کم قیمت پر 30 ہزار ٹریکٹر دئیے گئے۔ یہ ٹریکٹر پولینڈ اور بیلاروس سے درآمد کئے گئے۔ پولینڈ سے ارسس ٹریکٹر اور بیلاروس سے بیلارس ٹریکٹر درآمد کر کے ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ میں دئیے گئے۔ واضح رہے کہ اس وقت میسی فرگوسن کی قیمت ساڑھے تین لاکھ کے قریب تھی۔

اسی دوران آصف شریف نے فورڈ کمپنی سے ٹریکٹر بنانے کا لائسنس حاصل کیا اور لاہور میں ٹریکٹر بنانے کی فیکٹری لگا لی۔

پاکستان میں نظر آنے والے نیلے رنگ کے تمام فورڈ ٹریکٹر آصف شریف کی اسی فیکٹری کے بنے ہوئے ہیں۔ بعد ازاں فورڈ کمپنی نے اپنا ٹریکٹر ڈویژن ختم کر کے فیئٹ کمپنی کو بیچ دیا اور آصف شریف نے بوجوہ ٹریکڑ سازی کا کام چھوڑ دیا۔

سن 2007 میں آصف شریف کی ملاقات امریکہ کی کارنیل یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر نارمن تھامس اپ ہاف سے ہوئی۔ کارنیل یونیورسٹی کا شمار زراعت کے حوالے سے دنیا کی چند بہترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر نارمن تھامس، کارنیل یونیورسٹی میں شعبہ زراعت کے سربراہ ہیں جنہیں 2 مرتبہ نوبل انعام کے لئے نامزد کیا جا چکا ہے۔

آصف شریف نے کارنیل یونیورسٹی اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے ساتھ مل کر چاول کاشت کرنے کا ایک ایسا طریقہ کار وضع کیا جس کی بدولت چاول کی فی ایکڑ پیداوار 4 گنا بڑھ جاتی ہے اور خرچہ بھی 70 فیصد تک کم ہوتا ہے۔ واضح رہے کہ اس طریقہ کو وضع کرنے کے لئے تمام تجربات آصف شریف کے اپنے ہی فارم پر یہاں پاکستان میں ہوئے ہیں۔ آصف شریف نے اس طریقے کو System of Rice Intensification (SRI) کا نام دیا ہے۔

امریکہ میں یہ طریقہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ یہ طریقہ کیا ہے؟ اس پر ہم اس سلسلے کے اگلے مضامین میں بات کریں گے۔

ڈاکٹر نارمن تھامس، آصف شریف کو اپنا مینٹر (گُرو) کہتے ہیں۔ اسی طرح آصف شریف بھی تسلیم کرتے ہیں کہ انہوں نے ڈاکٹر تھامس سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ یہ دونوں شخصیات ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کر رہی ہیں اور ایک دوسرے کے زرعی تجربات سے استفادہ کرتی ہیں تاکہ ترقی کے ذریعے بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کا کوئی راستہ تلاش کیا جا سکے۔

پاکستان میں آصف شریف کچھ عرصہ زرعی ترقیاتی بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چئرمین بھی رہے۔ آصف شریف کے بقول ان کی کوشش کے باوجود زرعی بنک کے معاملات بوجوہ اس طرف نہیں جا ر ہے تھے جس طرف وہ انہیں لے کر جانا چاہتے تھے جس وجہ سے محض 7 مہینے بعد ہی انہوں نے اس عہدے سے استعفی دے دیا۔

آصف شریف، اقوام متحدہ اور ورلڈ بنک کے ساتھ بھی منسلک رہے ہیں جہاں ان سے پاکستان اور دنیا میں زرعی ترقی کے حوالے سے تجاویز لی جاتی ہیں۔

لیکن ایسا نہیں تھا کہ ان ساری مصروفیات کے دوران آصف شریف نے کاشتکاری چھوڑ دی ہو۔ اس سارے عرصے میں وہ مستقل کاشتکاری کے ساتھ وابسطہ رہے۔ سن 2007تک وہ کاشتکاری کے لئے مسلسل کھاد اور زرعی زہروں کا استعمال کرتے چلے آ رہے تھے۔ لیکن سن 2007 میں کچھ ایسا ہوا کہ آصف شریف پر قدرتی نظام کاشتکاری کے چند بنیادی اصول منکشف ہوئے۔ وہ بنادی اصول جنہیں اپنا کر آصف شریف نے ہر طرح کی کھادوں اور زرعی زہروں کو خیر باد کہ دیا۔ صرف یہی نہیں بلکہ انہوں زمین میں ہل چلانے سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا۔

ایسا نہیں ہے کہ کھادیں اور زرعی زہروں کا استعمال ترک کرنے کے بعد ان کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ بلکہ ان کی فی ایکڑ پیداوار بعض صورتوں میں زیادہ ہوئی ہے۔

قدرتی نظام کاشتکاری کو اپنانے سے ان کی پیداواری لاگت میں کئی گنا کمی آئی ہے۔ مثال کے طور پر ایک عام کاشتکار جب گندم اگاتا ہے تو اس کی فی من پیداواری لاگت کم و بیش 600 روپے تک ہوتی ہے۔ جبکہ آصف شریف کے ہاں یہ پیداواری لاگت 100 روپے سے بھی کم ہے۔

دنیا میں آصف شریف، پائیدار قدرتی نظام کاشتکاری (پقنک) کے ایک بہت بڑے مبلغ کے طور پر ابھرے ہیں۔ دنیا کے بیشتر ممالک ان سے یہ اصول سیکھ رہے ہیں۔ امریکہ، جنوبی افریقہ، ایتھوپیا، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ، فلپائن، حتی کہ بھارت جیسے ممالک میں آصف شریف کا دیا گیا قدرتی نظام کاشتکاری تیزی سے جڑ پکڑ رہا ہے۔ بھارت کی ریاست بہار کوآصف شریف نے سن 2010 میں قدرتی نظام کاشتکاری کا ماڈل بنا کر دیا تھا۔ جس کو آگے بڑھا کر وہ ریاست زراعت میں بہت آگے نکل گئی ہے۔

آجکل آصف شریف دنیا کے مختلف ممالک میں کاشتکاری کرنے والی بڑی بڑی کمپنیوں کو ہر طرح کی تکنیکی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ بعض ممالک میں آصف شریف کی کمپنی پیداور معاہدے کے تحت کاشتکاری بھی کررہی ہے۔ اس طرح وہ کئی ممالک میں ہزاروں ایکڑ رقبہ جات پر براہ راست کاشتکاری سے منسلک ہیں۔
اس کے علاوہ وہ دنیا میں بڑے پیمانے پر کاشتکاری کرنے والی کمپنیوں کے سٹاف کو زرعی امور پر ٹریننگ بھی دیتے رہتے ہیں۔ آصف شریف اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر مختلف ممالک کے زرعی ماہرین کو گھنٹوں زراعت پر لیکچر دیتے ہیں۔ وہ ایک ایک لیکچر کے کئی کئی ہزار ڈالر وصول کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں ان کی تمام سروسز مفت ہیں۔

وہ یہ دعوی نہیں کرتے کہ انہوں نے کوئی نئی چیز ایجاد کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ صرف وہی بات بیان کر رہے ہیں جو کارخانہ قدرت میں پہلے سے ظہور پذیر ہے۔ انہوں نے بس قدرتی طور پر ہونے والی زراعت کے بنیادی اصولوں کو دریافت کیا ہے۔ اور پھر ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے پائیدار قدرتی کاشتکاری کا ایک نظام وضع کیا ہے جسے وہ Paradoxical Agriculture System کے نام سے تعبیر کرتے ہیں۔

آصف شریف نے قدرتی نظام کاشتکاری کے یہ اصول کیسے دریافت کئے؟ وہ اصول کون کون سے ہیں؟ اور انہیں ایک عام کاشتکار کیسے اپنا سکتا ہے؟ اس پر آئندہ بات ہو گی انشاءاللہ۔

تحریر
ڈاکٹر شوکت علی
ماہر توسیع زراعت، فیصل آباد
بشکریہ: آصف شریف
اگر آپ اس مضمون کے کسی حصے سے متفق نہیں ہیں تو نقد و نظر کے لئے دعوت عام ہے۔

لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget