پائیدار قدرتی نظامِ کاشت (پقنک)

اللہ تعالیٰ نے ہمارے دنیا میں آنے سے پہلے ہی ہمارے لئے ایک قدرتی نظام بنا کر زمین پر لاکھوں سال سے درخت اور دیگر نباتات غیر ہموار زمین پر اُگا دیے بغیر کسی کھاد اور سپرے کو کئے۔ ہم کو بھی یہی قدرتی نظامِ کاشت اپناتے ہوئے اپنے لیے زراعت کے بہتر وسائل تلاش کرنے ہوں گئے۔

پائیدار قدرتی نظامِ کاشت (پقنک)

اگر ہم زمین کی قدرتی ساخت پر غور کریں تو ہم کو پتہ چلے گا کے اللہ تعالیٰ نے زمین ہموار نہیں بنائی تاکہ جن فصلوں کو زیادہ پانی کی ضرورت ہے وہ گہرائی میں لگائی جائیں جیسے چاول وغیرہ اور جن فصلوں کو کم پانی کی ضرورت ہے وہ اونچی جگہ پر لگائی جائیں جیسے سبزیاں وغیرہ۔ جب بارش ہو تو پانی کم پانی کی ضرورت والی فصلوں کو سیراب کرتا ہوا ڈھلوان میں چلا جائے اور اسطرح دونوں قسم کی فصلوں کو فائدہ ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسے بیکٹیریا پیدا کیے جو پانی میں زندہ رہ سکے اور کچھ ایسے جو پانی کی صرف نمی یا سوکھی جگہ پر زندہ رہ کر فصلوں کو فائدہ دیں اور فصلوں کی باقیات کو گھلا کرنامیاتی کھاد کا کام کریں۔ سو جب ہم ریزبیڈز کی بجائے فلیٹ زمین پر کاشتکاری کرتے ہے تو جن بیکٹیریا نے ہماری فصلوں کو فائدہ دینا ہوتا ہے انکو ہم پانی میں ڈبو کر مار دیتے ہے. اس طرح فائدہ مند کیڑوں کی تعداد ہماری فصلوں میں ختم ہو گی اور ہماری فصلیں کیمیکل زہروں اور کھادوں کی محتاج ہو گئی ہیں۔ ہم نے خود اپنے ہاتھوں اپنی زمینیں تباہ کر لی۔

پقنک میں جب ہم قدرت کے طریقہ کی طرف دوبارہ آتے ہوئے فصلوں اور اُنکی باقیات کی ریزبیڈز پر آرگینک ملچنگ کرتے ہیں تو ہماری فصلوں کو خود با خود نامیاتی کھاد مل جاتی ہے۔ ریزبیڈز پر فصلوں کی باقیات پڑا رہنے سے زمین کا اندرونی ٹمپریچر کم ہو جاتا ہے۔ گرمی کی وجہ سے آرگینک میٹر ضائع نہیں ہوتا اور آرگینک میٹر کی بچت کی وجہ سے زمین کی پی ایچ نہیں بڑھتی۔ پھر ہم جو تھوڑی سی بھی کیمیائی کھاد  ڈالتے ہیں وہ پودے کو ساری کی ساری مل جاتی ہے اور بیڈز پر کاشت کی وجہ سے بیج کی لاگت بھی کم ہو جاتی ہے۔

جب ہم زمین میں بار بار ہل چلاتے ہیں تو ایک تو ڈیزل کا خرچہ آتا ہے اور زمین  کھلی ہونے کی وجہ سے نامیاتی مادہ دھوپ کی گرمی سے ضائع ہوتا رہتا ہے۔ اسکے برعکس جب ہم ایک ہی دفعہ ریزبیڈز بنا کر انہی بیڈز بر بار بار فصل لگا لیں گئے تو زمین کا ٹمپریچر زیادہ نہ ہونے کی وجہ سے فصل پیداوار بھی اچھی دے گی اور فصل کا خرچا کم ہو گا اور آمدن میں منافع زیادہ۔


قدرتی نظام کاشتکاری کا پہلا اصول یہ ہے کہ ہم فصل ہمیشہ بیڈ یا پٹڑیوں پر کاشت کریں۔ ان پٹڑیوں کے ارد گرد کھیلیاں ہوتی ہیں جہاں سے پانی گزرتا ہے۔ یعنی اصول یہ ہے کہ جہاں سبزہ ہو گا وہاں پانی کھڑا نہیں ہو گا اور جہاں پانی کھڑا ہو گا وہاں سبزہ نہیں ہو گا۔ آج کے اس مضمون ہم تفصیل سے بات کریں گے کہ بیڈ یا پٹڑیوں پر فصل کاشت کرنے کے پیچھے وہ کون کونسے راز اور کون کونسی حکمتیں پوشیدہ ہیں جن کی بدولت ہم بہت ساری بچتیں کرنے کے ساتھ ساتھ بہت اچھی پیداوار حاصل کر لیتے ہیں

پہلی حکمت

مستقل بیڈ بنانے سے زمین کے نیچے والی تہہ سخت نہیں ہوتی

ایک بات ذہن میں رہے کہ قدرتی کاشتکاری میں جب ہم ایک دفعہ بیڈ بنا لیتے ہیں تو یہ بیڈ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مستقل طور پر بنائے جاتے ہیں۔ یعنی ایسا نہیں ہوتا کہ آپ بیڈ بنا کر فصل لگائیں اور پھر اگلی فصل لگانے کے کھیت میں ہل چلا کر نئے بیڈ بنائیں۔ قدرتی کاشتکاری میں زمین میں بار بار ہل نہیں چلایا جاتا۔

ہوتا یہ ہے کہ ٹریکٹر کے ساتھ جب ہم زمین میں بار بار ہل چلاتے ہیں تو زمین کے نیچے کی تہہ سخت ہوتی جا تی ہے۔اگر ہم میسی 240 ٹریکٹر کی بات کریں تو اس کا وزن بھی 40 من سے زیادہ ہوتا ہے۔ جب 40 من وزنی ٹریکٹر بار بار زمین کے اوپر سے گزرتا ہے تو زمین کے نیچے ایک سخت تہہ بننا شروع ہو جاتی ہے۔ سپرنگ والا ہل زمین کی تہہ کو سخت کرنے میں اہم کردار ادار کرتا ہے جس پر آئندہ بات ہو گی۔

اگر دیکھا جائے تو 90 فیصد ہمارے ہاں کلٹی ویٹر یعنی سپرنگوں والا ہل استعمال ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ 5 انچ کی گہرائی تک جاتا ہے۔ اسی طرح راجہ ہل اور ڈسکیں بھی 9 انچ سے گہری نہیں جاتیں۔ لہذا 9 انچ سے نیچے زمین میں سخت تہہ بننا شروع ہو جاتی ہے۔ اس سخت تہہ کی موٹائی تقریباََ 8 سے 10 انچ تک ہوتی ہے اور اس کے بعد پھر نرم زمین شروع ہو جاتی ہے۔ چونکہ اوپر والے 9 انچ میں ہل چلتا رہتا ہے جس کی وجہ سے زمین سخت نہیں ہوتی اور مٹی قدرے نرم رہتی ہے۔ اب زمین کے نیچے بننے والی یہ تہہ اس قدر سخت ہو جاتی ہے کہ اس میں سے پودوں کی جڑیں بھی نہیں گزر سکتیں۔ اور پانی کو بھی زمین کے نیچے بہنے میں دقت پیش آتی ہے جس سے ہماری زمین خراب ہوتی چلی جاتی ہے اور فصلوں کی نشوونما پر منفی اثر پڑتا ہے۔

یہ سخت تہہ زمین اور پودوں کی صحت دونوں کے نقصان دہ ہوتی ہے۔ روائتی کاشتکاری کے ماہرین کے نزدیک بھی ہر3 سال بعد زمین کی اس سخت تہہ کو توڑنا بہت ضروری ہے جو صرف چیزل ہل چلانے سے ہی ممکن ہے۔ چیزل ہل کے تین لمبے پھالے ہوتے ہیں جو زمین میں زیادہ سے زیادہ 2 فٹ کی گہرائی تک جا سکتے ہیں جس سے سخت تہہ ٹوٹ جاتی ہے۔

لہذا قدرتی کاشتکاری میں مستقل بیڈ بنانے سے پہلے نہائیت ضروری ہے کہ ہم ایک مرتبہ زمین کی گہرائی میں چیزل ہل چلا کرسخت والی تہہ کو توڑ دیں۔ چیزل ہل چلانے کے بعد زمین میں روٹا ویٹر پھیر کر مستقل بیڈ بنا دیں۔

مستقل بیڈ بنانے کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کے کھیت میں سے ٹریکٹر بھی ہمیشہ مستقل رستے یعنی کھیلی میں سے ہی گزرے گا اور بیڈ کے اوپر والی جگہ جہاں آپ نے فصل کاشت کرنی ہے وہاں سے ٹریکٹر نہیں گزرے گا۔

لہذا وقت کے ساتھ کھیلیوں کے نیچے والی زمین میں تو سخت تہہ بنے گی لیکن بیڈ کے اوپر والی جگہ جہاں آپ نے فصل کاشت کرنی ہے وہ نرم ہی رہے گی۔ اور نیچے تک اس نرم زمین میں آپ کی فصل کی جڑیں جہاں تک جانا چاہیں جا سکیں گی اور زیادہ گہرائی سے خوراک لا کر پودے کو دیں گی جس سے پودے کی بہترین نشوو نما ہو گی۔

دوسری حکمت


مستقل بیڈ بنانے سے کھیلی کے نیچے سخت تہہ بن جائے گی جس سے پانی کی بچت ہو گی۔

جیسا کہ ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ مستقل بیڈ بنانے سے آپ کا ٹریکٹر بار بار کھیلی میں سے ہی گزرے گا جس سے کھیلی کے نیچے والی زمین کی تہہ سخت ست سخت تر ہوتی چلی جائے گی۔ واضح رہے کہ کھیلیاں ہمیشہ ہم ٹریکڑ کی چوڑائی کو مدنظر رکھ کر اس طرح بناتے ہیں کہ ٹریکٹر کا ٹائر کھیلیوں میں ہی رہیں۔



organic farming ideas in urdu
ایک دفعہ چیزل ہل چلا کر مستقل بیڈ بنا دئیے گئے ہیں۔ اب ٹریکٹر ہمیشہ کھیلی سے ہی گزرے گا اور بیڈ کے نیچے زمین نرم رہے گی

ایک دفعہ چیزل ہل چلا کر مستقل بیڈ بنا دئیے گئے ہیں۔ اب ٹریکٹر ہمیشہ کھیلی سے ہی گزرے گا اور بیڈ کے نیچے زمین نرم رہے گی
زمین میں پانی بھی چونکہ آپ نے کھیلیوں میں ہی لگانا ہے۔ اس لئے زمین سخت ہونے کی وجہ سے وہ 10 فیصد پانی جو زمین کی گہرائی میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے اس کا بہت سا حصہ زمین کے نیچے بہہ کر ضائع ہونے کی بجائے بیڈوں کی طرف مڑ جائے گا جس سے پانی کی بچت ہونے کے ساتھ ساتھ پانی کا بہتراور موثراستعمال ہو سکے گا۔

organic farming ideas in urdu

پانی زمین کے نیچے بہہ کر ضائع ہونے کی بجائے بیڈوں میں جذب ہو رہا ہے۔
تیسری حکمت

بیڈ میں پودے کو پانی کی بجائے نمی ملتی ہے اور نمی میں پودا بہت خوش رہتا ہے

سائنس دان بتاتے ہیں کہ پودے کے پاؤں پانی میں ڈوبنے کی وجہ سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ پسندیدہ بات یہی ہے کہ پودے کے پاؤں پانی میں ڈبونے کی بجائے اسے نمی مہیا کی جائے۔ لہذا بیڈ بنانے میں بھی یہی حکمت ہے کہ پانی کھیلیوں میں لگایا جاتا ہے اور بیڈ کو کھیلیوں سے نمی حاصل ہوتی رہتی ہے جسے پودا استعمال کر کے اپنی نشوونما جاری رکھتا ہے۔

بیڈ کی وجہ سے پودے کے پاؤں پانی میں ڈوبنے کی بجائے اسی نمی مل رہی ہے
واضح رہے کہ بیڈ بنا کر پانی دینا، ڈرپ آبپاشی سے بھی بہتر ہے۔ کیونکہ ڈرپ آبپاشی میں زمین پانی سے نچڑتی رہتی ہے جو پودے کی صحت کے لئے اچھی بات نہیں ہے۔ پودا نچڑتی ہوئی مٹی کی بجائے نمدار یا ہلکی گیلی مٹی میں خوش رہتا ہے۔ اور دوسرے جتنی پانی کی بچت لاکھوں روپے لگا کر ڈرپ آبپاشی کے ذریعے ہوتی ہے، کم و بیش اتنی ہی پانی کی بچت مستقل بیڈ بنا کر بھی ہو جاتی ہے۔

چوتھی حکمت

بیڈ میں آبپاشی کرنے سے پودا بھر پور خوراک حاصل کرتا ہے

اس بات کو آپ اس طرح سے سمجھیں کہ انسان اگر چینی کھانا چاہے تو وہ دو طریقوں سے کھا سکتا ہے۔ ایک تو چینی کا چمچ اپنے منہ میں ڈال کر چبائے اور کھا لے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ وہ چینی کو پہلے پانی میں حل کرے اور پھر اس کے بعد چینی والا پانی پی لے۔

واضح رہے کہ پودا انسان کی طرح دونوں طریقوں سے خوراک حاصل نہیں کر سکتا بلکہ وہ صرف دوسرے طریقے سے ہی خوراک حاصل کرتا ہے۔ یعنی جب ہم پانی لگاتے ہیں تو خوراک پہلے پانی میں حل ہو گی اور پھر جب پودا اس خوراک والے پانی کو اپنی جڑوں کے ذریعے حاصل کرے گا تو پانی کے ساتھ ہی خوراک بھی پودے کے اندر چلے جائے گی۔

اب اس بنیادی بات کو سمجھنے کے بعد ذرا دیکھئے کہ اگر آپ کھیت میں کھلا پانی چھوڑیں گے اور کھیت میں پڑی ہوئی خوراک جب زیادہ پانی میں ھل ہو گی تو ظاہر ہے پتلا شربت بنے گا لیکن اگر وہی خوراک تھوڑی پانی میں حل ہو گی تو گاڑھا شربت بنے گا۔ بیڈ میں جب ہم پانی لگاتے ہیں تو کم پانی لگنے کی وجہ سے گاڑھا شربت بنتا ہے۔ جب پودا اس گاڑھے شربت کو اپنی جڑوں سے حاصل کرتا ہے تو پھر اس میں حل شدہ زیادہ خوراک پودے کو ملتی ہے۔



ہو سکتا ہے آپ کے ذہن میں یہ بات آ رہی ہو کہ اگر شربت پتلا ہے تو پودا زیادہ شربت اپنی جڑوں کے ذریعے حاصل کر لے اور اپنی خوراک پوری کر لے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایک حد سے زیادہ پانی جذب نہیں کر سکتا۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ پانی سادہ ہو یا میٹھا، انسان دو چار گلاس سے زیادہ پانی نہیں پی سکتا۔ پودوں کے ساتھ بھی بالکل یہی معاملہ ہے۔

کیونکہ پودے کی جڑیں 2 طرح کی ہوتی ہیں۔ ایک وہ جو موٹی ہوتی ہیں اور دوسری وہ جو بالکل بال کی طرح باریک ہوتی ہیں۔ موٹی جڑیں پودے کو زمین میں مضبوطی کے ساتھ کھڑا رکھنے کے لئے ہوتی ہیں جبکہ بال کی طرح باریک جڑوں کے ذریعے پودا زمین سے پانی اور دیگر غذائی اجزاء جذب کرتا ہے۔

اب پودا کتنا پانی جذب کرے گا؟ یہ بات نہ ہمارے اختیار میں ہے اور نہ ہی پودے کے اپنے اختیار میں ہے۔ بلکہ تین چیزیں ہیں جو پودے کے پانی جذب کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہیں۔ پہلی چیز یہ ہے کہ پودے کے پتے کتنے چوڑے ہیں اور اس کی چھتری کا پھیلاؤ کتنا ہے۔ دوسری چیز یہ ہے کہ ہوا میں نمی کتنی ہے اور تیسری یہ کہ ہوا کا درجہ حرارت کتنا ہے۔ کیونکہ اگر پتے چوڑے ہوں گے، ہوا میں نمی کم ہوگی اور ہوا کا درجہ حرارت زیادہ ہو تو پودا پتوں سے زیادہ پانی ہوا میں اڑائے گا۔ اور جتنا پانی پودا ہوا میں اڑائے گا بالکل اتنا پانی ہی پودا زمین سے جذب کر سکے گا۔

پودے کے پتوں سے پانی اڑنے والی بات کو کپڑے سوکھنے والی مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ جب ہم کپڑے دھو کر دھوپ میں ڈالتے ہیں تو گرمیوں میں وہ جلدی سوکھ جاتے ہیں جبکہ سردیوں میں کافی وقت لیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گرمیوں میں ہوا میں نمی کم اور ہوا کا درجہ حرارت زیادہ ہو تا ہے جبکہ سردیوں میں ہوا میں نمی زیادہ اور ہوا کا درجہ حرارت بھی کم ہوتا ہے۔
اسی طرح اگر آپ کپڑے کو اچھی طرح سے پھیلائیں گے تو اپنے پھیلاؤ کی وجہ سے وہ جلدی سوکھ جائے لیکن اگر اس کو پھیلائے بغیر ویسے ہی تار پر لٹکا دیں گے تو وہ شام تک نہیں سوکھے گا۔

پانچویں حکمت


مستقل بیڈ بنانے سے زمین میں فائدہ مند جراثیموں کی بھر پور نشوونما ہوتی ہے

اگر آپ صحت مند زمین سے مٹی کا ایک چمچ لیں تو اس ایک چمچ مٹی میں 7 ارب سے زیادہ فائدہ مند جراثیم پائے جاتے ہیں۔ یعنی جتنی دنیا میں تمام انسانوں کی آبادی ہے اس سے زیادہ حیات صحت مند مٹی کے ایک چمچ میں پائی جاتی ہے۔

زمین میں پائے جانے والے یہ مفید جراثیم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو انسان کی طرح سانس لیتے ہیں اور دوسرے وہ جو مچھلی کی طرح ہوا لگنے سے مر جاتے ہیں۔ جب ہم زمین میں کھلا پانی چھوڑتے ہیں تو وہ جراثیم جو انسان کی طرح سانس لیتے ہیں پانی میں زیادہ دیر ڈوبے رہنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے جراثیم جو مچھلی کی طرح ہوا لگتے سے مر جاتے ہیں، انہیں ہم ہل چلا کر ہوا لگاتے ہیں جس سے وہ مر جاتے ہیں۔

زمین میں ایسے کروڑوں عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے جراثیم ہوتے ہیں جن کی نشوونما بہت ضروری ہے


زمین میں ایسے کروڑوں عام آنکھ سے نظر نہ آنے والے جراثیم ہوتے ہیں جن کی نشوونما بہت ضروری ہے
لیکن جب ہم مستقل بیڈ بنا کر زمین کو کھیلیوں میں پانی لگاتے ہیں تو دونوں طرح کے مفید جراثیم نہ صرف محفوظ رہتے ہیں بلکہ خوب پھلتے پھولتے ہیں۔ لیکن اگر ہم ہل چلا کر کھیت میں کھلا پانی چھوڑیں گے تو کچھ جراثیم پانی میں ڈوب کر اور کچھ ہوا لگنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ یہ جراثیم عام آنکھ سے نظر نہیں آتے البتہ طاقتور شیشوں کی مدد سے انہیں دیکھا جا سکتا ہے۔

انسانی آنکھ سے نظر نہ آنے والے ان مفید جراثیموں کے بارے سائنس دانوں کا علم محدود ہے۔ ان کی انواع و اقسام اور ان کے کردار پر تحقیق جاری ہے۔ یہ جراثیم نہ جانے کون کون سے غذائی اجزاؑ تیار کر کے پودے کو دیتے ہیں جس سے پودا سر سبزو شاداب نظر آتا ہے اور بھر پور پیداوار دیتا ہے۔

چھٹی حکمت


بیڈ بنا کر فصل کاشت کرنے سے کیمیائی کھاد کی ضرورت بہت کم پڑتی ہے۔

جیسا کہ ہم آپ کو بتا چکے ہیں کہ بیڈ بنا کر آب پاشی کرنے سے زمین میں مفید جراثیموں کی پھر پور نشوونما ہوتی ہے۔ یہ جراثیم کھیت میں موجود فصلوں کی باقیات کو پودوں کے دلپسند غذائی اجزاء میں تبدیل کرتے ہیں جس سے پودوں کو کسی طرح کی غذائی کمی نہیں آتی اور کیمیائی کھادوں کا استعمال کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ واضح رہے کہ قدرتی کاشتکاری میں فصلوں کی باقیات کو زمین کے اوپر ہی پڑا رہنے دیا جاتا ہے جسے یہ جراثیم غذائی اجزاء میں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔


اس تصویر میں جراثیم پودے کی جڑوں کے آس پاس دکھائے گئے ہیں جو زمین سے خوراک حاصل کرنے میں پودے کی مدد کرتے ہیں
جب آپ نئے نئے بیڈ بنائیں تو اس وقت ہو سکتا ہے آپ کو دو چار کلو فی ایکڑ کھاد ڈالنے کی ضرورت پڑے لیکن جب یہ جراثیم اپنی آبادی بڑھا لیتے ہیں اور اپنا کام شروع کر دیتے ہیں تو پھر کسی طرح کی کیمیائی کھاد کی ضرورت نہیں پڑتی۔

ساتویں حکمت


بیڈ بنا کر پانی لگانے سے پانی کی خاطر خواہ بچت ہوتی ہے۔

جب ہم زمین میں کھلا پانی چھوڑتے ہیں تو اس پانی کا 10 فیصد حصہ زمین کی گہرائی میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ 70 فیصد پانی زمین سے براہ راست ہوا میں اڑ جاتا ہے۔ کھلا پانی چھوڑنے کی صورت میں پودا صرف 10 سے 20 فیصد ہی پانی استعمال کر پاتا ہے اور باقی سارا پانی ضائع ہو جاتا ہے۔

یہ بات تجربات سے ثابت ہے کہ بیڈ بنا کر اگر فصل کاشت کی جائے اور زمین کو کھاس پھوس سے ڈھانک کر رکھا جائے تو پانی کی 80 فیصد تک بچت ہوتی ہے۔

واضح رہے کہ لاکھوں روپے کا ڈرپ آبپاشی نظام لگا کر جتنے پانی کی بچت ہوتی ہے، کم و بیش اتنے ہی پانی کی بچت مفت میں بیڈ بنا کر ہو جاتی ہے۔ مزید یہ کہ ڈرپ آبپاشی نظام کے فوائد، بیڈ آبپاشی کے مقابلے میں کئی حوالوں سے کم ہیں جنہیں آنے والے مضامین میں بیان کیا جائے گا۔

آٹھویں حکمت


بیڈ بنا کر فصل کاشت کرنے سے پودوں کی جڑوں کا نظام زیادہ مضبوط ہوتا ہے

پودا خود تو ساکن ہوتا ہے لیکن اس کی جڑیں زمین میں چلتی پھرتی رہتی ہیں۔ یہ جڑیں زمین میں چل پھر کر اپنی خوراک تلاش کرتی ہیں۔ پودے کو جس طرف پانی نظر آتا ہے جڑیں اس طرف کو بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ پودے کے لئے بہت ضروری ہوتا کہ وہ اپنی جڑوں کا جال دور دور تک پھیلائے۔ کیونکہ جتنا بڑا جال ہو گا اتنی ہی زیادہ خوراک پودا زمین سے حاصل کر سکے گا۔ مثال کے طور پر اگر آپ کے پاس مچھلی پکڑنے کے لئے بڑا جال ہو تو اس میں زیادہ مچھلی آتی ہے لیکن اگر جال ہی چھوٹا ہو تو اس میں بہت کم مچھلی آتی ہے۔ اس لئے پودے کی جڑ کے جال کا بڑا ہونا بہت ضروری ہے۔



بیڈ پر موجود پودے نے کھیلیوں سے پانی حاصل کرنے کے لئے اپنی جڑیں دور دور تک پھیلا رکھی ہیں
خوراک کے علاوہ پودے کی جڑوں کا جال پودے کو زمین میں مضبوتی سے گاڑ کر رکھتا ہے۔ اگر جڑیں مضبوط ہوں گی تو فصل کبھی بھی آندھی وغیرہ چلنے سے نہیں گرے گی چاہے پانی لگانے کے فوراََ بعد ہی آندھی آ گئے۔

اب سوال یہ ہے کہ پودے کی جڑوں کا جال بڑا کیسا ہو گا؟

اس بات کو سمجھنے کے لئے مثال بالکل سادہ ہے۔ اگر پانی کا گلاس آپ کے دائیں ہاتھ کے بالکل ساتھ پڑا ہوا ہے تو آپ وہیں سے اٹھا کر پی لیں گے۔ لیکن اگر یہی گلاس دو فٹ دور پڑا ہوا ہے تو پھر آپ کو گلاس اٹھانے کے لئے اپنے بازو کو حرکت دے کر دور لے جانا پڑے گا۔ لہذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ پودے کی جڑوں کا جال بڑا ہو تو ہمیں پانی پودے سے دور رکھنا پڑے گا۔ اور یہ کام بیڈ یا پٹڑیاں بنا کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ سوائے گاجر مولی وغیرہ کے اکثر پودوں کی جڑیں چار چار پانچ پانچ فٹ گہرائی تک چلی جاتی ہیں اور اگر حالات سازگار ہوں تو اسی طرح اطراف میں بھی پھیلتی ہیں۔

یہاں پر میں آپ سے ایک دلچسپ سوال پوچھتا ہوں۔

فرض کریں کہ آپ نے 42 انچ کے بیڈ پر گندم کی 5 لائنیں لگائی ہوئی ہیں۔ باہر والی دو دو لائنیں پانی کے ذیادہ قریب ہیں اور درمیان والی ایک لائن پانی سے دور ہے۔ اب آپ یہ بتائیے کہ کون سی لائنیں زیادہ صحت مند ہوں گی؟ درمیان والی ایک لائن یا باہر والی دو دو لائنیں؟

یہ سوال جس سی بھی پوچھا جاتا ہے وہ اس کا یہی جواب دیتا ہے کہ باہر والی دو دو لائنیں چونکہ پانی کے ذیادہ قریب ہیں اس لئے وہ زیادہ صحت مند ہوں گی۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔

سالہا سال کے مشاہدے سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ درمیان والی وہ لائن جو پانی سے زیادہ دور ہے وہ زیادہ صحت مند اور خوش باش ہوتی ہے بہ نسبت ان لائنوں کے جو پانی کے بالکل قریب ہوتی ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر والی لائن کے پودوں کو پانی کی تلاش کرنے کے لئے کہیں جانا ہی نہیں پڑا انہیں وہیں پر پانی مل جاتا ہے۔ جبکہ درمیان والی لائن کو پانی کی تلاش میں 21 انچ دور جانا پڑے گا جس سے پودے کی جڑوں کا جال زیادہ پھیل پھیل جائے گا اور جڑوں کے پھیلاؤ اور مضبوطی کی وجہ سے پودے کو خوراک زیادہ ملے گی اور پودا زیادہ صحت مند ہو گا۔ درمیان والی لائن کا سٹہ بھی پہلے نکلے گا ، اس کا سٹہ لمبا بھی ہو گا اور پودا بھی خوش حال ہو گا۔

نویں حکمت

بیڈ بنا کر آب پاشی کرنے سے آپ کی زمین کلرزدہ نہیں ہوتی

ایک بات ذہن میں رہے کہ کوئی پانی ایسا نہیں ہے جس میں نمکیات نہیں ہوتے۔ بلکہ نہری پانی میں بھی نمکیات کی مقدار 500 سے 1000 پی پی ایم تک ہوتی ہے۔

ننگی زمین پر پانی کھلا چھوڑنے کی صورت میں 70 فیصد پانی کھیت سے براہ راست ہوا میں اڑ جاتا ہے۔ اسی طرح 10 فیصد پانی زمین کی گہرائی میں بہہ کر ضائع ہو جاتا ہے۔ اور باقی پانی جسے زمین جذب کر لیتی ہے اس میں سے بھی پانی کا کچھ حصہ زمین کے مساموں سے بخارات بن کر ہوا میں اڑ جاتا ہے۔ باقی 10 سے 20 فیصد پانی رہ جاتا ہے ہے جسے پودا اور زمین میں موجود دوسرے جراثیم استعمال کر تے ہیں۔

پانی کا وہ حصہ جو زمین کے مساموں سے یا کھیت کی سطح سے براہ راست ہوا میں اڑ جاتا ہے وہ زمین میں کلر پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔

دراصل جب پانی ہوا میں اڑتا ہے تو وہ خالص شکل میں اڑتا ہے۔ اور جب پانی اڑتا ہے تو وہ اپنے پیچھے زمین میں نمکیات چھوڑ جاتا ہے جس سے زمین میں نمکیات کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ جب ہماری زمین کلراٹھی ہو جاتی ہے یا دوسرے لفظوں میں زمین کی پی ایچ بڑھ جاتی ہے۔

بیڈ بنا کر پانی لگانے سے چونکہ بہت کم پانی ہوا میں اڑتا ہے اس لئے آپ کی زمین کلر جیسے مسائل سے محفوظ رہتی ہے۔

دسویں حکمت


بیڈ کاشت میں بارش کی صورت میں اضافی پانی کھیت سے نکل جاتا ہے

یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ زیادہ بارش ہو جائے اور پانی کھیت میں 48 گھنٹوں سے زائد وقت کے لئے کھڑا رہے تو پودے دم گھٹنے سے مر جاتے ہیں۔

لیکن اگر آپ نے بیڈ بنا کر فصل کاشت کر رکھی ہے تو اضافی پانی ان کھیلیوں کے ذریعے کھیت سے باہر نکل جاتا ہے جس سے آپ کی فصل محفوظ رہتی ہے۔

آخری بات


ایک سوال جو آپ کے ذہن میں پیدا ہو سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اگر چوڑے چوڑے بیڈ بنا کر ان پر فصل کاشت کریں تو کیا پانی بیڈ کے درمیان تک پہنچ پائے گا؟

تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ ساڑھے تین فٹ کا بیڈ بنا کر اگر فصل کاشت کریں تو پانی باآسانی بیڈ کے درمیان تک چلا جاتا ہے، بشرطیکہ آپ کی زمین کی پی ایچ ساڑھے ساتھ کے آس پاس ہو یعنی آپ کی زمین میں نمکیات زیادہ نہ ہوں۔


ساڑھے تین فٹ کے بیڈ میں پانی باآسانی جذب ہو جاتا ہے

ہاں اگر آپ کی زمین کی پی ایچ ساڑھے سات سے زیادہ ہے تو پھر اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ زمین کو پانی لگائیں اور جب زمین وتر آ جائے تو ہل چلا کر بیڈ بنائیں اور وتر میں ہی فصل کاشت کر دیں۔ جب پودے کا اگاؤ ہو جائے گا اور وہ اپنی جڑیں بنا لے گا تو پھر پودا خود ہی جڑوں کے ذریعے پانی حاصل کر لے گا۔ واضح رہے کہ پودے کی جڑیں خود ہی اس طرف بڑھنا شروع کر دیتی ہیں جس طرف پانی ہوتا ہے۔ اور پھر جب دو تین ہفتوں میں جڑیں لمبی ہو جاتی ہیں تو جڑوں کی وجہ سے زمین کھل جاتی ہے اور پانی جذب ہو کر بیڈ کے درمیان تک پہنچنا شروع ہو جاتا ہے۔

تحریر
ڈاکٹر شوکت علی
ماہر توسیع زراعت، فیصل آباد

یہ مضمون لکھنے کے لئے محترم آصف شریف کے افکارو تجربات سے خوشہ چینی کی گئی ہے۔
لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget