سٹرابیری کی کاشت

سٹرابیری ایک نہایت دیدہ زیب اور نفیس پھل ہے۔ جس میں وٹامن سی کی کافی مقدار موجود ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ نکمیات اور معدنیات پائے جاتے ہیں۔ سٹرابیری کو تازہ پھل کے علاوہ آئس کریم، کیک، جیلی اور دیگر مصنوعات میں استعمال کیا جاتا ہے۔

سٹرابیری کا پودا چھوٹا ہوتا ہے جس کی اونچائی تقریباً 35-30 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ یہ دائمی پودا ہے۔ اس کے پتے سبز اور کنارے دانے دار ہوتے ہیں۔ جڑیں زمین میں40-30سینٹی میٹر گہرائی میں چلی جاتی ہیں۔

کاشت کے علاقے
پاکستان میں سٹرابیری کی جنگلی خودرو اقسام مری، ہزارہ، گلگت، کاغان اور باقی شمالی علاقہ جات میں پائی جاتی ہیں۔ یہ پھل ملک کے مختلف علاقوں یعنی لاہور، سیالکوٹ، گجرات، جہلم، راولپنڈی، اسلام آباد، اٹک، ہزارا اور پشاور میں کاشت کیا جاتا ہے۔ وادی سوات اس کی کاشت کے لیے موزوں علاقہ ہے جب کہ بلوچستان کے کئی حصوں میں بھی اس کی کاشت کامیابی سے ہوتی ہے۔

اقسام
یوں تو سٹرابیری کی کئی اقسام ہیں لیکن ہمارے ہاں موسم کی مناسبت سے بہتر پیداوار دینے والی اقسام مندرجہ ذیل ہیں:
چانڈلر
ٹورو
پوکاہونٹس
ٹفٹس
کروز
ڈگلس
پجیرو

ان میں ڈگلس، پجیرو اور چانڈلر اقسام کا پھل سائز کے اعتبار سے دوسری اقسام کی نسبت بڑا ہوتا ہے اور میٹھا بھی زیادہ ہوتا ہے۔

آب و ہوا
معتدل آب و ہوا والے علاقے اس کی کاشت کے لیے بہت موزوں ہیں۔ جب پھول نکل آئیں تو اس کے لیے کہر اور بارش نقصان دہ ہوتے ہیں۔

زمین اور اس کی تیاری
یہ پودا تقریباً ہر قسم کی زرخیز اور قابل کاشت زمین میں اگایا جا سکتا ہے۔ نرسری کی افزائش کے لیے زمین اگر ریتلی ہو تو زیر بچے زیادہ مقدار میں حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اچھی زرخیز اور تیزابی اثر رکھنے والی زمین اس کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔

کاشت سے قبل زمین کو اچھی طرح تیار کر لینا چاہیے۔25-15ٹن فی ایکڑ گوبر کی اچھی طرح گلی سڑی کھاد ملا کر کئی بار ہل چلانا چاہیے۔ کمزور زمینوں میں امونیم سلفیٹ 400کلو گرام فی ایکڑ، سپر فاسفیٹ 240کلو گرام فی ایکڑ اور پوٹاشیم سلفیٹ120کلو گرام فی ایکڑ استعمال کر کے زیادہ پیداوار لی جا سکتی ہے۔ نیز زمین کو تیار کرتے وقت اس کی ڈھلوان کا خیال رکھنا چاہیے تا کہ بارشوں میں پانی کھڑا نہ ہو سکے۔

کھاد کا استعمال
جب پودے بڑھوتری کے دنوں میں ہوں تو ان کو ایک گرام یوریا کھاد فی لیٹر پانی میں ملا کر سپرے کرنے سے بڑھوتری پر اچھے اثرات پڑتے ہیں۔ سپرے سے پودا مکمل طور پر بھیگ جانا چاہیے۔

طریقہ کاشت و موسم
سٹرابیری کو مختلف طریقوں سے کاشت کیا جاتا ہے۔ اس کے پودے گملوں میں بھی لگائے جاتے ہیں لیکن تجارتی پیمانے پر اس کی کاشت کے لیے پٹریاں بنائی جاتی ہیں جن کی اونچائی30سینٹی میٹر اور چوڑائی70-60سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ پٹری سے پٹری کا فاصلہ35-30 سینٹی میٹر اور پودوںکی قطار سے قطار کا فاصلہ بھی اتنا ہی ہونا چاہیے۔ پودے ایک دوسرے کے سامنے نہیں لگانے چاہئیں بلکہ متبادل کاشت کرنی چاہیے۔ اس کے علاوہ انفرادی قطاروں میں بھی اس کی کاشت کی جا سکتی ہے۔ نرسری میں پودوں کا درمیانی فاصلہ زیادہ رکھنا چاہیے تا کہ زیربچوں کو پھلنے پھولنے ک لیے زیادہ جگہ مل سکے۔ پاکستان میں آب و ہوا اور حالات کے لحاظ سے موسم سرما کی کاشت موزوں ہے۔ نرسری سے اکتوبر، نومبر میں پودے اکھاڑ کر انہیں نومبر، دسمبر میں تیار شدہ زمین میں لگانا چاہیے۔ پودوں کو منتخب کرتے وقت صحت مند ساق روں رنرز (Runners) کا چناؤ کرنا چاہیے۔پودا لگانے سے پہلے اس کے فالتو پتے اور جڑیں کاٹ دینی چاہئیں۔ کاشت سے پہلے ساق روں کو کولڈ سٹوریج میں6-2سینٹی گریڈ پر20-15دن تک رکھنے سے پودوں کی مطلوبہ ٹھنڈک کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ کولڈ سٹوریج میں رکھنے سے پہلے پودوں کو پھپھوندی کش دوا لگانی چاہیے۔ اس کے لیےBenlate، Dithane وغیرہ موزوں ہیں۔

نرسری اور پودوں کا حصول
صحت مند اور تندرست زیر بچے حاصل کرنے کے لیے پہاڑی علاقوں میں نرسری لگانی چاہیے۔ پہاڑی علاقوں میں افزائش نسل کے لیے موسم سازگار ہوتا ہے اور پودے کی ٹھنڈک کی ضرورت بھی پوری ہو جاتی ہے۔ زیر بچے سوات میں واقع نرسریوں یا کاشتکاروں سے حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

آبپاشی
پودوں کو لگاتے وقت پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ کاشت کے وقت پودوں کو کسی ٹھنڈی جگہ یا گیلی بوری یا پانی میں رکھنا چاہیے تا کہ جڑی سوکھ نہ جائیں۔پودے لگانے کے فوراً بعد ان کو پانی دینا چاہیے۔ بڑھوتری کے دوران پانی کا خاص خیال رکھنا چاہیے۔ پہلے15-10دنوں تک اگر موسم گرم ہو تو روزانہ مناسب پانی لگانا چاہیے۔پھل کے موسم میں پھل اتارنے کے بعد پانی دینے سے پھل کا سائز بڑا ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آبپاشی ضرورت کے مطابق کرنی چاہیے۔ اگر موسم گرم ہو تو آبپاشی کے دوران وقفہ کم کر دینا چاہیے۔ بالیدگی کے لیے10-7دن بعد کھلا پانی لگانا چاہیے۔ بہت گرم دنوں میں ہر دوسرے دن پانی لگانے پودے جھلساؤ سے محفوظ رہتے ہیں۔

جڑی بوٹیوں کا انسداد
جڑی بوٹیوں سے سٹرابیری کے پودے کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذا پودوں کے اردگرد گوڈی کر کے جڑی بوٹیوں کو صاف کرتے رہنا چاہیے۔ گوڈی سے نہ صرف پودے کے اردگرد کی زمین صاف ہو جاتی ہے بلکہ زمین کیAeration بھی ہو جاتی ہے۔ جڑی بوٹیوں کے انسداد کے لیے بوٹی مار ادویات کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔

کیڑے مکوڑے، بیماریاں اور ان کا تدارک
پاکستان میں اس وقت سٹرابیری محدود علاقوں پر کاشت ہورہی ہے جس کی وجہ سے ان پر کیڑوں اور بیماریوں کا حملہ بہت کم ہوتا ہے۔سٹرابیری کے پودوں پر رس چوسنے والے کیڑوں (تیلا اور جوئیں) کا حملہ ہوتا ہے جس سے پودے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔کیڑوں کے علاوہ سفید پھپھوندی اور پھل کا گلنا سڑنا اس کی عام بیماری ہے۔ اس سے پھل کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔ ان سے بچاؤکے لیے میلا تھیان اور بینلیٹ کا سپرے ضروری ہے۔تنے کی سنڈیوں کے تدارک کے لیے کونفیڈور اور بینلیٹ کا استعمال کریں۔

پرندوں سے حفاظت
بعض اوقات سٹرابیری کی فصل کو پرندے خاص طور پر کوے اور طوطے بہت نقصان پہنچاتے ہیں۔اس صورت میں کھیت کے قریب ڈھول یا پوٹاش کی دھماکہ خیز آوازیں پیدا کریں تا کہ پرندے ڈر کر اڑ جائیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں پرندوں کے تدارک کے لیے تمام کھیت پر جال لگایا جاتا ہے۔ جس سے تمام فصل پرندوں کے حملے سے محفوظ رہتی ہے۔ ایک بار خریدا ہوا جال چار پانچ سال تک استعمال کیا جا سکتا ہے۔

فصل کی برداشت
اگر موسم موزوں رہے تو میدانی علاقوں میں سٹرابیری کے پودے فروری کے آخر یا مارچ کے پہلے ہفتے میں پھول دینا شروع کر دیتے ہیں۔ پھولوں کی بارآوری ہوا اور کیڑوں سے ہوتی ہے۔ لہذا تجارتی پیمانے پر بارآوری کے لیے شہد کی مکھیوں کے چھتے رکھ دئیے جاتے ہیں۔ پھول سے پھل بننے تک تقریباً30 دن لگتے ہیں لیکن اس کا انحصار موسمی حالات پر ہے۔ پھول کھلنے کے دنوں میں بارش اور خصوصاً ژالہ باری بہت نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ اس سے بچنے کے لیے پلاسٹک کی ٹنل(Tunnel )استعمال کی جا سکتی ہے۔

پھل جب اپنا اصلی رنگ پوری طرح پکڑ لے تو اس کو برداشت کر لینا چاہیے۔ پھل اتارنے کے دنوں میں آبپاشی سے مناسب سائز کا پھل حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن زیادہ پانی دینے اور پانی کھڑا رہنے سے پھل گل سڑ جاتے ہیں۔ پھل کے آس پاس پانی کھڑا نہیں رہنا چاہیے۔

پھل اتارنے کی احتیاطی تدابیر
٭  پھل ہاتھوں سے توڑنا چاہیے۔ پھل کے ساتھ تقریباً ایک انچ سے زیادہ ڈنڈی نہیں ہونی چاہیے۔

٭ پھل صبح سویرے توڑ کر چھاؤں میں رکھ دینا چاہیے اور گل سڑ جانے والے پھل توڑ کر علیحدہ رکھ دینے چاہئیں۔

٭ پھل اتارتے وقت پودے کے چاروں طرف دیکھنا چاہیے کہ کوئی پکا ہوا پھل اتارنے سے رہ نہ جائے۔

٭ پھل کو پلاسٹ یا کسی دوسری ٹوکری میں احتیاط سے منڈی تک پہنچانا چاہیے۔ ایک ٹوکرے یا کریٹ میں زیادہ پھل نہیں ڈالنا چاہیے۔ اس سے نچلے پھل دب جانے سے زخمی ہو جاتے ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget