کپاس کی فصل کو کونسی بیماریاں نقصان پہنچاتی ہیں؟

کپاس میں بیماری کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوتا۔ تاہم مختلف موسمیاتی اور کاشتی حالات میں بعض اوقات بیماریا۔ ں بھی شدید نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ کپاس میں جڑکا گالا، مرجھاؤ اور وائرسی بماریاں نقصان کرتی ہیں ۔ شدیدگرم موسم میں بعض اوقات کپاس کے پتوں کا سرخ جھلساؤ بھی پہنچا سکتا ہے۔ مرجھاؤ اور وائررس کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے

الف ۔جڑوں کا گالا یا مرجھاؤ:

یہ بیماری عام طورپر ایسے کھیتوں میں زیادہ لگتی ہے جہاں برس ہا برس سے مسلسل کپاس ہی کاشت کی جارہی ہو ۔ اسے کنٹرول کرنے کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز دی جاتی ہیں:

1 غیر کیمیائی طریقہ:

اس بیماری سے بچاؤ کے لئے کاشتی امور کی بہتری کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ جس کھیت میں ایک سال جڑکا گالا یا مرچھاؤ کی بیماری زیادہ پائی گئی ہو اگلے سال اس میں کپاس کاشت نہ کی جائے۔ بلکہ کچھ رقبے پر مونجی یا کماد کاشت کردیا جائے تو اگلے کئی سالوں کے لئے بیماری کے جراثیموں کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ قوتِ مدافعت رکھنے والی اچھی اقسام کاشت کی جائیں۔ مثلاً ایف ایچ 142 اور ایف ایچ لالہ زار اس بیمار ی سے کم متاثر ہوتی ہیں۔

کیمیائی طریقہ:

بیج کو دوائی لگاکر کاشت کریں تو بھی یہ بیماری کم ہوجاتی ہے۔ بیج کو مونسرین لگاکر کاشت کیا جائے تو اس بیماری کا حملہ کم سے کم ہوتاہے۔ ابتدائی مرحلے پر یہ بیماری 300 گرام ٹاپسن ایم یا تھایو فیٹیٹ استعمال کرکے کافی حدتک کنٹرول کی جاسکتی ہے۔

ب - پتوں کا جھلساؤ:

پتوں کا جھلساؤ شدید گرمی کی وجہ سے ہوتاہے۔ اس لئے بچاؤ کے لئے ڈائنامٹی 2 ملی لٹر یا کا پر آکسی کلورائیڈ (خاص طورپر کوباکس) 4 گرام فی لٹر پانی میں ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

ج - وائرس:

اگرچہ وائرس کے خلاف مختلف اقسام میں فرق پایاجاتاہے۔ لیکن کاشتکار کو اس بات سے باخبر رہنا چاہئے کہ شدید گرم و خشک آب و ہو امیں کوئی بھی قسم وائرس سے متاثر ہو سکتی ہے۔ کپاس کے نئے وائرس کانام بورے والا و ائرس ہے۔ گلوبل وار منگ کے نتیجے میں سابقہ عشروں کے مقابلے میں حالیہ سالوں کو موسم زیادہ گرم رہنے لگ گئے ہیں۔ گرمی اور ھبس کے نتیجے میں وائرس کاحملہ زیادہ ہوتاہے۔

 وائرس کنڑول کرنے کے لئے کیا کجائے؟

وائرس کے اثرات کو کم سے کم سطح پررکھنے میں اقسام اور زہروں کے مقابلے میں انتظامی امور Practices) (Management زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔

۔ کپاس کی قوتِ مزاحمت رکھنے والی اقسام کی اگیتی کاشت کی جائے ۔ مثلاً ایف ایچ ۔ 142 ، ایم این ایچ۔ 886 علی اکبر 703 یا ٹارزن ۔ 1 فروری مارچ میں کاشت کی جائیں۔ایم ایچ ۸۸۶ میں بی ٹی ٹاکسن کافی کم مقدار میں ہوتاہے اس لئے گندم کے بعد کاشت کی جائے تو درمیانے موسم میں اس قسم پر بھی وائرس کا حملہ کم ہوتاہے ۔ جن اقسام میں بی ٹی ٹاکسن زیادہ ہوتاہے ۔ گندم کے بعد کاشت کی صورت میں ان پر وائرس کا حملہ بھی زیادہ ہوتاہے۔ سال 2010 کے دوران کپاس کی بیشتر اقسام پر وائرس کا شدید حملہ ہوا لیکن غیر بی ٹی اقسام اور وہ اقسام جن میں بی ٹی ٹاکسن کم ہوتاہے۔ (مثلاً الیف ایچ ۔ 142الیف ایھ ۔ لالہ زادہ آئی آر ۔ 5 ، ایم این ایچ 886 ، ایم این ایچ 802 اور سی 127) ان پر وائرس کا حملہ بھی کم ہوا ۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ ٹاپسن کی حامل اقسام کو فروری مارچ میں کا۔ شت کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔
۔ کپاس کی مڈھ فروری سے پہلے پہلے تلف کردیے جائیں۔ تاکہ ان پر پلنے والے کیڑے نئی فصل پر منتقل نہ ہو سکیں۔
۔ ہو ا کے آزادانہ گزرنے کے لئے شرقاً غر با بجائی کرنے کی بجا ئے شمالاً جوباً قطاروں میں کاشت کی جائے۔ ڈرل سے کاشتہ کپاس پر پٹٹریوں پر کاشتہ فصل کے مقابلے میں وائرس کا زیادہ حملہ ہوتاہے۔
۔ کپاس کے کیڑوں خصوصاً سفید مکھی اور چست تیلے کو صرف کیڑے مار زہروں سے تلف کرنے کے بجائے اس کے ساتھ ساتھ دوست کیڑوں کو بھی فروغ دیا جائے۔
۔جڑی بوٹیوں پر کپاس کے کیڑے پرورش پاتے ہیں۔ اس فصل کو جڑی بوٹیوں سے پاک رکھا جائے۔
۔کپاس کی خوراکی اور آبی ضروریات کا خاص خیال رکھاجائے ۔ گرمی کے دوران یوریا کم مقدار میں ڈالی جائے ۔ فوری اثر کرنے والی یوریا کھاد کی بجا ئے کپاس کو امونیم نائٹریٹ ڈالی جائے۔ وائرس کی ابتدائی علامات ظاہرہونے پر با اعتبار کمپنی کی NPK سپرے کی جائے۔
۔ وائرس سے بری طرح متاثر پودوں کو نکال دیا جائے۔ اگر چند ٹینڈوں کے حامل پودے وائرس سے متاثر ہوجا۔ ئیں تو ان کی چوٹیاں کاٹ دی جائیں۔
۔ این ایف سی فیصل آباد کا تیار شدہ CMM نصف کلو گرام 100 لٹر پانی میں ملا کر بارشی سیزن شروع ہونے سے پہلے پہلے گرم و خشک موسم میں دس دس دن کے وقفے سے دو مرتبہ سپرے کیا جائے تو گندم کے بعد کاشتہ کپاس بھی کافی حد تک وائرس سے محفوظ رہتی ہے۔

کپاس کا قد کنٹر ول کرنا:

کچھ عرصہ بعد کپاس کی بڑے قد والی اقسام کاشت کی جاتی تھیں۔ ان کے گرنے یا بے ثمر (Fruitess) رہنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ اگر کپاس کا قد زیادہ بڑھ رہا ہو تو ٹینڈے کم لگتے ہیں، کافی زیادہ پھول اور ٹینڈے گرجا۔ تے ہیں، فصل کے گرنے اور ٹینڈوں کے گلنے کا امکان بڑھ جاتا ہے، فصل کی پکائی میں تاخیر ہوجاتی ہے، فصل کی نگہدا شت اور سپرے وغیرہ میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ اس لئے ان کا قد مناسب حد تک روکنے Rationalize کرنے کے لئے مختلف تدابیر اختیار کی جاتی تھیں۔ اگرچہ کپاس کی بیشتر حالیہ اقسام کاقد زیادہ نہیں ہوتا۔ مثلاً ایف ایچ 114 اور نبجی آئی آر۔ 5 کافی چھوٹے قد کی ہیں ایف ایچ۔ 142 ، ایم این ایچ 886، ایف ایچ ۔ لالہ زار ار ایف ایچ ۔ ٹور درمیانے قد کی حامل اقسام ہیں۔ ان اقسام کو مئی میں کاشت کی صورت میں قد روکنے والے مرکبات سپرے کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔ لیکن بعض اقسا۔ م قدرتی طورپر بڑے قد والی ہوتی ہیں۔ مثلاً بی ٹی ۔ 121 اور السیمی۔ 151 جیسی اقسام قدرتی طور پر زیادہ قد کی حامل ہیں۔ ان جیسی اقسام کا قد ضرورت سے زیادہ بڑھنے لگے تو اسے کنٹرول کرنے کی تدبیر کرنی چاہئے۔ وقتِ کاشت ، کھاد، پانی ، بارش یا پودوں کی تعداد کی تغیرات کی مناسبت سے چھوٹے قد والی اقسام کا قد بھی بعض اوقات حد سے زیادہ بڑھنے لگتاہے۔ کسی بھی مرحلے پر قد زیادہ بڑھنے لگ جائے تو پھل کم لگتاہے۔ ایسی صورتحال میں کپاس کا قد کنٹر ول کرنا ضروری ہوتاہے۔


قد کنڑول کرنے کے لیے کھاد، پانی کا متناسب استعمال بہت ضروری ہوتا ہے۔ کسی بھی مرحلے پر نائٹروجنی کھاد کا بھر پور استعمال پھل آوری سے روک کر قد آور ی کی جانب مائل ہوسکتاہے۔ اس طرح آبپاشی کنڑول کرکے بھی قد کنڑ۔ ول کیا جاسکتاہے۔ کھاد، پانی اور موسم کا اجتماعی عمل ہوجائے تو کسی بھی قسم کا قد بڑھ سکتاہے۔ ایسی صورت میں کیمیائی کھادوں کا استعمال ناگزیر ہوجاتا ہے۔ چنانچہ قد کو متو ازن رکھنے والی زہر سٹانس 30 ملی لٹر فی ایکڑ کے حساب سے سو لٹر پانی میں ملا کر سپرے کرنے کی سفا۔ رش کی جاتی ہے۔ سٹافس کا استعمال مارچ کاشتہ کپاس میں 60تا70 دن بعد جبکہ مئی کاشتہ کپاس میں 50 دن بعد از کاشت شروع کیا جاسکتاہے۔ درمیانے قد والے اقسام کا قد اکثر ایک سپرے سے ہی کنڑول کیاجاسکتاہے۔ اگر کھاد کی فروانی یا باریشی ماحول کے تسلسل کے نتیجے میں کپاس تیزی سے بڑھ رہی ہو تو اس کی مناسب ٹریٹنگ کا طریقہ یہ ہے کہ12 تا15 دن کے وقفے سے دو تا چار مرتبہ سپرے کی جائے ۔ قد روکنے والی زہر کیڑے ما ر زہروں کے ساتھ ملاکر سپرے کی جاسکتی ہے۔ سپرے کرنے سے نہ صرف فصل کا فالتو قد کنٹرول ہوجاتاہے بلکہ پیداوار بھی زیادہ حاصل ہوتی ہے۔ کاشتکار کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ قد کنٹرول کرنے والے مرکبات (سٹازس 30 ملی لٹر اپکس 100 ملی لٹر یا فائنو فکس 80 ملی لٹر فی ایکڑ) کے غیر ضروری استعمال سے فصل کی شکل خراب ہوسکتی ہے۔ اور پیداوار متاثر ہوسکتی ہے۔ اس لئے مناسب رہنمائی لے کر ان کا استعمال کیا جائے۔

پھول گڈی گرنے سے نچانا:

پھول گڈی گرنے کاعمل ایک حد تک قدرتی عمل ہے۔ لیکن بعض اوقات پھول اور کچے ٹینڈے حد سے زیادہ ہی گر جاتے ہیں۔ ٹینڈے گرنے کا عمل بیک وقت (Simultaneously) کئی وجوہات کے اجتما عی عمل کے نتیجے میں ظاہر ہوتاہے۔ جن میں خوراک، پانی کا غیر متناسب استعمال اور شبانہ روزگرمی کی شدت (Heat index) زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ موسمی تغیرات اور کھادوں کا غیر متناسب استعمال کی وجہ سے پھول و ٹینڈے گرنے کا عمل زیادہ شدت کے ساتھ واقع ہوتاہے ۔ نائٹروجنی کھادوں کا بے وقت استعمال، زمینی زرخیزی اور فضائی نمی کی فراوانی کی وجہ سے وسطی پنجاب میں کپاس کا فاضل نشوونما کر جانا بھی ٹینڈے گرنے کی بڑی وجہ ہے۔ اس لئے کھادوں اور پانی کا متناسب استعمال یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ پودوں اور قطاروں کا فاصلہ زمینی ساخت، زرخیزی، طریقہ کاشت، وقتِ کاشت اور اقسام کی مناسبت سے متعین کیاجائے ۔ کمزور فصل پر کھادیں خصوصاً پوٹاش اور بوران کی حامل فولیر کھادیں سپرے کرنے سے کیرا روکنے میں مددملتی ہے۔ پھول آوری کو دوران امائنو ایسڈ، بوران اور گروتھ ہارمون سپرے کیے جائیں تو ٹینڈے گرنے کاعمل کافی حد تک رک جاتاہے۔

سپرے کے دوران سرزدہونے غلطیاں

الف - سکا وٹنگ کے بعد سپرے:

کئی کاشتکار اندھا دھند سپرے کرتے ہیں۔ اندھا دھند سپرے کرنے کے بجائے کیڑوں کی ضرررساں حد تک موجودگی کا اندازہ لگانا ضروری ہے۔ چنانچہ پچاس ایکڑ کے کھیت میں ہر ہفتے مختلف مقامات کے کم ازکم تیس پودوں کے تیس درمیانی اونچائی والے پتوں کا معائنہ کر کے مختلف کیڑوں کی موجودگی کا مشاہدہ ( پیسٹ سکاو ٹنگ ) کیا جائے محتاط مشاہدے کاعمل صبح یا شام کے ٹھنڈے وقت کے دوران کیا جائے ۔

ب - فصل کی سٹیج کی مناسبت:

مختلف کیڑوں کے لئے چھوٹی سٹیج پر قدرے نرم Soft اور لیٹ سٹیج پر سخت زہریں سپرے کرنے کی کوشش کی جا۔ ئے تو بہتر نتائج ملتے ہیں۔ تمام زہریں صبح یا شام کے ٹھنڈے موسم کے دوران استعمال کی جائیں۔

ج - غلط زہر کا انتخاب:
مالی مشکلا ت کے ساتھ ساتھ زہروں کے زمینی صحت و زرخیزی کے ساتھ پیچیدہ تعلق سے بے خبر ی کی وجہ سے بہت سے کاشتکار ڈیلر حضرات کے غلط مشورہ سے غلط زہر خرید کر استعمال کر لیتے ہیں۔
 د - غلط طریقہ استعمال:
حالیہ سالوں کے دوران اکثر کاشتکاروں کو زہروں کو غلط طریقے سے استعمال کرتے ہوئے پایا گیا ۔ بعض اچھی اور طاقت ور زہروں کے بھی نا مکمل نتائج ملنے کی بڑی وجہ غلط طریقہ استعمال ہی پا یا گیا ۔ مثلاً مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے کئی کاشتکار ٹوزل کو لہراتے ہوئے سپرے کرتے ہیں۔ ہر پھیرے میں زیادہ رقبہ طے کرتے ہوئے پاڑے چھوڑ جاتے ہیں۔

ر - ۔پانی کی کم مقدار:

دستی سپر یئر کی مشقت سے بچنے کے لئے زیادہ تر کاشتکار خصو صاً کاشتکاروں کے غلام کام جلد ی ختم کرنے کے لئے پانی کی مقدار سفارش کردہ مقدار کے مقابلے میں کم استعمال کرتے ہیں۔

س - غلط وقتِ استعمال :

زہروں کی طریقہِ عمل سے بے خبری اور نامکمل تربیت کی وجہ سے بہت سے کاشتکار کیڑوں کاشدید حملہ ہونے پر زہر۔ وں کو تاخیر سے استعمال کرتے ہیں۔
ص - مقدار کی کمی بیشی:
مقدار کی کمی بیشی اکثر کاشتکاروں سے ہوجاتی ہے۔ زہریں استعمال کرنا جدید تکنیکی عمل ہے۔ ان کے استعمال کے دوران مقدار کی کمی بیشی والی غلطی تو زرعی ماہرین سے بھی ہوتی ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سپرے جیسا تکنیکی کام اکثر ان پڑھ لوگو ں کے ہاتھوں عمل میں آتاہے۔ غیر تربیت یافتہ آدمی غلط مقدار استعمال کرنے کی وجہ سے بہتر فوائد حاصل نہیں کر سکتا۔

ط۔ خراب سپرے مشین:

معیاری مشین مہنگی ہونے کی وجہ سے اکثر کاشتکار غیر مرتب شدہ اور قطرے ٹپکانے والی، دیسی ساخت کی بھاری چلنے والی مشین سے ہی کام چلاتے ہیں۔ لیکڑیگل سپرے مشین اور بوم کے ذریعے زہریں استعمال کرنے سے بہتر نتائج ملتے ہیں۔

غلط نیوزل کا استعمال:

مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے کپاس کی سٹیج اور نوزل کے تعلق کو پیشِ نہیں رکھتے۔

ق - موسمی حالات سے بے خبری:
زہروں کا موسمی حالات سے بہت گہرا تعلق ہوتاہے۔ کاشتکار تیز دھوپ، ہوا، ابر آلود موسم اور آئندہ ایام کی موسمی پیشگوئی سے بے خبری کے عالم میں سپرے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔

زہروں کا استعمال:

کپاس سے کیڑوں کی تلفی کے لئے سینکڑوں کے حساب سے زہریں منظور ہوچکی ہیں۔ تاہم اختصار کے پیشِ نظر چند اہم اور زیادہ معاری زہریں استعمال کرنے کے لئے مندرجہ ذیل تجاویز پیش کی جاتی ہیں۔

الف - رس چو سنے والے کیڑے:

کم و بیش پہلے ایک ماہ تک ان سے بچنے کے لئے بیج کی براتارنے کے بعدہومبرے 20 ملی لٹر فی کلو بیج کو لگا کر کا۔ شت کریں۔ بیج کو زہر آلود کرکے کاشت کیاجائے تو پہلے تین چار ہفتوں تک کپاس رس چوسنے والے بیشتر کیڑوں سے کافی حد تک محفوظ رہتی ہے۔ کپاس کو ابتدائی مرحلے پر رس چوسنے والے کیڑے زیادہ نقصان پہنچاتے ہیں۔

سست تیلہ:

اگر بیج کو زہر آلو نہ کیا جاسکا ہو اور کپاس مارچ میں کاشت کی گئی ہوتو سست تیلے کا حملہ بھی ہو سکتاہے۔ اگست ستمبر میں موسم زیادہ مرطوب ہوجائے تو عین ٹینڈے کھلنے کے دوران بھی اس کا حملہ ہوسکتاہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے کو نفیڈ۔ ار یا امیڈاکلو پر ڈیا ایڈو انٹیج200 ملی لٹر فی سولٹر پانی میں ملا کر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

تھرپس:

اگرچہ تھرپس کا حملہ کسی بھی وقت ہوسکتاہے۔ لیکن مارچ اپریل کاشتہ کپاس پر اگنے کے بعد پہلے دو ہفتے کے اندر ہی شروع ہوجاتاہے۔ زیادہ شدید حملہ اس وقت ہوتاہے جب فصل گرمی یا سردی کی وجہ سے سختی (Stress) کی شکار ہو۔ اکثر و بیشتر چھوٹی سٹیج پر تھرپس کا حملہ زیادہ شدید ہوتاہے۔ چھوٹی چھوٹی کپاس کو اس سے بچانے کے لئے ٹریسر 40 ملی لٹر یالیسیٹ 40تا60 گرام یا ان کے متبادل زہریں تجویز کی جاتی ہیں۔ اگر لیٹ سٹیج پر اس کا حملہ ہوتو کلو رفیٹا پائر (ایسٹیٹ) یا اس کے متبادل زہر سپرے کی جائے۔

سفید مکھی:

گرم اور خشک موسم میں سفید مکھی کا حملہ شدید تر ہوتاہے۔ جب فصل کو پانی کا سوکا لگ جاتاہے ۔اس وقت اس میں گلوکوز کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے سوکے والی فصل پر سفید مکھی کا زیادہ حملہ ہوتاہے۔ موسپیلان یا ایسیٹاپرڈ کے خلاف سفید مکھی میں قوتِ مزاحمت پیداہو چکی ہے۔ اس وقت یہ زہر اکیلی استعما ل کی جائے تو تقریباً غیر موثر ہو۔ چکی ہے۔ البتہ اسے پائری پروکسی فن کے ساتھ ملاکرا ستعمال کیا جائے تو سفید مکھی کنٹرول ہوجاتی ہے۔ بہتر نتائج کے لئے اگراکیلی بائری پروکسی فن یا مووینٹو میں سے کوئی ایک زہر6 دن کے وقفے سے دومر تبہ سپرے کردی جائے تو تو سفید مکھی کا یقینی خاتمہ ہوجاتاہے۔ شدید حملہ کی صورت میں پائری پروکسی فن اور مووینٹو ملاکر سپرے کردی جائیں تو ایک ہی سپرے سے سفید مکھی کا خاتمہ ہوجاتاہے۔ اگر فصل دہ ماہ کی یا بڑی ہوجائے تو 200 ملی لٹر فی ایکڑکے حسا ب سے پولو جیسی طاقت ور زہر استعمال کی جائے ۔

گدھیٹری یا میلی بگ:

گندم کے بعد کاشتہ کپاس پر کاشتی اور موسمی حالات کی مناسبت سے ماہ جولائی اور اکتوبر کے دوران میلی بگ کا حملہ ہو سکتاہے۔ اس کا حملہ ہر سال یکساں نہیں ہوتا۔ کسی سال کم ہوتاہے۔ اور کسی سال زیادہ ۔ میلی بگ کے حملے کے ابتدائی مرحلے میں جب اگاؤ کا پودوں پر یہ کیڑا نظر آئے تو کو نفیڈار الٹر ایا امیڈا کلوپرڈ بھی اس کو موثر طور پر کنڑول کرسکتی ہیں۔ میلی بگ اگر پورے کھیت میں پھیل جائے اور کافی بڑی بڑی ہوجائے تو لییغا 60 گرام یا پروفینو فاس یا کیورا کران 1000 ملی لٹر یا لارسبن 1000 ملی لٹر شدید حملہ کی صورت میں متاثرہ پودوں پر ایک ہفتے میں دو مرتبہ سپرے کی جائیں۔ اس کے انسداد میں زہر کے ساتھ ساتھ اس کے بہتر استعمال کی اہمیت زیادہ ہے۔

مائٹس یا جوئیں:

گرم اور خشک موسم میں کپاس پر جوؤں کا شدید حملہ ہوسکتاہے ۔ ان سے بچاؤ کے لئے نسوران یا یونیک یا پولو 200 ملی لٹر فی ایکڑ یا 2 ملی لٹر فی ڈائی کو فال 300 ملی لٹر یا اوبیران 60 ملی لٹر سو لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

ڈسکی کاٹن بگ:
بی ٹی اقسام کی آمد سے پہلے کپاس پر سخت زہریں استعمال کی جاتی تھیں۔ وہ زہریں ڈسکی کاٹن بک کو بھی زیرِ کنٹرول رکھتی تھیں۔ لیکن سابقہ عشرے کے دوران کپاس کی بی ٹی اقسام کی کاشت عام ہو گئی جس میں زیادہ سخت کیڑے مار زہر یں استعمال نہیں ہوتی رہیں۔ رس چوسنے والے کیڑوں کے خلاف کم طاقت ور زہریں ڈسکی کاٹن بگ کو پوری طرح تلف نہیں کرتیں۔ اس لئے حالیہ سالوں کے دوران ڈسکی کاٹن بگ کافی اہم کیڑا بن چکاہے۔ اس کی تلفی کے لئے بیٹا سائی ہیلو تھرین پنس ٹرائی ایز وقاس یا فپرونل 400 ملی لٹرسو لٹر پانی میں ملاکر سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ پروفینوفاس بھی اس کیڑے کو 60سے70 فیصد تلف کرتی ہے۔

کپاس کی سنڈیاں:

کپاس کو نقصان پہنچانے والی سنڈیوں میں امریکن سنڈی، چتکبری سنڈی، لشکری سنڈی، گلابی سنڈی، چور کیڑا وغیرہ شامل ہیں۔ بی ٹی اقسام پر سنڈیوں کا حملہ کم ہوتاہے لیکن غیر بی ٹی اقسام پر سنڈیوں کا شدید حملہ ہوتاہے۔

امریکن سنڈی:

غیر جینیاتی اقسام پر امریکن سنڈی شدید حملہ کرتی ہے۔ حالیہ سالوں کے دوران امریکن سنڈی کے خلاف قوتِ مزا۔ حمت رکھنے والی اقسام کی کاشت فروغ پا چکی ہے۔ اس لئے آج کل اس سنڈی کے خلاف اس سے نچاؤ کے لئے چھوٹی سٹیج پر ایمامیکٹن سپرے کی جاسکتی ہے۔ اگر بے خبری کی وجہ سے سنڈیاں بڑی ہو جائیں تو سٹیوارڈ 175 ملی لٹر یا ٹریسر 80 ملی لٹر یا بیلٹ 50ملی لٹریا ریڈی اینٹ 100 ملی لٹر یا پروکلیم بحساب 200 ملی لٹر فی سو لٹر پانی ملا کر سپرے کی جاسکتی ہیں۔

چور کیڑا:

اس کی سنڈیاں کپاس کو اگنے کے پہلے ایک ماہ کے دوران نقصان پہنچاتی ہیں۔ آبپاشی اور بہری زمینوں میں ان کا حملہ کم ہوتاہے لیکن بارانی اور خشک حالات میں ان کا حملہ زیادہ شدید ہوتاہے۔ چو ر کیڑے کی سنڈیا ں کافی موٹی اور مضبوط اور گہرے مٹیالے رنگ کی ہوتی ہیں۔ یہ کے دن وقت فرداًفرداً زمین میں چھپی رہتی ہیں اور رات کے وقت نو خیز پودوں کو زمین کے برابر سے کاٹ دیتی ہیں۔ اس سے بچاؤ کے لئے کراٹے 300 یا ٹال ا سٹار یا بائی فینتھرین 250 ملی لٹر یا اینڈ و سلفان 800 ملی لٹر سو لٹر پانی میں ملاکر شام کے وقت سپرے کی جاسکتی ہیں۔ پہلی آبپاشی کے ساتھ کلورپائری فاس فلڈ کردی جائے تو بھی اس کیڑے کا حملہ نہیں ہوتا۔

چتکبری سنڈی:

اس کا حملہ پھول آوری کے بعد شروع ہوتاہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے دیلٹا میتھرین 300 ملی لٹر یا ہائی فینتھرین 250 یا ٹریسر 80ملی لٹر فی ایکڑ استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس مقصد کے لئے ٹرائی ایزو فاس یا کراٹے بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔

لشکری سنڈی:

آلو کے بعد مارچ اپریل میں اگیتی کاشتہ کپاس پر لشکری سنڈی کا شدید حملہ ہوسکتاہے ۔ اس سے بچاؤ کے لئے لیوفینو ران یا میچ یا رنر 200 ملی لٹر یا ٹریسر 40 ملی لٹر یا بیلٹ25 ملی لٹر سو لٹر پانی ملاکر سپرے کی جاسکتی ہیں۔ اگر اس کا حملہ ابتدائی مرحلے پر پہچان لیاجائے تو ٹائمر یا پروکلیم یا ایما میکٹن بھی استعمال کی جاسکتی ہیں۔

گلابی سنڈی:

اس کا حملہ ستمبر اکتوبر میں زیادہ شدت کے ساتھ ہوسکتاہے۔ اس سے بچاؤ کے لئے مناسب تربیت کے بعد پچاس ایکڑ یا زیادہ رقبے پر کاشت کی صورت میں پی بی روپس استعمال کئے جائیں۔ بیس ایکڑ یا کم رقبے کی صورت میں تین چار فیر ومون  ریپ لگائے جائیں تو زیادہ بہتر ہے۔زہروں میں ٹرائی ایزوفاس 1000 ملی لٹر یا ڈیلٹافاس 600 ملی لٹریا مومی الفا 200 ملی لٹر ستمبر میں بروقت پہچان کرکے سپرے کی جاسکتی ہیں۔ گلابی سنڈی کا بھر پور حملہ ہونے کے بعد کوئی بھی زہر سپرے کرنے کا فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لئے بر وقت پیسٹ سکاو ٹنگ کرنے کے بعد منا۔ سب زہر سپرے کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget