کاشت‌کاری کے جدید طریقے اور تبدیلیاں

آپ اپنے لئے خوراک کیسے حاصل کرتے ہیں؟‏ کیا آپ اِسے خود اُگاتے ہیں یا بازار سے خریدتے ہیں؟‏ چند سال پہلے تک انسان گزربسر کرنے کیلئے کھیتی‌باڑی کِیا کرتے تھے۔‏ اِسکا مطلب ہے کہ وہ اپنے لئے خود خوراک اُگاتے تھے۔‏ لی
کن اب بعض صنعتی ممالک میں ۵۰ میں سے صرف ایک شخص کاشت‌کاری کرتا ہے۔‏ یہ تبدیلی کیسے واقع ہوئی؟‏

زراعت کے میدان میں پہلے آہستہ‌آہستہ مگر پھر بڑی تیزی سے بہتری آنا شروع ہو گئی۔‏ ہر تبدیلی کیساتھ لاکھوں خاندانوں کو بہت سا ردوبدل کرنا پڑا اور آج تک پوری دُنیا میں ایسا ہی ہوتا آ رہا ہے۔‏ کاشت‌کاری کے سلسلے میں ہونے والی ترقی نے لوگوں کو جسطرح متاثر کِیا ہے اُس پر غور کرنا آپکو یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ دُنیا کس طرف جا رہی ہے۔‏

کاشت‌کاری کے طریقوں میں ایک بڑی تبدیلی

بارھویں صدی میں جب یورپ میں ہارس کالر کی ایجاد ہوئی تو کاشت‌کاری محض گزربسر کا ذریعہ نہ رہی۔‏ ہارس کالر گھوڑے کو جوتنے کیلئے درکار سازوسامان کا ایک اہم حصہ ہے جسے لوگ عام طور پر گھوڑے کی اصلی یا حلقی کہتے ہیں۔‏ اِسکی مدد سے ہل میں جوتے جانے والے گھوڑے کا گلا نہیں گھونٹتا تھا۔‏ پس اِسطرح گھوڑے بیلوں کی نسبت زیادہ زور سے،‏ تیزی کیساتھ اور زیادہ دیر تک ہل کو کھینچ سکتے تھے۔‏ کاشت‌کاری میں گھوڑوں کے استعمال سے کسان اپنی پیداوار میں اضافہ کرنے کے قابل ہوئے۔‏ وہ لوہے کے ہل کی مدد سے سخت زمین کو کاشت کر سکتے تھے۔‏ ایک اَور قدم جو کاشت‌کاری میں بہتری لانے کا سبب بنا وہ مٹی کو زیادہ زرخیز بنانے والی فصلوں کی کاشت تھی۔‏ اِن میں دالیں،‏ مٹر،‏ ترفل اور برسیم یا لوسن جیسی فصلوں کی کاشت شامل تھی جنکی وجہ سے نائٹروجن مٹی کیساتھ شامل ہو کر (‏تثبیت کا عمل)‏ زمین کو زرخیز رکھتی ہے۔‏ یوں زرخیز زمین کی بدولت فصلیں کثرت سے پیدا ہونے لگیں۔‏

اِن ابتدائی تبدیلیوں کی بدولت بعض کسان وافر مقدار میں اناج اُگانے اور اِسے بازار میں فروخت کرنے کے قابل ہو گئے۔‏ یوں ایسے شہر وجود میں آ گئے جہاں لوگ اپنے لئے خوراک خریدنے کے علاوہ صنعتکاروں اور تاجروں کے طور پر کام کر سکتے تھے۔‏ اِن امیر صنعتکاروں،‏ تاجروں اور کسانوں کی بدولت کاشت‌کاری کیلئے استعمال ہونے والی مشینوں کی ایجاد کا آغاز ہوا۔‏

سن ۱۷۰۰ میں جیتھرو ٹل نامی ایک کسان نے بیج بکھیرنے کیلئے گھوڑوں کی مدد سے چلنے والی ایک مشین ایجاد کی۔‏ اِس سے قبل بیج بکھیرنے کا کام ہاتھوں سے کِیا جاتا تھا جس سے کافی بیج ضائع ہو جاتے تھے۔‏ سن ۱۸۳۱ میں،‏ امریکہ میں سائرس میک‌کورمک نے گھوڑوں کی مدد سے چلنے والی ایک ایسی مشین ایجاد کی جسے فصل کو کاٹنے اور جمع کرنے کیلئے استعمال کِیا جاتا تھا۔‏ یہ مشین ہاتھ سے چلنے والی درانتی کی نسبت پانچ گُنا تیز چلتی تھی۔‏ اُسی دوران تاجروں نے جنوبی امریکہ کے اینڈین ساحل سے یورپ میں کھاد لانا شروع کر دی۔‏ مشینوں اور کھاد کے استعمال سے کاشت‌کاری کی صنعت میں بہت ترقی ہوئی۔‏ مگر اِس سے لوگوں کو کیا فائدہ ہوا؟‏

کاشت‌کاری میں ترقی ایک صنعتی انقلاب کا باعث بنی جس سے شہروں میں رہنے والے لوگوں کیلئے سستی اور وافر مقدار میں خوراک حاصل کرنا ممکن ہو گیا۔‏ سب سے پہلے یہ انقلاب برطانیہ میں تقریباً ۱۷۵۰-‏۱۸۵۰ میں رُونما ہوا۔‏ ہزاروں خاندانوں کو لوہے اور کپڑے کے کارخانوں،‏ کوئلے کی کانوں اور بحری جہاز بنانے اور مرمت کرنے کی جگہوں میں کام کرنے کیلئے صنعتی شہروں کا رُخ کرنا پڑا کیونکہ اُنکے پاس اِسکے علاوہ اَور کوئی چارہ نہ تھا۔‏ غریب کسان جو کاشت‌کاری کیلئے جدید آلات خریدنے کے قابل نہیں تھے کم پیداوار کی وجہ سے زیادہ پیسہ نہیں کما سکتے تھے حتیٰ‌کہ اُنکے لئے اپنا کرایہ ادا کرنا بھی مشکل تھا۔‏ پس اُنہیں اپنی زمینیں چھوڑ کر گنجان آباد شہروں کی کچی آبادیوں میں رہنا پڑا جہاں بیماریاں بڑی تیزی سے پھیلتی ہیں۔‏ پہلے سارا خاندان ملکر کھیتی‌باڑی کا کام کرتا تھا مگر اب صرف مرد کارخانوں میں کام کرنے کیلئے جاتے تھے۔‏ یہاں تک کہ بچے بھی کارخانوں میں کئی‌کئی گھنٹے کام کرتے تھے۔‏ جلد ہی دیگر ممالک کو بھی ایسی ہی تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑا۔‏

سائنسی طریقوں سے کاشت‌کاری میں مزید تبدیلیاں

سن ۱۸۵۰ میں بعض ممالک کے پاس اتنے مالی وسائل تھے کہ وہ زرعی تحقیق سے فائدہ اُٹھا سکتے تھے۔‏ زراعت کے متعلق سائنسی تحقیق آج ہمارے زمانے تک متواتر تبدیلیاں لانے کا باعث بنی ہے۔‏ مثال کے طور پر،‏ بعض اشخاص نے پودوں کی مختلف اقسام پر تحقیق کرنے کے بعد ایسے پودے تیار کئے ہیں جو زیادہ پھل دیتے اور مختلف بیماریوں سے محفوظ رہتے ہیں۔‏ تحقیق‌دانوں نے نمکیات کے ایسے مرکبات بھی دریافت کئے ہیں جو مختلف قسم کی فصلوں اور زمین کیلئے اشد ضروری ہیں۔‏ کھیتوں میں مزدوری کرنے والے لوگ بھی سارا سال فصلوں میں اُگنے والی جڑی بوٹیوں کو نکالنے میں مصروف رہتے تھے۔‏ مگر جب سے سائنس‌دانوں نے کیڑےمار ادویات تیار کی ہیں اُس وقت سے جڑی بوٹیوں کی پیداوار قدرے کم ہو گئی ہے جسکی وجہ سے بہت سے مزدور اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔‏ مختلف طرح کی سنڈیاں،‏ کیڑے اور گھن بھی کاشت‌کاروں کے پُرانے دُشمن ہیں۔‏ تاہم،‏ اب کیڑےمار ادویات کی اتنی مختلف اقسام ہیں کہ کسان ہر طرح کے کیڑوں سے نجات حاصل کرنے کیلئے کسی کا بھی انتخاب کر سکتے ہیں۔‏*

جانور پالنے والے کسانوں کی زندگیوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔‏ دودھ نکالنے اور جانوروں کو چارا ڈالنے کیلئے دستیاب خودکار مشینوں کی بدولت مویشیوں کی نگرانی پر مامور ایک شخص اپنے ساتھی کی مدد سے تقریباً ۲۰۰ گایوں کی دیکھ‌بھال کر سکتا ہے۔‏ کسان اپنے گائےبیل اور سوأروں کو جلدی بڑا کرنے کیلئے اُنہیں کھلے میدانوں میں رکھنے کی بجائے باڑوں میں رکھتے ہیں۔‏ اِسطرح اُنکے لئے جانوروں کے جسم کے درجۂ‌حرارت اور خوراک پر کنٹرول رکھنا ممکن ہوتا ہے۔‏

سائنسی طریقوں کے مطابق کی جانے والی کاشت‌کاری کے اکثر شاندار نتائج نکلے ہیں۔‏ ایسا کرنے سے بعض کسانوں کی پیداوار میں ۱۰۰ فیصد اضافہ ہوا ہے۔‏ اِسکا مطلب ہے کہ جدید طریقوں کو استعمال کرنے سے ہر مزدور نے پہلے کی نسبت کہیں زیادہ عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کِیا ہے۔‏ لیکن اِن سائنسی کامیابیوں نے لوگوں کی زندگیوں کو کیسے متاثر کِیا ہے؟‏

کسانوں کا طرزِزندگی بدل گیا

مشینوں نے مختلف ممالک میں رہنے والے کسانوں کے طرزِزندگی کو بدل ڈالا ہے۔‏ زیادہ‌تر کسانوں اور کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کو اب جدید مشینوں کو چلانے اور اِنکی دیکھ‌بھال کرنے کیلئے مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‏ عام طور پر اُنہیں اکیلے ہی کام کرنا پڑتا ہے۔‏ کیونکہ اب لوگوں کو بیج بونے،‏ کھتیوں کی دیکھ‌بھال کرنے اور کٹائی کرنے کیلئے پہلے کی طرح گروہوں کی شکل میں کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‏

بہت سے ممالک میں اب کسانوں کا ایک نیا طبقہ سامنے آیا ہے۔‏ ایک اعلیٰ تعلیم‌یافتہ کاروباری شخص چند زرعی اشیا یا شاید کسی ایک چیز کی پیدوار کے بارے میں خاص مہارت حاصل کرتا ہے۔‏ وہ زمین خریدنے،‏ عمارت کھڑی کرنے اور مشینیں خریدنے کیلئے بہت زیادہ پیسہ خرچ کرتا ہے۔‏ تاہم،‏ وہ تنہا یہ سب کچھ نہیں کر تا۔‏ کھانے پینے کی اشیا تیار کرنے والی مختلف کمپنیاں اور سپر مارکیٹیں نہ صرف اُسکی تیارکردہ اشیا کی قیمتیں طے کرتی ہیں بلکہ اُنکی قسم،‏ سائز اور رنگ کا بھی تعیّن کرتی ہیں۔‏ نیز،‏ یہ اشیا کیسے تیار کی جائینگی اِسکا تعیّن زرعی انجینئر کرتے ہیں۔‏ ماہر کمپنیاں اُسکے کھیت کی زمین کے مطابق اُسے خاص قسم کی کھاد،‏ کیڑےمار ادویات اور مختلف بیج فراہم کرتی ہیں۔‏ یہ اعلیٰ تعلیم‌یافتہ کسان کاشت‌کاری کے اُن طریقوں کو بہت پیچھے چھوڑ آیا ہے جو اُسکے باپ‌دادا استعمال کرتے تھے۔‏ اگرچہ وہ اِس کام میں سخت محنت کر رہا ہے توبھی کئی لوگ کھیتی‌باڑی کے بعض جدید طریقوں کے نقصاندہ اثرات کے بارے میں پریشان ہیں۔‏

کسان آج بھی مسائل سے دوچار ہیں

ترقی‌یافتہ ممالک میں آج بھی بہت سے کسانوں کو اپنی زمینوں سے ہاتھ دھونے پڑ رہے ہیں کیونکہ وہ بڑی‌بڑی زرعی کارپوریشنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔‏ اِسلئے بعض کسان اپنے گزربسر کی خاطر سیاحوں کیلئے رہائش گاہیں بناتے اور ہاتھ سے بنی ہوئی چیزیں تیار کرتے ہیں۔‏ نیز،‏ وہ اُنکے لئے سیروتفریح کے کیمپ لگانے کیلئے جگہ اور گالف کھیلنے کے وسیع میدان مہیا کرتے ہیں۔‏ بعض کسان خاص قسم کی چیزیں تیار کرتے،‏ کیمیاوی کھاد کے بغیر خوراک اور مختلف قسم کے پھول کاشت کرتے اور شترمُرغوں اور جنوبی امریکی بھیڑوں کے اپنے گلّوں کو بڑھاتے ہیں۔‏

غریب ممالک میں آبادی کا ۸۰ فیصد حصہ جو گزربسر کرنے کیلئے کاشت‌کاری کر سکتا ہے وہ بھی ایسی تبدیلیوں سے متاثر ہو رہا ہے۔‏ عالمی کمپنیاں زمین کو زرخیز بنانے کیلئے کاشت‌کاری کے جدید طریقے استعمال کرتی ہیں تاکہ پیداوار کو دُوردراز علاقوں میں فروخت کر سکیں۔‏ بعض کسانوں کے پاس چند مشینیں ہیں جبکہ بعض کے پاس ایک بھی مشین نہیں ہے۔‏ اِسکے باوجود وہ سب اپنے خاندانوں کو خوراک فراہم کرنے کیلئے بنجر زمین یاپھر زمین کے ایک چھوٹے سے حصے میں کاشت‌کاری کرتے ہیں۔‏

اِس وقت بیشتر ممالک میں لوگوں کی بڑی تعداد کا گاؤں سے شہروں میں منتقل ہونا اُس تبدیلی کا نتیجہ ہے جو صدیوں پہلے واقع ہوئی تھی۔‏ اگرچہ کاشت‌کاری کے میدان میں ہونے والی اِس تبدیلی کی وجہ سے شہروں میں رہنے والے بعض لوگ فائدہ اُٹھا رہے ہیں توبھی دیگر ابھی تک غربت کی زندگی گزار رہے ہیں۔‏ اگرچہ کچھ حکومتیں متاثرہ لوگوں کو ضروری مدد فراہم کر رہی ہیں توبھی انسانوں کو خدا کی بادشاہت کی ضرورت ہے۔‏ کیونکہ خدا کی بادشاہت ایک ایسی تبدیلی لائیگی جو اُنکے لئے بہتر زندگی بسر کرنا ممکن بنا دیگی!‏—‏‏

کاشت‌کاری کے دو طریقے

رچرڈ کینیڈا کا رہنے والا ہے اور اُسکے پاس کھیتی‌باڑی کرنے کیلئے ۵۰۰ ایکڑ زرخیز زمین ہے۔‏ عام طور پر وہ اکیلا ہی کھتیوں میں کام کرتا ہے لیکن بویائی اور کٹائی کے موسم میں وہ اپنے ساتھ ایک مزدور رکھ لیتا ہے۔‏

رچرڈ کہتا ہے کہ ”‏آجکل کاشت‌کاری کے کام میں بھی جسمانی دباؤ کی نسبت ذہنی دباؤ زیادہ ہو تا ہے۔‏ میری فصل کاٹنے کی مشین اور میرے ٹریکٹر دونوں کے کیبن میں اےسی لگا ہوا ہے۔‏ جسکی مدد سے مَیں گرد اور کیڑےمکوڑوں سے محفوظ رہتا ہوں۔‏ میرے پاس ۳۰ فٹ چوڑی مشینیں ہیں جن سے مَیں ایک دن میں آدھی ایکڑ زمین میں بیج بو سکتا یا پھر کٹائی کر سکتا ہوں۔‏ کیونکہ مَیں اپنے کام کیلئے زیادہ تر مشینوں پر انحصار کرتا ہوں اِسلئے مَیں زیادہ دباؤ محسوس کرتا ہوں۔‏ بعض اوقات،‏ مشینوں میں کسی طرح کی تبدیلی کیلئے مجھے قرض لینا پڑتا ہے۔‏ مَیں یہ نہیں جانتا کہ سود پر لی گئی یہ رقم کب اور کیسے ادا کرونگا کیونکہ میری فصل کو متاثر کرنے والی قدرتی آفات اور مارکیٹ میں چیزوں کی قیمتوں میں اُتارچڑھاؤ پر میرا اختیار نہیں ہے۔‏ کاشت‌کاری میں درپیش دباؤ کی وجہ سے یہاں بھی لوگوں کی شادی‌شُدہ زندگی میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں جوکہ بعض اوقات کسانوں کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔‏“‏

یوسیبیو اینڈیز میں رہتا ہے اور کاشت‌کاری کا کام کرتا ہے۔‏ اُسکے پاس ۱۴ مویشی بھی ہیں جنکی وہ دیکھ بھال کرتا ہے۔‏ وہ کہتا ہے:‏ ”‏مَیں نے اُن سب کے نام رکھے ہوئے ہیں۔‏ مجھے کھیتی‌باڑی کرنا بہت پسند ہے۔‏ ہم اپنے لئے خود سبزیاں اُگاتے ہیں۔‏ مَیں اور میری بیوی ہل چلانے اور فصل کاٹنے میں اپنے پڑوسیوں کی مدد کرتے ہیں اور وہ ہماری مدد کرتے ہیں۔‏ ہم میں سے کسی کے پاس مشینیں نہیں ہیں۔‏ ہم سب بیلوں کی مدد سے ہل چلاتے اور بیلچوں سے زمین کھودتے ہیں۔‏

ایک مرتبہ وبا نے ہمارے بہت سے مویشیوں کو مار ڈالا۔‏ اِسکے بعد مَیں نے جانوروں کا علاج کرنے کے سلسلے میں کچھ تربیت حاصل کی۔‏ اُس وقت سے لے کر ہمارا ایک بھی جانور بیماری کی وجہ سے نہیں مرا۔‏ اب مَیں پڑوسیوں کے جانوروں کا بھی علاج کرتا ہوں۔‏ ہم گاؤں کی دُکانوں پر پنیر بیچتے ہیں مگر اِس سے کچھ خاص آمدنی نہیں ہوتی۔‏ اِسکے باوجود ہمارے پاس اپنے چھ بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے بہت کچھ ہے۔‏“‏


سن ۱۸۳۱ میں ایجاد ہونے والی میک‌کورمک ریپر مشین جس نے کسانوں کیلئے پہلے کی نسبت ۵ گُنا تیزی کیساتھ فصل کاٹنا ممکن بنا دیا۔
لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget