پاکستان میں اس سال شہد کی پیداوار


پاکستان میں اس سال شہد کی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ جبکہ شہد کی قیمتیں بھی غیر معمولی طور پر بڑھی ہیں۔ جس کی ایک وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کو قرار دیا جارہا ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق موسمیاتی تبدیلی اور اکتوبر میں بے موسم کی بارش و ژالہ باری سے شہد کی پیداوار بری طرح متاثر ہوئی ہے اور گزشتہ برسوں کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہوئی ہے۔ خدشہ ہے کہ شہد کی ایکسپورٹ کے آرڈر پورے نہیں کیے جاسکیں گے، جس کی وجہ سے آئندہ سال کیلئے توقعات کے مطابق آرڈر ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
پاکستان ہنی ایسوسی ایشن کے ذرائع کے مطابق ملک میں مجموعی طور پر شہد کی پیداوار 40 ہزار ٹن ہے۔ سب سے زیادہ بیری کے شہد کی پیداوار ہے اور یہی شہد ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ باقی اقسام کے شہد مقامی مارکیٹ میں ہی فروخت ہوتے ہیں۔ شہد کی فارمنگ سے منسلک افراد نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پاکستان میں سب سے زیادہ ڈیمانڈ بیری کے شہید کی ہے اور دیگر کے مقابلے میں بیری کے شہد کی پیداوار دگنی ہے۔ بیری کے شہد کا سیزن عمومی طور پر اگست کے آخر سے شروع ہوکر نومبر تک جاتا ہے۔ جبکہ اس کے ہول سیل کاروبار کا سیزن وسط اکتوبر سے شروع ہوکر جنوری تک چلتا ہے، جو شہد کے کاروبار سے منسلک لوگوں کے منافع کا سیزن ہوتا ہے۔ تاہم اگر بیری کا شہد اچھا نہ ہو یا اس کی پیداوار کم ہو تو کاروباری لوگوں کو خاصا نقصان ہوتا ہے۔

ماہرین نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بیری کے شہد کی تین کشید ہوتی ہیں۔ یعنی شہد جمع کرنے والے ڈبوں میں سے تین مرتبہ شہد نکالا جاتا ہے۔ سیزن کے آغاز میں پہلی کشید اکتوبر کے آخر اور نومبر کے شروع میں نکالی جاتی ہے۔ دوسری کشید نومبر کے درمیان اور تیسری کشید نومبر کے آخر اور دسمبر میں ہوتی ہے۔ مارکیٹ ذرائع کے مطابق بیری کا اصلی اور معیاری شہد دوسری کشید کا ہوتا ہے۔ ماہرین کے بقول پہلی اور تیسری کشید کے مقابلے میں بیری کے شہد کے اصل فوائد دوسری کشید سے ہی حاصل ہوتے ہیں۔ دوسری کشید سے حاصل ہونے والا شہد زیادہ تر ایکسپورٹ کردیا جاتا ہے۔ یہ شہد بہت کم ہی پاکستانی مارکیٹ میں دستیاب ہوتا ہے۔ مقامی مارکیٹ میں عموماً پہلی اور تیسری کشید کا شہد فروخت ہوتا ہے۔ یہ شہد گرم علاقوں میں بیری کے درختوں پر لگے پھولوں سے حاصل کیا جاتا ہے، جو عمومی طور پر ستمبر سے اکتوبر کے آخر تک درختوں پر موجود ہوتے ہیں۔ لیکن موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے اب اس دورانیے میں فرق آگیا ہے۔
ٹریڈنگ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان سے حاصل کردہ اعداد و شمار سے واضح طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ شہد کی درآمد پہلے ہی متاثر ہے۔ 2013ء میں شہد کی درآمد تقریباً 9 ملین ڈالر تھی، جو 2017ء میں کم ہوکر تقریباً ساڑھے 6 ملین ڈالر تک پہنچ گئی تھی۔ پاکستان ہنی ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری شیر زمان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ برسوں میں پاکستان سے کم و بیش اٹھارہ سے بیس ہزار کلو گرام کے 700 کنٹینر ایکسپورٹ ہوئے ہیں۔ تاہم اس سال تو شہد کی پیداوار میں ریکارڈ کمی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ابھی سیزن جاری ہے، اس لئے مکمل اعدادوشمار تو نہیں بتائے جاسکتے۔ لیکن موجودہ صورتحال میں نظر آرہا ہے کہ شاید اس سال 200 کنٹینر بھی ایکسپورٹ نہ کئے جاسکیں۔ جب پاکستانی ایکسپوٹرز آرڈر پورے نہیں کرسکیں گے تو انہیں آئندہ سال کیلئے آرڈر نہیں ملیں گے۔ کیونکہ خریدار دوسری مارکیٹوں کی طرف رجوع کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں بیری کے علاوہ مختلف اقسام کے شہد ہوتے ہیں۔ لیکن اس سال کسی قسم کے شہد کی پیداوار مناسب نہیں رہی۔ اگر سیزن میں صرف بیری کے شہد کی پیداوار اچھی ہو تو فارمر سے لے کر کاروباری افراد تک، سب فائدے میں رہتے ہیں۔ لیکن اس سال بیری کا شہد بھی بہت کم ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ہول سیل مارکیٹ میں دوسری کشید کے شہد کی قیمت 65 ہزار روپے فی من ہے، جوکہ ریکارڈ قیمت ہے۔ قیمت میں اس قدر اضافے کی ایک وجہ تو پیداوار میں کمی ہے اور دوسری بڑی وجہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ ہے، جس نے کاروباری افراد کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت پاکستان کی جانب سے کبھی شہد کی صنعت پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ محتاط اندازے کے مطابق شہد کی صنعت سے مجموعی طور پر 10 لاکھ لوگوں کو روزگار مل رہا۔ اگر حکومت اس صنعت پر توجہ دے اور پیداوار بڑھائی جائے تو 20 لاکھ لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ جبکہ ایکسپورٹ 700 کنٹینر سے بڑھا کر تین ہزار کنٹیر تک لے جائی جاسکتی ہے، جس سے قیمتی زرمبادلہ بھی حاصل ہوگا۔ شیر زمان کا کہنا تھا کہ شہد کی پیداوار کم ہونے کی متعدد وجوہات ہیں، جس میں ایک تو موسمی تبدیلی، دوسری جنگلات کا کم نہ ہونا اور تیسری آلودگی میں اضافہ ہے۔ اس کے علاوہ فارمرز کا غیر تربیت یافتہ ہونا بھی بڑا مسئلہ ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے ان مسائل پر توجہ دی جائے تو شہد کی صنعت میں بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔
محکمہ ماحولیات خیبر پختون کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر نعمان رشید کا ’’امت‘‘ سے گفتگو میں کہنا تھا کہ پاکستان میں شہد کی صنعت موسمی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ غفلت کا شکار ہورہی ہے ۔ بیری کے درخت آبادیوں کی نذر ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے پیداوار کم ہوتی جارہی ہے۔ اس سال اکتوبر، نومبر میں بے وقت بارشیں اور ژالہ باری ہوئی، جس سے بیری کے درختوں پر موجود پھول تباہ ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے ایک موثر پالیسی تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget