سندھ میں اروی کی کاشت ۔

بنیادی طور پر اروی کا شمار "جڑوں" میں کیا جاتا ہے اور زیرِ زمین ہونے کی وجہ سے اس میں بھی نشاستے کی مقدار زیادہ ہوتی ہے ، لہٰذا مزا مٹھاس پر مبنی ہوتا ہے۔اروی کا تعلق آلو کی طرح جڑدار ترکاریوں میں کیا جاتا ہے۔نباتاتی طور پر اروی کا گروہ Araceae تسلیم کیا گیا ہے جس میں نشاستہ دار زیرِ زمین ترکاریاں شامل ہوتی ہیں۔مونگ پھلی ان کی سب سے چھوٹی نوع ہے جبکہ آلو ، شکرقندی،اروی،رتالو وغیرہ ان کی جسامت کے لحاظ سے نسبتاً بڑی انواع ہیں۔ اروی کی کاشت دنیا بھر میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے جن میں شمالی مشرقی ایشیاء ، شمال مغربی ایشیاء،برّاعظم افریقہ، یورپ اور آسٹریلیا کے علاقے شامل ہیں۔ منطقۂ حارہ کے کچ خطّوں میں اروی سدابہار ترکاری کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔ اروی بنیادی طور پر جڑ تسلیم کی جاتی ہے جو انتہائی خوش ذائقہ رنگت کے اعتبار سے سیاہی مائل یا سلیٹی چھلکا کُھرچنے کے بعد انتہائی دیدہ زیب اور سالن میں پکنے کے بعد سفیدی مائل بہترین ذائقہ کی حامل ہوجاتی ہے۔اروی زیرِ زمین ہوتی ہے جبکہ اس کے پتّے زمین کے اوپر ہوتے ہیں جو سبز اور چوڑے ہوتے ہیں اور یہ بھی غذا کا ایک جُزو شمار کیے جاتے ہیں۔تاریخی طور پر اروی کی کاشت قبلِ مسیح سے کی جارہی ہے، جنوبی ایشیاء کے علاقوں میں اروی سکندرِ اعظم کے زمانے میں کاشت کی گئی جسے آلو کے بیجوں سے بھی نیم پُختہ شکل میں حاصل کیا جاتا تھا اور اسی کی پکی ہوئی شکل کو رتالو کا نام دیا جاتا ہے۔

اروی کی کاشت 15 اگست سے شروع ہوکر 15 نومبر تک کی جاتی ہے ۔ اروی کی کاشت کیلیئے زمین کا انتخاب بیحد ضروری ہے ۔ اروی کی کاشت کیلیئے نرم زمین کا ہونا ضروری ہے سندھ میں اروی کی کاشت پیاز کے ساتھ کرنے کا رواج بھی عام جام ہے یعنی پیاز کی کھیلیوں پر کاشت کرنے کے بعد اس کی کاشت کی لائن کے بلک دو انچ نیچے اروی کاشت کی جاتی ہے ۔ ویسے یہ اور بھی فصلوں کے ساتھ کامیابی سے کاشت ہوسکتی ہے زمین کو بھتر طریقے سے ہل وغیرہ دے کر اس میں 10 سے 15 ٹن گوبر کی گلی سڑی کھاد ڈال کر اچھی طرح ہل کی مدد سے زمین میں ملادیں اسکے بعد 4 بوری ایس ایس پی اور ایک بوری امونیم نائٹریٹ یا تین بوری نائٹروفاس زمین میں ڈال کر کھیلیاں بنالیں یاد رہے کہ کھاد کی یہ مقدار صرف اروی کی کاشت کیلیئے ہیں یعنی اس میں کوئی اور مخلوط کاشت نہ ہو اگر پیاز کے ساتھ کاشت کرنی ہے تو کھاد کو پیاز کی کھاد کی سفارشات پر دینا ہوگا بیج کی مقدار تقریبن 750 کلوگرام سے 850 کلوگرام فی ایکڑ کے حساب سے اچھی نتائج دیتی ہے ۔ کھیلیوں پر 15 سے 20 سینٹی میٹر کے فاصلے پر 5 سے 8 سینٹی میٹر گھرا بیج لگادیں یہ کھیلیوں کی ایک طرف لگتی ہے ۔ ہر 7 ویں دن پانی کا دینا لازمی ہوتا ہے اور جب فصل 30 سینٹی میٹر تک ہوجائے تو 2 سے 3 قسطوں میں 5 سے 7 بوریاں امونیم نائٹریٹ کی فی ایکڑ ضرور ڈالیں ۔ ویسے اس فصل کو کسی پیسٹی سائیڈ کی ضرورت نہیں پر 
موسم گرما کی شدت میں بتدریج اضافہ کے ساتھ ہی اروی کی فصل پر دیمک کے حملہ کا خدشہ بڑھ جاتا ہے لہٰذا کاشتکاروں کو چاہیے کہ وہ گوڈی کے دوران شگوفےتوڑتے سمیت کلور پائریفاس کا سپرے بھی کریں تا کہ اروی کی پیداوار کو نقصان سے بچایا جا سکے۔ یہ تقریبن 9 مھینے کی فصل ہے ۔ اروی کی فی ایکڑ پیداوار اندازن 2000 سے 2500 کلوگرام ہوتی ہے ۔ اروی کی فی ایکڑ آمدن اندازن 140000 روپے سے لیکر 350000 روپے ہوسکتی ہے ۔

لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget