پاکستان میں عملی ٹنل فارمنگ اور ہائبرڈ سیڈ کے سرخیل: میاں شوکت علی

اگر آپ سبزیوں کی ٹنل فارمنگ کے کاروبار سے وابسطہ ہیں تو پھر آپ نے کریلے کی ہائبرڈ ورائٹی کہسار اور اسی طرح کھیرے کی ہائبرڈ ورائٹی یالا کا نام تو ضرور سنا ہو گا.
کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ دونوں ہائبرڈ ورائٹیاں فیصل آباد سے جنوب کی طرف کوئی 80 کلو میٹر دور ماموں کانجن میں واقع وسیع و عریض گرین ہاؤسز میں تیار کی جاتی ہیں. بنیادی طور پر یہ گرین ہاؤسز میاں شوکت علی کے رقبے پر واقع ہیں جنہیں اعلی سائنسی اصولوں کو مد نظر رکھ کر تعمیر کیا گیا ہے.

چند روز قبل، راقم کو مذکورہ گرین ہاؤسز دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں میاں شوکت علی سے کوئی ایک گھنٹے کی ملاقات رہی.
پاکستان میں سبزیوں کی ٹنل فارمنگ اور ہائبرڈ بیج کی تیاری کے آغاز کا سہرا میاں شوکت علی کے سر جاتا ہے.
میاں شوکت علی ماموں کانجن سے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد زرعی یونیورسٹی فیصل آباد میں داخل ہوئے جہاں سے انہوں نے 80 کی دہائی میں بی ایس سی آنرز ایگری انجینئرنگ اور بعد ازاں اسی ادارے سے ایم ایس سی آنرز ایگری انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی.
نوے کی دہائی میں جب انہیں یورپ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں انہوں نے کسانوں کو ٹنل کے اندر سبزیاں اگاتے ہوئے دیکھا. پاکستان میں واپس آ کر انہوں نے ایک چھوٹی سی ٹنل بنا کر تجرباتی طور پر ٹنل فارمنگ کا آغاز کیا. ایک آدھ ناکامی کے بعد میاں شوکت علی اپنے تجربات میں کامیاب ہو گئے اور وسیع پیمانے پر ٹنل فارمنگ کا آغاز کر دیا جس کی دیکھا دیکھی پورے پنجاب اور پاکستان میں ٹنل فارمنگ کا رواج پڑتا گیا. آج ٹنل فارمنگ کا شعبہ، پاکستان کی زراعت میں ایک اہم شعبے کی شکل اختیار کر چکا ہے.
ابتدا میں میاں شوکت علی سبزیوں کی پیداوار سے ہی وابسطہ رہے جس کے لئے انہیں ہائبرڈ بیج بیرونی ممالک خاص طور پر ہالینڈ سے درآمد کرنا پڑتا تھا.جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ اگر پاکستان میں ٹنل فارمنگ انڈسٹری کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہائبرڈ بیج باہر سے درآمد کرنے کی بجائے پاکستان کی سر زمین پر ہی تیار کیا جائے.
یہ وہ لمحہ تھا جب ان کی دلچسپی بریڈنگ کے شعبے میں پیدا ہونا شروع ہوئی اور انہوں نے اپنے طور پر بریڈنگ کے اسرارو رموز کو سیکھنا اور سمجھنا شروع کر دیا.
چند سالوں بعد انہوں نے ترکی کی ایک معتبر سیڈ کمپنی یکسل سیڈ سے معاہدہ کر کے ماموں کانجن میں گرین ہاؤسز قائم کر دئیے.اس معاہدے کی رو سے پاکستان میں ہائبرڈ بیج کی پیداوار شروع کر دی گئی. اس وقت ان گرین ہاؤسز میں 500 کے قریب کارکن کام کر رہے ہیں جو ہائبرڈ بیجوں کے مختلف پیداواری مراحل کو سر انجام دینے میں مصروف رہتے ہیں.
یکسل سیڈ ایشیا ماموں کانجن پاکستان نے کھیرے اور کریلے کی کئی ہائبرڈ ورائٹیاں مارکیٹ میں پیش کیں جن میں کہسار اور یالا دونوں ورائٹیاں کسانوں کے بہترین اعتماد کو چھو رہی ہیں. کسانوں کے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ دونوں ورائٹیاں معیار اور قیمت کے لحاظ سے ملٹی نیشنل کمپنوں کو بھی پیچھے چھوڑتی ہوئی نظر آتی ہیں.

میاں شوکت علی زراعت کے ساتھ ایک ایسی لگن رکھتے ہیں جو کاروباری لگاؤ سے بالاتر ہے. ان کی اسی لگن نے انہیں دنیا بھر کی سیر کروائی ہے جہاں وہ محض زراعت دیکھنے اور سمجھنے کے لئے جاتے رہے ہیں. وہ نہ صرف پاکستان میں حکومتی سطح پر اپنے تجربات شیئر کرتے رہتے ہیں بلکہ اس سے بڑھ کر دنیا کی کئی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں زراعت پر لیکچر دینے کے لئے وقت نکالتے رہتے ہیں.

حال ہی میں میاں شوکت علی نے کم و بیش 5 کروڑ کی لاگت سے ہائی ٹیک لیبارٹری بنائی ہے جو نجی شعبے میں اپنی مثال آپ ہے. اس لیبارٹری میں پاکستان کے نہائیت محنتی اور ہنرمند پروفیشنل کام کر رہے ہیں. اس لیبارٹری کے قیام سے پاکستان میں ہائبرڈ بیج کی تیاری کو ایک نیا رخ ملے گا.
راقم کے لئے یہ بات نہائیت خوشی کا باعث ہے کہ پاکستان میں ہائبرڈ بیجوں کی تیاری کے کام کو میاں شوکت علی بڑھاوا دے رہے ہیں. مجھے ان کی گفتگو سے اندازہ ہوا کہ وہ ایک محب وطن اور درد دل رکھنے والے انسان ہیں. ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنے کاروباری مفاد سے بالا تر ہو کر حکومتی اور نجی سطح پر ہائبرڈ بیجوں کی تیاری اور خاص طور پر پیرنٹ لائنز کی تیاری کے لئے اپنی کوششیں جاری رکھیں. مجھے قوی امید ہے کہ بہت جلد پاکستان ہائبرڈ بیجوں کی تیاری کے سلسلے میں مکمل طور پر خود مختار اور خود کفیل ہو جائے گا انشاء اللہ.

تحریر
ڈاکٹر شوکت علی
ماہر توسیع زراعت، زرعی یونیورسٹی فیصل آباد

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget