ٹنل فارمنگ سے متعلق اہم ترین سوالات اور جوابات

ماہنامہ فارمنگ ریولوشن کی ٹیم ساجد اقبال سندھو صاحب کی تہہ دل سے مشکور ہے جن کی تکنیکی راہنمائی کا فائدہ فارمنگ ریولوشن کے فورم کی وساطت سے ہزاروں فارمرز کو ہو رہا ہے۔ ساجد صاحب کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ انھوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز فیصل آباد یونیورسٹی سے کیا اورا کئی سال شعبہ تدریس سے وابستہ رہے ۔تبدیلی پر یقین رکھنے والے ساجد صاحب کے لیے زیادہ دیر ایسے ماحول میں کام کرنا دشوار تھا جہاںقابل لوگوں کی صلاحیتیںکچھ مفاد پرست لوگوں کی سیاست کی بھینٹ چڑھ رہی تھیں۔مثبت تبدیلی کے خواہش مند سندھو صاحب نے اپنی قابلیت کو عملی شکل دی۔اور پاکستان میں تین ایکڑ زمین پر ٹنل فارمنگ کا آغاز (گرین سرکل ) فورم کے نام سے 2000,1999 میںکیا اس وقت ان کے ساتھ کچھ اور بھی شامل تھے ۔اب پاکستان میںبڑے رقبے پر کامیاب ٹنل فارمنگ کی جا رہی ہے ۔
ٹنل فارمنگ مفید کیسے ہے اور اس سے ہمارا ہر فارمر مستفید ہوں اس چیز کو ذہن میں رکھ کر ہم ساجد اقبال سندھو صاحب کو زحمت دے رہے ہیں کہ وہ ہمیں ٹنل فارمنگ سے تفصیلی آگاہ کریں۔
٭سوال۔زراعت کی موجودہ صورتحال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
٭سب سے پہلی بات یہ ہے کہ زراعت کا شعبہ کسی بھی ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثت رکھتا ہے ۔اور ہمارے یہاں یہ ریڑھ کی ہڈی دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے اس بات کو صحافی اور ماہرین جانتے ہیں کہ یہ ریڑھ کی ہڈی کیسے کمزور ہوتی جا رہی ہے ۔ہماری فی ایکڑ پیداوار کم ہوتی جا رہی ہے ۔ہماری فی ایکڑ آمدنی کم ہوتی جا رہی ہے ۔ہماری فصلیں پیچھے کی طرف جا رہی ہیں ہمارا پانی کم ہوتا جا رہا ہے ۔1947کے بعد ہمارے پاس جتنا پانی تھا وہ آدھا رہ چکا ہے ۔آبادی جو اس وقت ڈیڑھ یا دو کروڑ تھی اب بڑھ کر اٹھارہ سے بیس کروڑ پر جا چکی ہے۔آبادی کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے ۔اگر نئی قسمیںاور نئی پیدوار میسر نہ ہوتی تو ہمارے آدھے لوگ اس وقت فاقہ کشی کا شکار ہوتے اس کا حوالہ آپ کو Green Revolutionسے مل جائے گا ۔جو ساٹھ کی دھائی میںمتعارف ہوا تھا ۔یہ ای بور لاگ اگر Green Revolutionیا سبز انقلاب نہ لے کر آتا تو دنیا کی آدھی آبادی فاقوں سے یا کم خوراک کی وجہ سے بھوکوں مرنے پر مجبور ہوتی ۔ان سب چیزوں سے قطع نظر ہم لوگ جو Green Circleسے وابستہ ہیںہم نے اپنی کاوش کا آغاز 2000,1999میں کیا ۔جب میں طالب علم تھا تو فیلڈ میں میرے پاس تین چار راستے تھے کہ ہم کسی بھی ایک شعبے کو اپنا لیں۔جس میں کاٹن انڈسٹری بھی ہو سکتی تھی ۔live Stock بھی ہو سکتا تھا ۔اس میں پولٹری بھی ہو سکتی تھی۔میں نے ان سب شعبوں کو تھوڑا تھوڑا دیکھا ان کے اپنے معاشرے پر اور معیشت پر اثرات دیکھے اس کے بعد میرا انتحاب سبزیوں کی کاشت تھی ۔
٭ سوال۔ سبزبوں کی کاشت کا انتخاب کرنے کی وجہ کیا تھی ؟
٭پوری دنیا میں ہر چیز اُدھار پر مل بھی جاتی ہے ۔یا اس کے اُدھار پر ملنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔جیسے کہ آپ کے گھروں میں آنے والا دودھ جس کے پیسے ایک ماہ کے بعد دینا ہوتے ہیں ۔آپ کو اخبار اُدھار مل جاتا ہے ۔آپ کو اپنے گھر کا روز مرہ کا سودا سلف اُدھار مل جاتا ہے ۔لیکن کبھی سبزی اُدھار نہیں ہوتی ہے ۔تو پاکستان کی معیشت جو پہلے ہی اُدھار پر ہے لوگ ایک دوسرے کے پیسے مارنے کی فکر میں ہیں ۔تو فارمر کو اپنی پیداوار آڑتی کے پاس فرخت کرنے کے بعد اپنے حق حلال کے پیسے وصول کرنے کے لیے تین چار ماہ بلکہ سال سال بھر انتظار کرنا پڑتا ہے ۔ ۔خاص طور پر شوگر ملوں کے لیے تو لوگ عام طور پر سال سال ڈیڑھ ڈیڑھ سال ذلیل ہو تے ہیں ۔اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے میری زیادہ دلچسپی سبزی کی جانب تھی ۔عام عقلمند آدمی کا انتخاب بھی فارمنگ میں سبزیاں ہی ہوں گی ۔کیونکہ اس میں فارمر کو اچھے پیسے ملتے ہیں اور جیسے ہی فارمر اپنی پیداوار کو فروخت کرتا ہے اس کے پاس پیسے آ جاتے ہیں ۔یہ میرا ٹنل فارمنگ کی جانب آنے کا پس منظر تھا۔ 1999 , 2000میں ہم نے ٹنل فارمنگ کا آغاز کیا۔
٭ سوال ۔ٹنل فارمنگ ہے کیا ؟
٭ٹنل فارمنگ کی وضاحت اگر ہم انگریزی میں کریں ۔جو وضاحت پوری دنیا میں سمجھی جاتی ہے ۔سبزیات کی بے موسمی کاشت۔اور اس کو تکنیکی طور پر بیان کریں تو یہ کہا جائے گا کہ فورس کر کے سبزیات کو اُگانا ۔اگر وہ گرمی کی سبزی ہے تو اس کو سردی میں اُگانا ۔ اور اگر سردی کی سبزی ہے تو اس کو گرمی میں اُگانا عام طور پر لوگ اس بات میں دلچسپی لیتے ہیں کہ جو چیز ان کو پسند ہے مثلا اگر کسی کو آم پسند ہے تو اس کی خواہش ہوتی ہے کہ سارا سال مجھے آم کا ذائقہ ملتا رہے اگر آم نہیں بھی ملے گا تو وہ آم کے ذائقے کی آئس کریم کھانا پسند کرئے گا ۔وہ اس کا ملک شیک پینا پسند کرئے گا ۔اور اگر اس کا تازہ آم ملے تو کیا بات ہے جس شخص کو بھنڈی پسند ہے وہ چاہتا ہے کہ سارا سال بھنڈی کھائے اور ہر ہفتے کم از کم ایک با ر تو اس کے گھر میں بھنڈی پکے ۔جس کو کدو پسند ہے وہ کدو کھا نا چاہے گا ۔اور جو کریلے کا شوقین ہے وہ چاہے گا کہ سارا سال اس کے گھر میں کریلا پکتا رہے ۔پھلوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے ۔لیکن سبزیوں کو اور خاص طور پر سبز رنگ کی سبزیوں کو لمبے عرصے تک کے لیے محفوظ نہیں کیا جا سکتا ۔اگر ان کو محفوظ کے لیا جاے تو یہ کینسر کا باعث ہو سکتا ہے ۔اس کے علاوہ ایسی محفوظ سبزیوں میں زہر پیدا ہو جاتا ہے ۔اس لیے تازہ سبزی ہی کھانی چاہیے اور اس صورتحال میں اگربے موسمی سبزیاں پیدا کر لی جائیں تو وہ زیادہ سے زیادہ قیمت میں بک سکیں گی ۔
٭یہاں ایک سوال ہے کہ اس فارمنگ کے ذریعے بے موسمی سبزیاں اُگائی جاتی ہیں تو کیا ٹنل فارمنگ کے ذریعے موسمی سبزیوں کی پیداوار بھی بڑھائی جا سکتی ہے ؟
٭جی اس بات کا جواب میں یوں دوں گا کہ ہم فارمر کو اس حوالے سے دو جانب لے کر جاتے ہیں ایک تو بے موسمی سبزیوں کی کاشت اور دوسرا کم سے کم جگہ پر زیادہ سے زیادہ پیداوار لینا اب یہ زیادہ سے زیادہ پیداوار کیسے ہوتی ہے یہ افقی کاشت کے ذریعے ممکن ہے ۔یہ بالکل ایسے ہے جیسے کوئی کئی منزلہ عمارت ہے ۔اگر آپ کا زمین پر گھر پانچ مرلے ہے جب اس کی دوسری منزل بناتے ہیں تو دس مرلے ۔اس کی تیسری منزل بناتے ہیں تو پندرہ مرلے اور اس سے اوپر بیس مرلے ہو جاتی ہے ۔ہم ہوا کو استعمال کرتے ہوئے اپنا کورڈ ایریا بڑھاتے ہیں ۔اسی طرح اگر سبزی کو ہم زمین پر رکھ دیتے ہیں تو ایک ایکڑ سے ایک ایکڑ کی پیداوار لیں گے ۔لیکن اگر ہم سبزی کی بڑھوتری میں افقی طریقہ اختیار کرتے ہیں تو دو فٹ پر دو ایکڑ زمین کی پیداوارلیں گے ۔تین فٹ پر تین ایکڑ کی چار فٹ پر چار ایکڑ کی کی پیداوار لیں گے ۔اس کا مطلب ہے کہ ہم ایک ایکڑ زمین سے تین یا چار ایکڑ زمین کے برابر پیداوار لے سکتے ہیں ایک تو اس کا یہ فائدہ ہے ۔دوسرا وہ بے موسمی ہو گئی اس کی قیمت زیادہ ملے گی آپ نے دیکھا ہو گا جب کوئی نئی سبزی آتی ہے جیسے ابھی کریلا آئے گا ۔تو وہ دو سو روپے بکے گا ۔جب بھنڈی آئے گی تو وہ ایک سو ساٹھ ستر میں بکے گی ۔یا جب نیا ٹماٹر آئے گا تو وہ مہنگا بکے گا ۔تو ہماری یہ ہی کوشش تھی کہ فارمر کو زیادہ سے زیادہ اپنی پیداوار کی قیمت مل سکے ۔جس کے دو تین فائدے ہیں جو ہماری کمپنی کے کتابچے میں بھی درج ہیں کہ ٹنل فارمنگ کے فوائد کیا ہیں ایک تو جلدی کاشت ، دوسر ی زیادہ پیداوار ہے ۔پھر ملکی ضروریات کو پورا کرنا ہے اور زرِمبادلہ کو بچانا ہے ۔تاکہ ہمیں دوسرے ملکوں سے سبزی خریدنے کے لیے کم سے کم پیسہ خرچ کرنا پڑے۔اس کی بڑی مثال یہ ہے کہ گورنمنٹ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا فارمر اس سال ٹماٹر نہیں لگا سکا ۔اس سال واہگہ باڈر سے 400ٹرک ہر روز پاکستان میں داخل ہو رہے ہیں ۔اور پچھلے دو مہینے سے ہر روز اتنے ٹرک آ رہے ہیں ۔اور اگر ہر ٹرک تین لاکھ کا بھی ہے تو ہم ہر روز بارہ کروڑ روپے ٹماٹر کی خریداری پر خرچ کر رہے ہیں ۔جو کہ بہت زیادہ ہے ۔اور (گرین سرکل )ٹنل فارمنگ کے ذریعے اس فرق کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔
٭کیا یہ فارمنگ کا جدید طریقہ ہے ؟
٭ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ فارمنگ کا کوئی جدید طریقہ ہے کیونکہ یہ طریقہ کاشت صدیوں سے چلا آ رہا ہے ۔اس کو رومن بھی کرتے تھے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے پاس وہ آلات موجود نہیں تھے جو آج ہمارے پاس موجود ہیں اس وقت اس کو چٹانوں کی آڑ میں لگاتے تھے ۔پتھروں کے پیچھے لگا کر سبزیوں کو کورے سے بچانے کی کوشش کرتے تھے ۔گرمی سے بچانے کے لیے اس پر کپڑے بھی ڈالتے تھے ۔درختوں کی چھاؤں کے نیچے بھی لگاتے تھے ۔
٭سوال۔ٹنل فارمنگ کے ذریعے کیا ہماری سبزی کی اتنی پیدوار ہو سکتی ہے کہ اس کو ہم برآمد کریں۔اور کیا سبزیوں کو یورپی ملکوں میں بھیجنا آسان ہے ؟
٭پاکستان کی جغرافیائی صورت کچھ ایسی ہے کہ ہمارے ملک میں بیک وقت چاروں موسم رہتے ہیں ۔اگر ہم کسی ملک کو کریلا سپلائی کر رہے ہیں تو ان کی خواہش ہو گی کہ ہم ان کو بارہ مہینے کریلا سپلائی کریں۔اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم بارہ مہینے کریلا پیدا کر سکتے ہیں۔تو اس کا جواب مثبت ہے کیونکہ ہم ایک علاقے سے پیداوار لیں گے جب وہاں موسم تبدیل ہو جائے گا تو اگلے علاقے سے پیدوار ملے گی اور یوںشمال سے جنوب تک ٹنل فارمنگ کے ذریعے یہ سبزی سارا سال پیدا کی جا سکتی ہے۔
٭سوال ۔ کیا اس کاشت سے اتنا زرِ مبادلہ مل سکتا ہے ؟
٭زرِ مبادلہ کا اندازہ یوں ہو گا کہ پاکستان میں کریلا اگر 100روپے میں بکتا ہے ۔تو یورپ میں اس کی قیمت فی کلو 12سے15 یورو ہے ۔اور فی کلو برآمد کا خرچ ایک یورو ہو گا ۔تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ باہر کی منڈی میں 100روپے میں کاشت ہونے والا کریلا 1500سے 2000روپے میں فروخت ہو گا ۔لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب ٹنل فارمنگ کے ذریعے اس کی نہ صرف پیداوار بڑھائی جاے بلکہ اس کو سارا سال پیدا کیا جائے۔
٭آپ نے ٹنل فارمنگ کا آغاز کیسے کیا؟
٭ہم نے ٹنل فارمنگ کا آغاز ایسے کیا کہ سبزی نقد کا سودا ہے اس وقت زمنیندار آڑھتی سے تنگ ہیں ۔آڑھتی تو سبزیوں کی خرید و فروخت میں بھی ہیں لیکن اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس کو نقد کے پیسے مل جاتے ہیں ۔اگر گنے کو ملیں خریدنے سے انکار کر دیں ۔گندم کا امدادی ریٹ ملنا بند ہو جائے کپاس کا گورنمنٹ ریٹ اناونس نہ کرئے تو شاید زمیندار کو یہ سب لوگ مل کر کھا جائیں ۔زمیندار کو یہ ایک روپیہ بھی نہ دیں ۔یا یہ کوشش کریں کہ پول کر کے ان سے سستے ترین داموں چیزیں اٹھا لی جائیں ۔کیونکہ صنعت کار تو پول کر سکتا ہے زمیندار پول نہیں کر سکتا ۔اب یہ ساری چیزیں دیکھتے ہوئے جو مجھے چیز نظر آئی کہ سبزی بہترین کاروبار ہے ۔سبزی پھل اور چکن یہ تین چیزیں ایسی ہیں جو نقد میں بکتی ہیں ۔میں جس بھی میٹنگ میں گیا میں نے لوگوں کو اس بات پر مائل کیا کہ آپ سبزیوں کی کاشت کریں ۔کیونکہ سبزی آپ کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لیے بہترین ہے ۔کہ آپ کو نقد اور موقع پر پیسے مل جاتے ہیں چاہے تھوڑے کم مل جائیں ۔لیکن آپ کو مل جاتے ہیں ۔آپ کے پیسے رکتے نہیں ہیں ۔زراعت میں سبزی سے زیادہ منافع بخش چیز اور کوئی نہیں ہے ۔آپ پیاز لگاتے ہیں آپ لہسن اور ادرک کاشت کرتے ہیں۔ان تمام فصلوں سے منافع ہے ۔ جبکہ گندم ایک ہزار روپے میں من ملتی ہے ۔اور بعض صورتوں میں ٹماٹر سو روپے یا اس سے زیادہ میں ایک کلو ملتا ہے ۔یہ بہت بڑا فرق ہے اور ٹماٹر آج کل بھی ساٹھ ستر پر گیا ہوا ہے ۔
٭یہاں ایک سوال ہے کہ پاکستان میں گندم ،چاول ،گنا اور کپاس بہت بڑے رقبے میں کاشت ہو رہی ہے ۔کیا اس سارے رقبے پر سبزیاں کاشت کی جا سکتی ہیں ؟
٭جی بالکل ہو سکتی ہیں لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے ۔کہ ہماری سبزیوں کی اتنی کھپت بھی ہو ۔ابھی ہماری لوکل ٖ ضرورت کے لیے جتنی سبزی پیدا کی جا رہی ہے وہ کافی ہے ۔ہمیں گورنمنٹ اور اس کے ادارے رسائی فراہم نہیں کر رہے ہیں اگر وہ ہمیں یورپ تک سبزیوں کی فراہمی کی رسائی دے دیں ٹیکس اٹھا دیں اور صرف ہماری پالیسیوں کو نرم کر دیں ۔تو اتنا بڑا سیکٹر کھل جائے گا جو ہماری سوچ سے بھی باہر ہے ۔ہم جتنے پیسوں کا باہر سے پیٹرول اور چیزیں درآمد کرتے ہیں ان سے کئی گنا میں (دوبارہ زور دوں گا) کہ کئی گنا زیادہ سبزیاں فراہم کریں گی۔
٭اچھا یہ بتائیے کہ ان پالیسیوں کو کون نرم کرئے گا ؟
٭اس کا فیصلہ بالکل ایسے ہی ہونا ہے جیسے یک دم بیٹھے بیٹھے کابینہ نے فیصلہ کیا کہ انڈیا ہر ٹریڈ میںہماری سب سے بہترین کاروباری ساتھی ہو گا۔اسی طرح یورپی یونین فیصلہ کرئے یا ہماری گورنمنٹ یہ فیصلہ کر لے کہ ہم نے یورپی یونین کو جو سبزیاں سپلائی کرنی ہیں ۔اس میں ہم ہر جگہ فارمر کو سہولت دیں گے اس کے لیے گورنمنٹ گارگو پلین دے گی یا کارگو کے ریٹ بہت کم کر دے گی 
٭ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ فارمر سے گورنمنٹ خریدے گی ۔
٭ بالکل نہیں( بالکل بھی نہیں )گورنمنٹ اتنا بڑا کام کر ہی نہیں سکتی گورنمنٹ آج یہ اعلان کر دے کہ فارمر اپنی سبزیات یورپ برآمد کر سکتا ہے ۔اور اس پر ٹیکس نہیں لگایا جائے گا ۔برآمدی ڈیوٹی وہ نہیں ادا کرئے گا ۔تو ریٹ آپ کو فیئر پرائس پر لگیں گے ۔ابھی آپ کو معلوم ہے اس کی کیا قیمت لی جا رہی ہے ۔ابھی صرف لندن تک فی کلو کے حساب سے کل کی قیمت 112/-روپے تھی ۔اب اگر یہ ہی کام سعودی حکومت اپنے فارمر کے ساتھ کر رہی ہے ۔یا دوبئی سے لوگ کر رہے ہیں ۔تو ان کا ریٹ حیران کن طور پر صرف بائیس روپے فی کلو ہے اور ہمارے ملک میں 112/- روپے ہے تو ہم تو مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔
بنگلہ دیش بھی 35/-روپے فی کلو کے حساب سے ریٹ دے رہا ہے ۔تو ہم 112/-روپے کے ریٹ کے حساب سے کیسے مقابلہ کریں گے ۔اس وقت یورپ میں کوئی بھی سبزی چار یا پانچ یورو فی کلو سے کم میں نہیں بک رہی ہے اور پانچ یورو کا مطلب پانچ چھ سو روپیہ ہے ۔تو چھ ساڑھے چھ کلو ہمارے زمیندار کو سبزی کا ریٹ مل جائے تو وہ باقی سارے کام چھوڑ دے ۔
٭گویا ہمیں باقی فصلوں سے ہٹ کے صرف اس پر کام کرنا چاہیے 
٭اس کا ایک فائدہ تو یہ ہو گا کہ غیر ملکی زر مبادلہ سے ہمارے ملک میں پیسہ آئے گا اور جو ہم خسارے میں جا رہے ہیں ۔ہمیں ہر وقت ڈالر اور پیسوں کی ضرورت ہے ۔وہ پیسہ آئے گا تو ملک خوشحال ہو گا ۔اور دوسری اور خاص وجہ جو خاص طور پر نمایاں کرنے کے قابل ہے ۔گندم ہماری بنیادی خوراک ہے جو پیٹ بھرنے کے کام آتی ہے ۔دنیا کا سب سے فرسودہ اور سب سے تھکا ہوا اور سب سے گھٹیا ذریعہ پیٹ بھرنے کے لیے استعمال ہو رہا ہے وہ گندم ہے چونکہ ہم استعمال کر رہے ہیں اس وجہ سے یہ اعلی نہیں ہو گیا ہے ۔گندم کی وجہ سے ہی بابا آدم کو بھی جنت سے نکالا گیا تھا ۔تو یہ تو اسلامی طور پر بھی اس کو کھانا ناجائز ہے ۔تو یہ اسٹیپل فوڈ میں دنیا میں سے نیچے کی سطح پر آتی ہے ۔ساڑھے پانچ ماہ کی محنت کے بعد آپ فی ایکڑ 21سے 22من گندم فی ایکڑ سے پیدوار ملتی ہے اور اچھے دنوں میں 24من فی ایکڑ تک مل جاتی ہے ۔یہ ساڑھے پانچ مہینے کے بعد حاصل ہونے والی گندم ہے ۔اس کے مقابلے میں اگر ہم کدو لگاتے ہیں ۔تو ایک ایکڑ سے ایک ہفتے میں 70سے80من فی ایکڑگیلے کدو کی پیداوار ہوتی ہے ۔اور اگر ہم اس کو خشک صورت میں تبدیل کریں تو یہ 40من فی ایکڑ پیداوار دیتا ہے ۔تو گویا ایک مہینے میں 160من فی ایکڑ کے حساب سے کدو سے ملے گا ۔اور اگر اس خشک کدو کو آٹے میں تبدیل کر کے گندم کے ساتھ ملا کر روٹی پکائی جائے یا مکئی کے ساتھ تو اس سے ایک بہترین کھانا تیار ہو سکے گا ۔اسی طرح سے دوسری فصلیں ہیں دنیا اس وقت نئی سے نئی سبزیات اگانا چاہتی ہے ہم لوگ صدیوں سے لکیر کے فقیر ہیں ۔ایک بہت اہم نقطہ یہ ہے کہ جس خطے میں ہم رہ رہے ہیں ۔ذہنی طور پر ایک محکوم اور غلام طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ بہت سخت اور چبھنے والے الفاظ ہیں لیکن آج تک اس خطے کی یہ خاصیت رہی ہے ۔کہ باہر سے آکر کر لوگوں نے ہم پر حکومت کی ہے لیکن ہم نے کبھی حملہ نہیں کیا ۔محمد بن قاسم سے لے کر راجہ داہر تک اور راجہ داہر سے لے کر پٹھان حکمرانوں اور مغلوں تک صرف رنجیت سنگھ یہاں کا باسی تھا باقی تمام لوگوں نے باہر سے آ کر ہم پر حکومت کی ہے ۔اور دلچسپ بات یہ ہے کہ جو شخص بھی ہمارے اوپر حکومت کرنے آتا تھا وہ ہمارا محبوب ہو جاتا تھا ۔لیکن مزید خوفناک بات یہ ہے کہ آج بھی آزاد ہونے کے باوجود ہم آزادی نہیں لے رہے ہیں وہ ایسے کہ ہم اپنی زبان میں کوئی چیز خریدنا اور بیچنا پسند نہیں کرتے ہیں ۔مثلا اگر بازار میں ایک شمپو سر اور کندھے کے نام سے بکنا شروع ہو تو ہم کبھی نہیں خریدیں گے لیکن Head & shoulderکے نام سے ہو تو ہم ضرور خریدیں گے یہ ذہنی طور پر محکوم ہونے کی ایک بہت بڑی نشانی ہے ۔خیر یہ تو ضمنی طور پر بات آ گئی ۔تو دنیا نج کراپس پر کیسے جا رہی ہے ۔ونیلا فارمنگ ہے ونیلا کی کراپس ایک ایکڑ پر فارمر کو ١یک کروڑ بیس لاکھ یا ایک کروڑ پچاس لاکھ فی ایکڑ کی آمدنی ہے ۔ہماری گورنمنٹ یا ہمارے سائنسدانوں کے پاس اتنا ٹائم ہی نہیں ہے کہ وہ اس چیز پر ریسرچ کریں ۔ادویات والے پودے ہیں ۔مثلا مجھے پچھلے دنوں میں خود بھی کھانے کا اتفاق ہوا۔ملک تھسل Milk thistleنام کی ایک جڑی بوٹی ہے ۔ اس میں خدا تعالی نے ایسی خوبی رکھی ہے ۔کہ جو جگر کو چاہے اس کے جتنے بھی برے حالات ہوںاس کو یہ پور طور پر ٹھیک کر دیتی ہے ۔اسی طرح پاکستان میں بھی جگر کے لیے دو اور ادویات ہیں اگرچہ ان سے فائدہ نہیں لیا گیا ۔ایک گاجر ہے اور دوسرا گنا ہے ۔لیکن ہم نے آج تک اپنی اس چیز کو کیش کروانے کی کوشش نہیں کی۔تو ملک تھسل اگر دنیا میں اگر مانی جاتی ہے تو یہ ہمارے ہاں کیوں نہیں کاشت ہو سکتی ۔ہم اس کو لگا سکتے ہیں ہم اس سے پیسے کما سکتے ہیں ۔اس طرح بے شمار ادویاتی پودے ایسے ہیں جو لاکھوں نہیں کروڑوں روپے دے سکتے ہیں ۔لیکن ہم اس کو کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں 
٭آپ کی ساری تجاویز بے حد مفید ہیں لیکن ہمیں یہ بتائیے کہ فارمر کی سوچ کیسے بدلی جائے ۔
٭میں اپنے بارے میں تو یہ بتاؤں گا کہ ہم رونے والوں میں سے نہیں ہیں جو بیٹھ کے روتے رہتے ہیں کہ گورنمنٹ یہ کرئے گورنمنٹ وہ کرئے گورنمنٹ اگر ہمیں ایک گلی پکی کروا کر نہیں دے سکتی تو ہم اپنے چلنے کا ٹریک تو پکا کر سکتے ہیں میں نے اسی سوچ کو لے کر آگے بڑھتے ہوئے پاکستان میں ٹنل فارمنگ کی جو داغ بیل ڈالی تھی آج اس کا پودا بلکہ اس کا درخت تیار ہو چکا ہے ۔36ہزار ایکڑپر اب ٹنل فارمنگ کی جا رہی ہے ۔ایک بندہ سارے شعبوں کا احاطہ نہیں کر سکتا ۔نئے سے نئے لوگ آنے چاہیں۔یہ کیسے آئیں گے گورنمنٹ کو اس کی طرف لانا نہیں ہے بلکہ صرف ایک پالیسی دینی ہے ۔پالیسی کیسے دی جاتی ہے یہ گورنمنٹ کے لوگ مجھ سے بہتر سمجھتے ہوں گے ۔بنگلہ دیش کی صرف ایک پالیسی نے ہمارے جتنے صنعت کار ہیں فیصل آباد سے جو کپڑا بناتے تھے ۔وہ اپنی لگی ہوئی مشنیں اٹھا کر بنگلہ دیش لے گئے ہیں ۔پالسی کیا تھی بنگلہ دیش کی دو پالیسیاں تھیں پہلی پالیسی یہ تھی کہ پندرہ سال تک ہم آپ سے ٹیکس نہیں لیں گے آپ جو مرضی کمائیں جو مرضی کریں ۔ہم آپ سے ٹیکس نہیں لیں گے ۔دوسری پالیسی یہ تھی کہ ہم آپ کو بجلی کی سپلائی بغیر روکے لگاتار دیں گے ۔یعنی بجلی کی سپلائی نہیں رکنے دیں گے۔ آپ یقین کر سکتے ہیں کہ فیصل آباد کے30%صنعت کار پاکستان چھوڑ کے اُدھر چلے گئے ہیں ۔یہاں لوگ سڑکوں پر روتے پھر رہے ہیں لوگو ں کو نوکریاں نہیں مل رہی ہیں ۔جس کی وجہ سے کرائم کا ریٹ فیصل آباد میں تین چار گنا بڑھ چکا ہے ۔بنگلہ دیش کی حکومت اپنے لوگوں کے ساتھ اتنی مخلص ہے ۔اسی طرح سے زرعی پالیسی دی جا سکتی ہے۔اس کا یہ ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں انفرادی طور پر بات کر دوں کہ یہ ہو جائے یا وہ ہو جائے ۔پالیسی بنانے کے لیے ذہین اور سمجھ دار لوگوں کو بیٹھنا پڑتا ہے ۔پھر ہی ایسی پالیسیاں بن سکتی ہیں جو ہمارے نظام میں غیر معمولی تبدیلیاں لے کر آئیں ۔
٭ہم ان پالیسیوں کو بنانے کے بعد کیسے تیزی سے قابل عمل بنا سکتے ہیں
٭جی اس کے لیے میں یہ کہوں گا کہ ابھی میرے پاس ایک شحص U.P.Sلگانے آیا تھا اس کو ایک پرزہ درکار تھا اگر میں وہ پرزہ خود خریدنے جاؤں تو سب سے پہلے میرا کام حرج ہو گا جو کر رہا ہوں پھر پیٹرول خرچ ہو گا اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ مطلوبہ چیز بھی نہ لا سکوں۔یہ شخص مجھ سے وہ ایک پرزہ لانے کے لیے دو سو روپے مانگ رہا تھا ۔میں نے اس کودو سو روپے کے ساتھ دو سو زائد دے دیئے ۔اب وہ کہہ گیا ہے کہ میں ایک گھنٹے کے بعد آپ کو لگا کر دے جاؤں گا ۔اب یہ میری پالیسی ہے کہ میں نے اپنے کام کو اور اپنے ٹائم کو منظم کیا ۔آج تک ہمیں ایک بھی ایسا مخلص لیڈر نہیں مل سکا جو ملک کے مسائل کو منظم کر کے حل کرئے۔وہ تو خیر دور کی بات ہے ۔زراعت اور صحت کے شعبوں میں کبھی بھی آفیسر یا کمانڈنگ آفسیر بیوروکریٹ نہیں لگا نا چاہیے ۔وہ ٹیکنو کریٹ ہونا چاہیے جو اپنے شعبے کو اٹھا کر آگے چلے ۔یہ سب سے پہلا پالیسی میٹر ہو گا ۔جس پر ہم زور دیں گے ۔بیورو کریٹ کی بجائے ٹیکنو کریٹ کو اداروں کا سربراہ بنایا جائے ۔اور اداروں کو خود مختار بنایا جائے ۔
٭ ٹنل کے بارے میں کچھ بتائیں 
٭ٹنل فارمنگ کی تین چار مروجہ قسمیں ہیں ۔اس میں سب سے پہلی اور سستی والی (لو ٹنل ) ہے یہ دو فٹ چوڑی اور اڑھائی فٹ اونچی ہوتی ہے ۔دوسری (واک ان ٹنل) ہے جس میں ہم چل سکتے ہی ۔تیسری قسم کی جو ٹنل ہے اس کا نام ہے (ہائی ٹنل) اس میں ٹریکٹر تک چل سکتا ہے ۔ان تینوں کے مختلف اخراجات ہیں ۔ان کی تعمیر کے لیے ہم مختلف اشیاء استعمال کرتے ہیں ۔جس میں بانس بھی شامل ہو سکتا ہے ۔جس میں لوہا بھی ہو سکتا ہے۔ جس میں سفیدہ اور لکڑی بھی ہو سکتی ہے ۔ جس میں ٹی آئرن اور اینگل آئرن بھی استعمال ہو سکتے ہیں ۔پچھلے بارہ سال سے پاکستان کے زمیندداروں کا سب سے منافع بخش کاروبار ٹنل فارمنگ ہی ہے ۔لوگوں نے ڈیری کا کام بھی کیا ہے ۔ایک کام اور ہے جس میں منافع بہت ہے وہ ہے پولٹری فارمنگ لیکن اس میں خرچ بھی بہت زیادہ ہے ۔دوسرا یہ مشکل کام ہے اس میں پہلی بات یہ ہے ۔کہ اس کو لگانے کے لیے بڑا سرمایا درکار ہے ۔یہ صرف امیر آدمی کے کرنے کے کام ہیں 
٭کیا آپ کی بات سے یہ نہیں لگتا کہ لوگوں کوپولٹری کی جانب نہیں آنا چاہیے 
٭جی نہیں اگرکوئی شخص ہوٹل بنانا چاہتا ہے تو ضرور ی نہیں کہ وہ پر کانٹینٹل ہی بنائے وہ سڑک کے کنارے ایک چھوٹے سے ہوٹل سے بھی اپنا کام شروع کر سکتا ہے اگر پولٹری کا کام کرنا ہے تو وہ ایک ہزار کا چھوٹا سا پلاٹ رکھ کر بھی شروع کیا جا سکتا ہے ۔لیکن ظاہر ہے جو شخص جنتا زیادہ سرمایا لگائے گا اتنا ہی کمائے گا ۔
ٹنل فارمنگ 
زرعی مشورے اور ماہرانہ تبصرے
سال رواں میں بھی کاشتکار بے شمار حکومتی بے مروتیوں زرعی مداخل کی عدم دستیابی اور مہنگے داموں دستیابی، جعلی کھادوں اور زہروں کی پریشانیوں اور روز افزوں آسمان کو چھوتی مہنگائی ( پیٹرول بجلی ڈیزل ) کے باوجودبھی ہر وقت جہد مسلسل میں جتا ہوا ہے ۔اور اپنے ملک کی ریڑھ کی ہڈی ـ ( زراعت) کو مسلسل سہارا دیے ہوئے ہے۔ ماہ مئی اور جون میں ٹنل فارمنگ کی کچھ سبزیات اپنی عمر پوری کر کے خاتمہ کی طرف رواں ہوں گی تو چند فصلیں بہترین پیداواری کارکردگی دکھا رہی ہوں گی۔ 
زرعی مشورہ جات مندرجہ ذیل ہیں
کھیرا
١۔کھیرے کی زیادہ تر ہائبرڈ اور پارتھینو کارپک اقسام مئی کے اختتام تک اپنی پیدوار دینا ختم کر دیتی ہیں ۔تاہم اگر دو پہر کو ٹھنڈے پانی کا سپرے کیا جائے یا (Misters) فین لگا دیئے جائیںتو فصل کی عمر میں خاطر خواہ اضافہ کیا جا سکتا ہے ۔ 
٢۔دیسی اور زمینی کھیرے کی بہتات کی وجہ سے قیمتوں میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے لیکن اگر فصل کو لمبا چلا لیا جائے تو بہتر قیمتوں کا حصول ممکن ہے ۔
٣۔کھیرے کو فنگس کی بیماریوں سے خصوصی تحفظ کے لیے دو اقسام کی ادویات کو مشترکہ سپرے کریںاس ضمن میںریوس (Revus) اور اسکور (Score) کا ایک ساتھ سپرے نہایت مفید پایا گیا ہے ۔
٤۔فصل کو ہرا بھرا رکھنے کے لیے سمندری جڑی بوٹیوںکے محلولSea Weed Extrect کو سپرے کریں۔بہترین رزلٹ کے لیے TK.50 یا ایزابیان کو استعمال کریں۔
٥۔فو لیٹر کھادوں پر انحصار بڑھا دیں NPK 20:20:20اپنی خاص فارمولیشن برائے سبزیات جینو فرٹ۔ 60 میں بہترین رزلٹ دیتی ہے 
سبز مرچ ۔ شملہ مرچ
1۔مرچوں کو زمینی بیماریوںاور یک دم موت سے بچانے کے لیے کسی بھی مناسب فنگس کش زہر سے ڈریچینگ (Drenching) کریںاس عمل میں زہر کو پودوں کی جڑوں میں ڈالا جاتا ہے ۔
2۔اگر آپ کی زمین میں دیمک اور نیما ٹوڈ (Termites & Nematodgs)کا مسئلہ موجود ہے ۔تو آبپاشی کے ساتھ مناسب زہر ٹر میسائیڈاور نیمیٹیسائیڈ قطرہ بہ قطرہ استعمال کریں۔
3۔لگاتار پھولوں اور زیادہ پھل کے حصول کے لیے پودوں کو ایک خاص اینزائم کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس پروڈکٹ کو پلانٹ ایپیٹائزر کا نام دیا گیا ہے اس کے حصول کے لیے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے مسائل سائنس انسٹیٹیوٹ کے ڈاکٹر یٰسین صاحب سے رابطہ کیا جا سکتا ہے یہ دوائی فی ایکڑ کے لیے صرف 100 ایک سو روپے میں دستیاب ہے ۔
ٹماٹر
1۔رواں سال شدید موسمی حالات کے باعث ٹماٹر مناسب پورا سائز اور وزنی نہیں ہو سکا 
2۔انڈیا سے ٹماٹر کی لگاتار درآمد نے لوکل زمیندار کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے انتہائی سستے داموں ٹماٹر کی فروخت دیکھ کر اگلے سال کاشتکارٹماٹر لگانے کی ہمت نہیں کر سکے گا ۔یوں کروڑوں روپے کا زر مبادلہ انڈیا کے پاس زرعی اجناس کی مد میں جا رہا ہے ۔اور اگلے سال یہ رقم صرف ٹماٹر کی مد میں اربوں روپے میں ہو گی ۔ حکوت کو اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget