زمین کی تیاری اور کھادوں کا استعمال

زمین کی تیاری

 سبزیوں کی کاشت کے لئے زمین کا بالائی حصہ(9 تا 12 انچ) انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چونکہ اسی حصہ سے پودے نے خوراک اور پانی حاصل کرنا ہے۔ اس لئے اس کی اچھی تیاری اور زرخیزی انتہائی ضروری ہے۔ سبزی کی کاشت کے لئے عام نرم میرا زمین انتہائی موزوں خیال کی جاتی ہے۔ اگر آپ کے رقبے میں چکنی مٹی والی یا ریتلی زمین ہو تو بھی رقبے کو درج ذیل طریقے سے قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے۔

٭ سخت زمین یا چکنی مٹی والی زمین بھل یا ریت اور گوبر کھاد وافر مقدار میں ملا کر قابل کاشت بنائی جا سکتی ہے۔

٭ریتلی مٹی والی زمین کو عام مٹی اور گوبر کی کھاد وافر مقدار میں ملا کر قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے۔

زمین کی اچھی تیاری کے لئے ایک فٹ گہرائی تک زمین کی بار بار کھودائی کیجیے۔ زمین میں شامل کنکر، پتھر، پلاسٹک وغیرہ باہر نکال دیں۔ مٹی کے ڈھیلوں کو توڑ کر نرم اور ہموار کر لیں۔ مکمل تیاری پر مٹی کا بھر بھرا اور نرم ہونا ضروری ہے۔ تا کہ پودوں کی جڑیں اچھی طرح پھیل سکیں اور پودے زمین سے وافر خوراک و پانی وغیرہ حاصل کر سکیں۔

کھادوں کا استعمال

پودوںکی بڑھوتری کے لئے نائٹروجن کی ضرورت ہوتی ہے۔ نائٹروجن پتوں اور پودے کے قد اور پھیلاﺅ کے لئے انتہائی ضروری عنصر ہے۔ فاسفورس پودوں کی جڑوں کی مضبوطی اور پھیلاﺅ کے لئے انتہائی اہم عنصر ہے ۔

فاسفورس پودوں کی جڑوں کو مضبوط بناتی ہے جبکہ پوٹاش پودوںمیں مختلف بیماریوں کے خلاف قوت مدافعت پیدا کرتی ہے۔ اسی طرح سے پوٹاشیم کی موجودگی سے پودہ نائٹروجن اور فاسفورس کا صحیح فائدہ لے سکتا ہے۔ علاوہ ازیں پھل اور بیج کی صحت مند بڑھوتری اور کوالٹی کے لئے پوٹاشیم انتہائی اہم ہے۔ ان تین عناصر ( نائٹروجن، فاسفورس، پوٹاشیم) کے علاوہ بعض دیگر عناصر مثلاً کیلشیم، آئرن،زنک، بوران، وغیرہ بھی انتہائی قلیل مقدار میں پودوں کی ضرورت ہوتے ہیں۔

اگرچہ یہ تمام عناصر مختلف کیمیائی کھادوں کی صورت میں بازار میں دستیاب ہیں۔ تا ہم گھریلو باغیچے کے لئے یہ ممکن نہیں کہ اتنی کھادیں اکٹھی کی جائیں جبکہ قدرت نے یہ تمام عناصر گوبر کی کھاد میں یکجا کئے ہیں۔ قدرتی کھادیں جن میں گوبر اور پتوں کی کھادیں شامل ہیں نہ صرف پودوں کو ضروری غذائی اجزاءفراہم کرتی ہیں بلکہ زمین کی ساخت کو بھی بہتر بناتی ہیں۔

گوبرکی کھاد

اس میں جانوروںاور مرغیوں کا فضلہ شامل ہیں۔ گوبر کی کھاد زمین کی تیاری کے وقت ڈالیں۔ خیال رہے کہ گوبر کی اچھی طرح سے گلی سڑی اور پرانی کھاد استعمال کیجئے۔ تازہ گوبر کی کھاد زمین میں ڈالنے سے دیمک لگ جانے کا اندیشہ ہے۔ نیز تازہ کھاد سے پودوں کو خوراک حاصل نہیں ہوتی۔ گوبر کی کھاد کو گڑھوں میں دو تا تین ماہ بند رکھیں یا زمین کے اوپر ہی مٹی کی موٹی تہہ سے ڈھانپ دیں تو کھاد تیار ہو جاتی ہے۔

پتوں کی کھاد

تین تا چار فٹ گہرا گڑھا کھودلیں اس گڑھے میں پتوں، سبزیوں، پھلوں اور انڈوں کے چھلکے نیزگلنے سڑنے والی دیگر اشیاءکی ہلکی تہہ لگا دیں۔اس تہہ کے اوپر گوبرکی کھاد کی تہہ لگائیں۔ اس طرح سے کئی تہیں لگا کر گڑھا بھر لیں آخر میں گڑھے کو مٹی کی موٹی تہہ سے بند کر دیں تقریباً دو تا تین ماہ میں یہ کھاد استعمال کے لئے تیار ہو جائے گی۔ گوبر اور پتوں کی کھاد 4 تا 5 من فی مرلہ استعمال کیجئے۔

کیمیائی کھادیں

کیمیائی کھادیں بازار میں دستیاب ہیں۔ مختلف اجزاء(عناصر) کے لئے گھریلو باغیچہ کیلئے گوبر کھاد یا پتوں کی کھاد ہی ترجیحاً استعمال کی جائے ۔کیمیائی کھادوں کے استعمال سے اجتناب کیجئے۔ اگر آپ کے باغیچہ کی زمین کم طاقت کی بھی ہے۔ تو نامیاتی کھادیں وافر مقدار میں استعمال کرنے سے زمین طاقت ور ہو جائے گی۔

زمین میں کھادیں ڈال کر اچھی طرح سے گوڈی کر کے کھادیں زمین میں ملا دیں۔ اب سبزی لگانے کے لئے زمین کو ہموار کر لیں اور سبزیوں کی قسم کے مطابق وٹیں پٹڑیاں یا ہموار جگہ میں سبزی کاشت کریں۔

وٹیں بنانے کا طریقہ

بھنڈی، مرچ، ٹماٹر، شملہ مرچ، بینگن، پھول گوبھی، بند گوبھی، مولی، شلجم، گاجر اور سلاد وٹوں پر کاشت کرنے سے اچھی پیداوار دیتی ہے۔ نرم اور ہموار زمین میں کسی ڈوری یا رسی کی مدد سے سیدھے نشان لگا لیں (قطاروں کے فاصلے کے لئے کیلنڈر دیکھیں ) اب نشان کے دونوں اطراف سے مٹی اُٹھا کر نشان کے اوپر ڈالتے جائیں۔ اس عمل سے جو اُبھار ہو گا یہی وٹیں کہلاتی ہیں۔ وٹوں کے درمیان پانی لگانے کے لئے نالی بن جائے گی۔

پٹڑیاں بنانے کا طریقہ

تمام بیلدار سبزیاں مثلاً کدو، کھیرا، تربوز، خربوزہ، تر اور مٹر پٹڑیوں پر کاشت ہوں گی۔ اگر ان سبزیوں کو باڑ کے نزدیک کاشت کیا جائے اور سہارا دے دیا جائے تو پٹڑیوں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ پٹڑ یوں کے لئے بھی نشان لگا کر مٹی اٹھائیں تا کہ سیدھی پٹڑیاں بن سکیں۔پٹڑیاں وٹوں کی نسبت زیادہ چوڑی ہوتی ہیں۔

ہموار جگہ پر کاشت

پالک ، میتھی، دھنیا، لہسن، پیاز اور پودینہ ہموار جگہوں پر قطاروں میں کاشت کیجئے۔ قطاروں میں کاشت کرنے سے جڑی بوٹیوں کا تدارک نیز گوڈی و آب پاشی میں آسانی کے علاوہ پودوں کو یکساں مقدار میں دھوپ، خوراک اور پانی بھی حاصل ہوتے ہیں۔

طریقہ کاشت

سبزیا ں عموماً تین طریقوں سے کاشت کی جاتی ہیں۔

1 ۔ براہ راست بیجوں سے

2 ۔ نباتاتی حصوں سے

3 ۔ پنیری سے

1 ۔ براہ راست بیجوں سے

زمین اچھی طرح سے تیار کرنے کے بعد ضرورت کے مطابق زمین میں وٹیں ، پٹڑیاں یا ہموار جگہ پر قطاروں کے نشان لگالیں۔ کیلنڈر میں دئیے گئے فاصلے کے مطابق بذریعہ بیج کاشت ہونے والی سبزیاںمثلاً بھنڈی،کھیرا، کریلا، توری، ٹینڈا، کدو، تربوز، خربوزہ،اور تر موسم گرما جبکہ مولی شلجم، گاجر، میتھی، پالک وغیرہ موسم سرما میں بیج سے کاشت کیجئے۔ ایک جگہ اچھی روئیدگی والا ایک بیج جبکہ کم قوت روئیدگی والے دو بیج کاشت کیجئے۔ بیجوں کو ان کی جسامت کے تین گنا گہرائی میں لگائیں۔ بعد ازاں فوارہ کے ذریعے آب پاشی کیجئے۔ بیج اگنے کے چند دن بعد ایک جگہ پر ایک پودا چھوڑتے ہوئے باقی پودوں کی چھدرائی کر دیں تا کہ پودا صحت مندانہ نشوونما پا سکے۔

2۔نباتاتی حصوں سے کاشت

چند سبزیاں تنوں یا جڑوں کے حصے سے کاشت کی جاتی ہیں۔ ان سبزیوں میں آلو، اروی، لہسن اور شکر قندی شامل ہیں۔

آلو

بہاریہ فصل کے لئے آلو کو اس طرح کاٹیں کہ ہر ٹکڑے پر دو یا تین آنکھیں ہوں۔ ان ٹکڑوں کو بطور بیج جنوری میں زمین میں لگائیں۔ انہیں وٹوں پر کاشت کریں۔ وٹوں کا درمیانی فاصلہ اڑھائی فٹ جبکہ پودے سے پودے کا فاصلہ 8سے10 انچ رکھیں۔ خزاں والی فصل میں درمیانی جسامت کا مکمل آلو بطور بیج وٹوں پر کاشت کیجئے۔ خزاں والی فصل شروع ستمبر میں کاشت ہو گی۔ جبکہ پہاڑی علاقوں مثلاً مری، کالام، کاغان، گلگت، سکردو میں گرمائی فصل اپریل تا جون لگائیں۔ جو کہ اگست، ستمبراور اکتوبر میں برداشت ہو گی۔

اروی

اروی کی درمیانہ جسامت کی گٹھلیوں کو بطور بیج استعمال کیجئے۔ وٹوں کا درمیانی فاصلہ دو فٹ جبکہ پودوں کا آپس میں فاصلہ 8انچ رکھیں فصل فروری، مارچ میں کاشت کیجئے۔

شکر قندی

شکر قندی کا (کھانے والا حصہ) فروری میں ریت میں دبا دیں۔ ریت کو اس قدر پانی دیتے رہیں کہ ریت نم حالت میں رہے۔ شکر قندی سے بیلیں نکلنا شروع ہو جائیں گی۔ مارچ میں ان بیلوں کو کاٹ کر 4 تا 6 انچ کی قلمیں تیار کر لیں۔

ان قلموں کو وٹوں پر کاشت کیجئے اور پانی لگا دیں۔ ابتداءمیں چونکہ ان کی جڑیں نہیں ہوں گی اس لیے مرجھائے ہوئے نظر آئیں گے تاہم چند دنوں میں پودے جڑیں بنا لیں گے ۔ یہ بات یاد رکھیں کہ شکر قندی والے کھیت میں گوبر کی کھاد کا استعمال نہ کیجئے۔

لہسن

 لہسن کی پوتھیاں بطور بیج استعمال ہوں گی۔ پوتھیوں کو الگ الگ کر لیں۔ ہموار زمین میں قطاروں سے قطاروںکا فاصلہ8انچ جبکہ پودے سے پودے کا فاصلہ2 تا4انچ رکھتے ہوئے لہسن اکتوبر میں کاشت کیجئے۔ لہسن میں جتنی گوڈی کریں گے اتنی پیداوار زیادہ ہو گی۔

پودینہ

پودینہ کی جڑیں ہموار سطح پر قطاروں میں کاشت کیجئے۔ پودینے کے اچھے پھیلاﺅ کے لئے زمین کا نرم ہونا اور اچھی مقدار میں گوبر کی گلی سڑی کھاد کا ہونا ضروری ہے۔

3۔پنیری والی سبزیوں کی کاشت

(الف)
ریت، گلی سڑی گوبر کی کھاد اور عام مٹی چھان کر برابر مقدار میں ملا کر آمیزہ تیار کرلیں۔ اس آمیزے کو گملوں،کریٹ یا پلاسٹک کی ٹرے میں بھر لیں۔ اس کے اندر ہی مرچ و شملہ مرچ، ٹماٹر، بینگن سلاد، پیاز، پھول گوبھی، بند گوبھی، بروکلی وغیرہ کے بیج لگا کر فوارے سے آبپاشی کیجئے۔ چند ہفتوں میں پودے نکل آئیں گے۔ مناسب جسامت کے پودے صبح یا شام کے وقت باغیچہ میںمنتقل کیجئے۔

(ب)
مرچ، ٹماٹر، شملہ مرچ اور بینگن کی اگیتی پنیری تیار کرنے کے لیے دسمبر میں گملوں یا کیاریوں میں بیج لگا لیں۔ ان کیاریوںکے اوپر شیشم یا دیگر درختوں کی ٹہنیوں سے ٹنل بنا لیں۔ ٹنل کو شفاف پلاسٹک سے ڈھانپ دیں تا کہ روشنی پودوں تک پہنچ سکے۔ دوپہر کے وقت پلاسٹک ہٹاکر پانی وغیرہ دیں اور کیاریوں کو ہوا لگنے دیں اسی دوران جڑی بوٹیوں کی صفائی کر دیں۔

(ج)
بیلوں والی سبزیوں کی اگیتی فصل کے لیے پنیری ایسے علاقے جہاں سردی زیادہ عرصہ تک رہتی ہے۔ گرمیوں کی سبزیوں مثلاً کھیرا، کدو وغیرہ کی کاشت میں کافی تاخیر ہو تی ہے۔ جس کے تدارک کے لیے طریقہ(ب) میں تیار کردہ ٹنل کے اندر پلاسٹک کی چھوٹی تھیلیاں(ڈیڑھ × ڈھائی انچ) پنیری کی تیاری کے لیے موزوں ہیں۔

تھیلیوں کے پیندے میں فالتو پانی کے اخراج کے لیے چھوٹے چھوٹے سوراخ کر لیں۔ اب تھیلیوں کو مٹی اور گوبر کی کھاد کے ہم وزن آمیزے سے بھر کر ہر تھیلی میں ایک بیج لگا کر ٹنل کے اندر رکھ کر ان کی آب پاشی کر دیں۔

اس طریقے میں کریلے دسمبر میں جب کہ گھیا کدو، تربوز، خربوزہ، کھیرا، ٹینڈا، چینی کدو، گھیا کدو، کالی توری آخر جنوری میں لگائیں۔ مارچ میں جب کورا پڑنا بند ہو جائے اور شدید سردی ختم ہو تو باغیچہ میں پنیری منتقل کرکے پانی لگا دیں۔ پنیری کی منتقلی کے وقت تھیلیوں کو پانی دے کر الٹانے سے پودے مٹی(گاچی) سمیت منتقل ہو سکتے ہیں اس طریقے سے پودوں کے مرنے کا خدشہ نہیں رہتا۔ تھیلیاں سنبھال کر رکھنے سے بار بار استعمال کی جاسکتی ہیں اس سے اگیتی پیداوار حاصل ہوگی۔ نیز اس طریقہ سے پیداوار میں عام فصل کی نسبت دُگنا اضافہ ممکن ہے۔

لیبلز:

ایک تبصرہ شائع کریں

[disqus][facebook][blogger][spotim]

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget